عاصمہ شیرازی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہار رخصت ہوئی اور پھر خزاں ہے۔ موسموں کے اثرات بھی کیا رنگ دکھاتے ہیں۔ بے مہر شامیں، بے نور صبحیں اور بے رنگ موسم، عجب سا ماحول بنا رہے ہیں۔ باہر کی دنیا سے دل کے موسم تک سب لہو لہو ہے۔
دُنیا تیسری جنگ کے دہانے پر کھڑی ہے، آگ اور بارود کا کھیل جاری ہے، جس کی لاٹھی ہے وہ بھینس ہانک رہا ہے۔ اسرائیل تسلط کا خواب لیے کئی تعبیریں اُجاڑ رہا ہے۔ بس نوحہ کُناں لب فقط التجا کر رہے اور امن کہیں روٹھ چکا ہے۔
یہ مکتوب آج کا ہے اور کل کے لیے تاریخ کا حصہ ہو گا، آج کا نوحہ ہے کل کا پچھتاوا کہلائے گا، آج کا غم ہے اور کل کی ٹیس بن جائے گی۔
ہم ارض پاکستان کے باسی ایک اور ہجرت دیکھ رہے ہیں۔ سرد علاقوں سے اُڑ کر ہم گرم ریگزاروں میں بسنے والوں کے پاس پرندے ٹھہرنے کو آ چکے ہیں مگر یہ کیا کہ یہاں دہائیوں سے بسنے والے پنچھی اب سرد علاقوں میں واپس جانے پر مجبور ہیں۔
افغان بھائیو اور بہنو! ہم نے تم سے مہر و وفا کچھ لینے کے عوض نہ کی تھی مگر تمہیں جانا ہی تھا۔ غم صرف یہ ہے کہ ہم بھیجتے ہوئے تمہارے ہاتھوں میں کچھ وفا اور سامان میں اشک نہ رکھ سکے۔ تمہارے چند ناعاقبت اندیشوں نے میزبانی کی کئی دہائیاں چھلنی جھولی میں ڈال دی ہیں۔ بس اب جا ہی رہے ہیں تو ماضی کی محبتوں کو دل کے قریب رکھنا اور نفرتوں کو کم کرنے کی کوشش کرنا۔
وطن عزیز میں انتخابات کا موسم بھی آ پہنچا ہے۔ چیف جسٹس صاحب نے درست تنبیہ کی کہ خبردار کوئی شک شُبے کا اظہار نہ کرے، انتخابات میں بے یقینی محسوس ہو تو بیوی سے چپکے سے کہہ دینا ٹی وی پر اظہار نہ کرنا مگر کیا کروں کہ جب سے تاریخ آئی ہے یہاں وہاں بدامنی کا ماحول ہے اور انتخابات کا ماحول ہی نہیں بن پا رہا۔ گوادر میں چودہ سکیورٹی اہلکار ہلاک، میانوالی بیس پر غیر معمولی حملہ آور ڈی آئی خان میں پولیس چوکیوں پر حملہ۔۔۔
ایسے میں انتخابات کیسے ہوں گے؟ لیول پلیئنگ فیلڈ کس کو ملے گی؟ کسی کو سیاسی طور پر جلسہ کرنے کی آزادی نہیں تو کوئی ان دہشت گردوں کی کارروائیوں کے ہاتھوں انتخابی مہم روکنے پر مجبور۔
تحریک انصاف کے ’محفوظ‘ سیاسی رہنماؤں کو پھر شاید کسی عدالت سے انتخابات اور مہم کا پروانہ مل جائے مگر دہشت گرد کسی پروانے کے تابع ہیں اور نہ اجازت درکار ہے۔ جمیعت علمائے اسلام جیسی مذہبی جماعت بھی اگر دہشت گردوں کے ہاتھوں فیلڈ میں نکلنے سے معذوری کا اظہار کرے اور پے در پے اُن کے رہنما حافظ حمداللہ اور باجوڑ میں کارنر میٹنگز نشانہ بنیں تو انتخابات کے لیے لیول پلینگ فیلڈ کسے دستیاب ہو گی۔
ان دہشت گردی کی کاروائیوں کا نشانہ کون کون ہے اور کس کس کو ’ہدف‘ بنایا جا سکتا ہے اس پر خدشہ بھی خوف کا شکار ہے۔
نواز شریف اور آصف علی زرداری جیسے سیاست دان جانتے ہیں کہ لفظی گولہ باری اور سیاسی محاذ آرائی کہیں پیچھے رہ گئے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن بھی ان دو کے ساتھ ایک صفحے پر آ رہے ہیں۔ تینوں رہنماؤں کو حالات کی اصل سنگینی کا اندازہ ہے، امن و امان اور سلامتی کی صورتحال سنگین ہے اور ضرورت ہے کہ مملکت کو کسی خوف سے بچانے کے لیے سر جوڑ کر بیٹھا جائے۔
عمران خان بات چیت کے لیے تیار ہوں تو اُنھیں جیل میں آمادہ کیا جائے اور اگر وہ تیار نہ ہوں تو صدر علوی کا ’گُڈ آفس‘ سیاسی ماحول کے لیے آزمایا جائے۔
بہتر ہو کہ سیاستدان بڑے پن کا مظاہرہ کریں اور اب کی بار معاملہ سپریم کورٹ نہ جائے۔ انتخابات سے قبل ڈائیلاگ اور مکالمے کی راہ ہموار کی جائے، آئین موجود ہے اُس کی عملداری کو یقینی بنانے کے لیے اعلیٰ عدلیہ اپنا کام کرے لیکن اگر شفاف انتخابات کے لیے سیاسی ماحول نہ ہوا تو انتخابات کہیں موت کے کنویں میں محض سیاسی کرتب بازی نہ بن جائیں۔
عام انتخابات کی راہ میں بظاہر کچھ رکاوٹ نہیں تاہم امن و امان ایک سنگین مسئلہ بن سکتا ہے۔ انتخابات کے آئینی عمل کو ہر صورت مکمل ہونا چاہیے اور اس کے لیے سیاسی مذاکروں اور عوامی رابطوں کو تیز کیا جانا ضروری ہے۔
امکان ہے کہ پیپلز پارٹی سندھ میں واحد کامیاب سیاسی جماعت ہو جبکہ پنجاب میں پی ٹی آئی کی غیرموجودگی میں بھی مقابلہ سخت ہو گا۔ پی ٹی آئی کے مایوس ووٹر کا بھی سیاسی مشق کا حصہ بننا ضروری ہے تو پنجاب میں ن لیگ کے سپورٹر کو باہر نکالنے کی کوشش بھی ایک اہم مرحلہ ہو گا۔ اصل کھیل تاثر کا ہو گا جو بہرحال حقیقت پر حاوی ہو سکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیے:
جناب! عوام کو ہلکا نہ لیں۔۔۔عاصمہ شیرازی
’لگے رہو مُنا بھائی‘۔۔۔عاصمہ شیرازی
یہ دھرنا بھی کیا دھرنا تھا؟۔۔۔عاصمہ شیرازی
نئے میثاق کا ایک اور صفحہ۔۔۔عاصمہ شیرازی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر