مظہر اقبال کھوکھر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
90 روز میں انتخابات سے متعلق کیس کو نمٹاتے ہوئے سپریم کورٹ نے انتخابات کے لیے 8 فروری کی تاریخ مقرر کر دی ہے۔ عدالت نے اپنے حکمنامے میں کہا کہ صدر مملکت اور الیکشن کمیشن کی اعلان کردہ تاریخ کو بلا تعطل انتخابات کے انعقاد کو یقینی بنایا جائے۔ تمام تر انتظامات مکمل ہونے کے بعد الیکشن کمیشن انتخابی شیڈول جاری کرے گا۔ سپریم کورٹ نے اپنے حکمنامے میں یہ بھی کہا کہ اگر میڈیا نے انتخابات سے متعلق شکوک و شبہات پیدا کئے تو وہ آئین کی خلاف ورزی کے مرتكب ہونگے۔ کسی رپورٹر اور اینکر کو اجازت نہیں کہ مائیک پکڑ کر عوام کو انتخابات ہونے یا نہ ہونے کے متعلق گمراہ کرے۔ میڈیا انتخابات پر اثر انداز ہوا تو یہ آئین کی خلاف ورزی ہوگی۔
گو کہ اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد یہ انتخابات نومبر میں ہونے تھے۔ مگر اداروں کی جاری کشمکش کے نتیجے میں انتخابات تاخیر کا شکار ہوئے۔ مگر پھر بھی یہ بات خوش آئند ہے کہ انتخابات کی تاریخ کا اعلان کر دیا گیا اور یہ بات بھی خوش آئند ہے کہ سپریم کورٹ نے اس بات کی یقین دہانی کرائی ہے کہ انتخابات مقررہ تاریخ سے آگے نہیں جائیں گے۔ اور سپریم کورٹ نے انتخابات ہونے سے متعلق شکوک پیدا کرنے سے سختی سے روک دیا ہے۔ مگر نہایت ادب سے گزارش ہے کہ بے شک ہم انتخابات ہونے سے متعلق سوال نہیں اٹھا سکتے مگر انتخابات کے صاف شفاف اور غیر جانبدارانہ ہونے سے متعلق تو سوال اٹھا سکتے ہیں۔ کیونکہ اس وقت بہت سی سیاسی جماعتوں کی طرف سے لیول پلئنگ فیلڈ کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔ جن میں خاص طور پر پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان پیپلز پارٹی شامل ہیں۔ موجودہ صورتحال میں یہ تاثر ابھر کر سامنے آرہا ہے۔ کہ مختلف سرکاری اداروں کی طرف سے پاکستان مسلم لیگ نواز پر خصوصی نوازشات کی جارہی ہیں۔ خاص طور پر عدالتوں سے ملنے والے ریلیف اور نگران حکومت کی طرف سے ان کی سزائیں معطل کرنے کے فیصلے سے مستقبل کا نقشہ واضح ہو کر سامنے آرہا ہے۔ دوسری طرف نو مئی کی پاداش میں پوری پاکستان تحریک انصاف زیر اعتاب ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کسی بھی غیر قانونی سرگرمی یا جرم میں ملوث شخص کے خلاف سخت کارروائی ہونی چاہئے مگر اس کو جواز بنا کر پوری جماعت کے لیے جینا دوبھر کر دینا نا انصافی ہی نہیں بہت بڑی زیادتی ہے۔ اب صورتحال ہے یہ ہے کہ ایک طرف سرکاری وسائل کا بے دریغ استعمال ہو رہا ہے۔ اور دوسری طرف جلسہ ، کارنر میٹنگ تو کیا جھنڈا لہرانے پر بھی پابندی ہے۔ ایسی صورتحال میں جب تمام جماعتوں کو انتخابات میں حصہ لینے کے یکساں مواقع اور ایک ماحول اور میدان مہیا نہیں کیا جائے گا تو الیکشن کمیشن اور اداروں کی غیر جانبداری کس طرح برقرار رہ سکے گی ؟ اور الیکشن کی شفافیت کو کس طرح تسلیم کیا جا سکے گا؟
مگر ایسا پہلی بار نہیں ہو رہا پاکستان میں انتخابات کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ انتخابات بعد میں ہوتے ہیں مگر اس کے نتائج پہلے معلوم ہوجاتے کہ الیکشن کس نے جیتنے ہیں اور حکومت کس نے بنانی ہے۔ اس لیے انتخابات کی شفافیت پر ہمیشہ سے سوال اٹھتے رہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ بھی سیاستدان عوام کے ووٹ کی طاقت سے کہیں زیادہ اسٹیبلشمنٹ کی بیساكهییوں کو اہمیت دیتے ہیں۔ اس وقت موجودہ سیاسی جماعتوں میں کوئی ایک جماعت بھی ایسی نہیں جس نے اسٹیبلشمنٹ کے گملے میں جنم نہ لیا ہو یا اس کی چھتر چھاؤں تلے پلی بڑھی نہ ہو۔ مگر المیہ یہ ہے کہ ہمارے سیاستدان زخم خوردہ ہو کر بھی اقتدار کی ہوس کسی بھی وقت مہرہ بننے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ جب انہیں اقتدار سے دھکے دے کر نکال دیا جائے تو کہتے ہیں ہمارے سینے میں بہت راز ہیں۔ تم کہیں منہ دکھانے کے قابل نہیں رہو گے مگر جب ڈیل ہوجائے معاملات طے ہوجائیں تو تعریفوں میں زمین آسمان کی قلابیں ملا دیتے ہیں۔ پاکستان میں جمہوریت کی ناکامی اور کمزوری کی سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں اسٹیبلشمنٹ کی مرضی کے بغیر نہ تو حکومتیں بن سکتی ہیں اور نہ ہی چل سکتی ہیں مگر اسٹیبلشمنٹ کی سہولت کاری میں سیاستدانوں کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا جب تک ہمارے سیاستدان عوام کی طاقت کو اپنی طاقت بنانے کے بجائے طاقتوروں کا طواف کرتے رہیں گے اس وقت تک اس ملک میں شاید انتخابات بھی ہوتے رہیں اور حکومتیں بھی بنتی رہیں مگر اس ملک میں حقیقی جمہوریت کبھی بھی قائم نہیں ہوسکتی. یہی وجہ ہے 70 سال سے جمہوریت کے نام پر انتخابات تو ہو رہے ہیں مگر آج تک حقیقی جمہوریت قائم نہیں ہو سکی۔ مگر اس کے باوجود دیکھنا یہ ہے انتخابات کے لیے اعلان كرده 8 فروری کی تاریخ کو اس ملک میں صاف شفاف اور غیر جانبدارانہ انتخاب اور حقیقی جمہوریت کے قيام کی ایک نئی تاریخ رقم ہوتی ہے یا پھر ڈیل ڈول اور مک مکا کے زریعے لولی لنگڑی جمہوریت کی روایتی تاریخ دہرائی جاتی ہے۔ مگر یہ بات نہیں بھولنی چاہئے کہ عوام کی مرضی اور طاقت کے بغیر اس طرح کی حکومتیں بن تو جاتی ہیں مگر چل نہیں پاتیں۔
منجھلے بھائی جان کی صحافت۔۔۔ وجاہت مسعود
ایک اور برس بڑھ گیا زیاں کے دفتر میں۔۔۔وجاہت مسعود
وبا کے دنوں میں بحران کی پیش گفتہ افواہ۔۔۔وجاہت مسعود
اِس لاحاصل عہد میں عمریں یونہی ڈھلتی ہیں۔۔۔وجاہت مسعود
اے وی پڑھو
تانگھ۔۔۔||فہیم قیصرانی
،،مجنون،،۔۔۔||فہیم قیصرانی
تخیلاتی فقیر ،،۔۔۔||فہیم قیصرانی