مطیع اللہ جان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب تو وزیر اعظم اور سرکاری ملازموں نے بھی عدالتی طلبی کے نوٹسز کے باوجود عدالتوں میں پیش ہونا چھوڑ دیا ہے اور عدالت محض چند تلخ باتیں کر کے اگلی تاریخ ڈال دیتی ہے، نگران وزیر اعظم عدالت کے بلانے کے باوجود دوسری بار بھی پیش نہیں ہوئے اور اسلام آباد ہائی کورٹ نے اپنی توہین محسوس کئیے بغیر اگلی تاریخ دے دی، وزیر اعظم کے دیکھا دیکھی وزیر داخلہ و وزیر دفاع اور سیکریٹری دفاع بھی پیش نہیں ہوئے۔ جب حکومت ہی اعلیٰ عدلیہ کی عزت نہیں کریگی تو عام عوام کیوں کریگی۔ اوپر سے اٹارنی جنرل فار پاکستان جیسے آئینی عہدیدار بھی عام سرکاری وکیل کی طرح وزیر اعظم کی دوسری بار غیر حاضری کا دفاع کرتے اور بہانہ پیش کرتے نظر آتے ہیں۔ اگر ایک نگران حکومت کا یہ حال ہے تو منتخب حکومت آئینی عدالتوں کیساتھ کیا کریگی۔ معزز ججز حضرات بھی عدالت کی توہین کو محسوس کرنے کی بجائے ڈانٹ ڈپٹ کر کے اپنا اختیار اور وقار جتانے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ توہینِ عدالت کا قانون ایسے موقعوں کے لئیے ہی ہوتا ہے نہ کہ عام لوگوں کو دھمکانے کے لئیے۔ لاپتہ بلوچ کے کیس میں عدالت کا حال ویسا ہی ہوتا ہے جیسے کسی ایک آدھ خاندان کا کوئی لاپتہ گھر واپس آ جائے تو خاندان والے بھی خاموش ہو جاتے ہیں اُس وقت تک کہ جب تک انکا کوئی اور قریبی عزیز اُٹھا نہ لیا جائے۔ اِس طرح ہمارے ہائی کورٹ کے جج بھی اپنے حتمی اور ٹھوس فیصلوں کے ذریعے لاپتہ افراد کو باریاب کروانے اور انکے اغوا میں ملوث سرکاری اہلکاروں کو عبرت کا نشان بنانے واسطے عدالتی اختیار استعمال کرنے کی بجائے ذاتی انا کی تسکین کے لئیے ڈانٹ ڈپٹ کر کے اور رولا ڈال کر ایک آدھ بندہ بازیاب کرا کے مطمئن ہو جاتے ہیں۔ ایسے ججوں کیطرف سے وزیر اعظم کو بلانے پر کون پیش ہو گا، ججوں کو یا تو ایسے حکم جاری ہی نہیں کرنے چاہئیں جن پر وہ بعد میں عمل نہ کر سکیں اور یا پھر عدالتی حکم کی خلاف ورزی پر ایسی کاروائی کی جانی چاہئیے کہ دوسروں کے لئیے عبرت ہو۔ اگر ایسا نہیں ہو سکتا تو پھر ایسے ججوں اور اُس تھانہ ایس ایچ او میں کیا فرق ہے تو لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئیے نامعلوم افراد کیخلاف ایف آئی آر کاٹ بھی لے تو کوئی ٹھوس کاروائی کرنے کی سکت نہیں رکھتا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے سنگل جج بنچوں کا ایک بڑا مسئلہ (جو ۲۰۳۱ تک رہے گا) یہ بھی ہے کہ ابھی تک ان کیسوں میں پولیس افسران کیخلاف سنائی گئی سزا اور جرمانے کو ڈبل بنچ میں معطل کر کے فائل کو کئی سال تک دبا دیا جاتا ہے۔ تو سنگل جج بیچارہ سرکار کے بھاگتے چور کی لنگوٹی پر ہاتھ ڈال کر دباؤ ڈال کر ایک آدھ لاپتہ شخص بازیاب کروانے کو صدقہ جاریہ سمجھتا ہے۔ ایسے کیسوں میں سپریم کورٹ کے کچھ نام نہاد دبنگ منصف بھی آئین کے بادلوں کی مانند گرجتے ہیں مگر انصاف کی بارش کی ایک بوند بھی نہیں برسا پاتے۔ سیاستدانوں کی تاحیات نا اہلی پر ہمارا آئین خوب آنسو بہاتا ہے مگر کئی سال سے لاپتہ شخص کی ایک ماں کے تاحیات درد سے نظریں کیوں پھیر لیتا ہے؟
بشکریہ نئی بات
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر