رسول بخش رئیس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دل و دماغ اور آنکھیں کھلی ہوں تو آگے نکلنے کا ایک نہیں کئی راستے ہموار ہوتے چلے جاتے ہیں۔ ذہنوں کو کھولنے کے لیے مگر صرف ایک راستہ ہے وہ کسی کی سمجھ میں آ جائے تو باقی راستوں کا سراغ لگانے میں مشکل پیش نہیں آتی۔ یوں سمجھیے کہ انسانوں اور قوموں کی زندگی میں معجزے رونما ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ یہ کوئی راز کی بات بھی نہیں رہی کہ جو ملک سماجی اور معاشی ترقی کی دوڑ میں ہم سے آگے نکل چکے انہوں نے سرکاری سطح پر تعلیم میں سرمایہ کاری کو باقی تمام معاملات پر ترجیح دی تھی۔ ابتدائی تعلیم سے لے کر اعلیٰ تعلیم تک معیار طے کیے اور ہر مدت کے لیے اہداف مقرر کرکے آگے بڑھتے چلے گئے۔ دنیا نے سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدانوں میں رنگ بدلے‘ جب نئے اُفق کلیدی شعبوں میں ابھر کر سامنے آئے اور دیکھا دیکھی میں اپنے قومی تعلیمی اداروں کو ہر لحاظ سے مربوط اور مضبوط کرتے چلے گئے۔ کبھی ہم نے بھی ایسی ہی سرمایہ کاری کی تھی۔ منصوبہ بندی بھی کی اور تب ہم کسی سے زیادہ پیچھے نہیں تھے۔ ہمارے سرکاری سکول‘ کالج اور جامعات ہمسایہ ممالک کے اداروں کا مقابلہ کرتے تھے۔ جوں جوں یہاں ہر نوع کے انقلابی دھواں دھار تقاریر کے ماہرین اور زَر و دولت کے اسیر سیاست میں جوق در جوق وارد ہونے لگے‘ ہماری قومی زندگی کے ہر شعبے میں تنزلی ہونا شروع ہو گئی۔ قوموں کو نچلی سطح سے اٹھا کر اوپر لے جانے کے لیے ہمارے مقدر میں کوئی مدبر نہ آ سکا۔ سیاسی تاجروں‘ ٹھیکے داروں‘ پراپرٹی ڈیلروں اور ہر سیاسی دھڑے پر قابض جادوگروں نے ہمیشہ راستہ روکے رکھا۔ مدبر اور ہمارے سیاست دانوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ یہ سیاست کو تجارت سمجھ کر اس میں سرمایہ کاری کرتے ہیں۔ ایک یا دو اجارہ داریاں بنا کر سیاسی منڈی پر قبضہ جمانے کے فن میں طاق ہو چکے ہیں۔ مدبر صرف صاف ستھری اور حقیقی جمہوریت میں ہی پیدا ہوتے ہیں۔
مغرب کے یہ مدبر ہی تھے جنہوں نے آزادی اور مساوات کی تعمیر سرکاری تعلیمِ عامہ کے تصور سے کی۔ خود سوچیں کہ انسانی آزادی کیسے ممکن ہے اگر اس کی ذہنی صلاحیت کو جلا نہ بخشی جائے‘ اس کی دانش کی پرورش نہ ہو سکے اور شعوری حیات صرف کھانے پینے اور ارد گرد کے ماحول تک ہی محدود رہے۔ ہماری اپنی تہذیب میں علم اور حکمت کی جتنی اہمیت مجھے سمجھ میں آ سکی ہے وہ کسی دیگر زندگی کے شعبوں کی نہیں۔ ہمارے احیائے ملت کے سب اکابرین نے 19ویں صدی میں‘ بالخصوص جب مغربی استعمار نے یہاں ڈیرے ڈال دیے‘ ذِلت اور غلامی کے گڑھے سے نکلنے کے لیے جدید سائنسی تعلیم پر زور دیا۔ مصر میں اس صدی کے شروع میں محمد علی پاشا نے جدید تعلیم کو اپنانے کے لیے کاوشیں کیں۔ جمال الدین افغانی اور پھر سر سید احمد خان نے فکری اور عملی طور پر مسلم معاشروں میں جو کام کر دکھایا اس کا ثمر ہمیں آزادی کی صورت نصیب ہوا۔ پاکستان جدت پسند مسلمانوں کا خواب تھا۔ اس کے خد و خال پیدا ہونے سے پہلے مسلمان قوم کی بیداری سیاسی شعور اور نئی معیشت میں حصہ داری کے لیے جدید تعلیم کو اسلوب بنایا۔ یہ حوالہ صرف اس لیے دے رہا ہوں کہ یہ ہماری میراث ہے جسے ہم نکمے سیاست دانوں کے ہاتھوں گنوا بیٹھے۔ جہاں دیگر سب ادارے انہوں نے اپنے مفادات کی بھینٹ چڑھا کر برباد کیے وہاں تعلیمی ادارے بھی نہ چھوڑے۔ جن کی اپنی تعلیم اور عملی حدود واربعہ صرف ایک شہر کے ایک ہی ادارے تک محدود تھا۔ دوسروں کا بھی یہی حال تھا تو وہ تعلیم کے میدان میں کیا خواب دیکھ سکتے تھے۔ بات نعرے لگانے اور لگوانے سے آگے نہ بڑھ سکی۔
میں ہمیشہ سرکاری تعلیمی اداروں کی بنیادی اہمیت پر زور دیتا ہوں کہ قوموں نے ان کے سہارے ترقی کی ہے۔ پرائیویٹ ادارے تو فقط حکمران طبقات اور اعلیٰ متوسط کلاس کے لوگوں کے لیے ہوتے ہیں۔ یہ تو پھیلتے اور پھولتے چلے گئے اور سرکاری اداروں کا معیار گرتا چلا گیا ہے۔ اگر ہماری نوکر شاہی‘ سیاسی گھرانوں‘ صنعت کاروں اور بڑے زمینداروں کے بچے سرکاری تعلیمی اداروں میں پڑھتے‘ جیسا کہ 70کی دہائی کے آخر تک ہوتا رہا ہے‘ تو ان کا معیار پرائیویٹ تعلیم اداروں سے بہتر ہوتا۔ تب بہتر ہی تھا۔ جنہیںسرکاری تعلیمی اداروں میں داخلہ نہیں ملتا تھا وہ کسی پرائیویٹ سکول یا کالج میں تعلیم حاصل کرتے تھے۔ آزادی‘ جیسا کہا‘ تعلیم سے ممکن ہے۔ اس کے ساتھ انسانی مساوات سے جڑی ہوئی ہے۔ اس کا مطلب سب کے لیے یکساں مواقع کی فراہمی ہے۔ اور اس کا آغاز سب کے لیے یکساں نصاب اور ایک ہی تعلیمی نظام سے ہوتا ہے۔ قومی اور جمہوری معاشروں میں تعلیمی میدان ایک اور سب کے لیے ہموار ہوتا دیکھا ہے۔ اس میں عام اور خواص کی تمیز نہیں ہوتی۔ یہ ہم نے استعماری دور میں دیکھا تھا کہ حکمران کے لیے برصغیر میں الگ نوعیت کے سکول اور کالجز بنائے گئے تھے تاکہ وہاں کے فارغ التحصیل موثر معاونت کر سکیں۔ وہی تو لوگ تھے جو بعد میں ہمارے حکمران بن گئے۔ یہ ایلیٹ کلچر اب اتنا زور پکڑ چکا ہے کہ ہر نو دولتیا اس میں شامل ہونے کی تگ و دو میں ہے۔ شاید ہی کوئی بیوروکریٹ یہاں تک کے سرکاری جامعات کے اساتذہ ہوں جو اب اپنے بچوں کو سرکاری تعلیمی اداروں میں پڑھانے کے لیے تیار ہوں۔ معیار اتنا گر چکا کہ مسابقت کی اس دوڑ میں کوئی با وسائل شخص ایسا نہیں کرے گا۔
دیہات اور چھوٹے قصبوں تک ہم نے دیکھا ہے کہ کئی مکانوں میں پرائیویٹ سکولز کھلے ہوئے ہیں اور طالب علموں کی کمی نہیں۔ اس میں ایک اچھی بات تو ضرور ہے کہ لوگ اچھی تعلیم پر ہر قسم کے اخراجات برداشت کرنے کے لیے تیار ہیں اگر ان کے پاس کچھ ہے تو۔ دوسری طرف ہم نے سرکاری تعلیمی اداروں پر توجہ نہ دے کر ان کو صرف غریب سے غریب تر گھرانوں کے لیے چھوڑ دیا ہے۔ لاہور شہر کے 60فیصد بچے اب نجی تعلیمی اداروں میں پڑھتے ہیں۔ اس کے نتائج تو یہ نکلیں گے کہ تعلیم کی درجہ بندی سے زندگی کے میدان میں نکلنے کے راستے سرکاری جامعات سے نکلنے والوں کے لیے محدود سے محدود ہوتے چلے جائیں گے۔
اب بھی وقت ہے کہ ہمارے ملک میں سرکاری شعبے میں ایک وسیع تعلیمی انفراسٹرکچر موجود ہے۔ سکولوں‘ کالجوں اور جامعات میں اساتذہ کی کمی نہیں اور نہ ہی بھاری بھرکم نوکر شاہی جو ہمارے حکمران گھرانوں نے ان پر کھڑی کر رکھی ہے۔ وسائل بھی کسی حد تک دیے جا رہے ہیں۔ ضرورت اصلاحات کی ہے۔ یکساں قومی نصاب کو بارہویں جماعت تک ترتیب دینے اور اس کو نافذ کرنے کی ہے۔ ایسا کیوں نہیں کر سکتے کہ جو نصاب نجی اداروں میں پڑھایا جا رہا ہے وہی سرکاری سکولوں میں بھی نافذ کیا جائے اور جو قومی شناخت کے تقاضے آپ محفوظ رکھنا چاہتے ہیں‘ یہ ادارے میں ضرور رکھیں۔ مگر ایسا نہ کریں کہ آگے نکلنے کی دوڑ میں طالب علموں کے سامنے مسابقت کا ہموار میدان نہ ہو۔ جب پہلے قدم پر ہی عدم مساوات ہو گی تو یہی ٹیرھی دیوار بلندی تک ایسی ہی گی۔ اس عالم میں راستے تو صرف ان کے لیے ہموار ہوں گے جنہیں سبقت لے جانے کے لیے آپ نے پہلے قدم پر ہی آگے کھڑا کیا تھا۔ پہلے تو یہ تہہ در تہہ نوکر شاہی اور اس پر اٹھنے والے اخراجات کو کم کریں‘ تعلیمی اداروں کو زیادہ وسائل مہیا کریں اور نصاب میں ایسی تبدیلی کریں کہ غریب سے غریب تر بھی آگے نکل سکے۔ کاش یہاں کوئی مدبر ہوتا‘ کوئی فکر کرتا‘ آگے نکلنے کاراستہ بتاتا۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر