دسمبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

مزاحیہ ڈرامہ۔۔۔||رسول بخش رئیس

رسول بخش رئیس سرائیکی وسیب کے ضلع راجن پور کی تحصیل روجھان کے رہنے والے ہیں وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے درس وتدریس کے ساتھ ساتھ ملکی ،علاقائی اور عالمی معاملات پر مختلف اخباروں ،رسائل و جرائد میں لکھ بھی رہے ہیں، انکی تحریریں ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر

رسول بخش رئیس

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہمیں تو مزاحیہ ڈرامے دیکھنے کا شوق ہے اور آپ میں سے کس کو نہیں ہوگا کہ ہنسے ہنسانے سے زندگی میں چاشنی بڑھ جاتی ہے۔ ثقافتی لحاظ سے وادیٔ سندھ میں ہنسی مذاق کا رنگ غالب ہے‘ اگرچہ ملک میں اکثریتی آبادی‘ پنجابی یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ لطیفوں اور مزاحیہ گفتگو میں ان کا کوئی ثانی نہیں۔ ہمارے معاشرے بیٹھک‘ ڈیرہ داری‘ دوستیوں اور گپ شپ کی منفرد خصوصیات رکھتے ہیں۔ اکثر لوگوں میں تو یہ جذبہ ہے کہ کوئی بغیر اطلاع دیے آ جائے یا کھیت میں کام کرتے ہوئے کہیں دور سے بھی نظر آئے تو بلا کر یا ان کے پاس جا کر جب تک سیر حاصل بات چیت نہ کر لی جائے تسلی نہیں ہوتی۔ ”آئیں آپ کو چائے پلاتے ہیں‘‘ تو ہماری ثقافت کا ایسا جزو بن چکا کہ گمان پڑتا ہے کہ چائے ہمارے پہاڑوں‘ جنگلوں اور صحراؤں میں بھی اُگتی ہے۔ یہ جنگلوں والی بات کیا کر دی؟ وہ کہاں رہے ہیں‘ کتنے باقی ہیں‘ کہاں تلاش کریں؟ چائے بہانہ ہے مِل بیٹھنے کا۔ آج کل کے دور میں جس کو کوئی نام دینا اتنا آسان نہیں کہ اس پرانے نظام نے جو کروٹ لی ہے‘ کچھ کہنا مشکل ہے۔ اس سب کے باوجود سیاست کی باتیں سنتے ہی رہتے ہیں اور یہ ملک کے ہر چوراہے‘ سڑک کے کنارے‘ کسی دور افتادہ علاقے‘ ہمارے بے رنگ و بے ہنگم شہروں کے نقلی کیفوں میں جاری ہیں۔ اشرافیہ اپنی اہمیت‘ انفرادیت اور اعلیٰ مقام کا مظاہرہ جہاں کرتی ہے وہاں بھی سیاست کے ساتھ مزاحیہ گفتگو ہر قسم کی محفلوں میں رنگ بھرتی ہے۔
ہم ہر حال میں خوش رہنے والی قوم ہیں۔ بے شک خوشحالی‘ ترقی اور اقتصادی آسودگی دور سرحدوں سے پار کسی اور قسم کی دنیا کے حصے میں ہو‘ ہمارے پاس تو مزاحیہ ڈرامے‘ خوابوں بھری فلمیں ہیں جن میں ہیرو اور ہیروئن تصوراتی دنیا میں ڈیڑھ دو گھنٹے گھسیٹ جاتے ہیں اور کئی دن تک وہ سین اور ڈائیلاگ ہمارے ذہنوں میں گردش کرتے رہتے ہیں۔ غریب‘ پسماندہ اور مفلوک الحال معاشروں میں مزاحیہ اور زمینی حقائق سے الگ کسی اور دنیا سے متعلق فلمیں اس لیے مقبول ہیں کہ یہ زندگی کی تلخیوں پر کچھ دیر کے لیے مرہم کا کام دے دیتی ہیں۔ خیر اس میں کوئی مضائقہ بھی نہیں کہ ہمارے ساتھ حکمران طبقات کا جو سلوک رہا ہے اس کی کڑواہٹ کا ذائقہ ہماری زندگیوں سے شاید کبھی نہ جائے۔ اسے کچھ دیر کے لیے دل و دماغ کی سرحدوں سے کہیں دور پھینک کر سکھ کا سانس لینے میں کوئی حرج نہیں کیونکہ ہم ہنسی مذاق اور مزاحیہ ڈراموں کی بات کر رہے ہیں ۔ اگرچہ ہم اس وقت دور دنیا کے ایک گوشے میں کچھ دن کے لیے پناہ گزین ہیں مگر ملک میں عوام پر بلّے کی گرفت مضبوط نظر آتی ہے اور یوں لگتا ہے کہ روایتی ٹیموں کا صفایا ہو سکتا ہے‘اس لیے مزاحیہ ڈراموں کے کرداروں کی طرح وہ کردار صاف نظر آرہے ہیں جن پر اس کا خوف طاری ہے۔ بظاہر تو بلّا واپس لے لیا گیا ہے مگر پریشانی پھر بھی باقی ہے کہ اس کے بعد بھی لولے لنگڑے کھلاڑیوں پر مشتمل ٹیم پندرہ‘ بیس سرکاری ٹیموں کا حشر نشر نہ کر دے‘ جوکہ ہوتا نظر آ رہا ہے۔
اس خوف اور مزاح کی تشریح ایک وقفے کے بعد کہ کوئی ڈرامہ یا فلم وقفے کے بغیر نامکمل ہے۔اب کچھ دیر ہنسی مذاق کو چھوڑ کر ملک کی تقدیر بدلنے کے غم میں سنجیدہ گفتگو اور بلّے جیسی لکڑی کی لاٹھ کو توڑنے‘ جلانے یا سمندر کی گہرائیوں میں ڈبونے کے منصوبے بناتے ہیں۔ چالیس سال قبل ایک مزاحیہ فلم امریکہ میں ایک سینما گھر میں دیکھی تھی کہ آسمان میں اڑتے ہوئے جہاز سے کسی مسافر نے صحرا میں بسنے والے ایک قبائلی گھرانے کے قریب شیشے کی ایک خالی بوتل کھڑکی سے نیچے پھینک دی۔ غریب گھرانے کے لوگ اسے اُٹھا کر دیکھنے لگے۔ حیران و پریشان کہ اس سے پہلے انہوں نے شیشے کی بوتل کبھی نہیں دیکھی تھی۔ اس عجیب و غریب چیز کو دیکھنے دور دراز سے لوگ آتے اور اسے دیکھنے کے بعد قدرت کے کرشموں پر حیران ہوتے جو انہیں اس بوتل کی صورت نظر آرہے تھے۔ اس گھر کے لوگ اس بوتل کو ایک قدرتی تحفے اور نعمت کے طور پہ ہر طرح خوبصورت رنگ دار کپڑوں میں سجا کر رکھتے اوراس پر فخر کرتے۔ دوسرے قبیلوں کے لوگ اس بوتل پر بہت رشک کرتے۔ دل میں دعائیں کرتے کہ قدرت کی یہ نعمت انہیں بھی نصیب ہو جائے۔ ایک دن بچے بوتل سے کھیل رہے تھے تو ایک کی انگلی اس میں پھنس گئی۔ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ انگلی کو کیسے نکالے۔ کئی دن کی تکلیف اور بے چینی کے بعد آخر بچے کی انگلی کو جادو ٹونوں کی مدد سے بوتل کی گرفت سے آزاد کرا لیا گیا۔ کچھ دن گزرے تو عورتوں میں تکرار ہو گئی کہ یہ بوتل میری ہے‘ دوسری کہنے لگی کہ نہیں یہ میری ہے۔ جھگڑا اتنا بڑھا کہ نوبت قبائلی عدالت تک پہنچ گئی۔ اگر آپ کا خیال کسی ایسے شخص کی طرف جا رہا ہے جو بلّے کی ملکیت کے لیے ہر عدالت سے رجوع کرتا رہتا ہے تو جھٹک کر ذہن سے نکال دیں‘ ہم بوتل کی بات کر رہے ہیں۔ آخر فیصلہ ہوا کہ بوتل ساری قبائلی قوم کی ملکیت ہے۔ کچھ دن گزرے تو بوتل نے ایک اور قیامت ڈھا دی۔ ایک بچے نے لڑائی میں وہ بوتل دوسرے بچے کی سر پر دے ماری تو وہ لہو لہان ہو گیا۔ پھر سے قبائلی پنچایت بیٹھ گئی کہ آسمان سے گری اس بوتل نے سارے گاؤں کے امن و سکون کو تباہ کر دیا ہے۔ اس شخص کو حکم دیا گیا جو بھیڑیں چراتے وقت اسے اٹھا کر لایا تھا کہ وہ اسے وہاں پھینک کر آئے جہاں دنیا ختم ہوتی ہے۔ آخری خبریں آنے تک وہ محوِسفر ہے۔
ایک پارٹی کا انتخابی نشان‘ جو کئی انتخابات میں استعمال ہوا ہے اور دوڑتے دوڑتے اور بال کو گراؤنڈ کے باہر تلاش کرتے کرتے سب تھکے پڑے ہیں‘ اب وہ نشان واپس لے لیا گیا ہے‘مسئلہ شاید یہ ہے کہ یہ اب لوگوں کے دلوں میں ہے۔ ہم دنیا کے جس گوشے میں بھی ہوں‘ ہمیں موروثیوں‘ درباریوں اور تابعداروں کے لیے پریشان کن منظر صاف نظر آرہا ہے۔ بلے کو بھی دنیا کی سرحدوں سے پار پھینکنے کی جو تدبیریں سامنے نظر آرہی ہیں وہ ہمارے مزاحیہ ڈراموں سے کم نہیں۔ ایک تصویر میں‘ جو ہمیں ملی‘ پنجاب پولیس کے دستے گندم کے ہرے بھرے کھیتوں میں ایک امیدوار کو گھیرے میں لیے ہوئے ہیں۔ چلو ہمارے ساتھ تھانے۔ وہ بیچارہ کاغذاتِ نامزدگی جمع کرانے جا رہا تھا۔ جو ساتھ تھے‘ انہیں بھگا دیا گیا۔ جہاں کہیں بلّے سے وابستگی کی بھنک پڑے مقدمے پہ مقدمہ بن جاتا ہے۔ گھر وں میں گھس کر خواتین پر ہاتھ ڈالنے میں بھی کوئی تامل نہیں۔ فرمان آج بھی وہی ہے جو جبر کے ایک زمانے میں تھا‘ لاڑکانے چلو‘ ورنہ تھانے چلو‘ مگرمزاحیہ ڈراموں کو دیکھتے ہوئے سنجیدہ باتیں کرنا اچھا تو نہیں لگتا ۔

یہ بھی پڑھیے:

رسول بخش رئیس کے مزید کالم پڑھیں

About The Author