حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گزشتہ روز والے کالم ’’ہیرو گیری اور دیوتا کشی کےریاستی تجربات‘‘ پر ہمارے بزرگ دوست عبدالرزاق جاموٹ نے کہا ’’شاہ سائیں ایک کالم مزید لکھیں حالانکہ ریاستی تجربات کی تاریخ، حاصل وصول اور نتائج پر پوری کتاب لکھی جاسکتی ہے لیکن اس موضوع پر کچھ مزید لکھیں گے تو نئی نسل کی رہنمائی ہوگی‘‘۔
سوآج کا کالم بزرگ دوست عبدالرزاق جاموٹ کے حکم کی تعمیل میں ہے۔ جاموٹ اب کئی عشروں سے امریکہ میں مقیم ہیں جنرل ضیاء الحق کے عہد ستم میں انہوں نے عوام کے حق حکمرانی کی بحالی کے لئے بھرپور اور پرعزم جدوجہد کی۔ وہ بھی مجھ طالب علم کی طرح اس امر پر یقین رکھتے ہیں کہ ہم وہ بدنصیب نسل ہیں جن کے خواب تعبیروں سے پہلے چوری ہوگئے۔
گزشتہ دوپہر میں ان کا فون موصول ہوا خلاف توقع مختصر بات ہی ہوئی۔ انہوں نے کالم پر اپنی رائے کے ساتھ مزید لکھنے کو کہا۔ یادوں نے دستک دی مجھے تیسرے مارشل لاء کے چنگل میں پھنسے ماہ و سال کاوہ دن یاد آگیا جب پولیس کی ہراست میں اچھی خاصی خاطر مدارت کے بعد پریڈی تھانے کی حوالات میں عبدالرزاق جاموٹ نے کہا
’’یار شاہ سائیں ان احمقوں (تفتیشی افسروں) کو کون سمجھائے کہ ہم مارشل لاء کے خاتمے اور جمہوریت کی بحالی کے لئے جدوجہد کرنے والے لوگ ہیں کسی نئے دین اور عقیدے کی تبلیغ کرنے والے نہیں‘‘۔
جاموٹ کی اس بات کا پس منظر یہ تھا کہ کچھ دیر قبل تفتیشیوں نے ہم دونوں کی خاطر مدارت کرتے ہوئے ایک بھاری بھرکم گالی اچھالی اور کہا
"تمہاری شکلیں ہیں خنزیروں جیسی ہیں۔ اسلام اور پاکستان کے خلاف نوجوانوں کو گمراہ کرتے ہو تم جیسوں کو فوراً گولی سے اڑادیا جانا چاہیے” ۔
جاموٹ غالباً 1984ء میں ملک چھوڑنے میں کامیاب ہوگیا۔ پہلے پہل کچھ عرصہ جرمنی میں رہا پھر امریکہ چلا گیا اب وہیں آباد ہے۔ پہلے تو دوچار سال بعد سندھ دھرتی کی زیارت کے لئے آتا تھا اب غالباً ایک عشرہ ہوگیا نہیں آیا۔
عمر کے حساب سے وہ مجھ سے دو اڑھائی سال بڑا ہوگا لیکن اس کے سر کے بال بچپن سے ہی سفید ہیں اس لئے دوستی کے آغاز سے ہی وہ بزرگ دوست کے درجہ پر فائز ہے۔
جاموٹ نے 1984ء میں پاکستان چھوڑا ان برسوں اور بعد میں سینکڑوں نوجوان اس ملک سے اس لئے چلے گئے کہ ان میں سے اکثر کا خیال تھا کہ یہ ملک اب رہنے کے قابل نہیں رہا۔ مجھے یاد ہے کہ جنرل ضیاء الحق کی حادثاتی موت اور جنازے سے اگلے دن اس کا فون آیا کہہ رہا تھا ’’شاہ سائیں جس ملک میں قاتل کا جنازہ ریاستی اہتمام و انتظام میں اٹھوایا جائے وہ ملک انسانوں کے رہنے کے قابل نہیں ہے‘‘۔
اس کے لہجے میں گھلی تلخی کی دیگر وجوہات کے علاوہ ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اس کی والدہ محترمہ کا جب انتقال ہوا تو وہ سکھر جیل میں تھا لاکھ کوششوں کے باوجود اکلوتے بیٹے کو اپنی اس عظیم ماں کا آخری دیدار نہیں کرنے دیا گیا جس نے بیوگی میں اکلوتے صاحبزادے کو پالا پوسا پڑھایا اور حق بات کرنے کا درس دیا۔
جاموٹ کے والد بزرگوار کا جب سانحہ ارتحال ہوا تب وہ 9 سال کا تھا اس سے دو سال چھوٹی ایک بہن جو بچپنے میں ہی دنیا سے رخصت ہوگئی۔
کالم یہاں تک لکھ چکا سوچ رہا ہوں کہ اسے جاموٹ کی یادوں سے مکمل کروں یا اس کی فرمائش پوری کردوں؟
کڑوا سچ یہ ہے کہ اس ریاست کا پہلا تجربہ قرارداد مقاصد کی صورت میں سامنے آیا۔ بٹوارے کے کھیتوں میں دو قومی نظریہ کا بیج اور قرارداد مقاصد کی کھاد ڈال کر جو فصل اگائی گئی اس تجربے نے کیا دیا۔ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب دینے کی بجائے ریاست پرست پچھلے ساڑھے سات عشروں سے فتوئوں کی چاند ماری کرتے ہیں۔
قرارداد مقاصد کے تجربے کی کئی وجوہات تھیں سب سے بڑی وجہ اس خطے (جہاں پاکستان بنا کے مغربی حصے مغربی پاکستان) کی قدیم تاریخی تہذیبی، ثقافتی اور قومیتی شناختوں کی جگہ مسلم قومیت کو منوانا تھا تاکہ عوام کے حق حکمرانی کی سوچ پنپنے نہ پائے اور مذہب کے نام پر سکیورٹی اسٹیٹ کی پرورش کی جاسکے۔
بعض حلقوں نے قرارداد مقاصد کو پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کی سیاسی ضرورتوں سے باندھ کر بھی پیش کیا ان کا خیال تھا کہ اس مسلم قومی تصور کی بنیاد پر لیاقت علی خان اپنے اقتدار کو دوام دینا چاہتے تھے لیکن سکیورٹی اسٹیٹ کے منصوبہ سازوں نے کام ہوجانے پر انہیں راستے سے ہٹادیا۔ بہرطور یہ حقیقت ہے کہ قرارداد مقاصد نے سوشل ڈیموکریٹ ریاست کے تصور کو دفن کردیا
اس کی جگہ مذہبی ریاست نے لے لی جو آگے چل کر ایک مخصوص ذیلی شاخ (عقیدے) کی بالادستی کا ذربعہ بن گئی۔ سادہ لفظوں میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ بٹوارے کے کھیتوں میں دو قومی نظریہ کا بیج اور قرارداد مقاصد کی کھاد ڈال کر گلابوں کی فصل تو نہیں اگنی تھی
جو فصل اگی کٹی فروخت اور استعمال ہوئی اس کے اثرات زندگی کے تمام شعبوں پر نمایاں ہیں۔
مثلاً مطالعہ پاکستان، تعلیمی نصاب، تاریخ ان تینوں سے 75برسوں میں ارتقا کی بجائے تنزلی مقدر ہوئی۔ آپ مطالعہ پاکستان، تعلیمی نصاب اور تاریخ سے ملے ہیروز کو دیکھ لیجئے، غوری، غزنوی ، ابدالی ان میں سے ایک کا تعلق بھی یہاں سے نہیں ہے۔ پڑھائی جانے والی تاریخ کا بھی اس خطے سے کوئی تعلق نہیں۔
یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ سکیورٹی سٹیٹ کے منصوبہ سازوں اور تجربہ کاروں نے ہر وہ کام کیا جس کی بدولت اس ملک میں آباد لوگ اور نئی نسلیں اپنی سرزمین اس کی حقیقی تاریخ و تہذیب سے نہ جڑنے پائیں۔
چار فوجی حکومتوں کے مصائب بھرے ادوار کا ذکر ہی کیا۔ آپ دیکھ لیجئے کہ شراکت داری اور جمہوریت کے نام پر مینجمنٹ کے ذریعے اقتدار میں لائی گئی حکومتوں نے بھی بالادست اشرافیہ کی خوشنودی کو مقدم سمجھا۔
ہمارے ہاں کبھی سندھ، خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے ترقی پسندانہ سیاسی شعور کی مثالیں دی جاتی تھیں۔ پھر کیا ہوا ایسے اقدامات ریاست کی سرپرستی میں ہوئے کہ اب ان صوبوں میں بھی جو ہے وہ سب کے سامنے ہے۔
رہ گیا صوبہ پنجاب تو اس میں اب جو کڑواہٹ پھل پھول رہی ہے اگر یہ تین چار عشرے قبل پھلی پھولی ہوتی تو منظر نامہ کچھ اور ہوتا۔
ایک ایسا خطہ جو روشن فکر قدیم قومی تاریخی اور تہذیبی ورثوں کا امین تھا اس پر مسلط کی جانے والی یک قومیت کو گو اسلام اور نظریہ پاکستان کے ساتھ قرارداد مقاصد کی ڈھالیں فراہم کی گئیں اس کے باوجود سوال اٹھانے والے اب بھی سوال اٹھاتے ہیں۔
فرقہ واریت اور جہادی کاروبار شروع ہی اس لئے ہوئے کہ ترقی پسند سماج اور نظام کے لئے جدوجہد کرنے والوں کی راہ کھوٹی کی جاسکے۔
ہمارے ہاں ہر نئی فہم اور جدید ایجاد اول اول یہودوہنود کی سازش ٹھہری۔ کبھی لائوڈ سپیکر سے شیطان بولتا تھا۔ پرانی بات ہے جب پرنٹنگ پریس کو سازش قرار دیا گیا۔
اس طرح کی درجنوں مثالیں ہیں۔ تصویر کشی بت پرستی قرار پائی تھی۔ اب انہی فتویٰ فروشوں کے وارث تصاویر اتروانے کے لئے خصوصی اہتمام کرتے ہیں۔
یہ سطور لکھتے ہوئے ایک مرحوم خطیب جمعہ و پیش نماز یاد آرہے ہیں (اللہ تعالیٰ ان کی لغزشوں کو معاف فرمائے) جب ٹیلی ویژن آیا تو جمعے کے خطے میں فرمایا کرتے تھے
’’ٹیلی ویژن کے ذریعے نامحرموں کو آپ کے زنان خانے میں داخل کردیا گیا ہے یہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف گہری سازش ہے‘‘۔ عزیز جاں بزرگ دوست عبدالرزاق جاموٹ کے حکم کی تعمیل میں یہی بالائی سطور لکھی جاسکیں۔ پھر کسی کالم میں تفصیل کے ساتھ ایک ایک کر کے ان سارے ریاستی تجربوں پر عرض کروں گا جن کی وجہ سے آج 25 کروڑ کی آبادی والا ملک "حالوں بدحال” ہے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر