نومبر 23, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

نوازشریف کا نیا بیانیہ ۔۔۔||حیدر جاوید سید

حیدر جاوید سید سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے نامور صحافی اور تجزیہ کار ہیں، وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان کےمختلف قومی اخبارات میں مختلف موضوعات پر تواتر سے کالم لکھ رہے ہیں، انکی تحریریں انہی کی اجازت سے ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر کی جارہی ہیں،

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بالآخر علاج کے لئے جیل سے بیرون ملک جانے والے سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ ن کے قائد میاں نوازشریف 4سال بعد پاکستان واپس پہنچ گئے۔ اسلام آباد میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے دفتری عملے کو ایئرپورٹ لے جایا گیا جہاں میاں نوازشریف کا بائیومیٹرک ہوا۔ یہ بائیو میٹرک ڈیٹا انٹری اس لئے ضروری تھی کہ ان کے وکلاء نے العزیزہ اور ایون فیلڈ میں دی گئی سزائوں کے خلاف اسلام آباد ہائیکورٹ میں دائر اپیلوں کی بحالی کے لئے درخواست دائر کرنا تھی۔

نوازشریف کے وکلاء ان کے لئے 24 اکتوبر تک کی حفاظتی ضمانت پہلے ہی حاصل کرچکے تھے اس لئے مناسب ہوتا کہ نوازشریف کو اسلام آباد ہائیکورٹ لے جایا جاتا جہاں وہ طریقہ کار کے مطابق اپنی درخواستوں کے لئے بائیو میٹرک ڈیٹا انٹری کے مرحلہ سے گزرتے۔

ڈیٹا انٹری کے لئے جس نے بھی عدالتی عملہ ایئرپورٹ لے جانے کا حکم دیا انتظام کیا دونوں نے غیرقانونی کام کیا اور عدالتی نظام کے چہرے پر کالک ملی۔

نوازشریف کا خصوصی چارٹر طیارہ اسی ایک کام کے لئے اسلام آباد لے جایا گیا تھا۔ بعدازاں وہ حسب پروگرام لاہور آئے اور مینار پاکستان پر منعقدہ ایک بڑے جلسہ سے خطاب کیا۔ جلسہ کے شرکاء کی تعداد کے حوالے سے دو آراء ہیں ایک یہ کہ شرکا کی تعداد 40 ہزار یا اس سے کچھ اوپر تھی۔

دوسری رائے جیو جنگ گروپ سے منسلک تجزیہ کاروں کی ہے ان کے مطابق 21اکتوبر کی شام مینار پاکستان پر منعقد ہونے والا مسلم لیگ (ن) کا نوازشریف کے لئے استقبالی جلسہ تحریک انصاف کے سارے جلسوں سے بڑا جلسہ تھا۔

سپیشل برانچ کے اہلکاروں کے مطابق جلسہ گاہ میں 40 ہزار کرسیاں لگوائی گئی تھیں لیکن سامعین کی تعداد 70 ہزار کے لگ بھگ تھی۔ آئی بی کے مطابق شرکائے جلسہ کی تعداد 80 ہزار سے اوپر تھی جبکہ دوسری دو ایجنسیوں کے مطابق پنڈال میں 85 ہزار سے زائد مسلم لیگی کارکنان موجود تھے۔

مسلم لیگ (ن) کا موقف ہے کہ لاکھوں افراد تھے۔ اکثریت کو پنڈال میں جگہ نہ مل سکی وہ مینار پاکستان کہ باہر سڑکوں اور فلائی اوور پر موجود رہے جبکہ ہزاروں کارکنان جلسہ کے اختتام کے وقت بھی لاہور کے راستوں پر تھے۔

رپورٹارپورٹی اور دعوئوں کے برعکس یہ ایک اچھا اور بڑا اجتماع تھا۔ کارکن پرجوش تھے میاں نوازشریف کا خطاب بھی ’’حدودقیود‘‘ میں رہا۔

ان کے خطاب کی دو باتیں اہم اور قابل توجہ تھیں پہلی یہ کہ ’’میرے دل میں کسی سے انتقام لینے کی کوئی خواہش نہیں‘‘۔ دوسری یہ کہ ’’ہمسایوں سے لڑائی کرکے عالمی سطح پر اچھے تعلقات نہیں رکھے جاسکتے‘‘۔

انہوں نے اپنی ذات کے دکھ بتاتے ہوئے مرحوم والدین اور اپنی اہلیہ مرحومہ کا ذکر کیا۔ ان کے والد میاں محمد شریف ان برسوں میں انتقال کرگئے تھے جب نوازشریف فوجی آمر جنرل پرویز مشرف کے ساتھ 10 سالہ معاہدہ کے تحت جدہ میں مقیم تھے اس معاہدے کے مطابق چونکہ وہ وطن واپس نہیں آسکتے تھے اس لئے والد کا جسد خاکی انہیں بھجوانا پڑا۔

ان کی والدہ محترمہ لندن میں قیام کے دوران وفات پاگئیں۔ وہ اپنے صاحبزادے نوازشریف کی عیادت کے لئے لاہور سے لندن گئی تھیں جو ان دنوں لندن میں مقیم تھے۔

اپنی اہلیہ بیگم کلثوم نوازکو لندن کے ہسپتال میں زیرعلاج چھوڑ کر نوازشریف صاحبزادی کے ہمراہ پالستام واپس آئے اور واپسی پر گرفتار کئے جانے پر جیل چلے گئے۔ نوازشریف اور ان کی صاحبزادی جیل میں ہی تھے جب بیگم کلثوم نواز کا لندن کے ہسپتال میں انتقال ہوگیا۔ جنازہ و تدفین اور دیگر رسومات کے لئے انہیں پیرول پر رہا کیا گیا تھا۔

اس طور اس حد تک بات درست ہے کہ وہ اپنی اہلیہ کے آخری لمحات میں ان کے قریب نہیں بلکہ جیل میں تھے۔ انہوں نے اپنی جلاوطنیوں کا بطور خاص ذکر کیا۔

پہلی جلاوطنی انہوں نے 10سال بیرون ملک رہنے، سیاست میں حصہ نہ لینے کے عوض مقدمات ختم کراکے حاصل کی۔ لبنان کے مرحوم وزیراعظم رفیق الحریری نے سعودی عرب اور قطر کی جانب سے بطور گارنٹر اس معاہدہ کی تصدیق کی تھی۔ نوازشریف اور ان کے ساتھی اولاً اولاً ایسے کسی معاہدہ سے انکار کرتے رہے بعدازاں کہا گیا کہ معاہدہ پانچ سال کا تھا معاہدہ کی جو کاپی جنرل پرویز مشرف کی حکومت کے پاس تھی اس میں جعلسازی کی گئی

لیکن 2007ء میں ان کی وطن واپسی کے پہلے مرحلہ میں جب انہیں حکومت نے ایئرپورٹ سے باہر نہیں نکلنے دیا اور زبردستی واپس جدہ بھجوادیا تھا اس وقت اس معاہدہ کے منظرعام پر آنے سے واضح ہوگیا کہ سیاست اور ملک سے خاندان سمیت باہر رہنے کا معاہدہ 10 سال کا تھا اس معاہدہ کے تحت ہی حمزہ شہباز شریف اتفاق گروپ کے کاروباری نگران کے طور پر ملک میں رہ سکے۔

ان کا لندن میں حالیہ 4 سال کا قیام علاج کے لئے جیل سے بیرون ملک بھجوانے کی بدولت رہا۔ ملٹری اسٹیبلشمنٹ، حکومت اور عدلیہ ایک پیج پر آئے ان کی طبی رپورٹوں کی ایجنسیوں، پنجاب حکومت کی وزیر صحت محترمہ ڈاکٹر یاسمین راشد اور وزیراعظم عمران خان کے مشیر صحت ڈاکٹر فیصل نے الگ الگ تصدیق کی تب انہیں عدالتی حکم پر بیرون ملک روانگی کی اجازت ملی اور وہ ملک سے چلے گئے۔

1990ء اور 2023ء کے درمیانی برسوں کے حساب میں گڑبڑ کرگئے یہ 23 نہیں 33سال بنتے ہیں۔ انہوں نے پوچھا وہ کون ہے جس نے نوازشریف کو حکومت اور عوام کی خدمت سے ہٹاکر جیل ڈالا اور بیرون ملک بھجوایا؟

انہیں ان افراد کے نام لینا چاہئیں تھے لیکن نہیں لئے ان کی مرضی۔ البتہ چار برس بعد وطن واپسی کے موقع پر پہلے عوامی خطاب میں ان کا معروف زمانہ بیانیہ موجود نہیں تھا نہ ہی انہوں نے پی ڈی ایم کے 16 ماہ کے دور اقتدار میں اپنے سمدھی اسحق ڈار کی پھیلائی تباہی کا ذکر کیا۔

انہوں نے بعض اشیاء اور ڈالر کی اپنے دور کی قیمت کا ذکر کیا ان کے دور سے پہلے ان اشیاء اور ڈالر کی قیمت کیا تھی؟

اپنے ادوار کے ترقیاتی منصوبوں خصوصاً موٹرویز کا تذکرہ کیا بلاشبہ یہ ان کے کریڈٹ پر رہیں گی۔

اپنے آخری دور میں انہوں نے چین کے تعاون سے بجلی پیدا کرنے کے جن منصوبوں پر کام شروع کروایا ان کے پیداواری اخراجات پر ٹھنڈے دل سے غور کرنا چاہیے تھا یہ بھی کہ مقامی طور پر کوئلہ دستیاب ہونے کے باوجود غیرملکی کوئلے سے پاور پلانٹ چلانے اور پھر ان منصوبوں کو بندرگاہ سے طویل فاصلے پر لگانے کے دائمی اضافی اخراجات کا تخمینہ کیوں نہ لگوایا؟

امید ہے کہ کسی دن ان سوالوں کا جواب بھی وہ ضرور دیں گے۔ اورنج ٹرین کا انہوں نے ذکر کیا یہ ایک مہنگا سودا تھا ہے اور گلے پڑا ڈھول ہے اسی لاگت سے پشاور سے کراچی کے درمیان نیا ریلوے ٹریک بن سکتا تھا۔ ان کے تینوں ادوار میں زرعی معیشت بری طرح نظرانداز ہوئی۔

انہوں نے کہا میں اپنے والدین کی تربیت کا حق ادا کرتا ہوں اور کوئی ایسی بات نہیں کرنا چاہتا جس سے تلخی پھیلے اچھی بات ہے ملکی سیاست مزید تلخیوں وغیرہ کی متحمل نہیں ہوسکتی ۔ اپنے خطاب میں جس وقت وہ اپنے کارکنوں کو شائستگی اپنانے کی تلقین کررہے تھے سوشل میڈیا پران کے کارکنوں اور مخالف جماعتوں کے حامیوں خصوصاً انصافیوں کے درمیان ننگی گالیوں کا تبادلہ زوروشور سے جاری تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ

’’سیاسی جماعتوں، ریاستی اداروں اور ستونوں کو مل کر کام کرنا ہوگا اس کے بغیر ملک کے آگے نہیں جاسکتا‘‘۔

تین بار وزیراعظم رہے چوتھی بار اس منصب کے امیدوار ہیں کیا وہ نہیں جانتے کہ ریاستی اداروں اور ستونوں سے مل کر کام کرنے کی کوئی آئینی شق موجود نہیں یہ ادارے اور ستون حکومت وقت کے ماتحت و معاون ہوتے ہیں۔

سیاسی جماعتیں حکومت کے ماتحت ومعاون محکموں سے کیوں شراکت اقتدار کے لئے پرجوش رہتی ہیں؟ اس سوال کا جواب کوئی نہیں دیتا ۔

اپنے خطاب کے اختتامی مرحلہ میں انہوں نے مسائل و مشکلات کے حل کے لئے دعائیہ نسخے بھی بتائے۔ یہی کام سولہ ماہ ان کے سمدھی اسحق ڈار جوکہ وزیر خزانہ تھے کرتے رہے۔

گزشتہ چار برسوں کے دوران جب وہ لندن میں مقیم تھے آج سے پندرہ دن قبل ان کا سیاسی بیانیہ مینار پاکستان کے خطاب سے مختلف تھا۔ ان کی نئی سوچ غالباً اپنے برادر خورد کی گوجرانوالہ میں تین اہم شخصیات سے ہوئی اس ملاقات کے بعد پیدا ہوئی یا اپنائی گئی جس ملاقات کے بعد شہباز شرفی سیدھے لندن کے لئے روانہ ہوگئے تھے۔

بہرحال وہ 4 برس بعد واپس آئے انہیں ملے پیشگی ریلیف اور واپسی پر دی گئی سہولت دونوں سے جو کہانی بُنی جاسکتی ہے اس کے لئے کھیچل میں پڑے بغیر یہ عرض کیا جاسکتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کا انتخاب نوازشریف کچھ غلط بھی نہیں پنجاب میں ان کا ووٹ بینک ہے البتہ اگلے الیکشن میں یہ واضح ہوگا کہ یہ ووٹ بینک اپنی جگہ موجود ہے یا اس میں کمی ہوئی ہے؟

یہ بھی پڑھیں:

About The Author