دسمبر 23, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

سندھ کا مقدمہ اور پیپلز پارٹی||عامر حسینی

پی پی پی کے لیبر، کسان ، نوجوان اور طلباء ونگز بدترین نظریاتی زوال کا شکار ہیں کیونکہ مدر پارٹی کی تنظیمیں نیولبرل ڈیموکریسی کے حامیوں سے پُر ہیں - اب نہ تو جی ایم سید کبھی بھٹو کی محبت میں مبتلا ہوئے اور نہ ہی ہمارے رسول بخش پلیجو مرحوم ۔ جی ایم سید تو بھٹو کی پھانسی کے بعد ایم آر ڈی کی تحریک میں بھی شامل نہیں ہوئے الٹا ضیاء الحق سے ان کے تعلق کافی گہرے ہوئے۔ وہ ضیاء الحق سے ملے بھی ان کی ضیاء الحق رجیم سے قربت کے سبب جئےسندھ محاذ دو ٹکڑوں میں بٹ گئی تھی اور ان کے  کئی دیرینہ ساتھی الگ ہوکر ایم  آر ڈی میں شامل ہوگئے۔

عامرحسینی 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

روزنامہ جنگ میں مظہر برلاس نے سندھ کے ثقافتی دن کے موقع پہ “سندھ کا مقدمہ” کے عنوان سے سلسلہ وار
کالم لکھنے شروع کیے. ان کالموں میں انھوں نے پاکستان پیپلزپارٹی اور ذوالفقار علی بھٹو کے بارے میں پاکستان

 

کے پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کے اس روایتی ڈسکورس (کلامیہ) کی پروی کی جس کا بیانیہ کبھی تو

 

فرضی باتوں اور قصوں سے تشکیل پاتا ہے تو کبھی وہ بھٹو اور پی پی پی کی سیاسی پوزیشن کو مسخ کرکے
تشکیل پاتا ہے.
مظہر برلاس نے 4 جنوری 2022ء کو اس عنوان کے تحت لکھا
“اسٹیبلشمنٹ کے قریب ہونے کی وجہ سے بھٹو کو خبر ہو چکی تھی کہ اب حکمرانوں کے لیے ون یونٹ برقرار
رکھنا مشکل ہے۔ بھٹو، صدر پاکستان یحییٰ خان کے بہت قریب تھے۔ اس دوران بھٹو کی یحییٰ خان کے ساتھ انڈر

 

اسٹینڈنگ رہی، ذوالفقار علی بھٹو اسٹیبلشمنٹ کی پسند تھے۔”

 

پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو کی ایوب خان سے علیحدگی اور اس کے بعد 30 نومبر 1967ء کو پاکستان پیپلز
پارٹی کی تشکیل کو نہ تو ان کے جمہوریت پسند سیاسی مخالفین نے اسٹبلشمنٹ کے ساتھ گٹھ جوڑ کا نتیجہ قرار
دیا اور نہ ہی ان کی جیت کو “مشکوک” ٹھہرایا۔
اس حوالے سے تاریخ میں ہمیں ذوالفقار علی بھٹو اور مارشل لاء آمر یحیحی خان اور کئی ایک فوجی جرنیلوں
کے درمیان فرضی گٹھ جوڑ کی کہانی جی ڈبلیو چودھری نے گھڑی اور بہت کم کو یہ بات معلوم ہوگی کہ جب

 

 

65ء کی جنگ کے دوران ذوالفقار علی بھٹو کے ایوب خان سے اختلافات پیدا ہوئے تو ایوب خان کے قریب
پاکستان کی بے وردی اور باوردی بابوشاہی کا بڑا سیکشن بھٹو کے خلاف سازشوں میں لگ گیا.
اس سیکشن میں ایک نیا اضافہ جی ڈبلیو چودھری کا تھا جو ایوب خان کے چیہتے بیوروکریٹ الطاف گوہر کا جہیتا
تھا جس نے اسے تاشقند جانے والے وفد میں بھی بھجوایا تھا۔ جب مشرقی پاکستان الگ ہوا تو یہ جی ڈبلیو چودھری
تھا جس نے 1972ء میں دوبارہ شروع ہونے والے انگریزی ہفت روزہ رسالے “آؤٹ لک “کراچی کے لیے لندن
سے ایک آرٹیکل بھیجا جس میں اس نے ذوالفقار علی بھٹو پہ الزام عائد کیا کہ وہ ایوب خان مخالف فوجی لابی کی
طرف سے ایوب خان کے خلاف کھڑے کیے گئے تھے۔
یہ بات بھی مدنظر رکھنی چاہیے کہ جن پاکستانی باوردی اور بے وردی سرکاری بابوؤں نے مشرقی پاکستان کے
الگ ہونے میں قربانی کا بکرا “ذوالفقارعلی بھٹو” کو بنانے کی کوشش کی ان میں الطاف گوھر، سی اے قادر،

 

 

جی ڈبلیو چودھری، جنرل موسی خان، اے کے نیازی سمیت ایک نہ ختم ہونے والے ناموں کی بے انتہا لمبی فہرست
بن جائے گی۔

سلمان تاثیر کا قتل کس بڑی سازش کا حصہ تھا؟

دسمبر1970ء کے الیکشن کے دوران یحیحی خان آمریت نے الیکشن میں کسی منظم مداخلت کے زریعے کہیں بڑی دھاندلی نہ کی اور نہ ہی نتائج بدلوائے۔ اس کی ایک وجہ تو ایجنسیوں کی یہ رپورٹیں تھیں کہ ان الیکشنوں میں کسی ایک پارٹی کے پاس ھاری بھرکم اکثریت نہ ہوگی اور ایک معلق پارلیمنٹ یحیحی کی خواہشوں کے مطابق آئین سازی کرنے پہ مجبور ہوگی- پاکستان میں اردو اور انگریزی مین سٹریم پریس دونوں کا رویہ پاکستان پیپلزپارٹی اور ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف تھا اور اردو پریس تو پی پی پی ، نیپ اور عوامی لیگ کے سیاسی بیانیہ کو کفر اور غدار بیانییہ قرار دے رہا تھا۔ جنرل یحیحی کا وزیر اطلاعات جنرل شیر علی پٹودی جماعت اسلامی پاکستان اور اس کے امیر میاں طفیل کو اپنی آنکھ کا تارہ بنائے ہوئے تھے اور وہ پہلی بار “دو قومی نظریہ” پاکستان کے سیاسی اور تعلیمی نصاب نئی تعریف کے ساتھ لیکر آئے تھے۔ دایاں بازو،ملائیت، بڑے جاگیرار، سرمایہ دار سب کے سب تو پی پی پی اور بھٹو کے خلاف تھے اور اینٹی بھٹو پروپیگنڈا پھیلانے میں مصروف تھے۔

ذوالفقار علی بھٹو کی جیت کو سندھ میں  ان کے سب سے بڑے مخالف جی ایم سید نے کیسے دیکھا، “سندھ کا مقدمہ”
میں انھوں نے لکھا:

 

 

The only truly elected leader after Ayub Khan was Zulfiqar Ali Bhutto about whom I spoke in my speech at Dadu on January 17, 1972

“ایوب خان کے بعد حقیقی طور پہ سچے منتخب لیڈر ذوالفقار علی بھٹو تھے جن کے بار ے میں میں نے سترہ جنوری انیس سو بہتر دادو میں اپنی تقریر میں بات کی تھی”

http://www.gmsyed.org/case/saeen-book1-part7.html

چار جنوری کو شایع قسط میں مظہر برلاس بھٹو اور  جی ایم سید درمیان  ملاقا ت کے دوران ایک فرضی بات چیت بھی
گھڑ لی۔
“اقتدار ملنے کے بعد بھٹو، جی ایم سید سے ملنے گئے تو جی ایم سید نے انہیں مشورہ دیا کہ ’’اسٹیبلشمنٹ اب بھی سندھی مخالف لابی کے اثر میں ہے اس لیے یہ تمہیں استعمال کریں گے اور پھر ہمیشہ کیلئے خاموش کروا دیں گے…‘‘ بھٹو نے کہا ’’نہیں انکل ایسا نہیں ہوگا، پاکستان کو متحد رکھنے کیلئے میں ان کی ضرورت ہوں، آپ فکر نہ کریں…‘‘ اس پر جی ایم سید بولے …’’ بیٹا! تمہارے ڈومیسائل میں مسئلہ ہے، جونہی اسٹیبلشمنٹ طاقتور ہوگی، وہ تمہاری جان لے لیں گے…‘‘ اس ملاقات کے چند ماہ بعد جی ایم سید کو نظر بند کیا گیا، پھر جیل میں ڈالا گیا۔”
مظہر برلاس اگر “سندھ کا مقدمہ” اور اس میں جی ایم سید کی بھٹو کے حوالے سے لکھی باتوں کو پڑھ لیتے تو انھیں ان
کے درمیان فرضی  بات چیت کا قصّہ لیکر ہی نہیں آتے۔
جی ایم سد نے خود لکھا ہے کہ انھوں نے 17 جنوری 1972ء کو دادو کے جلسے میں تقریر کے دوران ذوالفقار علی بھٹو کے بارے میں جو باتیں کی تھیں اس کا اثر یہ ہوا کہ دادو کے ڈپٹی کمشنر کے زریعے ان کے ملٹری سیکرٹری  کا مراسلہ دیا جس میں ان سے کہا گیا تھا کہ وہ 22 فروری کو صدر پاکستان ذوالفقار علی بھٹو راولپنڈی میں ان سے ملاقات کریں گے۔ انیس جنوری 1972ء کو جی ایم سید نے تحریری جواب میں اپنی صحت کا بہانہ بناکر ملاقات سے معذرت ظاہر کرلی۔  جی ایم سید کے بقول پھر انھیں 2 مارچ 1972ء کو ذوالفقار علی بھٹو کے ملٹری سیکرٹری کا ٹیلی گرام ملا
M SYED HAIDER MANZIL PP NISHTAR PARK MUSLIM COLONY KARACHI-AUDIENCE WITH PRESIDENT FIXED FOR SUNDAY FIVE MARCH AT RAWALPINDI ( . ) REQUEST CONFIRMS YOUR AVAILABILITY-MILITARY SECRETARY.

اس ٹیلی گرام کا تذکرہ کرکے جی ایم سید اپنے راولپنڈی جاکر ذوالفقار علی بھٹو سے باقاعدہ ملاقات کا زکر نہیں کرتے نہ ہی بھٹو کو کسی قسم کی نصحیت کا زکر کرتے ہیں- بلکہ ایک ڈاکومنٹ ہمیں بتاتی ہے کہ جی ایم سید 1972ء تک تو ذوالفقار علی بھٹو کو “وفاق پاکستان” کے امکان کے لیے واحد امید قرار دے رہے تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے کہنے پہ بقول جی ایم سید ایک سرکاری مراسلہ وزرات خارجہ آفس سے ان کو بھیجا گیا جس میں ان سے دادو میں ان کی تقریر کے جوالے سے کچھ سوال پوچھے گئے تو جواب میں جی ایم سید نے ایک تو “سندھو دیش/ سندھ کو الگ کرنے اور اس کے لیے گوریلا فورس بنانے جیسے الزامات کی تردید کی اور فارن آفس کو لکھا کہ انھوں نے تو دادو کے جلسے میں بھٹو کو سندھ کے مسائل کے حل کے لیے آخری امید قرار دیا تھا۔ جی ایم سید نے خود بتایا کہ اصل میں بھٹو چاہتے تھے کہ جی ایم سید اندرا گاندھی سے جاکر دلّی میں ایک وفد کے ساتھ جائیں اور جنگی قیدیوں کی رہائی اور ہندوستان سے تعلقات معمول پہ لانے کے لیے راہ ہموار کریں –

 

 

جی ایم سید اور ذوالفقار علی بھٹو کے درمیان معاملات خراب کب ہوئے؟ جی ایم سید نے خود “سندھ کا مقدمہ” میں تفصیل سے لکھا ہے کہ سندھ میں سندھی کو رائج کرنے کے بل میں بھٹو صاحب نے جو ترمیم کرتے ہوئے اسے “دو زبانوں” اردو اور سندھی کے رائج کرنے کا بل بنادیا۔ انھوں نے اس معاملے میں اردو بولنے والوں کو بھی فریق مان لیا تو ان کے بھٹو اور پی پی پی سے یکسر راستے جدا ہوگئے۔

جی ایم سید اور ان کا قائم کردہ جئے سندھ محاذ اردو بولنے والے مہاجروں کو “سامراجی اردو برادری”قرار دے رہا تھا اور ان کو اس وقت وہ دوبارہ “پناہ گزینوں” کا اسٹیٹس قرار دینے کا مطالبہ کررہا تھا لیکن ذوالفقار علی بھٹو اور پی پی پی نے اس مطالبے کو ماننے سے انکار کردیا۔
دوسری طرف جماعت اسلامی سمیت دائیں بازو کی جماعتوں میں شامل اردو کمیونٹی کی اشرافیہ کا ایک بڑا حصّہ سندھ میں سندھی کو رائج کرنے کی سختی سے مخالفت کررہا تھا۔ اور یہ دونوں لسانیت پرست گروہ سندھ میں لسانی فسادات کرانے کا سبب بنے۔ اور جب ذوالفقار علی بھٹو نے اپوزیشن کو ساتھ ملاکر 1973ء کا آئین بنالیا تو جی ایم سید اور ان کے قائم کردہ جئے سندھ محاذ اور اس کا طالب علم ونگ دونوں نے سندھ کے علاقوں اور تعلیمی اداروں میں پی پی پی اور پی ایس ایف کے  خلاف پرتشدد کاروائیا شروع کردیں۔ مظہر برلاس کے بھٹو اور پی پی پی پہ الزامات انتہائی سطحی نوعیت کے ہیں اور ظاہر کرتے ہیں کہ ایک تو انہوں نے بچھے کچھے پاکستان میں “سندھ کے قومی سوال” پہ لسانیت و نسل پرست اپروچ کے ساتھ آگے آنے والے جی ایم سید اور مہاجر نسل پرستی اور اردو شاؤنسٹ لسانیت کے علمبرداروں کے مقابلے میں پی پی پی اور ذوالفقار علی بھٹو کی اپروچ کے درمیان واضح فرق کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی۔ وہ یہ بھی سمجھنے سے قاصر رہے کہ بھٹو اس لیے پھانسی کے پھندے تک نہیں پہنچے بکہ وہ اسٹبلشمنٹ یا پنجابی حکمران طبقے کے لیے سندھ ، سندھی زبان اور  سندھی کے عوام  کا سودا کرکے اسٹبلشمنٹ کو خوش کررہے تھے بلکہ وہ تو اپنی ترقی پسند، روشن خیال وفاق پاکستان کی تمام اکائيوں کو باہم برابری کے اصول کے تحت مل جل کر رہنے کی کوشش کررہے تھے۔ جی ایم سید اور ان کے ساتھی بھی بعد ازآں “اردو سامراجی برادری” جیسی اصطلاحوں سے دست بردار ہوگئے اور یہاں تک کہ اسٹبلشمنٹ کے زیر سایہ پروان چڑھنے والی ایک لسانی فسطائی جماعت کے ساتھ اشتراک بھی پیدا کرلیا۔

 

 

 

مظہر برلاس بھٹو سے محبت کرنے والوں مں جی ایم سید اور رسول بخش پلیجو کا نام بھی معراج محمد خان کے ساتھ شامل کردیتے ہیں :

 

“بھٹو سے محبت کرنے والوں میں جی ایم سید، رسول بخش پلیجواور معراج محمد خان کے علاوہ پوری این ایس ایف تھی مگر یہ رومانس وقت کے ساتھ ساتھ ختم ہوا۔”

 

اب نہ تو جی ایم سید کبھی بھٹو کی محبت میں مبتلا ہوئے اور نہ ہی ہمارے رسول بخش پلیجو مرحوم ۔ جی ایم سید تو بھٹو کی پھانسی کے بعد ایم آر ڈی کی تحریک میں بھی شامل نہیں ہوئے الٹا ضیاء الحق سے ان کے تعلق کافی گہرے ہوئے۔ وہ ضیاء الحق سے ملے بھی ان کی ضیاء الحق رجیم سے قربت کے سبب جئےسندھ محاذ دو ٹکڑوں میں بٹ گئی تھی اور ان کے  کئی دیرینہ ساتھی الگ ہوکر ایم  آر ڈی میں شامل ہوگئے۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ سندھی قوم پرستوں کے نزدیک ذوالفقار علی بھٹو  سندھی عوام، سندھ اور سندھی شناحت سے غداری کا مرتکب ہوا اور اس نے سندھ کے وسائل کی لوٹ مار کا بھی ذمہ دار بھٹو کو ٹھہراتا ہے تو دوسری طرف اردو نسل پرستی کے علمبردار بھٹو کو مہاجروں کا دشمن قرار دیتا ہے۔ پھر پاکستان کے مین اسٹریم میڈیا اس طرح کے جھوٹے پروپیگنڈے کو ایک باقاعدہ ڈسکورس کی شکل دیتا ہے۔ میرا مشورہ ہے مظہر برلاس کو کہ وہ بھٹو کے رجعت پرست متعصب مخالفین کی بھٹو پہ عوام دشمن تنقید کے کلیشوں کی جگالی کے وہ مزید مربوط مطالعہ کریں اور مربوط دقیق تنقید کے ساتھ میدان میں آئیں۔

یہ بھی پڑھیے:

ایک بلوچ سیاسی و سماجی کارکن سے گفتگو ۔۔۔عامر حسینی

کیا معاہدہ تاشقند کا ڈرافٹ بھٹو نے تیار کیا تھا؟۔۔۔عامر حسینی

مظلوم مقتول انکل بدرعباس عابدی کے نام پس مرگ لکھا گیا ایک خط۔۔۔عامر حسینی

اور پھر کبھی مارکس نے مذہب کے لیے افیون کا استعارہ استعمال نہ کیا۔۔۔عامر حسینی

عامر حسینی کی مزید تحریریں پڑھیے

(عامر حسینی سینئر صحافی اور کئی کتابوں‌کے مصنف ہیں. یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے ہے ادارہ کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں)

About The Author