رسول بخش رئیس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سنا ہے کہ جوں جوں زندگی کا گھوڑا تیز رفتاری سے سفر طے کرتا آخری منزلوں کی طرف بڑھتا ہے‘ پرانی یادیں تنہائیوں میں ایک اثاثہ ثابت ہوتی ہیں۔ تجربات اور جینے کے سلیقے ہر انسان کے مختلف ہوتے ہیں۔ ہر کوئی اپنے پیشے‘ معاشرت اور کاروبارِ زندگی کے محدود دائروں میں وقت گزارتا ہے ۔ ہمارا تعلق اس قبیلے سے ہے جو ہر جگہ‘ ہر رنگ اور ہر حال میں خوش رہتا ہے۔ ماضی‘ حال اور مستقبل کو ایک تسلسل کے ساتھ دیکھتے ہوئے جو کچھ ملا‘ جو میسر آیا‘ اس پر قناعت اور شکر ادا کرتے ہیں۔ جب اپنی نسل کے لوگوں‘ اپنے دوستوں کو دیکھتا ہوں جو کالج اور جامعہ میں میرے ساتھ تھے‘ انہوں نے ملک میں رہتے ہوئے بہت آسودگیاں‘ آسانیاں اور بے حد خوشحالی پائی ہے۔ سب کچھ پانے کے باوجود زمانے اور خود اپنی ذات سے شکایتیں بھی ان کے رویوں میں راسخ ہوتی دیکھی ہیں۔ ہماری نظر فوراً ان کے ماضی بعید کی طرف جاتی ہے‘ کچھ غور سے اُن ادوار میں جھانکتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ چہروں اور زبان پر مایوسی کی کیفیت ہمارے اوسط طبقے کے ذہنی رجحان کی علامت کے سوا کچھ نہیں۔
شکر کرنے کی عادت ہو‘ جو زبان تک محدود نہ رہے‘ دل میں اُتر جائے تو بے کیف‘ بے لطف لمحے بھی افسردہ روحوں کے لیے تازگی کا سامان فراہم کر دیتے ہیں۔ اپنے اچھے حالات کے باوجود خواہ مخوا خود پر مایوسی طاری کیے رہنے والوں کو میں نے بے سکون اور خود سے بیگانہ دیکھا ہے۔ خود شناسی کے عمل کی ابتدا میرے خیال میں تحدیثِ نعمت سے ہوتی ہے۔ اکثر میں امریکہ میں زندگی کے کئی سال گزارنے کا ذکر صرف تقابلی جائزے کے لیے کرتا ہوں۔ اگر وہ زندگی اچھی لگتی تو یہاں رہنے کے بجائے وہاں کہیں یہ دن گزار رہا ہوتا۔ وہاں لاکھ وسائل سہی‘ اپنا ملک اپنا ہی ہے۔ وہاں کی بات اس لیے کر رہا ہوں کہ چالیس برسوں کے دوران دس برس وہاں گزارے تو بے شمار لوگوں سے ملنا ہوا‘ ابھی تک وہاں دوست موجود ہیں۔ اپنے ملک اور دیگر ممالک میں بھی ہماری ملاقاتیں رہیں اور اب بھی ہو جاتی ہیں‘ کسی کو میں نے شکایت کرتے نہیں دیکھا۔
ایک انتہائی قریبی دوست ہیں۔ ہم وہاں جامعہ میں اکٹھے پڑھتے تھے۔ اس نے ڈاکٹریٹ کی ڈگری کے لیے سات سال لگائے‘ کورسز کیے‘ میری طرح وہاں استاد بھی رہے‘ آخری امتحان جو سب سے مشکل ہوتا ہے‘ پاس کر لیا اور اپنا مقالہ پیش کیا تو ہمارے اساتذہ نے رَد کر دیا۔ ان دنوں میں بھی وہیں تھا۔ ایک اور استاد کو وہ مقالہ دیکھنے کی درخواست دی۔ اس نے بھی کہا کہ یہ منظور نہیں ہو سکتا۔ آخر کار بغیر ڈگری لیے وہاں سے رخصت ہوئے۔ اب تو وہ کیلے فورنیا کی ریاست کے ملازم کے طور پر ریٹائر بھی ہو چکے ہیں۔ ان چالیس برسوں میں مَیں نے کبھی انہیں شکایت کرتے نہیں دیکھا۔ ہماری دوستی کا آپ اس سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ وہ مجھے ملنے کے لیے خصوصی طور پر پاکستان آئے تھے۔ کئی اور وہاں کے دوست ہیں جو وہ نہ بن سکے جو بننا چاہتے تھے مگر جو بن پائے‘ اس پر خوشی اور قناعت کی زندگی گزاری۔
طالب علمی کے زمانے میں ہم سب غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارتے تھے لیکن بہت خوش تھے۔ کبھی پیسے کا سوچا تک نہیں تھا۔ ہم اپنی روایت اور تہذیب کے حوالوں سے ایثار اور بانٹ کر کھانے کی بات اکثر سنتے اور پڑھتے ہیں۔ وہاں لوگوں میں یہ جذبے خلوص کی کئی تہوں میں لپٹے دیکھے اور محسوس کیے ہیں۔ مجھے کبھی وہاں کوئی اجنبیت محسوس ہوئی نہ رنگ اور مذہب کی بنیاد پر کسی تفریق کا احساس ہوا۔ ہم اپنے گھروں میں دعوتیں کرتے‘ سب لوگ آتے اور یہ رونقیں تعلیم کے ان مشکل برسوں میں بھی جاری رہتیں۔ ایک تہوار‘ جس سے میں بہت متاثر ہوا‘ وہ ان کا قومی سطح پر بھرپور طریقے سے منایا جانے والا یومِ تشکر ہے جس کے لیے ہر سال نومبر کی چوتھی جمعرات مقرر ہے۔ اینڈریو کاچ ہمارے دوستوں میں سے ہیں‘ جو بعد میں ایک یونیورسٹی کے پروفیسر ہو گئے۔ وہ ہر سال یومِ تشکر کے ڈنر کا اہتمام کرتے۔ اس موقع پر تقریباً ہر گھر میں ٹرکی یا فیل مرغ تنور میں روسٹ کیا جاتا ہے۔ مکئی کے بھٹے اُبالے جاتے ہیں اور شکر قندی کے کئی انوکھے پکوان تیار ہوتے ہیں۔ حلوہ کدو اور سیب کی پائی بھی یومِ تشکر کے کھانوں کا حصہ ہوتی ہے۔ میں نے اپنے طور پر یومِ تشکر کی روایت کو جزوی طور پر برقرار رکھا ہے کیونکہ میری اس تہوار سے طالب علمی کے زمانے کی یادیں وابستہ ہیں۔ لیکن یہاں میں فیل مرغ کہاں تلاش کرتا پھروں‘ اب یہ تردد نہیں ہو سکتا‘ اس لیے ہم مکئی کے بھٹوں‘ حلوہ کدو اور شکر قندی سے ہی کام چلا لیتے ہیں۔ امریکی یومِ تشکر اس لیے مناتے ہیں کہ خداوند نے ان کو اپنے رنگوں میں رنگا ہے‘ فصلیں اچھی ہوئی ہیں‘ جان و مال محفوظ رہے ہیں‘ بھوکے نہیں مرتے‘ کھانے کے لیے سب کچھ موجود ہے۔ غریب ہو یا امیر‘ ہر شخص ایک ہی جذبے سے یومِ تشکر مناتا ہے۔ اس کے اگلے روز کی بات میں اس لیے نہیں کر رہا کہ آپ سوچ میں پڑ جائیں گے کہ یہ ”بلیک فرائیڈے‘‘ کیا ہوتا ہے؟ اس دن بڑے بڑے سٹوروں پر نصف سے بھی کم قیمت پر اشیا دستیاب ہوتی ہیں۔ایک پیچیدہ صنعتی اور شہری معاشرے میں تہوار اور چھٹیاں زندگی میں ترو تازگی لانے کا موثر اور عمدہ طریقہ ہیں۔ میرے نزدیک تو ہر دن یومِ تشکر کے طور پر منایا جائے‘ صرف اپنی ذات اور اپنے لیے۔ ہر صبح کا آغاز تشکر سے ہو‘ اور نیند کی وادی میں کھونے سے پہلے بھی اگر شکر کر لیا جائے تو دنیا کی تمام دولت سمٹ کر آپ کے دامن میں سما جاتی ہے۔ اس بارے میں کوئی وعظ و نصیحت نہیں کر رہا بلکہ اچھی زندگی گزارنے کی ایک سچائی کا ذکر مقصود ہے جس کا ذکر ہر مذہب کے لوگ اور خوشگوار زندگی کا درس دینے والے جدید ماہرینِ نفسیات سے لے کر درویش بھی کرتے رہتے ہیں۔ ہمارے معاشرے کا سب سے بڑاسماجی المیہ دوسرے کی رکابی میں جھانکنے اور اپنی میں کم ہونے کا شکوہ کرنے کی عادت ہے۔ مقابلے بازی میں حسد کے سوا اور کیا ہوگا۔ خود اگر آپ کو گرد و پیش میں انسانوں کے رویوں کو دیکھنے کا موقع ملا ہے تو آپ محسوس کریں گے کہ ہمارے اکثر لوگوں کی ہمہ وقت رنجیدگی کے اسباب اپنی ذات میں کمزوریاں اور زندگی میں ناکامیاں تلاش کرنے میں ہیں۔ شکر کریں بہت کچھ ہمارے پاس ہے۔ اکثر ایسے خیالات مجھے اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں کہ اگر آپ کے سر پر چھت ہے‘ صاف پانی میسر ہے‘ کچھ کھانے کے لیے ہے اور گہری نیند سو کر صبح بیدار ہوتے ہیں تو آپ سے زیادہ اور کون خوش قسمت ہوگا۔ ہم خود اپنا شمار ان خوش قسمتوں میں کرتے ہیں۔ اگر امریکی ایک تہوار سالانہ مناتے ہیں اور بہت سے دیگر ممالک نے بھی اس روایت کو اپنا لیا ہے تو ہم صرف اتنا ہی کر لیں کہ شکر گزاری کو ”آپ کا شکریہ‘‘ تک محدود نہ کریں بلکہ اپنی سوچ اور روح کے نہاں خانوں میں اس کی جگہ بنا لیں۔ تہوار بھی ضروری ہیں۔ دوستوں کے ساتھ مل کر بیٹھنے‘ ہنسنے‘ ہنسانے اور مل کر کھانے میں جو لطف میں نے محسوس کیا ہے‘ اس کی خواہش بار بار پیدا ہوتی ہے۔ یہ بھی تشکر کی صورتیں ہیں۔ اس میں ایثار بھی ہے‘ قناعت بھی اور تشفی اور سکون بھی۔ مقابلے بازی اور مسابقت سے ہمارا تو ہمیشہ دل گھبراتا ہے۔ ایسے رویوں سے دور رہتے ہیں۔ اپنے حال میں خوش رہنے والوں سے دوستی اور محبت پر ہم سپاس گزار ہیں۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر