عامرحسینی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
#ایاز_میلو #حیدرآباد #سندھ کی سب سے زیادہ ترقی پسند اور روشن خیال درمیانے طبقے کے دانشور پرت سے تعلق رکھنے والوں کا ایک بہت بڑا کارنامہ ہے جو ہر سال سندھ آڈیٹوریم کے ساتھ بنے کیفے خانہ بدوش کے لان میں منعقد ہوتا ہے – یہ سرد موسم میں جانب شمال سے چلنے والی پروا کے جھونکے لیکر آتا ہے –
پچھلے سال امر سندھو صاحبہ نے مجھے بلایا تھا لیکن بوجہ نہیں شریک ہوسکتا تھا – اس سال بھی انہوں نے مجھے ایک ایسے وقت میں بتایا جب میں 20 دن بعد گھر پہنچا تھا اور مجھے دفتر سے چھٹی ملنا بھی ممکن نظر نہیں آرہا تھا لیکن اس مرتبہ انھیں انکار کرنا اس لیے مشکل تھا کہ ایک تو مجھے رحمان عباس کے ناول ” ایک طرح کا پاگل پن” کی تقریب رونمائی کی نظامت سنبھالنا تھی – اس تقریب کی نظامت کا موقع میں کیوں ضایع نہیں کرنا چاہتا تھا، یہ میں الگ کالم میں تفصیل سے اس تقریب کے احوال کے ساتھ بتاؤں گا –
دوسرا اس میلے میں اس مرتبہ "تنقید اور نقاد” پر ایک سیشن تھا جس میں میں بطور سامع لازمی شریک ہونا چاہتا تھا- اور سننا چاہتا تھا کہ سندھی ادب کے نقاد اور محقق "تنقید” بارے کیا کہتے ہیں؟
میں جب ایاز میلو میں پہنچا تو یہ سیشن اپنے اختتام کو بڑھ رہا تھا اور میں نے دیکھا کہ ایک صاحب کو ماڈریٹر جامی چانڈیو نے مائیک دیا اور انھوں نے شیخ ایاز کی شاعری اور نثر پر 90ء کی دہائی سے پہلے ہونے والی تنقید بارے جو گفتگو کی اس کے دو بڑے مقدمات بنتے ہیں:
پہلا مقدمہ وہ مورچہ زن تنقید تھی یعنی وہ ان کی شاعری و نثر میں پائے جانے والے خیالات، نظریات کی موافقت و مخالفت کے تحت کی گئی –
مخالفت کرنے والے وہ تھے جنھوں نے شیخ ایاز کے خیالات کو پاکستان مخالف، اسلام مخالف پایا، مذھب مخالف پایا اور شیخ ایاز کی شاعری و نثر ان کے نزدیک الحاد، بے دینی ، غداری اور گمراہ کن تھی –
موافقت کرنے والے وہ تھے جو اشتراکی خیالات کے حامل تھے – ساتھ ہی ان صاحب کا کہنا تھا کہ شیخ ایاز کے حق میں لکھنے والے اس لیے ان کے حق میں لکھ رہے تھے کہ وہ ان کے دوست تھے –
دوسرا مقدمہ تھا کہ ان کی موافقت و مخالفت میں لکھنے والوں نے شیخ ایاز کے فن پر نہیں لکھا بلکہ انہوں نے تنقید و تحقیق کے نام پر بس شیخ ایاز کی شخصیت کو ہی موضوع بحث بنائے رکھا –
ان دو مقدمات کی بنیاد پر انہوں نے جو نتیجہ اخذ کیا وہ یہ تھا کہ شیخ ایاز کے فن سے اس دور کی تنقید و تحقیق اس لیے دور رہی کہ وہ ترقی پسند اور مبینہ اسلام پسند نظریات کے تحت لکھی گئی تھی – وہ اس تنقید و تحقیق کو "مورچہ زن تنقید” کا نام دیتے رہے-
انہوں نے شیخ ایاز کی شاعری پر لکھنے والوں میں رسول بخش پلیجو کا نام لیا اور یہ پھر کہا کہ انھوں نے شیخ ایاز کی شاعری اور فن پر جو لکھا وہ ان کے فن کی تشریح و تنقید سے خالی تھا اور وہ بس "اپنے دوست شیخ ایاز پر لکھ رہے تھے”
ان کی گفتگو کا یہ حصہ سن کر میں واقعی حیران ہوا- یہ سندھی زبان میں کہا جا رہا تھا تو میں نے سوچا کہ ہوسکتا ہے کہ میں "غیر سندھی” سندھی زبان میں کہے جانے والے شبد ٹھیک نہ سمجھ پا رہا ہوں ، میں نے اپنے دائیں طرف بیٹھے دو سینئر ساتھیوں سے۔ اپنی اصلاح چاہی اور ان سے پوچھا کہ کیا بات وہی ہے جو مجھے سمجھ آرہی ہے تو مجھے ان کی گواہی مل گئی –
اب میں نے ایک سوال فوری وٹس ایپ پر لکھ کر ایک سندھی ادب کے استاد کو بھیجا کہ کیا 60ء سے 80ء کی دہائیوں کے دوران سندھی ادب کے نقاد اور محقق شیخ ایاز کو تو جانتے تھے لیکن وہ شیخ ایاز کی شاعری اور نثر کے فنی مقام سے نابلد تھے اور وہ شیخ ایاز کے فن پر تنقید و تحقیق کے نام پر شیخ ایاز کی سوانح لکھتے رہے؟ اور کیا ان سندھی تنقید و تحقیق سے وابستہ مصنفین ، اساتذہ، لکھاریوں کو شیخ ایاز کا فن شعر و ادب اس لیے سمجھ نہ آیا یا وہ اس کی تشریح نہ کرسکے کہ وہ یا تو دائیں بازو کے خیالات رکھتے تھے یا بائیں بازو کے خیالات رکھتے تھے؟
میں یہ سوال وٹس ایپ میسج کرکے ہٹا ہی تھا کہ ان صاحب کی آواز میرے کانوں میں پڑی وہ فرمارہے تھے کہ شیخ ایاز کے فن پر اگر کسی نے لکھا تو وہ نوے کی دہائی میں جامی چانڈیو تھے(انہوں نے ایک نام اور بھی لیا تھا جو مجھے بھول گیا)
اس سیشن کے کئی ایک دوسرے شرکاء بھی اس کے بعد ان صاحب کی لائن کی پیروی اور تتبع کرتے رہے – جامی چانڈیو نے ان صاحب کی بات آگے بڑھائی اور اپنے ایک مضمون کا حوالہ دیا اور بتایا کہ شیخ ایاز کے فن کو ان کے دفاع کاروں نے اس وقت رد کردیا جب شیخ ایاز نے سوویت یونین ٹوٹ جانے کے بعد اشتراکی خیالات سے رجوع کرلیا اور نئی راہ اپنا لی اور یہ بھی بتایا کہ کیسے شیخ ایاز نے پوسٹ سوویت یونین دور میں سوویت یونین دور کے ان نقاد اور محققین کے لتے لیے جن کی وہ تعریف کرتے رہے تھے –
میرے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوا:
کیا شیخ ایاز کے سندھ یونیورسٹی کی چانسلر شپ بچانے کے لیے ضیاء الحقی دینداری کو اختیار کرلینے یا ان کی طرف سے سوویت یونین ٹوٹ جانے پر سوویت نواز خیالات سے رجوع کرنے پر ان کی مذمت کرنے والوں نے ان کی شاعری اور فن کو مسترد کردیا تھا؟ کیا وی شیخ ایاز کی شاعری و ادبی نثر کے فن کو "ردی” قرار دے رہے تھے؟
اور سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا شیخ ایاز کی شاعری اور نثری تخلیق ان کے زمانے و مکان کی ادبی حسیت سے خالی تھی اور "تجرید مطلق” سے متصف تھی ؟ کیا شیخ ایاز نے سندھی سماج کی سماجی- معاشی ترکیب سے متاثر ہوئے بغیر لکھا تھا؟
آخر وہ کون سا مشترکہ وصف ہے جو شیخ ایاز، فیض احمد فیض کو بطور شعراء کے فن کو ادب کے ایک خانے میں رکھتی ہے جسے "ترقی پسند” ادب کہا جاتا ہے؟ کیا ادب کا یہ خانہ شیخ ایاز کے فن شاعری کے بڑے اجزا یعنی ھئیت اور موضوع دونوں کے ادراک سے محروم کردیتا ہے؟
جامی چانڈیو نے اپنی گفتگو کے دوران تنقید کے باب میں ایسی اصطلاحوں کا بے دریغ استعمال کیا جو دریدا کے مکتب تنقید کی معروف اصطلاحیں ہیں اور "جدیدیت” کے پیرو ان کا بکثرت استعمال کرتے ہیں-
اب یہاں وہ صاحب جو تنقید کے باب میں نظریاتی منثور کے استعمال کو یکسر رد کررہے تھے مگر وہ جامی چانڈیو کی شیخ ایاز پر لکھی جانے والی تنقید اور تحقیق کو 90ء کی دہائی کی سب سے ثقہ تنقید کے طور پر پیش کررہے تھے ،انھوں نے جامی کو ساختیاتی نظریہ تنقید کی روشنی میں شیخ ایاز سے جڑی تنقید کو "مورچہ زن تنقید” کیوں قرار نہیں دیا؟
اپنی ساری گفتگو میں ان صاحب اور ان کا تتبع کرنے والے اس سیشن کے شرکاء نے سامعین کو یہ بتانے کی زحمت نہ کی شیخ ایاز کے جس "فن” تک 60ء، 70ء اور 80ء کی دہائی کے نقاد نہ پہنچ پائے اس فن کے چند ایک اوصاف اور نکات تھے کیا؟
عامر حسینی کی مزید تحریریں پڑھیے
(عامر حسینی سینئر صحافی اور کئی کتابوںکے مصنف ہیں. یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے ہے ادارہ کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں)
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر