عزیز سنگھور
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بلوچستان میں جاری لاپتہ افراد کی بازیابی اور جعلی پولیس مقابلے کے خلاف لانگ مارچ نے مکران، شاشان، جھالاوان، ساراوان، رخشان، شال، چلتن، بولان اور کوہ سلیمان کے بلوچوں کو یک مشت کردیا۔
ان کی جداگانہ شناخت کو صرف نام کی حد تک محدود کرکے بلوچیت کی بنیاد پر بلوچ قوم کو منظم پلیٹ فارم فراہم کیا۔ یہ ایک غیر معمولی نوعیت کا لانگ مارچ ہے جس نے مستقبل میں بلوچ کی اجتماعیت کی بنیاد رکھ دی ہے۔
اب آنے والی نسل کو یہ باور کرایا گیا ہے کہ جعلی مقابلے اور جبری گمشدگیاں صرف بلوچ ہونے کی بنیاد پر کیے جار ہے ہیں۔ بلوچ ہونا ایک جرم ہے۔ لانگ مارچ سے قبل یہ ایک دھرنا تھا۔ احتجاج کا یہ سلسلہ تربت میں 23 نومبر 2023 کو اس وقت شروع ہوا جب زیرحراست بالاچ مولابخش سمیت تین دیگر بلوچ لاپتہ افراد کو سی ٹی ڈی نے ایک جعلی مقابلے میں قتل کردیا۔
بالاچ بلوچ کے لواحقین نے لاش تدفین کے بجائے تربت میں شہید فدا چوک پر رکھ کر بلوچ قوم کے حوالے کیا اور شہید بالاچ کے والد مولابخش نے کہا کہ یہ بلوچ قوم کی امانت ہے۔ اب یہ صرف میرا بیٹا نہیں ہے بلکہ قوم کا بیٹا ہے۔
کئی روز لاش کو دھرنے میں رکھا گیا۔ بالاآخر قوم کے فیصلے کے بعد ان کی نمازجنازہ ادا کی گئی جس میں مرد اور خواتین سمیت تمام مسلک سے تعلق رکھنے والی مکران کی عوام ایک صف میں نماز جنازہ میں شریک ہوئی۔ بعد ازاں اس کی تدفین زیارت شریف کے قبرستان میں کی گئی۔
یہ مکران کا ایک تاریخی حسن تھا جس میں اسلامی اسکالر، دانشور و مفکر مولوی عبدالحق بلوچ کے صاحبزادے اور عالم دین واجہ صبغت اللہ بلوچ نے کلیدی کردار ادا کیا۔ جنہوں نے ایک تاریخ رقم کردی۔ تدفین کے بعد بھی دھرنا جاری رہا۔ احتجاجی کیمپ سے تین مرتبہ عظیم الشان ریلیاں نکالی گئیں، 4 مرتبہ شٹرڈاؤن ہڑتال اور دو مرتبہ کامیاب پہیہ جام کی کال دی گئی جو مکمل صورت میں کامیاب رہے۔
احتجاجی دھرنا 14 ویں روز جاری رہنے کے بعد لانگ مارچ میں تبدیل ہوگیا۔
چھ دسمبر کو کیچ سے کوئٹہ کی جانب روانہ ہوا۔ ڈنگر تھانہ کے نزدیک عوام نے بڑی تعداد میں لانگ مارچ کو تربت سے رخصت کیا۔
لانگ مارچ کی قیادت بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی (بساک) کی سابقہ چیئرپرسن ڈاکٹر صبیحہ بلوچ، وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی جنرل سیکرٹری سمی دین، لاپتہ طالبعلم رہنما شبیر بلوچ کی بہن بانک سیما بلوچ، حق دو تحریک کے رہنما وسیم سفر اور تربت سول سوسائٹی کے کنوینر گلزار دوست کررہے تھے۔
جبکہ عالم دین صبغت اللہ بلوچ ساتھیوں کے ہمراہ پنجگور تک لانگ مارچ کا حصہ رہے۔ اس مارچ میں دیگر بلوچ لاپتہ افراد کے اہل خانہ کی بڑی تعداد شامل تھی۔ لانگ مارچ کا ہیرونک، سامی، تجابان، شاپک اور ہوشاپ سمیت مختلف گاؤں اور دیہاتوں میں خواتین اور بچوں نے استقبال کیا اور ان کے حق میں بلوچی انقلابی گیت گائے، انہیں سلام پیش کیا اور نعرے لگائے ۔
دوسرے روز لانگ مارچ پنجگور پہنچ گیا۔لانگ مارچ شرکاء نے دو روز پنجگور میں قیام کیا جہاں ایک احتجاجی ریلی نکالی گئی جس میں سینکڑوں کی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی جبکہ اس دوران دھرنا گاہ میں لاپتہ افراد کے کوائف جمع کرنے کیلئے ڈیسک کا قیام عمل میں لایا گیا۔
دو روز قیام کے بعد لانگ مارچ کاپنجگور سے پہلا پڑاؤ ناگ میں ہوا جہاں خواتین و بچوں سمیت سینکڑوں کی تعداد میں لوگوں نے مارچ کا استقبال کیا جبکہ اس کے بعد مارچ بیسمہ سے ہوتے ہوئے گریشگ (گریشہ) پہنچا۔
جب مارچ گریشہ کے حدود میں داخل ہوا تو ہزاروں کی تعداد میں لوگ شریک ہوئے۔گریشہ سے ہوتا ہوا مارچ نال پہنچا تو وہاں ہزاروں کی تعداد میں لوگوں نے ان کا استقبال کیا اور مختلف مقامات پر احتجاجی جلوس بھی نکالے گئے۔
اتنی بڑی تعداد میں عوامی ہجوم سے بلوچستان کی کٹھ پتلی حکومت گھبراگئی۔ اورعوامی طاقت کے سامنے حکومت نے اپنی کمزوری اور بے بسی کا اظہار شرکاء کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کی شکل میں کیا۔لانگ مارچ کی قیادت کرنے والی ڈاکٹر صبیحہ بلوچ، وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی رہنماء سمی دین بلوچ، لالہ وہاب بلوچ، گلزار دوست اور دیگر منتظمین کو نشانہ بنایا گیا۔
فیاض نامی سرکاری آلہ کار کے ذریعے ایف آئی آر درج کی گئی۔ اور یہ موقف اختیار کیا گیا کہ اداروں کے خلاف نعرے بازی کی گئی
اور لوگوں کو اشتعال دلایا گیا۔
نال سے مارچ کے شرکا ء خضدار کی جانب روانہ ہوئے تو فیروز آباد کے مقام پر انہیں روکنے کی کوشش کی گئی۔ انتظامیہ نے کنٹینر رکھ کر راستہ بند کیا تاہم عوامی طاقت کے سامنے رکاوٹیں ملیامیٹ ہوگئیں۔ لانگ مارچ رکاوٹوں کو عبور کرکے خضدار پہنچنے میں کامیاب ہوگیا۔ خضدار میں سینکڑوں افراد نے مارچ کا استقبال کرتے ہوئے دھرنے میں شریک ہوئے۔
آزادی چوک پر دھرنا دیتے ہوئے لواحقین نے اپنے پیاروں کی بازیابی کا مطالبہ کیا۔اس دوران خضدار سے لاپتہ کیے گئے افراد کا رجسٹریشن بھی کیا گیا۔ خضدار میں قیام کے بعد لانگ مارچ کے شرکاء سوراب کی طرف روانہ ہوئے۔ سوراب کے علاقے بیتگو کراس سکندر چیک پوسٹ پر پولیس نے لانگ مارچ کے قافلے پر دھاوا بول دیا جس کے نتیجے میں خاتون سمیت دو افراد زخمی ہوئے۔
سوراب پہنچنے پر گوڈا چوک پر دھرنا دیا گیا جس میں لاپتہ افراد کے لواحقین سمیت سینکڑوں افراد شریک رہے اور لاپتہ افراد کی رجسٹریشن کیلئے ڈیسک قائم کیا گیا۔ مظاہرین مارچ کرتے ہوئے منگچر بازار پہنچ گئے
جہاں دھرنا دیا گیا۔ دھرنے کے دوران اپنے پیاروں کی جبری گمشدگی کے باعث اذیت و تکالیف بیان کرتے ہوئے لاپتہ کفایت اللہ نیچاری کی بہن بے ہوش ہوگئیں۔بلآخر گیارہ دسمبر کو طویل جدوجہد کے بعد مارچ کے شرکا ء نے کوئٹہ شہر میں داخل ہونے کی کوشش کی۔
اس موقع پر سریاب روڈ پر بھی پولیس کی جانب سے رکاوٹیں کھڑی کرکے روکنے کی کوشش کی گئی۔ لانگ مارچ کے شرکاء مزاحمت کرتے ہوئے رکاوٹیں عبور کرکے آگے بڑھ گئے۔
لواحقین کے لانگ مارچ کو کوئٹہ ریڈ زون میں پہنچنے سے روکنے کیلئے ریڈ زون کے اطراف کنٹینر لگا کر راستے بند کردئیے گئے ،پولیس اور فورسز کی بھاری نفری تعینات کردی گئی جس کی وجہ سے لانگ مارچ کے شرکا ء کو رات سریاب روڈ پر پڑاؤ کرنا پڑا۔ ان کی اگلی منزل ریڈ زون تھی۔
لانگ مارچ کوئٹہ پہنچنے کے بعد سمی بلوچ اور ڈاکٹر صبیحہ بلوچ نے احتجاج کی قیادت پولیٹیکل ایکٹیوسٹ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کو سپرد کردی۔
کوئٹہ پہنچنے کے بعد احتجاجی ریلیاں نکالی گئیں۔ سڑک پر سیمینار کا انعقاد کیا گیا اور ہڑتال کی گئی۔
چار روز کوئٹہ میں قیام کے بعد پولیٹیکل ایکٹیوسٹ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کی قیادت میں لانگ مارچ اسلام آباد کی جانب روانہ ہوگیا ہے۔ یہ لانگ مارچ کوہلو سے ہوتا ہوا بارکھان میں داخل ہوگیا۔
لانگ مارچ کوہ سلیمان اور اسلام آباد کی جانب رواں دواں ہے۔ عوامی اجتماعات کا سلسلہ جاری ہے۔ یہ لانگ مارچ بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب سے سرانجام دیا جارہا ہے۔
ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کے والد عبدالغفار لانگو ٹریڈ یونین رہنما اور بائیں بازو کی سیاست پر یقین رکھنے والے سیاسی رہنما تھے۔ وہ واپڈا میں ملازمت بھی کرتے تھے۔ ان کا آبائی ضلع قلات ہے۔
ڈاکٹر ماہ رنگ سمیت ان کی پانچ بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے۔ عبدالغفار لانگو اپنی سیاسی سرگرمیوں کی وجہ سے 2006 کو پہلی مرتبہ جبری طور پر لاپتہ کیے گئے جس کے کچھ عرصے بعد وہ واپس آگئے۔ پھر وہ 2009 میں جبری لاپتہ ہوئے اور 2011 میں ان کی مسخ شدہ لاش ملی تھی۔
سنہ 2006 کوماہ رنگ بلوچ کے والد عبدالغفار لانگو کو لاپتہ کیا گیا تو اس وقت وہ پانچویں کلاس میں پڑھتی تھیں۔ اُس وقت بھی والد کو بازیاب کروانے کے لیے وہ کوئٹہ پریس کلب کے سامنے احتجاج میں شامل تھیں
۔ اس احتجاج میں لاپتہ بلوچ طلبہ رہنما ذاکر مجید بلوچ نے ان سے تقریر کرنے کو کہا۔ جب وہ تقریر کے لیے کھڑی ہوئیں تو انہیں کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔ اپنے والد کو یاد کرکے اس نے شروع کردیا اور زور زور سے رونے لگیں۔ اس موقع پر صرف یہی کہہ سکی کہ
میرے والد کو چھوڑدیا جائے۔ اگر دیکھا جائے، ذاکر مجید بلوچ اس کے سیاسی استاد ہیں۔ انہوں نے ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کی سیاسی تربیت کی۔ بعد میں ذاکر مجید بلوچ کو بھی لاپتہ کردیا گیا جو تاحال لاپتہ ہیں۔
انہیں 8 جون 2009 کو مستونگ پڑنگ آباد سے اٹھایا گیا۔ وہ اس وقت بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (بی ایس او) کے سینیئر وائس چیئرمین تھے۔ وہ کوئی بلوچ سرمچار ( بلوچ گوریلا) نہیں تھے۔ بلکہ پرامن جدوجہد پر یقین رکھنے والے طلباء لیڈر ہیں۔
ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کے والد کی مسخ شدہ لاش ملنے کے بعد ان کی ماں خوفزدہ ہوگئی۔
انہوں نے اپنی اولادوں کو کراچی منتقل کردیا۔ جہاں انہوں نے گمنامی کی زندگی بسر کرنا شروع کردی۔ ایک بیوی کے سر سے ان کے میاں کی چھت چھین لی گئی۔ ان کو ڈر یہ تھا کہ ان کی اولادوں کو کچھ نہ ہو۔ انہوں نے خاموشی سے اپنی اولادوں کو کراچی میں بنیادی تعلیم دلائی۔جب ان کی بیٹی ماہ رنگ کو بولان میڈیکل کالج میں داخلہ ملا۔
تو یہ فیملی ایک مرتبہ پھر کوئٹہ منتقل ہوگئی۔ جہاں ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ بولان میڈیکل کالج میں تعلیم حاصل کرنے کے دوران ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ طلبہ سیاست میں سرگرم ہوگئیں جس کی پاداش میں 2017 کو ان کے بھائی کو لاپتہ کردیا گیا۔
ماہ رنگ بلوچ کی سیاسی تربیت بچپن ہی سے ان کے والد نے بھی کی تھی۔ جب 2017 میں ان کے بھائی کولاپتہ کیا گیا تو ان کے اندر کا سیاسی کارکن بھی بیدار ہوگیا۔ ماہ رنگ نے اپنے بھائی کی جبری گمشدگی کے خلاف نقاب اتار کرسڑکوں کا رْخ کیا تو تین ماہ بعد ان کے بھائی کو چھوڑدیا گیا۔ اب ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے دیگر بلوچ خواتین کی طرح دوپٹہ کی جگہ مکران کی ثقافتی رومال کو اپنا دوپٹہ بنالیا ہے۔ آج مکران کی بلوچی ثقافتی رومال ایک مزاحمت کی شناخت بن چکا ہے۔
رومال مکمل طور پر سیاہ اور اس کے کناروں پر سنہری ،سبز اور سرخ پٹیاں بنی ہوئی ہیں، سیاہ رنگ سوگ کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے جبکہ سنہری رنگ کا مطلب کامیابی اور فتح کے ہیں۔ یہ شفقت، محبت اور تحفظ کی علامت بھی سمجھا جاتا ہے۔
سبز عموماً اسلامی ملکوں کی نشانی کے طور پر یا مسلمانوں کی پہچان کا رنگ ہے اور سرخ شہدا یا قربانیوں کی علامت ہے۔ کسی زمانے میں یہ رومال صرف مرد اپنے کندھے پر رکھتے تھے۔ اب یہ رومال بلوچ خواتین کا دوپٹہ بھی ہے۔
یہ ایک ارتقائی عمل ہے۔ مردوں کے ثقافتی ڈریس کو عورتیں اپنا رہی ہیں کیونکہ آج مردوں کی طرح بلوچ خواتین بھی مزاحمت کا راستہ چن رہی ہیں۔
ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کے والد عبدالغفار لانگو ایک ویژنری انسان تھے۔ انہوں نے اپنی بیٹی کا نام “ماہ رنگ” رکھا۔ جو ایک بلوچی نام ہے۔ جو دو الفاظ کا مرکب ہے۔ “ماہ” یعنی چاند اور “رنگ” کا مطلب “جیسی یا کلر ہوتا ہے۔
“ماہ رنگ” کا پورا مطلب “چاند جیسی” کا ہوتا ہے۔ اور واقعی یہ بلوچ بیٹی چاند جیسی ہے۔ اس کا آج کا کردار چاند کی مانند ہے۔ جو دوسروں کو جینے کا حق دے رہی ہے۔ اور چاند بھی قدرت کی ایک نعمت ہے۔
جو پوری زمین کو روشن کرتی ہے۔ زمین پر چاند کا جو اثر سب سے واضح انداز میں دیکھا جا سکتا ہے، وہ جوار بھاٹا ہے یعنی سمندری لہروں کا چڑھنا اور اترنا۔ جس کی وجہ سے ماہی گیر کو اپنی کشتیاں کنارے سے سمندر تک اتارنے اور چڑھانے کا موقع ملتا ہے۔ اسی طرح چاندنی رات اندھیروں کا خاتمہ کرتا ہے۔ راتوں کو روشنی فراہم کرتا ہے۔
آج عبدالغفار لانگو اس دنیا میں نہیں رہے مگر ان کی یہ بہادر بیٹی بلوچ تحریک کیلئے ایک مشعل کی مانند ہیں۔ یہ چاند جیسی بیٹی ایک روشنی کی علامت بن چکی ہے۔
راستہ ممکن نہیں رہاہے۔
یہ بھی پڑھیے:
لسبیلہ میں جعلی ہاؤسنگ اسکیمز کی بھرمار||عزیز سنگھور
کرپشن اور لوٹ مار کے خلاف ماہی گیروں کا احتجاج۔۔۔عزیز سنگھور
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بشکریہ : روزنامہ آزادی، کوئٹہ
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر