رسول بخش رئیس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ملک کی تازہ ترین صورتحال کو سامنے رکھیں تو ایک ہنگامہ خیزی بیرونی حصار توڑ کر ذہن کا احاطہ کر لیتی ہے۔ ہنگامہ ایک ہو تو بات کریں‘ ہر طرف سے ضربیں پڑ رہی ہیں۔ سیاست گری کی بات کرنا آسان نہیں تو خاموش رہنا بھی مشکل ہے۔ سب دیکھ رہے ہیں‘ سن رہے ہیں مگر کسی کو لب کشائی کی ہمت نہیں۔ خبریں دیکھتے ہیں‘ پڑھتے ہیں‘ جی چاہتا ہے کہ ہوا کے زور دار جھونکے کی طرح گزر جائیں‘ زیادہ دیر ہمارے ساتھ نہ رہیں۔ اس دور میں یہ خواہش کئی اور خواہشوں کے ساتھ دم توڑ دیتی ہے کہ معاشرے میں رہتے ہوئے ہمارے بس میں نہیں کہ آنکھیں‘ ذہن اور اپنے ضمیر پر بھاری قفل لگا کر چین کی نیند سو جائیں۔ یہ بھی ہماری پرانی خواہش رہی ہے کہ کرپشن‘ ناانصافی‘ ظلم اور زیادتی کی فضا کو چھوڑ کر کسی صحرا‘ جنگل یا پہاڑی وادی میں پناہ لے لیں۔ نہ یہ سب کچھ ہوتا دیکھیں‘ نہ سنیں اور نہ ہم سے کوئی بات کرے اور نہ ہم کسی سے رابطہ کریں۔ سوچتے ہیں تو یہ بھی ایک خواب معلوم ہوتا ہے۔ عملی طور پر کوئی جائے مفر باقی نہیں۔ ہم جیسے حالات کے قیدیوں کے ہاتھ اور پاؤں بندھے ہوتے ہیں۔ ذہن آزادی پسند ہو تو حساسیت زندہ درگور کر دیتی ہے۔ کئی سَمتوں سے ڈستی اذیت کو برداشت کرنا آسان نہیں۔ ایک اور بھی طریقہ ہے کہ انسان ہوا کے رُخ چل پڑے‘ حالات کے جبرکو تسلیم کرے اور اپنی ذاتی زندگی کے تنگ دائروں میں جذب ہو کر کنارہ کشی اختیار کر لے۔ ہمارے لیے زندگی کے اس حصے میں یہ بھی ممکن نہیں اور نہ ہی اس نظریۂ حیات سے یہ روش اختیار کرنا مطابقت رکھتا ہے کہ آنکھ‘ دل‘ زبان اور قلم ہیں تو گواہی دینا معاشرے کی طرف سے ایک فرض ہے۔ یہ فرض ادا کرنے کے لیے سب کچھ ہم دیکھتے‘ سنتے اور برداشت کرتے ہیں ۔ ہمارے لیے نہیں‘ سارے معاشرے کے لیے ظلم اور ناانصافی‘ قریب ہوں‘ دور ہوں‘ اپنے ہوں‘ غیر ہوں‘ آہستہ آہستہ بقول غالبؔ ‘رنج سے خوگر ہوا نساں تو مٹ جاتا ہے رنج‘ کے مصداق اپنا اثر کھو چکے ہیں۔
ان دنوں ہر طرف الیکشن کا ہنگامہ ہے‘ شور ہے‘ کہیں کہیں انتخابی امیدواروں کو دہشت گردی کا نشانہ بھی بنایا جا رہا ہے۔ ہزاروں امیدوار‘ پارٹیوں کے نشانات‘ اسمبلیوں میں قدم رکھنے کے خوابوں میں کھوئے افراد۔ ان سب کی باتیں سنیں‘ ماضی کی کارکردگی کا جائزہ لیں اور ان کے گماشتوں کو ان کی صفائی دیتے اور ایمانداری کی قسمیں اٹھاتے بڑے اور چھوٹے کرداروں کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ملک کے سب سیاسی گھرانے‘ اکابرین اور بار بار منتخب ہونے والے اراکینِ اسمبلی ہم سے کوئی افضل مخلوق ہیں۔ دنیا کے سیاست دانوں کے مقابلے میں باکردار اور ملک و قوم کا درد رکھنے میں کوئی ان کا ثانی نہیں۔ ہمیں تو معلوم نہیں کہ آٹھ فروری کو کہاں ہوں گے اور کیا کریں گے مگر لوگ قطاروں میں کھڑے ان سب کو عوامی تائید کی سند عطا کرنے کے لیے بے چین نظر آئیں گے۔ ہمیں جو معلوم ہے کہ اس معاملے میں کون آگے ہوگا اور کون کہاں ہوگا اور شاید لوگوں کو بھی اس معاملے میں بہت کچھ آگاہی ہے‘ مگر اپنے اپنے حالات کے جبر اور سماجی زنجیروں میں جکڑے لوگ اپنے نمائندوں کو کامیابی کے ہار گلے میں ڈالنے کے لیے بیلٹ پیپر پر کسی ایک انتخابی نشان پر مہر لگائیں گے۔ ہنگامہ خیزی تو اس میں بھی ہے کہ ہر ایک سیٹ پر درجن سے زائد خواتین اور حضرات امیدوار ہیں۔ منقسم اور غیر منتظم معاشروں میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ یہ ہماری بے مثال جمہوریت ہی میں ممکن ہے کہ عوام کی طرف سے شاید کہیں زیادہ امیدواروں کو حمایت کی سند دینے کے وعدے وعیدکیے جارہے ہیں۔ یہ آخری مراد تو ہر کسی کی پوری ہو گی کہ مہنگائی اور غربت کے اس زمانے میں سب اقدار دم توڑ جاتی ہیں۔ ویسے ان دنوں انسانیت اور انصاف کی اصل بے قدری غزہ میں ہو رہی ہے لیکن ہمارے ہاں بھی عجب غضب ناکی کا چلن ہے۔ ہم وطن کسی کو عزیز ہوں نہ ہوں‘ انہیں اپنے ووٹ کے عوض کچھ سِکے ضرور عزیز ہوں گے ۔
بڑے معاشرے بڑے افراد سے پیدا ہوتے ہیں اور ہر وہ شخص ہماری نظر میں بڑا ہے جو انصاف‘ سچائی کے ساتھ کھڑا ہو کر جھوٹ‘ بدعنوانی اور ناانصافی کا اگر عملی طور پر مقابلہ نہیں کر سکتا تو اپنی توفیق اور طاقت و استعداد کے مطابق کم از کم دل و دماغ سے تو کچھ کر سکتا ہے۔ ہم تو کچھ اور دیکھ رہے ہیں کہ کسی کے ساتھ ظلم ہو‘ ناانصافیوں اور لاقانونیت کی فضا قائم ہو تو غالب طبقات اس کی حمایت میں دنیا بھر کی کتابوں سے تاویلیں اور دلائل نکال کر گولہ باری کے لیے مورچہ زن ہو جاتے ہیں۔ کمزور افراد اور کمزور معاشروں میں ایسے ہی ہوتا ہے کہ سچ اور انصاف کے پیمانے طاقت کے زور‘ عوام کی بے حسی اور حکمران طبقات کی منافقت سے ہی پیدا ہوتے ہیں۔ اس معاشرتی بیماری کا ایک اور پہلو بھی ہے کہ اخلاقی پستی کے ساتھ ساتھ قبائلیت کا ہماری شخصیتوں اور سوچ پر اتنا گہرا اثر ہے کہ ہم آزادانہ فیصلے کرنے کی صلاحیت کھو چکے ہیں۔ اس سے جانبداری‘ تصادم اور عدم برداشت میں بے پناہ اضافہ ہوا‘ اس لیے کہ سچ اور انصاف کی تمیز اور پاسبانی کے بجائے سیاسی‘ مذہبی اور لسانی فرقہ واریت کی پاسداری کرتے ہیں۔ ہم تو ہر روز چلتے پھرتے لوگوں سے ملتے ہیں‘ باتیں سنتے ہیں یا سیاسی مذاکروں کو دورکہیں بیٹھ کر سکرینوں پر دیکھتے ہیں تو تقسیم اور تناؤ کے علاوہ کچھ دکھائی نہیں دیتا۔
دنیا میں جہاں کہیں بھی آزادیٔ رائے کا گلا گھونٹا گیا ہے‘ ڈر اور خوف کی فضا طاری ہوئی ہے‘ انتخابات میں مداخلت اور جانبداری کے اثرات ملے ہیں‘ وہاں سچائی اور انصاف کو صرف ایک ہی رُخ میں چلتے دیکھا ہے یعنی طاقت کے مراکز کی طرف۔ عجیب صورتحال ہے کہ ایک طرف امیدواروں کی ہر حلقے میں ایک لمبی فہرست‘ درجنوں سیاسی جماعتیں اور چھوٹے بڑے سیاسی دھڑوں کی نمائندگی کے خواب ہیں تو دوسری طرف خوف‘ خدشات اور شکو ک و شبہات کے گہرے سائے ہیں۔ بہت کچھ اس ماحول میں انوکھا‘ نرالا اور عجیب وغریب محسوس ہوتا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ بہت کچھ آنکھوں کے سامنے سے گزر رہا ہے ‘کیا ہوگا اور کیا نہیں ہو گا‘ کا بہت سوں کو ادراک ہے مگر ضابطے کی سب کارروائی مکمل کرنے کے لیے اربوں روپے لگ چکے ہیں۔ اس دوران کیا کیا نعرے سن رہے ہیں کہ ملک کو خوشحالی کی راہ پر ڈالیں گے‘ استحکام آئے گا‘ سرمایہ کاری آئے گی‘ بے روزگاری اور مہنگائی کم ہوگی‘ ملک اور خلقِ خدا سکھ اور چین کی بانسری بجانا شروع کردیں گے۔ خواہش تو ہماری بھی یہی ہے کہ ایسا ہی ہو مگر جب دیکھتے ہیں تو وہی لوگ ہیں جو کئی بار آزمائے جا چکے ہیں‘ بار بار اقتدار کی کرسی پر بیٹھ چکے ہیں اور ان کے درمیان کوئی مقابلہ تھا تو وہ کارکردگی کا نہیں بلکہ ایک دوسرے سے بڑھ کر لوٹ مار کرنے کا‘ تو اس ساری مشق کے اصل مقاصد کھل کر سامنے آجاتے ہیں۔ کسی عقل مند سے پوچھ لیا کہ کیا یہ سب لوگ محب ِ وطن نہیں اور انہیں ملک کا مفاد عزیز نہیں تو انہوں نے وہی کہا جو ہم سنتے آئے ہیں کہ آپ کس دنیا میں رہتے ہیں؟ شکر کریں‘ جمہوریت بچ گئی ہے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر