عامرحسینی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہدایت لوہار پرائمری اسکول میں استاد تھے – سندھ کے شہر نصیر آباد ضلع قمبر شہداد کوٹ (یہ مجھے بعد میں پتا چلا اور نیچے کمنٹ میں ایک دوست کے بتانے پر معلوم ہوا) میں ایک غریب لوہار کے بیٹے جنھیں ان کے باپ نے لوہا کوٹ کوٹ کر پڑھایا-
استاد ہدایت صبح اسکول جاتے اور شام کو باپ کے اڈے پر لوہا کوٹنے میں اپنے باپ کا ہاتھ بٹاتے-
استاد ہدایت لوہار نے غربت و مسکینی میں علم و شعور کا سفر جاری رکھا- اور زمانہ طالب علمی میں ہی وہ جی ایم سید کے افکار و نظریات سے متاثر ہوئے- انھیں جی ایم سید کے قریب لانے میں اہم ترین کردار جی ایم سید کے ہی ایک اور قابل شاگرد واحد آرسیر کی کتابوں اور تحریروں نے کیا- وہ واحد آریسر کی تحریروں کے راستے ایک سندھی دیش بھگت بن گئے –
وہ سندھ کو ایک آزاد دیش کے طور پر دیکھنا چاہتے تھے –
ہدایت لوہار نے رسمی تعلیم مکمل کرنے کے بعد معلمی کا پیشہ اختیار کیا- وہ پرائمری سطح کے بچوں کو پڑھانے اور ان کی تربیت کرنے میں بہت فخر محسوس کرتے –
انھوں نے بچوں اور نوجوانوں میں شمع علم اور حریت فکر فروزاں کرنا شروع کی –
وہ جس سوچ، نظریے اور فکر سے وابستہ تھے وہ اسٹیٹس کو پر مبنی جمود کو توڑنے والا اور ظلم و جبر و بربریت کے راستے سے انحراف کی دعوت دینے والا تھا- اور اس راستے پر چلنے والا ہر سیاسی کارکن "منحرف” قرار دیا جاتا ہے – اس پر زمین تنگ کردی جاتی ہے – کبھی جھوٹے مقدمات بناکر قید کیا جاتا ہے تو کبھی جبری گمشدگی کا شکار ہوتا ہے – ہدایت لوہار بھی ان سب مشکلات اور مصائب کا شکار ہوئے –
انہوں نے تبدیلی اور آزاد شعور کی آبیاری اپنے گھر سے کی – ان کی بیٹیاں سسی لوہار Sasui Lohar اور سورٹھ لوہار اور ان کی جدوجہد کی سب سے بڑی گواہ ہیں –
وہ جبری گمشدہ ہوئے تو ان کی بیٹیوں نے نہ صرف ان کی بازیابی کی تحریک چلائی بلکہ وائس فار مسنگ پرسنز آف سندھ بناکر اسے اجتماعی جدوجہد میں بدل ڈالا-
استاد ہدایت لوہار جو پر امن، تشدد سے پاک سیاست پر یقین رکھنے والے سیاسی اگوان تھے – انھیں ان کے نظریات کے سبب کئی بار قید و بند کے عذاب بھگتنے پڑے – آخری بار 2017ء میں وہ جبری گمشدہ ہوئے اور دو سال تک انھیں عقوبت خانوں میں جسمانی و ذہنی اذیت دی جاتی رہی – ان کی بینائی کمزور ہوگئی – زیادہ دیر وہ کھڑے نہیں رہ پاتے تھے نا وہ پیروں کے وزن کے ساتھ زیادہ دیر بیٹھ پاتے تھے-
ایک باشعور ، حریت پسند اور پرامن طریقے سے سماج کو بدلنے کی کوشش کرنے والے شخص کے ساتھ جو کچھ حکمران اشرافیہ نے کیا وہ قابل مذمت ہے –
وہ دو سال کی جبری گمشدگی کاٹ کر ایک جھوٹے مقدمے میں ملوث کیے گئے اس پر وہ ضمانت ہر رہا ہوکر آئے تو بھی انہوں نے اپنے شعار کو ترک نہ کیا- وہ سندھ کے باشندوں کی حقیقی آزادی کے خواہش مند تھے اور انھیں جبر کے خلاف مزاحمت پر آمادہ کرتے تھے – ایک دن وہ اسکول پڑھانے کے لیے صبح و سویرے اپنے گھر سے نکلے تو گھات میں بیٹھے قاتلوں نے ان کے سینے پر تین فائر کیے- وہ مظلومیت کی چادر اوڑھے صف شہیداں میں شامل ہوگئے –
استاد ہدایت لوہار کی لاش کے ساتھ ان کی بیٹیوں نے نصیر آباد نیشنل ہائی وے پر دھرنا دیے رکھا –
(سندھ میں بھی پولیس، رینجرز، ایجنسیوں پر ریاست اندر ریاست بناکر وہی کچھ کرنے کے الزامات ہیں جو ان پر بلوچستان ، کے پی کے اور گلگت بلتستان میں کرنے پر لگ رہے ہیں – سن جیسا چھوٹا سا قصبہ اور پولیس و رینجرز کی 100 گاڑیوں کا فلیگ مارچ صرف ایک پرائمری اسکول کے استاد کے جنازے میں لوگوں کی شرکت روکنے کے لیے؟ کیا ایک اسکول استاد سے بھی ریاستی مشینری خوفزدہ ہے؟ اور آخر سندھ میں اتنے بڑے پیمانے پر رینجرز تعینات کیوں ہے؟ اس صوبے کی حکمران جماعت نے لیپا پوتی کرنے والے مخالفانہ بیانات سے آگے بڑھ کر کبھی رینجرز کی واپسی کی کوئی تحریک نہیں چلائی ، کیوں؟ سندھ پولیس سٹیٹ کیوں ہے؟)
استاد ہدایت لوہار کی لاش کو تدفین کے لیے جب سن شہر کے قبرستان میں لیجایا جارہا تھا تب شہر میں رینجرز اور پولیس کی ایک سو گاڑیوں نے فلیگ مارچ شروع کردیا- خوف و ہراس پھیلانے کی کوشش کی گئی – اور سن کے قبرستان میں ہدایت لوہار کی تدفین کے موقعہ پر درجن بھر سے زیادہ زیادہ جئے سندھ محاذ کے دھڑوں کے سربراہوں میں سے ایک بھی ان کی تدفین کے وقت نہ پہنچا-
استاد ہدایت لوہار کی بیٹیاں اکیلی تن تنہا چند درجن انسان دوست مرد و عورتوں کے ساتھ نصیر آباد میں انڈس ہائی وے پر اپنے مظلوم و مقتول باپ کی لاش لیکر بیٹھی رہیں لیکن ان کو سہارا دینے ، ان سے اظہار یک جہتی کرنے اور ان کا دکھ بٹانے کے لیے کسی سندھی یا بلوچ کاز کی علمبردار جماعت کے سربراہ نے تکلف بھی نہیں کیا آنے کا- ایک پریس ریلیز ہم نے نہیں دیکھی- بلوچستان سے ڈاکٹر مالک نے یا سردار اختر مینگل نے، محمود خان اچکزئی نے اور سندھ کاز کی سب سے بڑی علمبردار جماعت پیپلزپارٹی کی مرکزی قیادت اس واقعہ پر خاموش رہی –
استاد ہدایت لوہار کے کچھ ذاتی دوستوں ، ان کے اہل خانہ ، وائس فار مسنگ پرسنز آف سندھ کے سرگرم کارکنوں ، انسانی حقوق کے چند ایک رضاکاروں اور عوامی ورکرز پارٹی کی کچھ خواتین و حضرات ہی ان کے جنازے میں شریک ہوئے –
پاکستان میں حقیقی عوام پرست سیاست اور سیاسی کارکن آٹے میں نمک کے برابر ہیں جبکہ موقعہ پرستوں کی بھرمار ہے –
استاد ہدایت لوہار آٹے میں نمک جتنے بچے کچھ سیاسی کارکنوں میں سے ایک تھے –
ہمیں ‘قوم پرستی’ کی آئیڈیالوجی بھلے ناپسند ہو ، ہمارے سیاسی نظریات بھلے مختلف ہوں لیکن ہمیں مخلص سیاسی کارکنوں کی جدوجہد کی قدر کرنے اور منحرف آوازوں کے جینے کے حق کی مانگ کرنے سے نہیں رکنا نہیں چاہیے-
نوٹ: اس پوسٹ کے لیے بنیادی معلومات ڈاکٹر برکت نوناری کی سندھی پوسٹ سے لی گئیں
عامر حسینی کی مزید تحریریں پڑھیے
(عامر حسینی سینئر صحافی اور کئی کتابوںکے مصنف ہیں. یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے ہے ادارہ کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں)
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر