حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بحث یہ ہورہی تھی کہ صحافت اب بلیک میلنگ اور میڈیا منیجری بن چکی ہے۔ اس دوران انگنت مثالیں اور شواہد دیئے گئے۔ میرا کہنا تھا کہ پہلے یے طے کرلیجئے کہ کیا کوئی شخص اپنے سماج کے عمومی رویوں اور مزاج کے اثرات قبول کئے بغیر آگے بڑھ سکتا ہے؟ دوستوں نے مجھے حیرانی سے دیکھا۔ حالانکہ حیرانی والی بات نہیں تھی ۔
وہ وقت ہوا ہوئے جب صحافت کے کوچے میں اترنے والے سماج سدھاری اور سیاسی ارتقا کے اپنے فہم کے ساتھ اترے تھے۔
معاف کیجئے گا یہ 1985ء سے قبل کی بات ہے۔ قبل از 1985ء کی صحافت میں اِکادُکا مثالیں ہوں گی زرپرستی، میڈیا منیجری اور بلیک میلنگ کی کی لیکن 1985ء کے بعد اولاً اولاً ہلکی پھلکی بونداباندی ہوئی وقت گزرنے کے ساتھ سیلاب آگیا۔ ضمنی سوال جو دوستوں کے سامنے رکھا وہ یہ تھا کہ کیا کمرشل ازم نے نظریاتی صحافت کا "دم پخت” کیا یا اس کی چند اور وجوہات بھی ہیں؟
ایک دوست بولے تمہاری رائے کیا ہے۔ عرض کیا نظریاتی صحافت کی جگہ گٹر صحافت نے اس دن جنم لیا جب اخبارات اور بعدازاں ٹی وی چینلز نے حصص اور سکیورٹی کے نام پر پیسے لے کر صحافیوں کی ’’بھرتی‘‘ شروع کی۔ لیکن اس سے پہلے ہمیں یہ ضرور دیکھ لینا چاہیے کہ کیا میڈیا ہائوسز نے حسب قابلیت و کارکردگی حق خدمت دیا؟ یہ سوال بہت اہم ہے۔
ہمیں پیچھے مڑ کر ان ماہ و سال میں جانا ہوگا جب نیشنل پریس ٹرسٹ کے اخبارات موجود تھے۔ صحافتی یونینوں کی اصل قوت ان اخبارات کے ورکرز تھے ان کے بل بوتے پر ہی ویج بورڈ ایوارڈ کا نفاذ ہوتا تھا۔ نجی شعبہ کے مالکان این پی ٹی (نیشنل پریس ٹرسٹ) کے اخبارات کی اس طاقت سے بیزار تھے۔ مرحلہ وار دو کام کرائے گئے پہلے نیشنل پریس ٹرسٹ کے اخبارات کی نجکاری و کریا کرم اگلے مرحلے پر صحافتی یونینوں کی جگہ پریس کلبوں کو لایا گیا۔
ہر دو مواقع پر ماسوائے چند افراد کے کسی نے بھی نہیں کہا کہ این پی ٹی کے اخبارات کی ورکرز طاقت ختم ہوئی تو میڈیا ہائوسز بیگار کیمپ بن جائیں گے۔ صحافتی یونین غیرموثر کرکے پریس کلبوں کو مین سٹریم میں لانے سے صحافتی جدوجہد کا کلچر تبدیل ہوجائے گا۔
کارکن صحافی جدوجہد کی بجائے مراعات کے حصول کے پیچھے دوڑیں گے۔ کم از کم پچھلے 20 برسوں کی صحافت، آزادی اظہار، صحافیوں کے مطالبات و خواہشات کا سنجیدگی کے ساتھ تجزیہ کیجئے دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہوجائے گا۔
یہ تصویر کا ایک رخ ہے، دوسرا رخ یہ ہے کہ صحافت کے کوچے سے شخصیات، اداروں، محکموں اور سیاسی جماعتوں کے لئے میڈیا منیجرز اور مخبر اُٹھے چھوٹی چھوٹی خواہشات کے اسیر
ان خواتین و حضرات کی اپنی ہی ایک تاریخ اور مقام ہے۔
اصل بات جو ہم نظرانداز کردیتے ہیں وہ یہ کہ آزادی صحافت کبھی حقیقت میں آزادی اظہار کے حق کا نام تھی لیکن پھر اسے اخباری کاغذ کا کوٹہ، سرکاری اشتہارات و مراعات، سرکار کے غیرملکی دوروں میں شمولیت کے لئے بھاگ دوڑ کے ساتھ ورکنگ جرنلسٹ کا کردار ختم کرنے کی سوچ کھاگئی۔
اب مالک چیف ایڈیٹر اور بیٹا ایڈیٹر ہونے لگے۔ دوسروں کو موروثیت کے طعنے مارنے والوں کے گھروں میں "سجادگی” بٹنے لگی۔
اس عرصہ میں پولیس اور خفیہ ایجنسیوں نے اپنے سکہ بند مخبروں کو صحافی کے طور پر مسلط کردیا۔ یہاں ساعت بھر کے لئے رکئے۔ میڈیا منیجری پہلے آئی یا مخبری؟
اس پر سر کھپانے کی بجائے اس پر غور کیجئے کہ میڈی منیجری کی آڑ میں سیاسی تاریخ اور واقعات کو مسخ کرنے کی جو دوڑ شروع ہوئی اس سے حاصل وصول کیا ہوا۔
اس لئے مناسب یہی ہے کہ صحافیوں کو بلیک میلر، میڈیا منیجر، ٹوڈی وغیرہ قرار دینے سے قبل سماج کے عمومی رویوں پر ٹھنڈے دل سے غور کرلیا جائے۔
میری بدقسمتی ہے کہ میں اب بھی یہ سمجھتا ہوں کہ صحافی کی جو تعریف پی ایف یو جے نے اپنے دستورالعمل میں کی ہے وہی درست ہے۔ یعنی صحافتی خدمات کی تنخواہ اور اپنے ادارے سے ملی قانونی مراعات پر زندگی بسر کرنے والا صحافی ہے۔
البتہ یہ سمجھنے کی ضرورت ضرور ہے کہ خاندان کی معاونت کے لئے سائیڈ بزنس اور دھونس کے ساتھ اِدھر اُدھر سے وصولیاں کرنے میں بہت فرق ہے اور مخبری کی قیمت وصول کرنا اس سے بھی زیادہ فرق ہے۔
کم از کم مجھے اس بات سے کبھی انکار نہیں ہوا کہ صحافی کی پسندوناپسند سیاسی و سماجی حوالوں سے نہیں ہونی چاہیے۔ یہ فطرت سے متصادم ہوگا پسندوناپسند کا نہ ہونا۔
میں اس امر پر بھی یقین کامل رکھتا ہوں کہ قلم مزدوری کرتے وقت مذہب اور عقیدہ کی چھاپ سے محفوظ رہنے کی ضرورت ہے۔ صحافی کا مذہب عقیدہ اور سیاسی فہم ہونا غلط نہیں صحافت کا مذہب و عقیدے اور سیاسی فہم نہیں ہوتے اس کے پیش نظر انسانی سماج، روایات، عدل و انصاف، مساوات اور اپنے حصے کا سچ بہرطور رہنا چاہیے۔
افسوس کہ ہمارے ہاں ہوتا اس کے برعکس ہے۔ مثال کے طور پر ہمارے کچھ ہم عصر کبھی اس بات پر ناراض ہوتے تھے کہ پیپلزپارٹی سے نرم گوشہ کیوں؟ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس وقت ان میں اکثر یا تو سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کو خدا کا ’’انعام‘‘ سمجھتے تھے یا دائیں بازو کی ان جماعتوں کو جو سیکولرازم ، پیپلزپارٹی اور قوم پرستی کی کھلی دشمن ہی نہیں تھیں بلکہ ان تینوں کو اسلام اور پاکستان کے خلاف یہودوہنود کی سازش قرار دیتے تھے ان کے خیال میں آئی ایس آئی کی چھتر چھایہ میں بننے والا اسلامی جمہوری اتحاد درست تھا اور آئی جے آئی سے باہر کی جماعتیں بھٹکے ہوئے لوگوں کا "اجماع” ۔
آج کل ہمارے کچھ نوجوان دوستوں کے نزدیک صرف تحریک انصاف حق ہے اور عمران خان درست باقی سب غلط ہیں۔ ان دوستوں میں سے اکثر الجھ بھی پڑتے ہیں۔ میری دانست میں سیاست میں حق و ناحق نہیں درست و غلط ہوتا ہے۔
ہمیں سیاسی جماعتوں کے منشور، عمل اور طرز حکمرانی کا تجزیہ کرکے رائے دینے کا حق ہے، کفرواسلام کی فتویٰ گیری کا نہیں۔
ہمارے ہاں سیاست سیکورٹی اسٹیٹ میں ہورہی ہے ظاہر ہے صحافت بھی یہیں اسی ماحول میں ہی ہوتی ہے قرینے سلیقے سے بات کرنے کا ڈھنگ راستہ نکالنے میں معاون بنتا ہے۔
میرے بہت سارے دوست ناراض ہوتے ہیں جب میں کہتا ہوں کہ شعوری یا غیرشعوری طور پر عمران خان کے خلاف لائی گئی تحریک عدم اعتماد نے اسٹیبلشمنٹ کو محفوظ راستہ دیا۔ یا یہ کہ نصف صدی کی جدوجہد سے اسٹیبلشمنٹ جو آٹھ دس قدم پیچھے ہٹی تھی 9 مئی کی حماقت نے اسے ایک سو پچاس قدم آگے بڑھ کر اپنی گرفت مضبوط کرنے کے مواقع عطا کئے۔
لاریب میری رائے الہامی نہیں چار اور کے حالات و معاملات اور دیگر امور کے تجزیہ سے عبارت ہے۔ ہم اس پر مکالمہ اٹھا سکتے ہیں۔ اختلاف رائے کے اظہار کا باوقار طریقہ یہی ہے۔
کالم کے اس حصے میں ہم میڈیا منیجری اور ڈنڈی مارنے پر بات کرلیتے ہیں۔ میڈیا منیجری میں توازن برقرار رکھنا اصل ہنر ہے لیکن کڑوا سچ یہ ہے کہ توازن قائم نہیں رہتا ڈنڈی مارنا دوسرے درجہ کی میڈیا منیجری ہے یہ کرتے ہوئے کوئی بھی پورا سچ نہیں لکھ پاتا بلکہ آدھا اور چوتھائی سچ بھی نہیں۔
ڈنڈی ممدوح جماعت اور شخصیت کے حق میں ماری جاتی ہے۔ اسے دیوتا بناکر پیش کیا جاتا ہے۔
انسان بنیادی طور پر دیوتا ساز ہے وہ اپنے اچھے برے معاملات، فیصلوں اور نتائج کو قسمت، قدرت اور دیوتائوں کے فیصلوں کی فہم کے پیچھے چھپاتا ہے۔
بالائی سطور کے پہلے لفظ سے یہاں تک کی سطور انتہائی خشک ہیں۔ مجھے توقع نہیں کہ اس کالم کو زیادہ لوگ پڑھیں وجہ یہی ہے کہ چاٹ مصالحے کا چٹخارا جو نہیں ہے۔ اصل میں ہم ایک چٹخارا پرست ہجوم کا حصہ ہیں۔
بہرطور عرض یہ کرنا چاہ رہا ہوں کہ سیاسی و سماجی ارتقا کا سوا ستیاناس کرنے میں اہل صحافت کا بھی بے پناہ حصہ ہے۔ دامن نچوڑدوں تو فرشتے وضو کریں، والی صورت تو مذہبی حلقوں کی بھی نہیں دوسرے شعبوں کی کیا ہوگی۔
کالم کے دامن میں گنجائش ختم ہونے کو ہے پھر کسی دن اس موضوع پر مزید بات کریں گے فی الوقت یہی کہ ہم میں سے کسی کو بھی دوسرے کو طعنہ دینے سے قبل اپنے گریبان میں ضرور جھانک لینا چاہیے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر