رؤف کلاسرا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پاور سیکٹر انکوائری کمیٹی کے سربراہ محمد علی کو اندازہ نہ تھا کہ وہ دریا میں رہتے ہوئے مگر مچھوں سے بیر لے رہے ہیں۔وہ اپنے تئیں ملک کی خدمت کر رہے تھے اورکینیڈا سے واپس آئے تھے۔ کچھ عرصہ پہلے انہیں SECP کا چیئرمین بنایا گیا تھا لیکن انہیں اندازہ نہیں تھا کہ جو لوگ انہیں پاکستان میں اعلیٰ عہدے دیتے ہیں یا دلواتے ہیں ان کے پیچھے مقصد ملک کی بھلائی نہیں ہوتا بلکہ وہ ذاتی کام‘ کاروبار کا فروغ اور لمبے ہاتھ مارنا چاہتے ہیں۔سوال یہ ہے کہ محمد علی کا نام کیسے سامنے آیا کہ انہیں پاور سیکٹر میں ہونے والی بدمعاشیوں اور30 سال سے جاری کرپشن پر کمیٹی کا سربراہ بنا دیا جائے؟
ہوا کچھ یوں کہ اگست 2019ء میں چند بڑے بزنس مین اُس وقت کے آرمی چیف جنرل باجوہ سے ملے۔ جنرل باجوہ ہی اہم معاملات کو دیکھ رہے تھے۔جیسے نواز شریف کبھی 2013ء میں وزیراعظم بن کر حکومت اپنے سمدھی اسحاق ڈار کے حوالے کر کے دنیا کے ایک سو سے زائد ممالک کی سیر پر نکل گئے تھے اور اپنے تقریباً چار سالہ اقتدار میں وہ چار سو دن پاکستان سے باہر رہے ‘ جس میں لندن کے بائیس دورے بھی شامل تھے۔ پیچھے حکومت اسحاق ڈار چلاتے تھے۔اور تو اور بری امام اور داتا دربار لنگر کمیٹیوں کے سربراہ بھی اسحاق ڈار تھے۔یوں سمجھ لیں کہ نواز شریف کا نام چلتا تھا مگر حکومت ڈار صاحب چلاتے تھے۔ یہی ماڈل اب بھی چل رہا تھا۔ وزیراعظم عمران خان تھے لیکن حکومت جنرل باجوہ چلا رہے تھے۔ جہاں خان صاحب اپنے یار دوستوں کو وزارتوں سے نواز رہے تھے وہیں باجوہ صاحب بھی بہت سے نام انہیں دے رہے تھے جو ان کے خیال میں حکومت چلانے کے لیے مفید ہوں گے۔ جنرل باجوہ کا خیال تھا کہ عمران خان اور ان کی ٹیم ناتجربہ کار ہے‘ اگر ان کی مدد نہ کی گئی تو ناکامی کانزلہ فوج پر گرے گا ‘لہٰذا وہ کسی صورت افورڈ نہیں کرسکتے تھے کہ عمران خان ناکام ہوں۔ یوں جنرل باجوہ اور جنرل فیض نے سب کام اپنے ہاتھ میں لے لیے تھے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ خان صاحب نے کبھی حکومت کا بوجھ محسوس ہی نہ کیا‘نہ ہی سیکھنے کی کوشش کی۔ خان کو تسلی تھی کہ میرے دو بڑے بھائی بیٹھے ہیں وہ سب سنبھال لیں گے۔یوں جنرل باجوہ نے ریگولر اجلاس منعقد کرنا شروع کر دیے۔ ایک ہفتے وہ اہم بزنس مینوں کو بلا لیتے تو اگلے دن صحافیوں اور ٹی وی اینکرز کا جتھہ رات گئے بلا لیا جاتا تو اگلے روز عمران خان کی کابینہ کے وزیروں کا گروہ اپنی اپنی وزارت کی فائلیں اٹھا کر انہیں بریفنگز دے رہا ہوتا تھا۔ خان کے وزیروں اور بزنس مینوں کو آمنے سامنے بٹھا کر بھی بریفنگ‘ سوال و جواب کے سیشن ہوتے تھے۔ جنرل باجوہ کی ایک بڑی خوبی تھی کہ وہ بڑی دیر تک گفتگو کرنیکی صلاحیت رکھتے تھے۔ اکثر وہ بولتے رہتے اور دوسرے سنتے رہتے لیکن وہ تلخ سوالات کا جواب بھی تحمل سے دیتے تھے۔
خیر اس دوران پاور سیکٹر کے معاملات گمبھیر ہوتے جارہے تھے۔ سرکلر ڈیٹ سر پر سوار تھا‘ بجلی کے بل بڑھنا شروع ہوگئے تھے کیونکہ ڈالر کا ریٹ ایک سال میں ایک سو دس روپے سے ایک سو ساٹھ روپے کراس کر گیا تھا۔ معاہدوں کے تحت بجلی کے یونٹس کو ڈالرز ریٹس کے ساتھ جوڑ دیا گیا تھا لہٰذا دھیرے دھیرے لوگوں کی چیخیں نکلنا شروع ہو گئیں۔ مسئلہ یہ تھا کہ سب پلانٹس بینظیر بھٹو اور نواز شریف کے ادوار میں لگے تھے۔زرداری صاحب نے 2008ء میں صدر بن کر رہی سہی کسر پوری کر دی جب انہوں نے کرائے کے بجلی گھر منگوا لیے اور 14 فیصد تک ایڈوانس ادائیگیاں بھی روپوں اور ڈالروں میں کر دی گئیں۔ ان ڈالروں کا سکینڈل بعد میں ترکی کے کرائے کے جہاز کی شکل میں سامنے آیا جس نے کچھ میگا واٹس بجلی بھی پیدا نہیں کی تھی لیکن اسے 70 ‘ 80ملین ڈالرز کی ایڈوانس ادائیگی کر دی گئی ۔ کمیشن کھانے والوں میں وزیراعظم ہاؤس کے مکینوں سے لے کر آزاد کشمیر کے سابق صدر کے بیٹے اور اس وقت کے واٹر اینڈ پاور کے سیکرٹری شاہد رفیع تک سب شامل تھے جنہیں دبئی میں آف شور اکاؤنٹس کے ذریعے ادائیگیاں کی گئی تھیں۔ سابق سیکرٹری پاور شاہد رفیع نے نیب کے ساتھ اعترافی بیان میں تفصیل سے بتایا کہ کرپشن کیسے ہوئی اور اپنے حصے کے چار کروڑ روپے واپس دے کر آزادی خریدلی۔ لیکن بعد میں اس کمپنی نے عالمی عدالت سے پاکستان پر مقدمہ کر کے سوا ارب ڈالرز کا جرمانہ کرا دیا تھا۔ حکومت پاکستان ڈری ہوئی تھی کہ پاور سیکٹر کے معاہدوں کو چھیڑا تو وہ ہمارے خلاف عالمی عدالتوں میں مقدمات دائر کردیں گے اور مزید جرمانے ہوں گے۔ اس سے پہلے بھی چند بڑے مقدمات حکومتِ پاکستان ہار چکی تھی لہٰذا معاہدے کینسل کرنے کا رسک لینے کو کوئی تیار نہ تھا۔ یہ بات تو اندھے کو بھی نظر آرہی تھی کہ سیاسی حکمرانوں نے بیوروکریٹس اور اپنے فرنٹ مین مقامی اور آف شور کاروباریوں کے ساتھ مل کر بہت مہنگے پاور پلانٹس لگائے تھے۔ کہیں پر بھی ان معاہدوں میں پاکستان کی حکومت اور اس کے عوام کے مفادات کا خیال نہیں رکھا گیا تھا۔ لگتا تھا یہ سودے انار کلی بازار کے کسی دکاندار نے گاہک کے ساتھ کئے تھے جو اپنا منافع دیکھتا ہے نہ کہ گاہک کی جیب یا حیثیت۔اب جنرل باجوہ اور عمران خان کیلئے بڑا مسئلہ پاور سیکٹر کا سرکلر ڈیٹ تھا جو روز بروز بڑھتا جارہا تھا۔ جتنا ٹیکس اکٹھا ہورہا تھا سب پاور سیکٹر کو جانا تھا۔ اس پر اربوں کا مارک اَپ الگ سے تھا۔ پاور پلانٹس مالکان کا سر اور انگلیاں سب کچھ کڑاہی میں تھا۔
ایک دن جنرل باجوہ کی ملاقات کراچی کے ایک بڑے بزنس مین سے ہوئی جو ہمیشہ سے جی ایچ کیو کے قریب رہے ہیں۔ وہ صاحب وزیراعظم عمران خان کے بھی بہت قریب تھے۔ جنرل باجوہ بھی انہیں بہت اہمیت دیتے تھے کہ ان کے بارے تاثر تھا کہ وہ کراچی کے بڑے بڑے بزنس مینوں کو سنبھالنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ کراچی کے بزنس مین عمران خان اور آرمی چیف سے اپنے اپنے بزنس معاملات پر رعایتیں لینے کیلئے ان صاحب کو ہی آگے کرتے تھے۔ اس بزنس مین نے عمران خان اور جنرل باجوہ کو قائل کیا کہ کاروبار اور معاشی ترقی کی راہ میں بڑی رکاوٹ نیب ہے لہٰذا اس کے پر کاٹ دیے جائیں‘ کاروباریوں کے سر سے نیب کی تلوار ہٹا دی جائے کیونکہ بیوروکریٹس کسی فائل پر دستخط کرنے کو تیار نہیں تھے اور کام رُک گئے تھے۔ (حالانکہ شاہد رفیع بھی بیوروکریٹ تھے جنہوں نے ترکی والے کیس میں تگڑا مال بنایا تھا)خیرعمران خان نے صدر علوی سے ایک نیب آرڈیننس جاری کرایا اور کراچی کی ایک تقریب میں کہا کہ نیب کے پر کاٹ دیے گئے ہیں‘ تاجر اَب فکر نہ کریں‘ کھل کر کھلیں۔انہوں نے اس بزنس مین دوست کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ اب وہ بھی مطمئن ہوں گے۔ اب وہی عمران خان کے کراچی والے دوست باجوہ صاحب کو بتا رہے تھے کہ پاور سیکٹر میں بڑے گھپلے ہوئے ہیں جس میں لاہور کے کچھ بڑے بزنس میں شامل ہیں۔ باجوہ صاحب نے پوچھا یہ کام کون کرسکتا ہے؟کراچی کے اُس بزنس مین نے محمد علی کا نام دیا جو کینیڈا سیٹل ہوگئے تھے۔ اس بزنس مین نے کہا ‘ وہ میرے کہنے پر نہیں آئے گا‘آپ کے کہنے پر آئے گا۔ باجوہ صاحب تیار ہوگئے۔ انہیں علم نہ تھا کہ اس تجویز کے پیچھے کیا کہانی تھی۔ کراچی کے اُس بزنس مین کے پاس آخر وہ موقع آگیا تھا۔ اب وہ لاہور کے بینکر کو اس پاور سیکٹر رپورٹ میں فکس کراسکتا تھا جس کے پاور پلانٹس بھی تھے اور وہ نواز شریف خاندان کے قریبی سمجھے جاتے تھے۔ان حالات میں نواز شریف انہیں بچا بھی نہیں سکتے تھے کیونکہ وہ خود جیل میں تھے۔اس بینکر نے کبھی کراچی کے اس پراپرٹی ٹائیکون کو مشکل وقت میں قرضہ دینے سے انکار کیا تھا۔لاہور اور کراچی کے دو ٹائیکونز کی جنگ چھڑ چکی تھی۔انرجی ایکسپرٹ محمد علی کو اس کھیل کا علم نہ تھا‘ جب کینیڈا میں انہیں جنرل باجوہ کی طرف سے ایک اہم پیغام ملا۔(جاری)
ہوا کچھ یوں کہ اگست 2019ء میں چند بڑے بزنس مین اُس وقت کے آرمی چیف جنرل باجوہ سے ملے۔ جنرل باجوہ ہی اہم معاملات کو دیکھ رہے تھے۔جیسے نواز شریف کبھی 2013ء میں وزیراعظم بن کر حکومت اپنے سمدھی اسحاق ڈار کے حوالے کر کے دنیا کے ایک سو سے زائد ممالک کی سیر پر نکل گئے تھے اور اپنے تقریباً چار سالہ اقتدار میں وہ چار سو دن پاکستان سے باہر رہے ‘ جس میں لندن کے بائیس دورے بھی شامل تھے۔ پیچھے حکومت اسحاق ڈار چلاتے تھے۔اور تو اور بری امام اور داتا دربار لنگر کمیٹیوں کے سربراہ بھی اسحاق ڈار تھے۔یوں سمجھ لیں کہ نواز شریف کا نام چلتا تھا مگر حکومت ڈار صاحب چلاتے تھے۔ یہی ماڈل اب بھی چل رہا تھا۔ وزیراعظم عمران خان تھے لیکن حکومت جنرل باجوہ چلا رہے تھے۔ جہاں خان صاحب اپنے یار دوستوں کو وزارتوں سے نواز رہے تھے وہیں باجوہ صاحب بھی بہت سے نام انہیں دے رہے تھے جو ان کے خیال میں حکومت چلانے کے لیے مفید ہوں گے۔ جنرل باجوہ کا خیال تھا کہ عمران خان اور ان کی ٹیم ناتجربہ کار ہے‘ اگر ان کی مدد نہ کی گئی تو ناکامی کانزلہ فوج پر گرے گا ‘لہٰذا وہ کسی صورت افورڈ نہیں کرسکتے تھے کہ عمران خان ناکام ہوں۔ یوں جنرل باجوہ اور جنرل فیض نے سب کام اپنے ہاتھ میں لے لیے تھے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ خان صاحب نے کبھی حکومت کا بوجھ محسوس ہی نہ کیا‘نہ ہی سیکھنے کی کوشش کی۔ خان کو تسلی تھی کہ میرے دو بڑے بھائی بیٹھے ہیں وہ سب سنبھال لیں گے۔یوں جنرل باجوہ نے ریگولر اجلاس منعقد کرنا شروع کر دیے۔ ایک ہفتے وہ اہم بزنس مینوں کو بلا لیتے تو اگلے دن صحافیوں اور ٹی وی اینکرز کا جتھہ رات گئے بلا لیا جاتا تو اگلے روز عمران خان کی کابینہ کے وزیروں کا گروہ اپنی اپنی وزارت کی فائلیں اٹھا کر انہیں بریفنگز دے رہا ہوتا تھا۔ خان کے وزیروں اور بزنس مینوں کو آمنے سامنے بٹھا کر بھی بریفنگ‘ سوال و جواب کے سیشن ہوتے تھے۔ جنرل باجوہ کی ایک بڑی خوبی تھی کہ وہ بڑی دیر تک گفتگو کرنیکی صلاحیت رکھتے تھے۔ اکثر وہ بولتے رہتے اور دوسرے سنتے رہتے لیکن وہ تلخ سوالات کا جواب بھی تحمل سے دیتے تھے۔
خیر اس دوران پاور سیکٹر کے معاملات گمبھیر ہوتے جارہے تھے۔ سرکلر ڈیٹ سر پر سوار تھا‘ بجلی کے بل بڑھنا شروع ہوگئے تھے کیونکہ ڈالر کا ریٹ ایک سال میں ایک سو دس روپے سے ایک سو ساٹھ روپے کراس کر گیا تھا۔ معاہدوں کے تحت بجلی کے یونٹس کو ڈالرز ریٹس کے ساتھ جوڑ دیا گیا تھا لہٰذا دھیرے دھیرے لوگوں کی چیخیں نکلنا شروع ہو گئیں۔ مسئلہ یہ تھا کہ سب پلانٹس بینظیر بھٹو اور نواز شریف کے ادوار میں لگے تھے۔زرداری صاحب نے 2008ء میں صدر بن کر رہی سہی کسر پوری کر دی جب انہوں نے کرائے کے بجلی گھر منگوا لیے اور 14 فیصد تک ایڈوانس ادائیگیاں بھی روپوں اور ڈالروں میں کر دی گئیں۔ ان ڈالروں کا سکینڈل بعد میں ترکی کے کرائے کے جہاز کی شکل میں سامنے آیا جس نے کچھ میگا واٹس بجلی بھی پیدا نہیں کی تھی لیکن اسے 70 ‘ 80ملین ڈالرز کی ایڈوانس ادائیگی کر دی گئی ۔ کمیشن کھانے والوں میں وزیراعظم ہاؤس کے مکینوں سے لے کر آزاد کشمیر کے سابق صدر کے بیٹے اور اس وقت کے واٹر اینڈ پاور کے سیکرٹری شاہد رفیع تک سب شامل تھے جنہیں دبئی میں آف شور اکاؤنٹس کے ذریعے ادائیگیاں کی گئی تھیں۔ سابق سیکرٹری پاور شاہد رفیع نے نیب کے ساتھ اعترافی بیان میں تفصیل سے بتایا کہ کرپشن کیسے ہوئی اور اپنے حصے کے چار کروڑ روپے واپس دے کر آزادی خریدلی۔ لیکن بعد میں اس کمپنی نے عالمی عدالت سے پاکستان پر مقدمہ کر کے سوا ارب ڈالرز کا جرمانہ کرا دیا تھا۔ حکومت پاکستان ڈری ہوئی تھی کہ پاور سیکٹر کے معاہدوں کو چھیڑا تو وہ ہمارے خلاف عالمی عدالتوں میں مقدمات دائر کردیں گے اور مزید جرمانے ہوں گے۔ اس سے پہلے بھی چند بڑے مقدمات حکومتِ پاکستان ہار چکی تھی لہٰذا معاہدے کینسل کرنے کا رسک لینے کو کوئی تیار نہ تھا۔ یہ بات تو اندھے کو بھی نظر آرہی تھی کہ سیاسی حکمرانوں نے بیوروکریٹس اور اپنے فرنٹ مین مقامی اور آف شور کاروباریوں کے ساتھ مل کر بہت مہنگے پاور پلانٹس لگائے تھے۔ کہیں پر بھی ان معاہدوں میں پاکستان کی حکومت اور اس کے عوام کے مفادات کا خیال نہیں رکھا گیا تھا۔ لگتا تھا یہ سودے انار کلی بازار کے کسی دکاندار نے گاہک کے ساتھ کئے تھے جو اپنا منافع دیکھتا ہے نہ کہ گاہک کی جیب یا حیثیت۔اب جنرل باجوہ اور عمران خان کیلئے بڑا مسئلہ پاور سیکٹر کا سرکلر ڈیٹ تھا جو روز بروز بڑھتا جارہا تھا۔ جتنا ٹیکس اکٹھا ہورہا تھا سب پاور سیکٹر کو جانا تھا۔ اس پر اربوں کا مارک اَپ الگ سے تھا۔ پاور پلانٹس مالکان کا سر اور انگلیاں سب کچھ کڑاہی میں تھا۔
ایک دن جنرل باجوہ کی ملاقات کراچی کے ایک بڑے بزنس مین سے ہوئی جو ہمیشہ سے جی ایچ کیو کے قریب رہے ہیں۔ وہ صاحب وزیراعظم عمران خان کے بھی بہت قریب تھے۔ جنرل باجوہ بھی انہیں بہت اہمیت دیتے تھے کہ ان کے بارے تاثر تھا کہ وہ کراچی کے بڑے بڑے بزنس مینوں کو سنبھالنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ کراچی کے بزنس مین عمران خان اور آرمی چیف سے اپنے اپنے بزنس معاملات پر رعایتیں لینے کیلئے ان صاحب کو ہی آگے کرتے تھے۔ اس بزنس مین نے عمران خان اور جنرل باجوہ کو قائل کیا کہ کاروبار اور معاشی ترقی کی راہ میں بڑی رکاوٹ نیب ہے لہٰذا اس کے پر کاٹ دیے جائیں‘ کاروباریوں کے سر سے نیب کی تلوار ہٹا دی جائے کیونکہ بیوروکریٹس کسی فائل پر دستخط کرنے کو تیار نہیں تھے اور کام رُک گئے تھے۔ (حالانکہ شاہد رفیع بھی بیوروکریٹ تھے جنہوں نے ترکی والے کیس میں تگڑا مال بنایا تھا)خیرعمران خان نے صدر علوی سے ایک نیب آرڈیننس جاری کرایا اور کراچی کی ایک تقریب میں کہا کہ نیب کے پر کاٹ دیے گئے ہیں‘ تاجر اَب فکر نہ کریں‘ کھل کر کھلیں۔انہوں نے اس بزنس مین دوست کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ اب وہ بھی مطمئن ہوں گے۔ اب وہی عمران خان کے کراچی والے دوست باجوہ صاحب کو بتا رہے تھے کہ پاور سیکٹر میں بڑے گھپلے ہوئے ہیں جس میں لاہور کے کچھ بڑے بزنس میں شامل ہیں۔ باجوہ صاحب نے پوچھا یہ کام کون کرسکتا ہے؟کراچی کے اُس بزنس مین نے محمد علی کا نام دیا جو کینیڈا سیٹل ہوگئے تھے۔ اس بزنس مین نے کہا ‘ وہ میرے کہنے پر نہیں آئے گا‘آپ کے کہنے پر آئے گا۔ باجوہ صاحب تیار ہوگئے۔ انہیں علم نہ تھا کہ اس تجویز کے پیچھے کیا کہانی تھی۔ کراچی کے اُس بزنس مین کے پاس آخر وہ موقع آگیا تھا۔ اب وہ لاہور کے بینکر کو اس پاور سیکٹر رپورٹ میں فکس کراسکتا تھا جس کے پاور پلانٹس بھی تھے اور وہ نواز شریف خاندان کے قریبی سمجھے جاتے تھے۔ان حالات میں نواز شریف انہیں بچا بھی نہیں سکتے تھے کیونکہ وہ خود جیل میں تھے۔اس بینکر نے کبھی کراچی کے اس پراپرٹی ٹائیکون کو مشکل وقت میں قرضہ دینے سے انکار کیا تھا۔لاہور اور کراچی کے دو ٹائیکونز کی جنگ چھڑ چکی تھی۔انرجی ایکسپرٹ محمد علی کو اس کھیل کا علم نہ تھا‘ جب کینیڈا میں انہیں جنرل باجوہ کی طرف سے ایک اہم پیغام ملا۔(جاری)
یہ بھی پڑھیے:
ملتان میں قتلِ آم||رؤف کلاسرا
آخر سیکھ ہی گئے!۔۔۔رؤف کلاسرا
پُرانے جال ، پُرانے شکاری۔۔۔ رؤف کلاسرا
ایک بڑا ڈاکا اور بڑی واردات تیار… ۔۔۔ رؤف کلاسرا
پانچ ارب کی واردات کی داستان …(1)۔۔۔ رؤف کلاسرا
پانچ ارب کی واردات کی داستان …(2)۔۔۔ رؤف کلاسرا
پانچ ارب کی واردات کی داستان …(3)۔۔۔ رؤف کلاسرا
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر