دسمبر 25, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

بجلی مہنگی کیسے ہوئی؟(17)۔۔۔||رؤف کلاسرا

باقی 37 فنانشل سٹیٹمنٹس کا کچھ پتہ نہیں کہ وہ کہاں ہیں کیونکہ ان کا ریکارڈ ایس ای سی پی اور نیپرا کے پاس نہ تھا یا پھر ان اداروں میں بیٹھے پاور پلانٹس مالکان کے ہمدرد اور حکمرانوں سے اچھی پوسٹنگ اور ترقی کی آس لگائے افسران نے جان بوجھ کر انکوائری کمیٹی کو پیش نہیں کیں۔ اگر 312 فنانشل سٹیٹمنٹس کا جائزہ لیا جاتا تو یہ اعدادوشمار 415 ارب روپے سے کہیں زیادہ ہوتے ۔

رؤف کلاسرا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جوں جوں بجلی مہنگی ہونے کی وجوہات تلاش کرنے کیلئے بنائی گئی انکوائری کمیٹی آگے بڑھ رہی تھی ایسے ایسے انکشافات سامنے ہورہے تھے کہ کمیٹی ممبران جو پروفیشنل تھے اور اس سیکٹر سے ڈیل کرتے تھے ‘ کی آنکھیں حیرت سے کھل رہی تھیں۔ مان لیا کہ سرمایہ کار کو جس کاروبار میں پرافٹ نظر نہیں آئے گا وہ پیسہ نہیں لگائے گا‘جائز پرافٹ ہر کسی کا حق ہے لیکن جب ان پاور پلانٹس کی دستاویزات‘ SECP اور NEPRA کاریکارڈ سامنے آنا شروع ہوا تو اندازہ ہوا کہ سیاسی حکمران عوام کے نمائندے کم اور ان پاور پلانٹس کے سگے زیادہ تھے۔پاکستان میں بجلی پورے خطے میں سب سے زیادہ مہنگی پیدا کی جا رہی تھی۔ ہندوستان‘ بنگلہ دیش اور خطے کے دیگر ممالک اپنے عوام کو سستی بجلی فراہم کررہے تھے جبکہ پاکستان میں لُٹ مچی ہوئی تھی۔عوام کا جو حشر ہورہا تھا وہ اپنی جگہ لیکن اس مہنگی بجلی کا اصل نقصان ایکسپورٹ سیکٹرکو ہو رہا تھا۔ ایکسپورٹرز کو عالمی مارکیٹ میں بڑاایڈوانٹج سستی بجلی سے ہوتا ہے تاکہ وہ عالمی مارکیٹ میں اشیاکی لاگت کم ہو نے کی وجہ سے زیادہ ڈالرز کما کر لا سکے‘مگر یہاں بجلی مہنگی ہوتی چلی گئی جس سے ایکسپورٹ کم ہونا شروع ہوگئیں اور ساتھ ہی تجارتی خسارہ بڑھنا شروع ہوگیا۔ پاکستانی تاجر اب عالمی مارکیٹ میں بنگلہ دیش اور بھارت کا مقابلہ نہیں کر پا رہے تھے۔مقابلہ تو خیر پہلے بھی نہیں تھا لیکن بجلی کے مہنگے معاہدوں کے بعد تو بھٹہ ہی بیٹھ گیا۔ اب حالت یہ تھی کہ ایک طرف بجلی مہنگی ہونے سے ایکسپورٹ کم ہورہی تھیں اور ڈالرز کم آرہے تھے تو دوسری طرف جو مہنگی بجلی پیدا کر رہے تھے ان پلانٹ مالکان کو ادائیگیاں بھی ڈالروں میں ہورہی تھیں۔اب ڈالروں میں قرضہ بھی لیا جارہا تھا تا کہ ان پلانٹس مالکان کو اس بجلی کی ادائیگی بھی کریں جو استعمال نہیں ہو سکی۔
جب پروفیشنلز پر مشتمل اس ٹیم نے یہ چیزیں دیکھنا شروع کیں تو پتہ چلا کہ پرائیویٹ سیکٹر جو بجلی پیدا کر کے حکومت کو ڈالروں میں بیچ رہا تھا اس میں بڑے پیمانے پر گڑ بڑ کی گئی تھی۔ ان کمپنیوں نے جو لمبے ہاتھ مارے وہ سب سے زیادہ پلانٹ لگانے کی لاگت میں تھے۔ لاگت کو بڑھا چڑھا کر بتایا گیا تاکہ نیپر ا سے زیادہ ٹیرف لے سکیں اور زیادہ ڈالرز سمیٹ سکیں۔ دوسری بڑی بے ایمانی فیول کے استعمال میں کی گئی۔ اکثر پاور پلانٹ مالکان نے فیول کم استعمال کیا لیکن جو رسیدیں نیپرا/حکومت کو دی گئیں ان میں بہت زیادہ فیول کا استعمال دکھایا گیا تاکہ زیادہ پیسے لے سکیں۔اس طرح فیول پر کِک بیکس اور کمیشن بھی بڑے پیمانے پر کھایا گیا۔ یوں پلانٹ کی لاگت اور فیول کی جعلی رسیدیں جمع کرا کے ڈالرز لیے جارہے تھے۔ اس لوٹ مار میں یقینی طور پر حکومتی وزرا‘ نیپرا افسران اور مالکان اکٹھے تھے۔ وہ ان جعلی بلوں کی منظوری دے کر ادائیگیاں کرا رہے تھے۔ وجہ وہی تھی کہ اکثر سیاسی حکمرانوں نے آف شور کمپنیوں کے ذریعے پاکستان میں پاور پلانٹس لگوائے اور اس سلسلے میں غیرملکی فرنٹ مینوں کو آگے کیا گیا۔ بعد میں جب اس پیمانے پر لوٹ مار ہورہی تھی تو لوکل پاکستانی بزنس مین جو پاور پلانٹ لگا رہے تھے وہ ان حکمرانوں کے فرنٹ مین/شیئر ہولڈرز بننے پر خوشی خوشی تیار ہوگئے تاکہ ان کے جھوٹے بل اور پلانٹس کی مرضی کی لاگت لگا کر مرضی کا ٹیرف لے سکیں۔ پیسہ کون ساسیاستدانوں کی جیب سے جارہا تھا‘ انہیں توبیٹھے بٹھائے ڈالروں میں کمانے کا موقع مل گیا ۔ ساتھ میں نیپرا اور دو طاقتور ڈی ایم جی افسران کے ذمے کام لگا کہ کوئی منہ مانگا ٹیرف اورجھوٹے بل کہیں رُکنے نہیں چاہئیں‘ کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔ جو بھی جھوٹ سچ ہے اس کی ادائیگی کرنی ہے۔ نیپرا/فنانس کے کچھ لوگ اس کھیل میں برابر کے شریک تھے۔ وہ اپنی پوسٹنگ کیلئے پورے ملک کا سودا کررہے تھے۔
اس کمیٹی نے 2002ء ‘2006ء اور 2015ء کی پاور پالیسوں کا جائزہ لینا شروع کیا تو فوری طور پر اس کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کی کوششیں شروع ہو گئیں۔ تمام تر کوشش کے باوجود کمیٹی ممبران کو Bulk power upfront tarrifکا بریک اَپ نہ دیا گیااور نہ ہی Return of equityکی تفصیلات دی گئیں‘ جو اس سارے معاملے کی تحقیقات کیلئے ضروری تھیں۔ تاہم کمیٹی میں وہ لوگ شامل تھے جو ان سب کرتوتوں سے واقف تھے‘ لہٰذا انہوں نے کچھ اور طریقہ اختیار کیا تاکہ معاملے کی تہہ تک پہنچا جائے کہ کس نے کتنا پیسہ اور ڈالرز جھوٹی رسیدیں اور جھوٹے بلز دے کر وصول کیے اور کتنے کتنے ارب ایک ایک پاور پلانٹ کو زیادہ ملے۔ کس نے بڑا اور کس نے چھوٹا ہاتھ مارا تھا۔پتہ چلا کہ ان پرائیوئٹ پاور پلانٹس کو بہت زیادہ پرکشش فارمولے کے تحت ڈیلیں دی گئیں۔ انٹرنل ریٹ آف ریٹرنز بہت زیادہ دیے گئے خصوصا ً 1994ء میں بینظیر بھٹو اور زرداری دور کی پالیسی میں‘ جب پہلی دفعہ IPPs لگے تھے۔ شروع میں کل 17 پاور پلانٹس اس پالیسی کے تحت لگائے گئے۔ ان میں سے 16 پلانٹس نے کُل 51 ارب روپے کی سرمایہ کاری کی تھی‘ مگر 1994ء سے 2020 ء تک ان پاور پلانٹس کے مالکان 415 ارب روپے کا منافع کما چکے ہیں۔ اندازہ لگائیں کہ 51 ارب روپے خرچ کر کے 415 ارب کمائے اور یہ سلسلہ بدستور جاری ہے۔ یہ 415 ارب روپے کا منافع عوام سے ان کے بجلی کے بلوں میں سے وصول کر کے ان مالکان کو دیا گیا جن میں سے اکثر حکمرانوں کے فرنٹ مین تھے یا آف شور کمپنیوں کے ذریعے یہ سب کچھ اون کرتے تھے۔ جب اس معاملے کو مزید گہرائی تک جا کر سمجھنے کی کوشش کی گئی تو پتہ چلا کہ اس پورے عرصے میں 310 ارب سرمایہ کاروں کو زیادہ dividend دیا گیا تھا۔یہ ذہن میں رکھیں کہ یہ 415ارب سے بھی زیادہ رقم ہوگی کیونکہ یہ اعدادوشمار اُن پاور کمپنیوں کی 275 فنانشل سٹیٹمنٹس کو سامنے رکھ کر نکالے گئے تھے جو نیپرا اور ایس ای سی پی کے پاس موجود تھیں‘ جبکہ کل 312 تھیں۔ باقی 37 فنانشل سٹیٹمنٹس کا کچھ پتہ نہیں کہ وہ کہاں ہیں کیونکہ ان کا ریکارڈ ایس ای سی پی اور نیپرا کے پاس نہ تھا یا پھر ان اداروں میں بیٹھے پاور پلانٹس مالکان کے ہمدرد اور حکمرانوں سے اچھی پوسٹنگ اور ترقی کی آس لگائے افسران نے جان بوجھ کر انکوائری کمیٹی کو پیش نہیں کیں۔ اگر 312 فنانشل سٹیٹمنٹس کا جائزہ لیا جاتا تو یہ اعدادوشمار 415 ارب روپے سے کہیں زیادہ ہوتے ۔
اکثر پاور پلانٹس نے جو بینکوں سے قرضہ شو کرایا تھا کہ اس سے وہ پلانٹ لگا رہے تھے اس کا پے بیک پیریڈ دو سے چار سال تھا جبکہ وہ جو منافع کما رہے تھے وہ 18.26 گنا زیادہ تھا‘ جبکہ dividend اس سرمایہ کاری پر 22 گنا تھا جو حیران کن عالمی ریکارڈ تھا۔ چھ پاور کمپنیوں کو جو ریٹرن آن ایکویٹی مل رہا تھا وہ 60/79 فیصد تھا جبکہ چار کمپنیوں کو 40 فیصد مل رہا تھا۔ جتنا بڑا منافع پاور سیکٹر میں ان پاور پلانٹس مالکان کو مل رہا تھا اس کا تصور پاکستان میں اور کوئی سیکٹر سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔مزے کی بات ہے کہ پاور پلانٹس مالکان کی سرمایہ کاری پر رِسک بھی صفر تھا۔ اس سے بہتر محفوظ اور ہائی پرافٹ بزنس ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ حکومتِ پاکستان نے انہیں ساورن گارنٹیاں دی ہوئی تھیں کہ ان سب کو اربوں کھربوں کی سب ادائیگیاں حکومت ِپاکستان کرے گی اور اگر ادائیگیوں میں تاخیر ہوئی تو اس پر جرمانہ یا مارک اَپ بھی ادا کیا جائے گا۔یہ تو صرف فیول سے بجلی پیدا کرنے والوں کے ڈاکے کی کہانی ہے۔ابھی تو گیس پر چلنے والے پلانٹس کی ہوشربا داستان منتظر تھی کہ وہاں کس کس نے کیا کیا ڈاکے مارے جن کے ثبوت اب سامنے آرہے تھے۔ مگرکچی گولیاں پاور پلانٹس مالکان نے بھی نہیں کھیلی تھیں۔ جب ان کی چوریاں سامنے آنا شروع ہوئیں تو انہوں نے اہم انکوائری کمیٹی کو اپنے مزید سکینڈلز بے نقاب کرنے سے روکنے کا انوکھا طریقہ ڈھونڈا…اب بڑا کھیل شروع ہو چکا تھا۔(جاری)

یہ بھی پڑھیے:

ملتان میں قتلِ آم||رؤف کلاسرا

کپتان کا شکوہ ۔۔۔رؤف کلاسرا

آخر سیکھ ہی گئے!۔۔۔رؤف کلاسرا

پُرانے جال ، پُرانے شکاری۔۔۔ رؤف کلاسرا

ایک بڑا ڈاکا اور بڑی واردات تیار… ۔۔۔ رؤف کلاسرا

پانچ ارب کی واردات کی داستان …(1)۔۔۔ رؤف کلاسرا

پانچ ارب کی واردات کی داستان …(2)۔۔۔ رؤف کلاسرا

پانچ ارب کی واردات کی داستان …(3)۔۔۔ رؤف کلاسرا

رؤف کلاسرا کی مزید تحریریں پڑھیے

About The Author