حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عام شہریوں کی دم توڑتی قوتِ خرید پر بدترین مہنگائی نے اور کتنے تازیانے برسانے ہیں اس سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں۔ پچھلے پانچ برسوں کے دوران پونے چار برس کے لگ بھگ اقتدار میں رہنے والی تحریک انصاف کی پہلے اور دوسرے درجہ کی قیادت کے ساتھ حکومت میں شامل اس کے ذمہ داران عوام کو یہ بتاتے رہے کہ ان سے پہلے اقتدار میں رہنے والوں کی لوٹ کھسوٹ نے ملکی خزانہ خالی کردیا ہے اس لئے مہنگائی جیسے مسائل سر اٹھارہے ہیں۔
انہی پونے چار برسوں کے دوران آئی کورونا وبا کی آفت سے پوری دنیا کی طرح پاکستان بھی بری طرح متاثر ہوا جس کی وجہ سے مہنگائی بیروزگاری اور غربت میں اضافہ ہوا۔ خود عمران خان نے ایک مرحلہ پر اعتراف کیا کہ ملک میں مہنگائی کی شرح پچھلے 30 برسوں کے مقابلہ میں زیادہ ہے اس اعتراف کے باوجود مہنگائی کو کم کرنے کے لئے ان کی حکومت نے سنجیدہ اقدامات نہیں کئے
بس دو باتوں کی تکرار جاری رہی اولاً سابق حکومتوں کی لوٹ مار نے بدحالی پیدا کی ثانیاً مہنگائی عالمی مسئلہ ہے اس کے ساتھ ہی یہ دعویٰ بھی کیا گیا کہ پاکستان اس وقت بھی روزمرہ ضرورت کی اشیاء اور دوسری چیزوں کی قیمتوں کے حوالے سے سستا ترین ملک ہے
ان کے دور میں مہنگائی اور غربت کا علاج نجی تنظیموں کے تعاون سے لنگرخانے کھول کر تلاش کیا گیا۔
ایک تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ان کی حکومت ختم ہوئی اور پی ڈی ایم نے اتحادیوں کے ہمراہ عنان اقتدار سنبھالا۔ سولہ ماہ کے قریب اقتدار میں رہنے والی اس حکومت کا ہر مسئلہ پر جواب یہی ہوتا تھا کہ تحریک انصاف کے ناتجربہ کاروں نے ملک کا بیڑا غرق کردیا ہے۔
آئی ایم ایف سے معاہدہ کی خلاف ورزی کرکے عمران خان نے پاکستان کے گلے میں مسائل کا طوق ڈال دیا۔ ایک بات سابق اور پی ڈی ایم حکومت کی مشترکہ تھی کہ دوسرے مسائل کے ساتھ مہنگائی عالمی مسئلہ ہے۔
ستم یہ ہے کہ ان تین جوابات کے تکرار کے ساتھ سولہ ماہ اقتدار میں رہنے والی قیادت قبل ازیں جب اپوزیشن میں تھی تو اس کے قائدین دعویٰ کیا کرتے تھے کہ اگر ہم اقتدار میں آئے تو مختصر وقت میں مہنگائی سمیت دوسرے مسائل حل کردیں گے۔
یہ دعوے بھی سراب ہی ثابت ہوئے کیونکہ تحریک انصاف کی حکومت کے خاتمے پر ملک میں مہنگائی سالانہ شرح کے حساب سے 22فیصد تھی، پی ڈی ایم اور اتحادیوں کی پالیسیوں کے نتائج کی صورت میں آج مہنگائی 38فیصد سے تجاوز کررہی ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ رخصت ہونے والی پی ڈی ایم و اتحادیوں کی قیادت کو اس سنگین صورتحال کا احساس تھا نہ نگران حکومت کے ذمہ داران کو اس سے کوئی فرق پڑتا ہے
ان کے پاس تو آسان جواب ہے کہ ماضی کی پالیسیوں کے نتائج ہیں ہم قانونی طور پر آئی ایم ایف اور دوسرے عالمی مالیاتی اداروں سے معاہدوں پر عمل کے پابند ہیں۔
بادی النظر میں مہنگائی سے پیدا ہوئے ابتر حالات کا نگران حکومت کے ذمہ داران سے شکوہ بنتا بھی نہیں البتہ یہ امر بہرصورت مدنظر رکھنا ہوگا کہ پی ڈی ایم و اتحادیوں کی حکومت نے رخصی سے چند دن قبل نگران حکومت کے بعض اختیارات میں جو اضافہ کیا وہ اگر صرف عالمی امور کی انجام دہی کے لئے بھی ہو تو بھی امور مملکت چلاتی ایک حکومت کو یہ تو سوچنا چاہیے کہ آمدنی و اخراجات کے عدم توازن کی وجہ سے عوام الناس پر مسلسل مہنگائی کا جو بوجھ پڑرہا ہے اس کے تدارک کے لئے اقدامات نہ ہوئے تو نتیجہ کیا نکلے گا؟
ملکی تاریخ کی اس بدترین مہنگائی سے معاشرے کے تمام طبقات ہی متائر ہوئے ہیں لیکن تنخواہ دار، دیہاڑی دار اور نچلے طبقوں کے خاندانوں کی حالت بہت بری ہے۔ ضروریات زندگی کے نرخ آسمان کو چھورہے ہیں۔ مکانوں کے کرائے قانون کرایہ داری کے حساب سے تو مالکان نے حکومتی پابندی کے باوجود کورونا والے سال میں بھی بڑھادیئے تھے اب مہنگائی کے باعث وہ اس میں نرمی کیوں برتیں گے۔
بجلی، پٹرولیم اور گیس کی قیمتیں آئی ایم ایف سے معاہدہ کے مطابق بڑھائی گئیں یہی نہیں پٹرولیم لیوی کی شرح بھی آئی ایم ایف کے حکم پر ہے۔ ظاہر ہے اس صورتحال کے اثرات اجتماعی ہوں گے۔
گزشتہ سے پیوستہ ہفتے مہنگائی کی مجموعی شرح 36فیصد کے لگ بھگ تھی۔ گزشتہ ہفتے مزید اضافے کے ساتھ یہ شرح 38 فیصد سے تجاوز کرچکی ہے۔
وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے ذمہ داران کو حالات کی سنگینی کا کوئی احساس ہی نہیں۔ ان حالات میں اگر شہری حلقے یہ کہتے ہیں کہ احساس و جذبات سے محروم طبقہ حکمرانوں کی صورت میں مسلط کردیا گیا ہے تو یہ غلط بھی نہیں۔
تلخ امر یہ ہے کہ نگرانوں کا باوا آدم ہی نرالا ہے مثلاً ایک طرف پنجاب کے مختلف محکموں کے افسروں کو اربوں روپے کی سینکڑوں نئی گاڑیاں حال ہی میں فراہم کی گئیں دوسری طرف اسی صوبہ پنجاب کے بعض محکموں میں تین ماہ سے پنشن کی ادائیگی نہیں ہوئی جبکہ چند میں دو ماہ سے تنخواہیں نہ ملنے کی شکایات ہیں۔
اندریں حالات یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ نگران حکومت کے بڑوں کو ملکی و غیرملکی دوروں کے علاوہ ہسپتالوں، تھانوں اور سکولوں میں کارکردگیوں کا جائزہ لینے سے کچھ وقت نکال کر عوام الناس کی حالت زار پر بھی توجہ دینی چاہیے۔
ارباب حکومت کو بطور خاص یہ سمجھنا ہوگا کہ مہنگائی روزانہ کی بنیاد پر جس طرح بڑھ رہی ہے اس سے مختلف مسائل جنم لے رہے ہیں یہی نہیں بلکہ یہ مسائل ہر گزرنے والے دن کے ساتھ سنگین تر ہی ہوتے جارہے ہیں
ایسے میں اگر حکومت وقت نے اصلاح احوال کے لئے سنجیدہ کوششیں نہ کیں تو نہ صرف بگاڑ کے بڑھنے کے خطرات ہیں بلکہ آنے والے دنوں میں حالات پر قابو رکھنا بھی مشکل ہوجائے گا۔ امید ہی کی جاسکتی ہے کہ ارباب حکومت و اختیار ان معاملات پر انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ہی سہی توجہ دیں گے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر