نومبر 21, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

عثمان ڈار دا کھڑاک نامی ڈبہ فلم۔۔۔||حیدر جاوید سید

حیدر جاوید سید سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے نامور صحافی اور تجزیہ کار ہیں، وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان کےمختلف قومی اخبارات میں مختلف موضوعات پر تواتر سے کالم لکھ رہے ہیں، انکی تحریریں انہی کی اجازت سے ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر کی جارہی ہیں،

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عمران خان کی ’’ٹائیگر فورس‘‘ کے سربراہ عثمان ڈار ڈھیر ہوگئے یا ڈھیر ہونے پر مجبور ؟ اسے کچھ عرصہ قبل کراچی سے اٹھالئے جانے کا دعویٰ کیا گیا تھا۔ اب کہا جارہا ہے کہ نامعلوم افراد کی تحویل میں ان کی ڈینٹنگ پینٹنگ ہوئی ہے۔ سوشل میڈیا کی زبان میں ” سُرتال درست کردیئے گئے ہیں یا ٹیوننگ کردی گئی ہے”۔ اس بحث میں الجھے بغیر یہ طے ہے کہ عثمان ڈار نے استغاثہ کی کہانی پڑھ کر سنائی۔

9 مئی کے واقعہ پر استغاثہ کی کہانی یہی ہے جو عثمان ڈار ٹی وی پر سنارہے تھے۔ یہ کہانی ادھوری ہے۔ خود عمران خان ناکام بغاوت منظم کرنے کی صلاحیت سے محروم ہیں انہیں 9 مئی کا پلان دیا گیا انہوں نے نفرت اور غصے میں آگے بڑھادیا۔

نفرت اور غصہ بے وجہ بھی نہیں بائیس چوبیس برس آپ ایک شخص کی ذہن سازی کرتے پھریں کہ اک تم ہو تنہا تمہارے جیسا کہاں ، باقی تو اس میدان میں سارے چور ہیں اور پھر وہی سارے الزام اس پر بھی ہوں جو مسیحا، دیانتدار ، عدالتی صادق و امین، ہینڈسم اور سب کچھ ہو یہی نہیں اس کے دوست اور گھر والے بھی کرپشن کے الزامات کی زد میں آجائیں ۔

غصہ تو آتا ہی ہے۔

اس غصہ کی دو وجوہات ہوتی ہیں۔ اولاً یہ کہ مجھ سے فریب کیا گیا جن کے خلاف مجھے میدان میں اتارا گیا ان سے ’’انہوں‘‘ نے ہاتھ ملالیا۔ ثانیاً مجھ پر میری اہلیہ اور بہنوں کے ساتھ قریبی رفقا پر بھی کرپشن و اقربا پروری کے الزامات ڈال دیئے گئے۔

غصہ اور نفرت کی اس ’’موج‘‘میں آدمی سوچتا ہے کہ ہم نہیں تو پھر کوئی بھی نہیں۔ وہ وکٹیں اکھاڑ دیتا ہے بچ برباد کرتا ہے۔

آگے بڑھنے سے قبل عرض کردوں کہ عمران خان نے ایک دو نہیں درجنوں بار بیان کیا کہ مجھے زرداری اور شریف خاندان کی کرپشن بارے ایجنسیوں نے بریف کیا تھا وہ مجھے بتاتی رہیں کہ یہ کرپٹ لوگ ہیں ملک برباد کرچکے۔

خان خود کو پاکستان کا نجات دہندہ سمجھتے تھے۔ سمجھتے تھے یا سمجھائے گئے یہ بحث اب غیرضروری ہے سچ یہی ہے کہ 2018ء میں انتخابی مینجمنٹ کے ذریعے انہیں مسلط کیا گیا ان کی ناتجربہ کار سیاسی معاشی اور خارجہ و داخلہ ٹیم نے ملک کو جہاں لاکھڑا کیا اس پر ایک رائے یہ ہے کہ ملک معاشی ابتری، سیاسی نفرت، داخلی انتشار، خارجہ پالیسی میں تنہائی کا شکار ہوچکا تھا

رہی سہی کسر اس چول برانڈ افغان پالیسی نے پوری کردی جو امریکہ اور نیٹو کے افغانستان سے انخلا کے دنوں میں اپنائی گئی۔ اس پالیسی کے تین ذمہ دار ہیں عمران خان، جنرل قمر جاوید باجوہ اور جنرل فیض حمید۔ خان کا یہ بیان ریکارڈ پر موجود ہے کہ افغانستان میں بدلتی ہوئی صورتحال کے پیش نظر ہمارا (پاکستان کا) کردار کیا ہوناچاہیے اس بارے مجھے آرمی چیف باجوہ اور جنرل فیض حمید نے بریف کیا۔

فقط یہی نہیں بلکہ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ کالعدم ٹی ٹی پی سے اعتماد سازی کا پروگرام بھی میرے پاس جنرل باجوہ ہی لائے تھے۔ بات کچھ دور نکل گئی ہم عمران خان کی ٹائیگر فورس کے سربراہ عثمان ڈار کے حالیہ انٹرویو پر بات کررہے تھے۔

ایک ٹی وی پروگرام میں اس نے صرف استغاثہ کی کہانی پیش کی۔

باردیگر عرض ہے کہ استغاثہ کبھی پوری کہانی بیان کرنے کا حوصلہ نہیں کرسکتا۔ اسی طرح ہمارے لئے ممکن نہیں کہ 9 مئی کااصل خالق و منصوبہ ساز اور بینفشری عمران خان کو مان سمجھ لیں ۔

9 مئی کے بعد ان سطور میں ایک سے زائد بار تفصیل کے ساتھ عرض کرچکا کہ فوج کے سابقین سے اندازوں کی ہی نہیں حساب کتاب اور حالات کے تجزیہ میں بھی غلطی ہوگئی۔

منصوبہ سازوں کی عمران خان نے تائید اپنے ذاتی رنج غصے اور نفرت میں کی۔ خیال دونوں کا یہی تھا کہ ریاست عوامی سیلاب اور اندرونی ردعمل کے سامنے ٹھہر نہیں سکے گی۔ عوامی سیلاب اور اندرونی ردعمل دونوں سے پہلے جو وعدہ معاف گواہ بن گئے ان کی وجہ سے 9 مئی کے منصوبہ سازوں (یاد رہے کہ میں ایک لمحہ کے لئے بھی عمران خان کو منصوبہ ساز نہیں سمجھتا) نے اس زندہ حقیقت کو نظرانداز کیا کہ ہم سبھی سکیورٹی اسٹیٹ میں رہتے ہیں۔

دنیا میں آج یا ماضی میں جتنی سکیورٹی اسٹیٹس رہیں اور ہیں ان کے معروضی حالات کا تجزیہ کرکے دیکھ لیجئے۔ کہیں بھی سکیورٹی اسٹیٹ کی اسٹیبلشمنٹ کے سابقین کی دو کوڑی کی حیثیت نہیں ہوتی۔

وہ بس دستیاب تام جھام پر مزے کرتے اور کافی کے کپ پر ڈینگیں مارتے ہیں۔

ساعت بھر کے لئے رکئے میں نے ان سطور میں جولائی 2022ء میں پنجاب اسمبلی کے ضمنی انتخابات کے دوران عرض کیا تھا کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے ایما پر ایجنسیوں نے تحریک انصاف کے امیدواروں کی کامیابی کے لئے پرجوش معاونت کی، تب بہت سارے دوست اور بالخصوص پی ٹی آئی کے حامی تجزیہ نگاروں نے جواباً جو کچھ کہا اس پر عرض کیا تھا کہ ہار جیت کے تناسب کا تجزیہ کیجئے اور ضمنی انتخابات والے اضلاع میں ایجنسیوں اور سول انتظامیہ کے ربط و ضبط بارے معلومات حاصل کیجئے تاکہ آپ حقیقت تک پہنچ پائیں۔

اگلے مہینوں میں بہت ساری باتیں واضح ہوتی گئیں اور جنرل باجوہ کا کھیل بھی۔ عثمان ڈار کے انٹرویو میں کوئی نئی بات بالکل بھی نہیں ہے۔

استغاثہ کی آدھی لیکن یکطرفہ کہانی ہے یہ بس ۔ ٹائیگر فورس کے سربراہ عثمان ڈار ڈھیر کیوں ہوئے واقعی ڈھیر ہوئے یا ان کے ضمیر نے حب الوطنی کے مظاہرے کا راستہ دیکھایا؟

میری دانست میں ان باتوں پر سر کھپانے کی ضرورت نہیں۔ تحمل و تدبر سے محروم ایک جماعت جو دوسرے سیاسی مخالفین کی نفرت پر تعمیر کی گئی ہو اور پھر ایجنسیوں نے مختلف جاعتوں سے ہانکا کرکے بھان متی کا کنبہ جمع کیا ہو اس میں لوگ جیسے آتے ہیں ویسے ہی رخصت ہوتے ہیں۔

لیکن عثمان ڈار دوسری کسی جماعت سے گھیر کر بالکل نہیں لائے گئے تھے وہ خالص تحریک انصاف کا اپنا پراڈکٹ تھے۔ ایسا پراڈکٹ جس بارے خان دعویٰ کرتا رہا کہ یہ نظریاتی لوگ ہیں۔ کیسے نظریاتی لوگ ہیں اس کا اندازہ 9 مئی کے بعد ہوگیا۔

اس مرحلہ پر ماضی میں ریاستی جبروستم کا استقامت سے مقابلہ کرنے والی سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں اور کارکنوں کا ذکر نہیں کرنا چاہتا کیونکہ ہم تقابلی جائزہ نہیں لے رہے۔

سیاسی فہم اور گروہی نفرت کے رزق سے جینے والوں میں فرق ہوتا ہے۔

9 مئی کے بعد خود عمران خان نے اپنی جماعت کے جاں بحق ہونے اور گرفتار ہونے والے کارکنوں کی تعداد کے حوالے سے دروغ گوئی سے کام لیا اس دروغ گوئی کا انہیں بیرون ملک چندہ جمع کرنے میں تو فائدہ ہوگیا لیکن ملک کے اندر اس بیان کردہ تعداد کا مذاق اڑایا گیا۔

اس کے ذمہ دار خود عمران خان ہیں انہیں جذباتی ردعمل کی لہر میں ایسے اعدادوشمار (جاں بحق اور گرفتار ہونے والوں کے حوالے سے) پیش نہیں کرنے چاہئیں تھے جن کی تردید ہوجاتی۔

ہمیں سمجھنا ہوگاکہ سیاسی رہنما اور کارکن بدلے اور نفرت کی سیاست کی بجائے تدبر و تحمل کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ سیاسی عمل آگے ہی تب بڑھتا ہے جب تدبر و تحمل کے ساتھ راستہ بنایا جائے بالخصوص سکیورٹی اسٹیٹ میں۔

یہ بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ مولا جٹ فلم ایک بار تو 253 سے زائد ہفتے چل گئی تھی بعد میں جب بھی (تین سے چار بار) ریلیز ہوئی پہلے جیسی ’’موج‘‘ نہیں بنی۔

پاکستانی سیاست کی تاریخ میں ماضی میں جس نے بھی سیاسی مخالفین سے نفرت و حقارت کو اپنا رزق بنایا آگے چل کر اسے مروجہ سیاست کے تقاضوں کے سامنے سرخم کرنا پڑا۔ سادہ لفظوں میں کہتے ہیں کہ ” سیاست برداشت کرو احترام دو برداشت کئے جائو گے اور احترام ملے گا ” ، کو کہتے ہیں۔

افسوس کہ یہ بنیادی اصول عمران خان نے خود سمجھنے کی کوشش کی نہ ان کے لشکر نے۔ غالباً اس کی وجہ اسٹیبلشمنٹ تھی جس نے دیوتا گیری کرتے ہوئے دیوتا کے دماغ میں یہ بات بیٹھادی کہ ’’بس تم ہو اور تمہارے بعد قیامت ہے‘‘۔

حرفِ آخر یہ ہے کہ تحریک انصاف کے پاس سیاسی جماعت بننے کا موقع ہے اس موقع کو برت پاتی ہے یا نہیں یہ اس کی قیادت بہتر سمجھ سکتی ہے البتہ استغاثہ کی آدھی کہانی پر بنی فلم ” عثمان ڈار دا کھڑاک ” ڈبہ فلم ثابت ہوئی۔

یہ بھی پڑھیں:

About The Author