دسمبر 30, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

قومی مفاد میں۔۔۔||رسول بخش رئیس

رسول بخش رئیس سرائیکی وسیب کے ضلع راجن پور کی تحصیل روجھان کے رہنے والے ہیں وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے درس وتدریس کے ساتھ ساتھ ملکی ،علاقائی اور عالمی معاملات پر مختلف اخباروں ،رسائل و جرائد میں لکھ بھی رہے ہیں، انکی تحریریں ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر

رسول بخش رئیس

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ظاہر ہے کہ جو ہر بار نئے وزیراعظم‘ صدرِ مملکت اور وزیروں‘ مشیروں کی فوج ہماری ”خدمت ‘‘ کے لیے میدان میں اترتی ہے تو ہم یہ سمجھ کر خموش بیٹھ جاتے ہیں کہ اب تو عوام کے مقدر بدلیں گے۔ ابھی حال ہی میں جنہیں اقتدار کی کرسی پر بٹھایا گیا‘ وہ مغربی لباس اور شیروانیوں میں کئی مرتبہ حلف برداری کر چکے۔ اگر ان کا یا آپ کا حافظہ اچھا ہے‘ اب تو کاغذ پر لکھی گئی تحریر ازبر یاد ہونی چاہیے۔ میری یادداشت اب وہ نہیں رہی جو بھلے وقتوں میں ہوا کرتی تھی‘ مگر مفہوم کچھ یاد پڑتا ہے کہ میں ریاست پاکستان کا وفادار رہوں گا ؍ رہوں گی‘ ہر کام آئین کے دائرے میں رہ کر‘ اور اس کی پاسداری کے لیے ہو گا اور ہر قیمت پر پاکستان کے مفادات کا تحفظ کروں گا ؍ کروں گی۔ الفاظ جو بھی ہوں‘ حلف نامے کی روح کچھ اسی طرح ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ دوسری بار حلف اٹھانے کے لیے پرانے حکمران آئیں تو حلف لینے والے کچھ سوال جواب کر لیں‘ کہ حضور یہ حلف پہلے بھی آپ نے اٹھایا تھا‘ کچھ اس کا حق ادا کرنے کے بارے میں بتائیے۔ اس دفعہ وزیراعظم شہباز شریف کی کابینہ کی تقریب حلف برداری میں عمداً تاخیر کی گئی کہ یہ کام صدرِ مملکت آصف علی زرداری صاحب کے بابرکت ہاتھوں سرانجام پائے۔
ہمارے ہاں حکمران ٹولوں کا سلسلہ آزادی کے بعد سے جاری ہے۔ کچھ کی تو موسمی باریاں لگی رہیں‘ تو ہمارا خیال ہرگز اس طرف جا ہی نہیں سکتا کہ کسی نے قومی مفادات کو زک پہنچائی ہو‘ غلط فیصلے کیے ہوں‘ قومی دولت کو سب رائج الوقت طریقوں سے لوٹاہو۔ ہماری خوش فہمی اور حکمرانوں کے بارے میں نیک رائے اپنی جگہ پر‘ ہمارے اکثر بزرگ دوستوں کا خیال بہت مختلف ہے۔ مقصد انہیں چھیڑنا نہیں ہوتا مگر جب ہم ہر نوع کے حکمرانوں کے بارے میں کبھی غلطی سے بھی کہہ دیں کہ انہوں نے قومی مفاد کے پیش نظر سب کچھ کیا تو وہ بپھر جاتے ہیں۔ بعض کا غصہ قابو میں نہیں رہتا اور احتجاجاً ہماری چھوٹی سی محفل سے اٹھ کر چلے جاتے ہیں۔ جو رہ جاتے ہیں‘ وہ پُرمغز تقریروں سے ہماری درگت بناتے ہیں۔ ایک تو کہنے لگا کہ آپ نے کبھی اس ملک میں قومی اور شخصی مفاد کو الگ ہوتے بھی دیکھا ہے؟ اور دعویٰ یہ کہ ساری زندگی سیاست پڑھاتے رہے! کبھی طلبہ کو بتایا بھی ہے کہ ہمارے حکمران شخصی مفادات کو ہمیشہ آگے رکھتے ہیں‘ اور قومی مفادات دیکھنے کے لیے دنیا کی طاقتور ترین خورد بین بھی لے آئیں‘ کہیں نظر نہیں آئیں گے۔ لیکن قومی مفاد کی بات کرکے ہمیشہ پچھتاتا ہوں کہ وہ پوری تاریخ‘ ہر ایک باب کو علیحدہ کرکے سناتے ہیں اور میں خموش سنتا رہتا ہوں۔ ان کی کمپنی میں نہ احتجاج کی گنجائش ہے اور نہ بات ٹالنے کی۔
اس مرتبہ پھر کہہ بیٹھا کہ انتخابات بالکل شفاف ہوئے ہیں اور جو بھی نتائج مرتب ہوئے‘ وہ قومی مفاد میں ہیں اور جو اتحادی حکومت ایک نئے رنگ اور نئی صف بندی کے ساتھ لائی گئی ہے‘ اس کے پیش نظر قومی مفادات ہیں کہ ملک کو استحکام‘ ترقی‘ خوش حالی اور بین الاقومی سطح پر وقار نصیب ہو۔ بس یہ کہنا تھا کہ ایسا لگتا تھا کہ بوڑھوں کا پورا جتھا اس کمزور دل درویش پر حملہ آور ہو جائے گا۔ بھلا ہو قریب سے گزرنے والے نوجوان کا کہ وہ درمیان میں آ گیا اور میری جان چھڑائی۔ لیکن میں نے بھی فوراً غیر مشروط معافی نامہ زبانی اُن کی خدمت میں پیش کر دیا۔ اس نوجوان کو گواہ بنایا کہ میں معافی کا خواستگار ہوں‘ اب آئندہ کوئی ایسی بات نہیں کروں گا۔ جاتے جاتے وہ نوجوان نصیحت بھی کرتا گیا کہ یہاں تو آپ کو معافی مل گئی‘ مگر عام لوگوں میں کبھی بھولے سے بھی ایسی بات کی کہ سب کچھ قومی مفاد میں ہوا ہے تو شاید عوام کے غیظ و غضب سے آپ نہ بچ سکیں۔
ماحول ذرا ٹھنڈا ہوا تو ایک کے بعد دوسرے نے اپنی پوری سیاسی تاریخ کی پٹی دہرانا شروع کر دی‘ کہ کیا جسٹس منیر کا فیصلہ کہ گورنر جنرل غلام محمد کا دستور ساز اسمبلی کو توڑنا آئینی تھا‘ اور ظاہر ہے قومی مفاد میں تھا اور ایوب خان کا مارشل قومی مفاد میں تھا‘ میں نے پھر ہاتھ جوڑ لیے کہ یہ سلسلہ تو دراز ہے۔ اٹھ کر ٹھکانے کی طرف روانہ ہوا تو میں نے بھی بزرگوں کے اشتعال پر کچھ غور کرنا شروع کیا کہ یہ تو وہ نسل ہے جس نے آنکھوں میں خواب لیے ساٹھ اور ستر کی دہائیوں میں زندگی کے مختلف شعبوں میں ایک جذبے کے ساتھ کام شروع کیا۔ ساری زندگی ادھر اُدھر نجی درس گاہوں میں کام کرتے رہے اور پاکستان کو آگے جاتا دیکھنا چاہتے تھے۔ کچھ تو سول سروس میں گئے اور اس کے رنگ میں رنگے گئے۔ مگر زیادہ تر نے اپنا دامن پاک صاف رکھا اور ملک کے لیے جو کچھ بہتر کر سکتے تھے‘ کیا۔
پاکستان کی اس دوسری نسل سے ملک کا دکھ سہا نہیں جاتا۔ وہ موازنہ ہمسایہ ملک سے کرتے‘ اور پھر آہیں بھرنا شروع کر دیتے ہیں۔ یہ جہاندیدہ لوگ ہیں اور جو آج کل ہمارے اوپر مسلط ہیں‘ ان کے ان کے سب دھندوں سے واقف ہیں۔ ٹھنڈا سانس لے کر ان کا بار بار یہ فقرہ دہرانا کہ ان آزمائے ہوئوں کو عوامی منشا کے بالکل برعکس اس طمطراق سے اقتدار میں بٹھانا کون سے قومی مفاد میں ہے۔ اب بھی وہی ہو رہا ہے جو کئی دہائیاں پہلے ایک اکثریتی جماعت کو اقتدار منتقل کرنے کے دفاع میں کیا گیا تھا کہ ملک دشمن ہے‘ غدار ہے‘ فلاں فلاں۔ خیال تھا کہ جو کچھ ہوا‘ جو قوم اور ملک کو ہزیمت اٹھانا پڑی‘ اس سے سبق سیکھ کر ہم اپنی سمت درست کر لیں گے۔
خدشہ ہے کہ اب حالات ماضی کی نسبت کہیں زیادہ خطرناک ہیں کہ ہمارے معاشی‘ سیاسی اور معاشرتی وسائل‘ جو مضبوط قومی ریاست کے تحفظ کے لیے ضروری ہیں‘ بہت کمزور ہیں۔ وہ رشتے جو قوم اور ریاست کو باہمی اعتماد میں جوڑتے ہیں‘ اپنی جگہ سے سرک چکے ہیں۔ ایک بہت بڑا جھٹکا انتخابی نتائج نے ایسا دیا ہے کہ جیسے بھونچال زمین کو تہہ و بالا کر دے۔ یہ پرانی باتیں ہیں کہ پہلے بھی تو ایسا ہوتا رہا ہے اور پہلے جو انتخابات ہوئے تھے‘ وہ کتنے شفاف تھے اور جو معتوب ہیں‘ وہ بھی تو ایسے ہی لائے گئے تھے۔ دھاندلی جب بھی ہو‘ جو بھی کرے‘ دھاندلی ہی ہوتی ہے۔ اس کا دفاع کسی دلیل سے نہیں ہو سکتا۔ نہ دھاندلیاں ایک جیسی ہوتی ہیں اور نہ لوگوں کا ردعمل اور نہ ہی قومی‘ علاقائی اور عالمی ماحول جس میں یہ کھیل رچائے جاتے رہے ہیں۔
داخلی اور خارجی حالات بہت بدل چکے ہیں اور عوام کا مزاج اور سیاسی نظریہ بھی۔ اگر نہیں بدلے تو ہمارے حکمران ٹولے جو سیاسی نظام کو روایتی انداز میں چلانا چاہتے ہیں۔ انہیں زمینی تبدیلی کا یا تو ادارک نہیں یا آٹھ فروری کا اتنا خوف طاری ہے کہ اس کی نفی میں سب کچھ دائو پر لگانے کے لیے تیار ہیں۔ خدا کرے کہ سب کو ہوش آ جائے‘ سب ایک دو قدم پیچھے ہٹیں اور قومی اور ملکی مفاد کو محدود ذاتی مفادات سے الگ کرکے دیکھیں۔ طاقت اور زور آوری ویسے تو انسانی المیوں میں سرفہرست ہیں مگر پاکستان کے حکمرانوں میں اس کے علاوہ کچھ اور سرے سے ہے ہی نہیں۔ برا نہ منائیں تو عرض کروں کہ قومی مفادکا تعین اگر سمٹ کر چند ہاتھوں میں رہ جائے تو وہی ہو گا جو ہوتا آیا ہے۔ وہ چلے جاتے ہیں مگر نتائج کا سامنا پوری قوم کرتی ہے۔

یہ بھی پڑھیے:

رسول بخش رئیس کے مزید کالم پڑھیں

About The Author