رؤف کلاسرا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس وقت کسی سے حکومت نہیں بن پا رہی۔ کسی کو ان نتائج کی توقع نہیں تھی۔ اگرچہ جو لوگ مقتدرہ کے قریب ہیں‘ اُن کا کہنا ہے کہ انہیں ان نتائج پر کوئی حیرانی نہیں کیونکہ اسی قسم کے نتائج کی توقع تھی۔ ہاں‘ اگر کسی کو توقع نہیں تھی تو وہ نواز شریف ہیں جو دو تہائی نہ سہی لیکن سادہ اکثریت کا اظہار تو اپنی گفتگو میں کئی دفعہ کر چکے۔ سادہ اکثریت تو چھوڑیں‘ عملی طور پر ان کا پچاس سیٹوں تک پہنچنا مشکل تھا۔ یہ تو آزاد امیدواروں کا بازو مروڑ کر نمبر ستر‘ اسی تک پہنچ گئے ہیں۔ اس کے باوجود حکومت بنانے کیلئے انہیں پیپلز پارٹی کی ضرورت ہے اور پیپلز پارٹی اس وقت پہاڑ پر چڑھ گئی ہے۔ پیپلز پارٹی کو لگا کہ موقع اچھا ہے‘ بلاول وزیراعظم بن جائیں۔ زرداری صاحب کی پوری کوشش ہے کہ وہ اپنی زندگی میں بلاول کو وزیراعظم بنوا دیں‘ اپنے نانا اور والدہ کی طرح بعد میں شاید ہی وہ اس اہم عہدے پر بیٹھ سکیں۔ ویسے بھی ذوالفقار علی بھٹو ہوں یا بینظیر بھٹو‘ وہ جب وزیراعظم بنے تو 30اور 40کے پیٹے میں تھے۔ بلاول بھی تقریباً 35‘ 36سال کے ہو چکے ہیں لہٰذا اگر فیملی کا کم عمری میں وزیراعظم بننے کا ریکارڈ قائم رکھنا ہے تویہ بہترین عمر ہے اور بہترین وقت بھی۔ بہترین وقت اس لیے کہ اس وقت نواز شریف کے خواب چکنا چور ہو چکے ہیں‘ ان حالات میں وہ خود وزیراعظم نہیں بن پائیں گے؛ تاہم ان کی بھی خواہش تھی کہ وہ اپنی زندگی میں اپنی بیٹی مریم نواز کو بڑے عہدے پر بٹھا دیں۔ اگرچہ کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ اگر مرکز میں اکثریت ملی تو شاید نواز شریف اپنی جگہ مریم نواز کو وزیراعظم بنا دیں تاکہ سیاسی وراثت ان کے پاس رہے۔ خاندان کے اندر بھی لڑائی چل رہی تھی‘ خصوصاً حمزہ شہباز اور مریم نواز کے درمیان کہ کون سیاسی وراثت کا مالک ہوگا۔ اگرچہ نواز شریف اور شہباز شریف نے بڑی سمجھداری سے 40سال تک عہدے بانٹ کر رکھے۔ نواز شریف وزیراعظم اور شہباز شریف وزیراعلیٰ رہے‘ اگر وزیر اعظم کی سیٹ خالی ہوئی تو وزیراعظم کا عہدہ شہباز شریف کو پیش کیا گیا۔ اب بھی شہباز شریف ہی پر بھروسا کیا گیا ہے۔ ایسی محبت اور انڈر سٹینڈنگ بھائیوں میں تو ہو سکتی ہے لیکن بھائیوں کے بچوں میں ایسے مثالی تعلقات دیکھنے کو نہیں ملتے۔ اگر ایسا ہو سکتا تو مونس الٰہی اور چودھری سالک کے درمیان اتنی خوفناک لڑائی شروع نہ ہوتی۔ لوگ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ چودھری پرویز الٰہی اور چودھری شجاعت حسین کے درمیان اقتدار کیلئے ایسی خوفناک لڑائی ہو سکتی ہے۔ اقتدار نے مگر خونی رشتوں کو بھی نگل لیا۔ اس حوالے سے دیکھا جائے تو شریف خاندان میں اب تک ایسی نوبت نہیں آئی حالانکہ ہر دور میں مقتدرہ کی کوشش رہی کہ شہباز شریف اگر اپنے بھائی کو چھوڑ دیں تو انہیں وزیراعظم بنا دیا جائے لیکن شہباز شریف نے ہمیشہ انکار کیا‘ اور وزیراعظم وہ بعد میں بن ہی گئے۔
دوسری طرف چودھری پرویز الٰہی اور شجاعت حسین نے یہ راستہ نہیں اپنایا اور خاندان اقتدار کی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گیا۔ یا تو پرویز الٰہی عمران خان کے ساتھ نہ جاتے اور شجاعت حسین کی بات مان کر وزیراعلیٰ بننے سے انکار کردیتے‘ یا پھر چودھری شجاعت حسین پرویز الٰہی کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے ہر حال میں ان کا ساتھ دیتے۔ مگر دونوں خاندانوں نے اپنے خاندانی تعلقات اور خونی رشتوں کو ایک طرف رکھ کر پاور پالیٹکس کا کھیل کھیلنے کا فیصلہ کیا۔ وقت کے ساتھ خون پتلا بھی ہو گیا اور سفید بھی۔ دونوں خاندانوں کے بچے جوان ہو چکے تھے جو اپنے والدین کی خواہشات اور احکامات سے آزاد تھے۔ یا شاید والدین کو لگا کہ اب وقت آگیا ہے کہ خاندانی جائیداد کے ساتھ ساتھ سیاسی وراثت بھی تقسیم کر لی جائے۔ دیکھا جائے تو دونوں بھائیوں نے رشتوں کے بجائے اپنے اپنے بچوں کا سیاسی مستقبل دیکھا۔ چودھری پرویز الٰہی کو لگا کہ مونس الٰہی کا سیاسی مستقبل عمران خان کے ساتھ محفوظ ہو گا جبکہ چودھری شجاعت حسین کو لگا کہ چودھری سالک کا سیاسی مستقبل شریف خاندان کے ساتھ محفوظ رہے گا۔ یوں دونوں بھائیوں نے اپنے رشتوں کے بجائے عمران خان اور نواز شریف پر زیادہ اعتماد کیا۔ رشتوں پر سیاسی پاور اور سیاسی مستقبل حاوی ہو گیا۔ اب یہ دونوں خاندان ایک لڑائی لڑ رہے ہیں اور پورے گجرات میں جس طرح کا الیکشن لڑا گیا اور فائرنگ کے جو واقعات ہوئے‘ وہ ہمارے سامنے ہے۔
دوسری طرف شہباز شریف اور نواز شریف نے صورتحال کو اس طرف نہیں جانے دیا کہ درمیان میں اختلافات پیدا ہوں؛ تاہم اس سے بڑا چیلنج ان کیلئے یہ تھا کہ ان کے بچے ایک دوسرے سے نہ لڑیں۔ اگرچہ اب تک وہ اس میں کامیاب رہے لیکن یہ وہ سیاسی راکھ ہے جس سے کسی وقت بھی کوئی چنگاری نکل کر پورے خاندان کو لپیٹ میں لے سکتی ہے۔ ماضی میں بچوں میں شدید اختلافات اُبھرتے رہے‘اور سیاسی اختلافات کی خبریں پہلے اگر گھر کی چار دیواری کے اندر تک تھیں تو دھیرے دھیرے گھر کی اونچی فصیلیں پھلانگ کر پہلے سیاسی حلقوں اورپھر ٹی وی چینلوں پر بھی پھیل گئیں۔ اگرچہ جب حمزہ شہباز وزیراعلیٰ پنجاب بنے تو مریم نواز نے ان کی حمایت کی تھی مگر شاید اس وقت ان کے پاس کوئی اور آپشن نہیں تھا۔ خاندان میں کزن ایک دوسرے کے ساتھ کیسے پیش آرہے تھے‘ اس کا اندازہ اس سے لگا لیں کہ جب 2016ء میں پاناما سکینڈل سامنے آیا تو اُس وقت سلمان شہباز نے اینکرز اور صحافیوں کو میسج کیے تھے کہ الحمدللہ ہمارا نام پاناما لیکس میں نہیں ہے‘ ہم کلیئر ہیں۔ مطلب ہمارے کزنز ملوث ہیں‘ ہم نہیں۔ اس وقت حسین نواز اور حسن نواز کی کمپنیوں اور لندن کے فلیٹس کا کافی شور شرابا تھا۔ بعد میں مریم نواز کا ایشو بھی سامنے آیا کہ وہ بھائیوں کے ٹرسٹ کی گارنٹر ہیں۔ یوں سلمان شہباز کے اس میسج کا مطلب بڑا واضح تھا۔ ممکن ہے کہ سلمان شہباز نے شہباز شریف سے مشورہ یا اجازت نہ لی ہو کہ وہ اینکرز اور صحافیوں کو اس قسم کا میسج کررہے ہیں؛ تاہم یہ واضح ہے کہ شریف خاندان میں فالٹ لائن موجود ہے۔ رشتوں میں موجود اس فالٹ لائن کی وجہ سے کبھی بھی لاوا اُبل سکتا اور زلزلہ آسکتا ہے اور شریف خاندان بری طرح بکھر سکتا ہے‘ خصوصاً جب پورا سیاسی کھیل نواز شریف اور شہباز شریف کے بعد مریم نواز اور حمزہ شہباز یا سلمان شہباز کے ہاتھوں میں آئے گا۔ اگرچہ عمران خان کے خوف نے وقتی طور پر شریف خاندان کو متحد رکھا ہوا ہے اور مریم نواز اور حمزہ شہباز کو اپنی سیاسی اپروچ اور پاور سٹرگل سے پیدا ہونے والی دشمنی کو قالین کے نیچے دبانا پڑ رہا ہے مگر ان دونوں کو علم ہے کہ اگر وہ اس وقت اپنا سکور سیٹل کرنے یا وزیراعلیٰ کی پوسٹ پر لڑنے لگ گئے تو پورا خاندان مشکل میں پڑ جائے گا اور فائدہ عمران خان اٹھائے گا۔ پھر مریم نواز اور حمزہ شہباز‘ دونوں عمران خان دور میں جیل جا چکے ہیں‘ لہٰذا دونوں عمران خان کو اپنا بڑا دشمن سمجھتے ہیں اور اس کے مقابلے میں عہدوں پر لڑنا کم اہم۔ مریم نواز کے وزیراعلیٰ بننے پر حمزہ شہباز کو ویسے ہی خاموش رہنا پڑے گا جیسے مریم نواز حمزہ شہباز کے وزیراعلیٰ بننے پر خاموش تھیں۔لیکن یہ طے ہے کہ دونوں اس وقت تک ہی خاموش رہیں گے جب تک نواز شریف اور شہباز شریف موجود ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ مریم نواز اور حمزہ شہباز نے شریف خاندان میں فالٹ لائن ہونے کے باوجود مونس الٰہی اور چودھری سالک حسین والا روٹ نہیں لیا اور سمجھداری سے اقتدار بانٹ کر کھانے پر اکتفا کیا ہے۔ مگر یہ خطرناک فالٹ لائن کبھی بھی شریف خاندان کو اَپ سیٹ کر سکتی ہے۔
دوسری طرف چودھری پرویز الٰہی اور شجاعت حسین نے یہ راستہ نہیں اپنایا اور خاندان اقتدار کی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گیا۔ یا تو پرویز الٰہی عمران خان کے ساتھ نہ جاتے اور شجاعت حسین کی بات مان کر وزیراعلیٰ بننے سے انکار کردیتے‘ یا پھر چودھری شجاعت حسین پرویز الٰہی کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے ہر حال میں ان کا ساتھ دیتے۔ مگر دونوں خاندانوں نے اپنے خاندانی تعلقات اور خونی رشتوں کو ایک طرف رکھ کر پاور پالیٹکس کا کھیل کھیلنے کا فیصلہ کیا۔ وقت کے ساتھ خون پتلا بھی ہو گیا اور سفید بھی۔ دونوں خاندانوں کے بچے جوان ہو چکے تھے جو اپنے والدین کی خواہشات اور احکامات سے آزاد تھے۔ یا شاید والدین کو لگا کہ اب وقت آگیا ہے کہ خاندانی جائیداد کے ساتھ ساتھ سیاسی وراثت بھی تقسیم کر لی جائے۔ دیکھا جائے تو دونوں بھائیوں نے رشتوں کے بجائے اپنے اپنے بچوں کا سیاسی مستقبل دیکھا۔ چودھری پرویز الٰہی کو لگا کہ مونس الٰہی کا سیاسی مستقبل عمران خان کے ساتھ محفوظ ہو گا جبکہ چودھری شجاعت حسین کو لگا کہ چودھری سالک کا سیاسی مستقبل شریف خاندان کے ساتھ محفوظ رہے گا۔ یوں دونوں بھائیوں نے اپنے رشتوں کے بجائے عمران خان اور نواز شریف پر زیادہ اعتماد کیا۔ رشتوں پر سیاسی پاور اور سیاسی مستقبل حاوی ہو گیا۔ اب یہ دونوں خاندان ایک لڑائی لڑ رہے ہیں اور پورے گجرات میں جس طرح کا الیکشن لڑا گیا اور فائرنگ کے جو واقعات ہوئے‘ وہ ہمارے سامنے ہے۔
دوسری طرف شہباز شریف اور نواز شریف نے صورتحال کو اس طرف نہیں جانے دیا کہ درمیان میں اختلافات پیدا ہوں؛ تاہم اس سے بڑا چیلنج ان کیلئے یہ تھا کہ ان کے بچے ایک دوسرے سے نہ لڑیں۔ اگرچہ اب تک وہ اس میں کامیاب رہے لیکن یہ وہ سیاسی راکھ ہے جس سے کسی وقت بھی کوئی چنگاری نکل کر پورے خاندان کو لپیٹ میں لے سکتی ہے۔ ماضی میں بچوں میں شدید اختلافات اُبھرتے رہے‘اور سیاسی اختلافات کی خبریں پہلے اگر گھر کی چار دیواری کے اندر تک تھیں تو دھیرے دھیرے گھر کی اونچی فصیلیں پھلانگ کر پہلے سیاسی حلقوں اورپھر ٹی وی چینلوں پر بھی پھیل گئیں۔ اگرچہ جب حمزہ شہباز وزیراعلیٰ پنجاب بنے تو مریم نواز نے ان کی حمایت کی تھی مگر شاید اس وقت ان کے پاس کوئی اور آپشن نہیں تھا۔ خاندان میں کزن ایک دوسرے کے ساتھ کیسے پیش آرہے تھے‘ اس کا اندازہ اس سے لگا لیں کہ جب 2016ء میں پاناما سکینڈل سامنے آیا تو اُس وقت سلمان شہباز نے اینکرز اور صحافیوں کو میسج کیے تھے کہ الحمدللہ ہمارا نام پاناما لیکس میں نہیں ہے‘ ہم کلیئر ہیں۔ مطلب ہمارے کزنز ملوث ہیں‘ ہم نہیں۔ اس وقت حسین نواز اور حسن نواز کی کمپنیوں اور لندن کے فلیٹس کا کافی شور شرابا تھا۔ بعد میں مریم نواز کا ایشو بھی سامنے آیا کہ وہ بھائیوں کے ٹرسٹ کی گارنٹر ہیں۔ یوں سلمان شہباز کے اس میسج کا مطلب بڑا واضح تھا۔ ممکن ہے کہ سلمان شہباز نے شہباز شریف سے مشورہ یا اجازت نہ لی ہو کہ وہ اینکرز اور صحافیوں کو اس قسم کا میسج کررہے ہیں؛ تاہم یہ واضح ہے کہ شریف خاندان میں فالٹ لائن موجود ہے۔ رشتوں میں موجود اس فالٹ لائن کی وجہ سے کبھی بھی لاوا اُبل سکتا اور زلزلہ آسکتا ہے اور شریف خاندان بری طرح بکھر سکتا ہے‘ خصوصاً جب پورا سیاسی کھیل نواز شریف اور شہباز شریف کے بعد مریم نواز اور حمزہ شہباز یا سلمان شہباز کے ہاتھوں میں آئے گا۔ اگرچہ عمران خان کے خوف نے وقتی طور پر شریف خاندان کو متحد رکھا ہوا ہے اور مریم نواز اور حمزہ شہباز کو اپنی سیاسی اپروچ اور پاور سٹرگل سے پیدا ہونے والی دشمنی کو قالین کے نیچے دبانا پڑ رہا ہے مگر ان دونوں کو علم ہے کہ اگر وہ اس وقت اپنا سکور سیٹل کرنے یا وزیراعلیٰ کی پوسٹ پر لڑنے لگ گئے تو پورا خاندان مشکل میں پڑ جائے گا اور فائدہ عمران خان اٹھائے گا۔ پھر مریم نواز اور حمزہ شہباز‘ دونوں عمران خان دور میں جیل جا چکے ہیں‘ لہٰذا دونوں عمران خان کو اپنا بڑا دشمن سمجھتے ہیں اور اس کے مقابلے میں عہدوں پر لڑنا کم اہم۔ مریم نواز کے وزیراعلیٰ بننے پر حمزہ شہباز کو ویسے ہی خاموش رہنا پڑے گا جیسے مریم نواز حمزہ شہباز کے وزیراعلیٰ بننے پر خاموش تھیں۔لیکن یہ طے ہے کہ دونوں اس وقت تک ہی خاموش رہیں گے جب تک نواز شریف اور شہباز شریف موجود ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ مریم نواز اور حمزہ شہباز نے شریف خاندان میں فالٹ لائن ہونے کے باوجود مونس الٰہی اور چودھری سالک حسین والا روٹ نہیں لیا اور سمجھداری سے اقتدار بانٹ کر کھانے پر اکتفا کیا ہے۔ مگر یہ خطرناک فالٹ لائن کبھی بھی شریف خاندان کو اَپ سیٹ کر سکتی ہے۔
یہ بھی پڑھیے:
ملتان میں قتلِ آم||رؤف کلاسرا
آخر سیکھ ہی گئے!۔۔۔رؤف کلاسرا
پُرانے جال ، پُرانے شکاری۔۔۔ رؤف کلاسرا
ایک بڑا ڈاکا اور بڑی واردات تیار… ۔۔۔ رؤف کلاسرا
پانچ ارب کی واردات کی داستان …(1)۔۔۔ رؤف کلاسرا
پانچ ارب کی واردات کی داستان …(2)۔۔۔ رؤف کلاسرا
پانچ ارب کی واردات کی داستان …(3)۔۔۔ رؤف کلاسرا
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر