رؤف کلاسرا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اینکر دوست محمد مالک سے بات ہورہی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ عمران خان صدر عارف علوی سے ناراض ہیں کیونکہ وہ اہم موقع پر ڈر گئے۔ الیکشن کی تاریخ دینے کے بجائے الٹا الیکشن کمیشن کو تجویز دے دی۔ خان صاحب توقع رکھتے تھے کہ صدر علوی بااختیار ہیں اور وہ تاریخ کا اعلان کر سکتے ہیں لیکن انہوں نے معاملہ لٹکا دیا۔ محمد مالک کی بات اپنی جگہ لیکن یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ عمران خان کو لگتا ہے کہ اب جیل سے ان کی رہائی اسی وقت ممکن ہو سکے گی جب انتخابات ہوں گے اور ان کی پارٹی جیت جائے گی۔ جتنی الیکشن میں تاخیر ہوتی جائے گی‘ ان کی قید کا دورانیہ بڑھتا جائے گا۔ لہٰذا علوی صاحب کا الیکشن کی تاریخ نہ دینا دوسرے لفظوں میں عمران خان اور ان کی پارٹی کے دیگر لوگوں کیلئے مزید تکلیفوں کا سبب بنا رہے گا۔
دوسری طرف حفیظ اللہ نیازی کے ساتھ بات ہورہی تھی جو چند روز قبل ہی صدر علوی سے مل کر آئے ہیں۔ نیازی صاحب کی علوی صاحب سے یہ ملاقات دس برس بعد ہوئی۔ ان کی عمران خان اور صدر علوی کے بگڑتے تعلقات بارے ریڈنگ مختلف ہے۔ نیازی صاحب عمران خان کے کزن اور بہنوئی ہیں اور بچپن سے خان کو جانتے ہیں۔ صدر علوی کیساتھ بھی ان کا پی ٹی آئی کے قیام سے ملنا جلنا رہا ہے لہٰذا وہ ان کو بھی بڑی حد تک جانتے ہیں۔ پھر جو پیغام میڈیا کے ذریعے علیمہ خان صاحبہ سے دلوایا گیا‘ جس میں عمران خان کی صدر علوی سے ناراضی کا اظہار کیا گیا تھا‘ اس کے بیک گراؤنڈ سے بھی واقف ہیں۔ علیمہ خان صاحبہ نیازی صاحب کی بیگم صاحبہ کی بہن ہیں لہٰذا وہ برسوں سے ان سے بھی واقفیت رکھتے ہیں۔ یوں اس سیاسی کہانی میں جتنے بھی کردار ہیں‘ ان سب سے حفیظ اللہ نیازی اچھی طرح واقف ہیں اور اس پوزیشن میں ہیں کہ وہ اس پورے معاملے پر کمنٹ کر سکیں۔ ان کا کمنٹ سب سے مختلف ہے اور میرے نزدیک اس میں بہت جان ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ انہیں کہیں سے نہیں لگتا کہ علوی صاحب اور عمران خان کے درمیان کوئی دراڑ یا اختلاف ہے۔ وہ دونوں سیم پیج پر ہیں۔ میں نے پوچھا پھر علیمہ خان نے پریس کے سامنے صدر علوی پر تنقید کیوں کی اور یہ کیوں کہا کہ عمران خان ان سے ناخوش ہیں کیونکہ جس موقع پر انہیں بہادری دکھا کر الیکشن تاریخ کا اعلان کرنا تھا‘ انہوں نے نہیں کیا۔ بہت سارے لوگوں نے اس بات کو پسند نہیں کیا کہ خان نے علیمہ خان کے ذریعے صدر علوی کو نشانہ بنایا۔ علیمہ خان کے اس بیان کے بعد پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا سیل نے حسب روایت صدر علوی کو ایسے ایسے القابات سے نوازا کہ اللہ کی پناہ۔ یقینا علوی صاحب کو بھی اپنی پارٹی کے اس سوشل میڈیا سیل کی ہیوی ڈوز سے اندازہ ہوا ہوگا کہ Karma کیا خوفناک چیز ہے کہ جس سوشل میڈیا سیل کو کھڑا کرنے اور اپنے سیاسی اور صحافتی مخالفین کی بینڈ بجانے کے لیے وہ استعمال کرتے تھے‘ وہی اب ان کو ہی پڑ گیا تھا لہٰذا علوی صاحب کو بھی اس کی گرمی پہلی دفعہ محسوس ہوئی ہوگی۔ شاید اس لیے انہیں حامد میر کے انٹرویو میں عمران خان سے اپنی وفاداری کا حلف دوبارہ اٹھانا پڑا تاکہ ان کے خلاف پی ٹی آئی میڈیا سیل سے ہونے والی تنقید میں کچھ کمی ہو۔ حفیظ اللہ نیازی کا لیکن یہ کہنا تھا کہ عمران خان اس وقت تو کبھی بھی صدر علوی سے دور یا ناراض نہیں ہو سکتے بلکہ یوں کہیں ناراض ہونا افورڈ نہیں کر سکتے۔ نیازی صاحب کا کہنا ہے کہ اب بھی مقتدرہ اور عمران خان میں اگر کوئی دوریاں ختم کرا سکتا ہے تو وہ صدر علوی ہیں۔ میں نے پوچھا پھر علیمہ خان کا عمران خان کا حوالہ دے کر صدر علوی پر تنقید کرنا کیا تھا؟ حفیظ اللہ نیازی صاحب نے بڑی معنی خیز بات کی کہ یہ سب کچھ Public Consumption کیلئے تھا۔ پارٹی کے عام ورکر کو مطمئن کرنے کیلئے ایسے بیانات لیڈرز داغتے رہتے ہیں۔ ورنہ خان اور علوی اب بھی ایک ہیں۔
اس پر مجھے بھٹو صاحب اور اندرا گاندھی کی شملہ معاہدے پر ہونیوالی گفتگو یاد آئی جو میں نے ایک بھارتی ریٹائرڈ سفارت کار سے نیو دہلی میں سنی تھی۔ 2004ء میں جب بھارت کے دورے پر گئے ہم چند صحافیوں کو بھارتی فارن آفس کے ریٹائرڈ ڈپلومیٹس کے تھنک ٹینک لے جایا گیا۔ شملہ معاہدے پر بات ہوئی تو وہاں بیٹھے ایک بزرگ ڈپلومیٹ نے کہا کہ وہ جونیئر افسر کے طور پر شملہ مذاکرات کی ٹیم کا حصہ تھے جو ڈرافٹ فائنل کررہی تھی۔ انہوں نے دلچسپ واقعہ سنایا۔ بھٹو صاحب نے 71ء کی جنگ کے بعد کہا تھا کہ وہ گھاس کھا لیں گے لیکن ایٹم بم بنائیں گے۔ بھارت سے ہزار سال تک جنگ لڑیں گے۔ یوں جب شملہ معاہدے کیلئے بھٹو صاحب گئے تو اندرا نے پوچھا کہ بھٹو صاحب میں آپ سے مذاکرات کیوں کروں یا پاکستانی قیدی کیوں واپس کروں جبکہ آپ ہمارے ساتھ ہزار سال تک جنگ لڑناچاہتے ہیں یا گھاس کھا کر ایٹم بم بنانا چاہتے ہیں تاکہ بھارت سے جنگ جیت سکیں۔ آپ جنگیں لڑنا چاہتے ہیں تو پھر امن کا معاہدہ کرنے کیوں آئے ہیں؟ تب بھٹو نے یہ تاریخی جواب دیا تھا کہ میڈیم پرائم منسٹر! آپ ایک سیاستدان ہیں اور میں بھی۔ مجھے یہ جان کر مایوسی ہوئی آپ ان جملوں کو سیریس لے گئی ہیں۔ بھٹو صاحب کا کہنا تھا اگر آپ کا باپ نہرو آج زندہ ہوتا تو وہ کبھی بھی یہ بات نہ کہتا کیونکہ وہ ایک میچور سیاستدان تھا جسے اچھی طرح علم تھا کہ ایسے بیانات دینا ہر سیاستدان کی ضرورت ہوتا ہے۔ ایسے بیانات دشمن ملک کی لیڈر شپ یا عوام کیلئے نہیں ہوتے بلکہ دراصل یہ اپنے عوام کیلئے ہوتے ہیں تاکہ ان کے جذبات کی نمائندگی ہوتی رہے اور وہ آپ کو اپنا لیڈر مانتے رہیں۔ اگر آپ ان کی ترجمانی نہیں کریں گے تو وہ کسی اور کو اپنا لیڈر بنا لیں گے۔ جنگ کے بعد وہی بیانات بنتے تھے جو میں نے اپنی قوم کا مورال بلند کرنے کیلئے اس وقت دیے تھے لیکن آپ سیریس ہوگئیں۔ آپ سے بہتر کون جانتا ہے کہ ایسی تقریریں تو ہم سب سیاستدان Public Consumption کیلئے کرتے ہی رہتے ہیں۔
بھارتی فارن آفس کے سابق افسر کے بقول یہ بات سن کر ہم سب چپ ہو گئے کہ بھٹو صاحب کی بات میں وزن تھا۔ بھارتی کیمپ اس نتیجے پر پہنچا کہ بھٹو صاحب ایک سیاستدان تھے اور ایسے بیانات دینا ان کی سیاسی مجبوری تھا‘ ورنہ وہ آج یہاں بیٹھے اندرا گاندھی کیساتھ مذاکرات نہ کررہے ہوتے‘ ان کی جگہ کوئی اور ہوتا۔ اس کے بعد بھٹو صاحب کیلئے مذاکرات کا راستہ آسان ہوتا چلا گیا۔ حفیظ اللہ نیازی نے بھی وہی بھٹو صاحب والا جملہ استمعال کیا کہ صدر علوی سے ملنے کے بعد ان کی یہی رائے ہے کہ عمران خان اور صدر علوی کے درمیان کوئی دراڑ یا اختلاف نہیں ہے۔ وہ دونوں ایک ہی ہیں۔ علیمہ خان کے ذریعے جو بیان دلوایا گیا تھا وہ عوام کیلئے تھا‘ صدر علوی کیلئے نہیں۔آپ Public Consumption کو ذہن میں رکھیں تو میاں نواز شریف اور بینظیر بھٹو کے ایک دوسرے کے خلاف بیانات‘ یا شہباز شریف کا زرداری صاحب کو گھسیٹنے یا منی لانڈرنگ کا پیسہ واپس لانے کا بیان‘ یا بلاول بھٹو کا شریفوں کو مودی کے یار کا طعنہ دے کر شہباز شریف کی حکومت میں وزیر خارجہ بن جانا‘ سب کچھ Public Consumption کیلئے ہی تھا۔ سیاستدانوں کے نزدیک یہ سب Public Consumption کا کھیل ہے۔ عوام اور پارٹی ورکرز ایسے ہی باؤلے ہوئے پھرتے ہیں اور ایک دوسرے کا گلہ کاٹنے پر تلے رہتے ہیں۔ جس دن عام لوگ اور ان پارٹیوں کے ورکرز اس لفظ Public Consumption کا مطلب سمجھ جائیں گے‘ وہ سمجھدار اور نارمل ہو جائیں گے۔ لیکن وہی بات کہ ان سب کے سیاسی مہاتما اور دیوتا انہیں سمجھدار یا نارمل ہونے نہیں دیں گے۔
عوام کے ساتھ یہ سلوک دیکھ کر کلاسک فلم مغلِ اعظم کا ڈائیلاگ یاد آگیا جب پرتھوی راج نے اکبر بادشاہ کے رول میں مدھوبالا کو کہا تھا ”انار کلی سلیم تمہیں مرنے نہیں دے گا اور ہم تمہیں جینے نہیں دیں گے‘‘۔
دوسری طرف حفیظ اللہ نیازی کے ساتھ بات ہورہی تھی جو چند روز قبل ہی صدر علوی سے مل کر آئے ہیں۔ نیازی صاحب کی علوی صاحب سے یہ ملاقات دس برس بعد ہوئی۔ ان کی عمران خان اور صدر علوی کے بگڑتے تعلقات بارے ریڈنگ مختلف ہے۔ نیازی صاحب عمران خان کے کزن اور بہنوئی ہیں اور بچپن سے خان کو جانتے ہیں۔ صدر علوی کیساتھ بھی ان کا پی ٹی آئی کے قیام سے ملنا جلنا رہا ہے لہٰذا وہ ان کو بھی بڑی حد تک جانتے ہیں۔ پھر جو پیغام میڈیا کے ذریعے علیمہ خان صاحبہ سے دلوایا گیا‘ جس میں عمران خان کی صدر علوی سے ناراضی کا اظہار کیا گیا تھا‘ اس کے بیک گراؤنڈ سے بھی واقف ہیں۔ علیمہ خان صاحبہ نیازی صاحب کی بیگم صاحبہ کی بہن ہیں لہٰذا وہ برسوں سے ان سے بھی واقفیت رکھتے ہیں۔ یوں اس سیاسی کہانی میں جتنے بھی کردار ہیں‘ ان سب سے حفیظ اللہ نیازی اچھی طرح واقف ہیں اور اس پوزیشن میں ہیں کہ وہ اس پورے معاملے پر کمنٹ کر سکیں۔ ان کا کمنٹ سب سے مختلف ہے اور میرے نزدیک اس میں بہت جان ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ انہیں کہیں سے نہیں لگتا کہ علوی صاحب اور عمران خان کے درمیان کوئی دراڑ یا اختلاف ہے۔ وہ دونوں سیم پیج پر ہیں۔ میں نے پوچھا پھر علیمہ خان نے پریس کے سامنے صدر علوی پر تنقید کیوں کی اور یہ کیوں کہا کہ عمران خان ان سے ناخوش ہیں کیونکہ جس موقع پر انہیں بہادری دکھا کر الیکشن تاریخ کا اعلان کرنا تھا‘ انہوں نے نہیں کیا۔ بہت سارے لوگوں نے اس بات کو پسند نہیں کیا کہ خان نے علیمہ خان کے ذریعے صدر علوی کو نشانہ بنایا۔ علیمہ خان کے اس بیان کے بعد پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا سیل نے حسب روایت صدر علوی کو ایسے ایسے القابات سے نوازا کہ اللہ کی پناہ۔ یقینا علوی صاحب کو بھی اپنی پارٹی کے اس سوشل میڈیا سیل کی ہیوی ڈوز سے اندازہ ہوا ہوگا کہ Karma کیا خوفناک چیز ہے کہ جس سوشل میڈیا سیل کو کھڑا کرنے اور اپنے سیاسی اور صحافتی مخالفین کی بینڈ بجانے کے لیے وہ استعمال کرتے تھے‘ وہی اب ان کو ہی پڑ گیا تھا لہٰذا علوی صاحب کو بھی اس کی گرمی پہلی دفعہ محسوس ہوئی ہوگی۔ شاید اس لیے انہیں حامد میر کے انٹرویو میں عمران خان سے اپنی وفاداری کا حلف دوبارہ اٹھانا پڑا تاکہ ان کے خلاف پی ٹی آئی میڈیا سیل سے ہونے والی تنقید میں کچھ کمی ہو۔ حفیظ اللہ نیازی کا لیکن یہ کہنا تھا کہ عمران خان اس وقت تو کبھی بھی صدر علوی سے دور یا ناراض نہیں ہو سکتے بلکہ یوں کہیں ناراض ہونا افورڈ نہیں کر سکتے۔ نیازی صاحب کا کہنا ہے کہ اب بھی مقتدرہ اور عمران خان میں اگر کوئی دوریاں ختم کرا سکتا ہے تو وہ صدر علوی ہیں۔ میں نے پوچھا پھر علیمہ خان کا عمران خان کا حوالہ دے کر صدر علوی پر تنقید کرنا کیا تھا؟ حفیظ اللہ نیازی صاحب نے بڑی معنی خیز بات کی کہ یہ سب کچھ Public Consumption کیلئے تھا۔ پارٹی کے عام ورکر کو مطمئن کرنے کیلئے ایسے بیانات لیڈرز داغتے رہتے ہیں۔ ورنہ خان اور علوی اب بھی ایک ہیں۔
اس پر مجھے بھٹو صاحب اور اندرا گاندھی کی شملہ معاہدے پر ہونیوالی گفتگو یاد آئی جو میں نے ایک بھارتی ریٹائرڈ سفارت کار سے نیو دہلی میں سنی تھی۔ 2004ء میں جب بھارت کے دورے پر گئے ہم چند صحافیوں کو بھارتی فارن آفس کے ریٹائرڈ ڈپلومیٹس کے تھنک ٹینک لے جایا گیا۔ شملہ معاہدے پر بات ہوئی تو وہاں بیٹھے ایک بزرگ ڈپلومیٹ نے کہا کہ وہ جونیئر افسر کے طور پر شملہ مذاکرات کی ٹیم کا حصہ تھے جو ڈرافٹ فائنل کررہی تھی۔ انہوں نے دلچسپ واقعہ سنایا۔ بھٹو صاحب نے 71ء کی جنگ کے بعد کہا تھا کہ وہ گھاس کھا لیں گے لیکن ایٹم بم بنائیں گے۔ بھارت سے ہزار سال تک جنگ لڑیں گے۔ یوں جب شملہ معاہدے کیلئے بھٹو صاحب گئے تو اندرا نے پوچھا کہ بھٹو صاحب میں آپ سے مذاکرات کیوں کروں یا پاکستانی قیدی کیوں واپس کروں جبکہ آپ ہمارے ساتھ ہزار سال تک جنگ لڑناچاہتے ہیں یا گھاس کھا کر ایٹم بم بنانا چاہتے ہیں تاکہ بھارت سے جنگ جیت سکیں۔ آپ جنگیں لڑنا چاہتے ہیں تو پھر امن کا معاہدہ کرنے کیوں آئے ہیں؟ تب بھٹو نے یہ تاریخی جواب دیا تھا کہ میڈیم پرائم منسٹر! آپ ایک سیاستدان ہیں اور میں بھی۔ مجھے یہ جان کر مایوسی ہوئی آپ ان جملوں کو سیریس لے گئی ہیں۔ بھٹو صاحب کا کہنا تھا اگر آپ کا باپ نہرو آج زندہ ہوتا تو وہ کبھی بھی یہ بات نہ کہتا کیونکہ وہ ایک میچور سیاستدان تھا جسے اچھی طرح علم تھا کہ ایسے بیانات دینا ہر سیاستدان کی ضرورت ہوتا ہے۔ ایسے بیانات دشمن ملک کی لیڈر شپ یا عوام کیلئے نہیں ہوتے بلکہ دراصل یہ اپنے عوام کیلئے ہوتے ہیں تاکہ ان کے جذبات کی نمائندگی ہوتی رہے اور وہ آپ کو اپنا لیڈر مانتے رہیں۔ اگر آپ ان کی ترجمانی نہیں کریں گے تو وہ کسی اور کو اپنا لیڈر بنا لیں گے۔ جنگ کے بعد وہی بیانات بنتے تھے جو میں نے اپنی قوم کا مورال بلند کرنے کیلئے اس وقت دیے تھے لیکن آپ سیریس ہوگئیں۔ آپ سے بہتر کون جانتا ہے کہ ایسی تقریریں تو ہم سب سیاستدان Public Consumption کیلئے کرتے ہی رہتے ہیں۔
بھارتی فارن آفس کے سابق افسر کے بقول یہ بات سن کر ہم سب چپ ہو گئے کہ بھٹو صاحب کی بات میں وزن تھا۔ بھارتی کیمپ اس نتیجے پر پہنچا کہ بھٹو صاحب ایک سیاستدان تھے اور ایسے بیانات دینا ان کی سیاسی مجبوری تھا‘ ورنہ وہ آج یہاں بیٹھے اندرا گاندھی کیساتھ مذاکرات نہ کررہے ہوتے‘ ان کی جگہ کوئی اور ہوتا۔ اس کے بعد بھٹو صاحب کیلئے مذاکرات کا راستہ آسان ہوتا چلا گیا۔ حفیظ اللہ نیازی نے بھی وہی بھٹو صاحب والا جملہ استمعال کیا کہ صدر علوی سے ملنے کے بعد ان کی یہی رائے ہے کہ عمران خان اور صدر علوی کے درمیان کوئی دراڑ یا اختلاف نہیں ہے۔ وہ دونوں ایک ہی ہیں۔ علیمہ خان کے ذریعے جو بیان دلوایا گیا تھا وہ عوام کیلئے تھا‘ صدر علوی کیلئے نہیں۔آپ Public Consumption کو ذہن میں رکھیں تو میاں نواز شریف اور بینظیر بھٹو کے ایک دوسرے کے خلاف بیانات‘ یا شہباز شریف کا زرداری صاحب کو گھسیٹنے یا منی لانڈرنگ کا پیسہ واپس لانے کا بیان‘ یا بلاول بھٹو کا شریفوں کو مودی کے یار کا طعنہ دے کر شہباز شریف کی حکومت میں وزیر خارجہ بن جانا‘ سب کچھ Public Consumption کیلئے ہی تھا۔ سیاستدانوں کے نزدیک یہ سب Public Consumption کا کھیل ہے۔ عوام اور پارٹی ورکرز ایسے ہی باؤلے ہوئے پھرتے ہیں اور ایک دوسرے کا گلہ کاٹنے پر تلے رہتے ہیں۔ جس دن عام لوگ اور ان پارٹیوں کے ورکرز اس لفظ Public Consumption کا مطلب سمجھ جائیں گے‘ وہ سمجھدار اور نارمل ہو جائیں گے۔ لیکن وہی بات کہ ان سب کے سیاسی مہاتما اور دیوتا انہیں سمجھدار یا نارمل ہونے نہیں دیں گے۔
عوام کے ساتھ یہ سلوک دیکھ کر کلاسک فلم مغلِ اعظم کا ڈائیلاگ یاد آگیا جب پرتھوی راج نے اکبر بادشاہ کے رول میں مدھوبالا کو کہا تھا ”انار کلی سلیم تمہیں مرنے نہیں دے گا اور ہم تمہیں جینے نہیں دیں گے‘‘۔
یہ بھی پڑھیے:
ملتان میں قتلِ آم||رؤف کلاسرا
آخر سیکھ ہی گئے!۔۔۔رؤف کلاسرا
پُرانے جال ، پُرانے شکاری۔۔۔ رؤف کلاسرا
ایک بڑا ڈاکا اور بڑی واردات تیار… ۔۔۔ رؤف کلاسرا
پانچ ارب کی واردات کی داستان …(1)۔۔۔ رؤف کلاسرا
پانچ ارب کی واردات کی داستان …(2)۔۔۔ رؤف کلاسرا
پانچ ارب کی واردات کی داستان …(3)۔۔۔ رؤف کلاسرا
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر