نومبر 21, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

قائد انقلاب کا ’’نعرہ مستانہ‘‘۔۔۔||حیدر جاوید سید

حیدر جاوید سید سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے نامور صحافی اور تجزیہ کار ہیں، وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان کےمختلف قومی اخبارات میں مختلف موضوعات پر تواتر سے کالم لکھ رہے ہیں، انکی تحریریں انہی کی اجازت سے ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر کی جارہی ہیں،

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جناب نوازشریف درست کہتے ہیں کہ

’’احتساب صرف سیاستدانوں کا نہیں بلکہ سب کا ہونا چاہیے‘‘۔ کاش کہ انہیں یاد رہ گیا ہوتا کہ پیپلزپارٹی نے اپنے دور (2008-2013) میں نیب ترمیمی قوانین کا ایک مسودہ قومی اسمبلی میں لائی تھی تاکہ اسے متعلقہ قائمہ کمیٹی کے سپرد کرکے مسودے کی مزید نوک پلک سنواری جائے۔

اس وقت کے قائد حزب اختلاف چودھری نثار علی خان نے اڑھائی تین گھنٹے کا تاریخی خطاب فرمایا تھا اس مسودے کے خلاف ۔ اس تقریر کے پھٹے توڑ الفاظ یہ تھے

’’ہم پیپلزپارٹی کے ہاتھ میں ریاست (یعنی جرنیلوں) اور عدلیہ کا گریبان نہں دے سکتے‘‘۔

مسلم لیگ (ن) کے ارکان قومی اسمبلی چودھری نثار علی خان کی تقریر پر ڈیسک بجابجاکر ہلکان ہوگئے۔ اگر اس قانونی مسودے کی نوک پلک مزید سنوار کر (یاد رہے ہر قانون میں بدلتے ہوئے حالات کے تناظر میں ترمیم کی گنجائش ہوتی ہے) اسے آئینی ترمیم کے طور پر منظور کرلیا جاتا تو لگ بھگ 13برس بعد میاں صاحب کو یہ نہ کہنا پڑتا کہ احتساب صرف سیاستدانوں کا نہیں سب کا ہونا چاہیے۔

مروجہ سیاست کا المیہ یہی ہے اور یہ آج سے نہیں ہمیشہ سے ہے کہ سیاستدان اپنے زمانہ اپوزیشن میں جوکہہ رہے ہوتے ہیں وہ زمانہ اقتدار میں کرتے نہیں۔ زمانہ اقتدار میں جو کرتے ہیں وہ زمانہ اپوزیشن میں ان کے گلوں کا پھندا بن جاتا ہے۔

اپنے دور اقتدار میں جب مسلم لیگ (ن) سائبر کرائم ایکٹ کا دائرہ وسیع کرتے ہوئے اس میں مسلح افواج کی ” عزت و آبرو ” کے تحفظ والی ترامیم لارہی تھی تب کچھ لوگوں نے سمجھانے کی کوشش کی لیکن حب الوطنی کے گھوڑے پر سوار لیگی کوئی بات سننے کو تیار ہی نہیں تھے ۔

خیر پھر اس قانون میں آگے چل کر تحریک انصاف نے مزید ترامیم کیں کچھ ’’نوک پلک‘‘ اتحادیوں نے اپنے سولہ ماہ کے اقتدار میں سنواری۔

سکیورٹی اسٹیٹ اور اس کے ’’بڑوں’’ کی "عزت و آبرو” کی حفاظت والے قانون کی خالق مسلم لیگ (ن) ہی رہے گی۔

تحریک انصاف نے تو وہی کیا جس کا حکم ہوا۔ یہ اس لئے لکھا ہے کہ عمران خان جیل جانے سے قبل روزانہ کی بنیاد پر کہتے رہے ہیں کہ میں بے اختیار وزیراعظم تھا، احکامات اور قانونی مسودے کہیں اور سے آتے تھے ہمیں تو کورم پورا کرنے کےلئے ایجنسیوں کی خدمات لینا پڑتی تھیں۔

جب وزیراعظم تھے تو کہتے تھے جنرل باجوہ پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا جمہوریت پسند آرمی چیف ہے۔ اپوزیشن والے اس کی اور جنرل فیض حمید کی مخالفت اس لئے کرتے ہیں وہ ان کی چوریوں کو معاف کرنے پر تیار نہیں۔

یہ سطور لکھتے ہوئے فقیر راحموں نے خان کا ایک پرانا انٹرویو یاد دلایا جس میں وہ کہتے دیکھائی دیئے

’’اگر صرف 20ہزار لوگ سڑکوں پر آجائیں تو ان جرنیلوں کی پتلونیں گیلی ہوجائیں گی‘‘۔

9 مئی کی ایکسرسائز کے لئے انہوں (عمران خان) نے فوج کے سابقین کی بات بھی غالباً اسی فہم کی بنیاد پر مانی ہوگی۔ 9 مئی کی ایکسرسائز کے بعد ہوا کیا؟ یہی جو سب کو دیکھائی دے رہا ہے

پچھلے 5 ماہ سے تواتر کے ساتھ ان سطور میں عرض کرتا آرہا ہوں کہ 9 مئی نے سکیورٹی اسٹیٹ کو مضبوط کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ لازمی نہیں آپ ہماری رائے سے اتفاق کریں اور واجب نہیں کہ ہم بھی یہ مان لیں کہ 9 مئی نے سکیورٹی اسٹیٹ کی بنیادیں ہلادی ہیں۔

خیر چھوڑیئے بات قائد انقلاب میاں صاحب کے بیان سے شروع ہوئی تھی، وہ درست کہتے ہیں کہ احتساب سب کا ہونا چاہیے۔ یہ بھی درست ہے کہ یہاں سب کا احتساب ممکن نہیں بعض ادارے اس حوالے سے یہ تاویل پیش کرتے ہیں کہ انکے ہاں ادارہ جاتی احتساب کا نظام بہت مضبوط ہے۔

نیب کے دائرہ کار میں اضافہ ان اداروں کی حدود میں مداخلت ہوگا۔

اس ادارہ جاتی احتساب کے عمل کی حالت یہ ہے کہ سابق چیف جسٹس بندیال کے ہم خیال بنچ کے ایک جج پر کرپشن سمیت چند سنگین الزامات تھے۔ انہوں نے اس جج کو ساتھ بٹھاکر کمرہ عدالت میں کہا ’’میں نے نقوی صاحب کو ساتھ بیٹھاکر کسی کو پیغام دیا ہے‘‘ظاہر ہے پیغام پہنچ گیا ہوگا اسی لئے تو معاملہ کسی طور آگے نہیں بڑھ پایا۔

سیاستدان فرشتے بالکل نہیں دوسرے شعبوں کی طرح ان میں اچھے بھلے کمزور اور برے لوگ ہوں گے یہی اچھے بھلے کمزور اور برے لوگوں والا تناسب دوسرے شعبوں میں بھی ہے۔

سیاستدان کو گالی دینا اس کی کردار کشی کرنا آسان ہے اس لئے وہ ہمیشہ تختہ مشق بنا رہتاہے۔ اس کےپاس نہ بندوق ہے، نہ آئینی ہتھوڑا، نہ کوئی دوسرا اختیار جس سے دبدبہ پیدا ہو اور بندہ بولتے ہوئے الزامات بھول جائے۔

ثانیاً یہ بھی حقیقت ہے کہ ہماری سکیورٹی سٹیٹ کی اسٹیبلشمنٹ کے ایما پر ہمارے میڈیا کا بڑا حصہ (آپ اسے 98فیصد سمجھ لیجئے) ایک وقت میں جس شخص اور جماعت کو ملکی مسائل کا حل، نجات دہندہ، ایشین ٹائیگر بنانے والا امید امت مسلمہ کے طور پر پیش کررہا ہوتا ہے

وہی میڈیا اسٹیبلشمنٹ کی پیروی میں گرگٹ کی طرح رنگ بدلتا ہے ایسا بدلتا ہے کہ شادی تک کے معاملات میڈیا اور عدالتوں میں زیربحث آتے ہیں۔

ساعت بھر کے لئے رکئے باعث موضع سے کچھ نہیں بلکہ لگتا ہے زیادہ دور نکل گئی۔ پیپلزپارٹی نے جب اپنے دور میں نیب ترامیم کا مسودہ پیش کیا تھا وہی مسودہ جس پر چودھری نثار علی خان نے اڑھائی سے تین گھنٹے کا تاریخی خطاب کرتے ہوئے کہا تھا فوج اور عدلیہ کے گریبان پیپلزپارٹی کے ہاتھوں میں نہیں پکڑائے جاسکتے۔

اس خطاب کی تیاری میں اس وقت آئی ایس پی آر اور سپریم کورٹ کے رجسٹرار آفس کی نمائندگی کس نے کی تھی اگر میاں صاحب قوم کو نہیں تو کم از کم اپنی جماعت کے لوگوں کو بتادیں کہ ہم نے کس بلکہ کن کے کہنے پر نیب ترامیمی قوانین کے مسودے کی مخالفت کی تھی تو ان کے وقار میں ہی اضافہ نہیں ہوگا بلکہ اس بات میں بھی وزن ہوگا کہ احتساب صرف سیاستدانوں کا نہیں سب کا ہونا چاہیے ۔

قائد انقلاب کو امید ہے کہ یاد ہی ہوگا کہ وہ تاریخی تقریر قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کے دفتر میں نہیں بلکہ پنجاب ہائوس میں تیار کی گئی آئی ایس پی آر اور رجسٹرار آفس کے اہلکاران معاونت کے لئے وہیں موجود تھے۔

اس ملک میں سب کا احتساب کیوں نہیں ہوتا اس کی ایک وجہ ہے وہ یہ کہ وہ سب سیاستدانوں کی طرح ایک دوسرے کے کپڑے اتارنے میں اتاولے نہیں ہوتے سب مل کر ٹھنڈی کرکے کھاتے ہیں۔ ایجنسیوں کی فراہم کردہ معلومات پر تحقیقاتی صحافت کے جھنڈے گاڑنے و الے ہوں یا میڈیا مالکان انہیں پتہ ہوتاہے کہ مستقل طاقت کن کے ہاتھوں میں رہے گی۔

بہتر یہ ہے کہ سیاستدان اقتدار طلبی کے لئے اسٹیبلشمنٹ کے مہروں کا کردار اپنانے کی بجائے رائے دہندگان کا زیادہ سے زیادہ اعتماد حاصل کرنے کی حکمت عملی اپنائیں۔

سیاسی جماعتیں اپنے اپنے وقت پر سکیورٹی سٹیٹ کی چوبداری کی بجائے سیاسی عمل کو آگے بڑھانے پر توجہ دیں۔

میاں صاحب 21 اکتوبر کو خیر سے وطن واپس آئیں اور اگر مینار پاکستان کے جلسہ سے خطاب کرسکیں تو اس موقع پر عوام سے وعدہ کریں کہ وہ باقی سیاسی جماعتوں کا اعتماد حاصل کرکے احتساب سب کا والی بات کو عملی و قانونی شکل دلوانے کے لئے کوئی کسر نہیں اٹھا رکھیں گے۔

مجھے اس امر کا احساس ہے کہ میاں صاحب کوئی انقلابی قائد نہیں مروجہ سیاست اور رویوں سے گندھے ہوئے ایک سیاستدان ہیں وہ تین بار وزیراعظم بن چکے چوتھی باری حاصل کرنے کے بھی خواہش مند ہیں۔

اس خواہش کے جواب میں جو ضمنی تجویز ان کے برادر خورد نے ’’یش کی‘‘ تھی وہ بھی قبول نہیں ہوئی لیکن یہ حقیقت ہے کہ ان کا ووٹ بینک ہے یہ متاثر ضرور ہوا ہے ختم بالکل نہیں۔

اس ملک میں سب کا احتساب تبھی ہوگا جب سیاستدان ایک دوسرے کے کپڑے پھاڑنے کا شوق ترک کردیں گے۔

سکیورٹی اسٹیٹ کی اسٹیبلشمنٹ کی بجائے رائے دہندگان پر اعتماد کریں گے۔ میاں صاحب چاہیں تو چند قوم آگے بڑھ کر سیاسی عمل میں در آئی دوریوں اور نفرتوں کے خاتمے کیلئے پہل کرسکتے ہیں۔

ویسے یہ کڑوی حقیقت ہے کہ ملک کے جو حالات ہیں یہ اب تناہ کسی جماعت سے سدھرنے کے نہیں۔ سب کو مل کر حالات کو بہتر بنانے کے لئے جدوجہد کرنا ہوگی۔

یہ بھی کہ سب میں عمران خان بھی شامل ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس وقت کون کون ماضی اور گالیوں کو بھلاکر آگے بڑھنے میں پہل کرتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

About The Author