دسمبر 24, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

نویں سیاسی پھواڑے. ست بسمہ اللہ ۔۔۔||حیدر جاوید سید

حیدر جاوید سید سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے نامور صحافی اور تجزیہ کار ہیں، وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان کےمختلف قومی اخبارات میں مختلف موضوعات پر تواتر سے کالم لکھ رہے ہیں، انکی تحریریں انہی کی اجازت سے ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر کی جارہی ہیں،

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جناب نوازشریف کی واپسی کا ’’ڈنکا‘‘ بجادیا گیا ہے۔ وہ 21اکتوبر کو وطن واپس آرہے ہیں۔ ست بسم اللہ، مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کے سوشل میڈیا مجاہدین نے اپنی درے مارکہ بندوقوں میں تیل والی ٹاکی مار کر ہلکی پھلکی فائرنگ شروع کردی ہے۔ میاں نواز شریف کا ووٹ بینک بہرطور ہے ان کے دو ووٹروں استاد مشتاق احمد آف صوابی اور شیراز اویسی آف ملتان شریف سے ہماری بھی یاداللہ ہے۔

دونوں پچھلے مہینہ بھر سے پی پی پی کے خلاف چھاپہ مار کارروائیوں میں جُتے ہوئے ہیں۔ دونوں جماعتوں کے مجاہدین اس حقیقت سے آنکھیں چرارہے ہیں کہ میدان سیاست میں ان سے سوا بھی کچھ نہ کچھ موجودہے۔ 2018ء کی انتخابی مینجمنٹ سے اقتدارحاصل کرنے والی تحریک انصاف ایک تلخ حقیقت کے طور پر حریف کی حیثیت سے موجود ہے۔

کیا 2018ء میں پہلی اور آخری بار انتخابی مینجمنٹ ہوئی؟

اس بدعت سے تو تیسرے فوجی آمر جنرل ضیاء الحق کا اسلامی ریفرنڈم بھی محفوظ نہیں رہا۔ ٹھپوں اور گھٹالوں سے عبارت اس تاریخ ساز فراڈ جیسے انتخابات ہی ہمارے یہاں عموماً ہوتے آئے ہیں۔

مثلاً 2013ء کے انتخابی نتائج۔ کیا ان پر سوالیہ نشان نہیں تھا؟ معاملہ یہ ہرگز نہیں کہ (ن) لیگ اور پیپلزپارٹی والے ایک دوسرے کے کپڑے سوشل میڈیا کے چوک پر کیوں اتار رہے ہیں۔ یہ معاملہ اس لئے نہیں کہ اسلامی جمہوری اتحاد کے بطن سے نکلی مسلم لیگ (ن) اینٹی بھٹو ووٹ بینک کی مالک تھی دائیں بازو کے سارے بھٹو دشمن اس اسلامی جمہوری اتحاد میں شامل تھے جس کی تخلیق کا سہرا مرحوم جنرل حمید گل اپنے سر یہ کہہ کر باندھتے رہے کہ

’’ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو خطرہ تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی سے ناراض پیپلزپارٹی کو کھلا میدان اور بڑی کامیابی ملی تو وہ اقتدار میں آکر ایسے اقدامات کرے گی جس سے فوج کمزور ہوگی اور اس کا فائدہ بھارت کو پہنچے گا‘‘۔

آپ 1988ء کے عام انتخابات کے دوران اسلامی جمہوری اتحاد کے قائدین کی تقاریر، آئی جے آئی کے اخباری اشتہارات اور لاہور و مضافات میں ہیلی کاپٹروں سے پھنکوائے گئے پمفلٹس تلاش کیجئے تاکہ ایمان کا حقہ تازہ کرسکیں۔

اسلامی جمہوری اتحاد کے قیام سے قبل 1985ء کی غیرجماعتی اسمبلی سے وجود پانے والی مسلم لیگ، مئی 1988 میں جونیجو حکومت کے خاتمے پر جونیجو اور فدا گروپ میں بٹ چکی تھی پھر راتوں رات ’’کارخیرسرانجام پایا‘‘ مسلم لیگیں ایک ہوگئیں اگلے برسوں میں یہ مسلم لیگ (ن) اور مسلم لیگ جونیجو گروپ کی صورت میں دوبارہ انفرادی شناخت کے ساتھ فعال ہوئیں۔ (ن) لیگ کے قائد میاں نوازشریف اور جونیجو گروپ کے سربراہ حامد ناصر چٹھہ ہوئے۔

چٹھہ صاحب اب اپنے صاحبزادے سمیت پی ٹی آئی کا حصہ ہیں۔ 1988ء سے اکتوبر 1999ء کے درمیان دوبار پیپلزپارٹی اقتدار میں آئی اور دو ہی بار مسلم لیگ (ن) ایک بار اسلامی جمہوری اتحاد کی صورت میں اور دوسری بار (ن) لیگ کی شناخت پر ان گیارہ برسوں کے دوران ملکی سیاست میں ایک طوفان بدتمیزی کا دوردورہ ہوا۔

یہ بجا ہے کہ یہ طوفان بدتمیزی مسلم لیگ (ن) کو بنابنایا ملا۔ بنابنایا اس لئے کہ 1988ء میں جب اسلامی جمہوری اتحاد قائم ہوا تھا تو اس کے میڈیا سیل جس کے سربراہ حسین حقانی تھے نے ہی طوفان بدتمیزی کو رواج دیا۔

الحمدللہ اسلامی جمہوری اتحاد کی اسلامی و غیراسلامی جماعتوں نے اس میں اپنی اپنی بساط کے مطابق حصہ ڈالا۔ اکتوبر 1999ء میں جنرل پرویز مشرف نے نوازشریف حکومت کا تختہ الٹواکر اقتدار پر قبضہ کر لیا

یہ وہی تاریخی قبضہ ہے جسے سپریم کورٹ نے نہ صرف جائز (حلال) قرار دیا بلکہ قبضہ گیر جنرل پرویز مشرف کو آئین میں ترمیم کااختیار بھی تھمادیا تھا

(ن) لیگ کے اس اقتدار کے خاتمے پر اے آر ڈی نامی اتحاد بنا جس میں ایک دوسرے کے خون کی پیاسی (ن) لیگ اور پیپلزپارٹی بھی شامل تھیں۔ انہی جماعتوں نے آگے چل کر میثاق جمہوریت کیا۔

میثاق جمہوریت میں ایک شق تھی ’’پی سی او ججز کو عدلیہ کا حصہ نہیں بنایا جائے گا‘‘۔ دونوں جماعتوں نے اس شق کی اپنی اپنی مرضی سے تعبیر و تفسیر فرمائی یہاں تک کہ میاں محمد نوازشریف آبپارہ کی ٹکسال میں تیار ہونے والے میمو گیٹ سکینڈل میں کالا کوٹ زیب تن کرکے سپریم کورٹ جاپہنچے۔

میاں نوازشریف پہلی بار سیاسی عمل سے 10برس دور رہنے کا معاہدہ کرکے دسمبر 2000ء میں خاندان سمیت ملک چھوڑ گئے تھے۔ دوسری بار تحریک انصاف کے دور حکومت میں علاج کرانے کے لئے جیل سے لندن چلے گئے۔ ان کے ساتھی دونوں روانگیوں کو سیاسی حکمتِ عملی کا حصہ قرار دیتے ہیں (مخالفین کیا کہتے ہیں ہمارے نزدیک یہ غیرضروری ہے)

بہرحال اب میاں نوازشریف کی وطن واپسی کا اعلان ہوچکا۔ وہ 21 اکتوبر کو لندن سے لاہور پہنچیں گے۔

ان کے برادر خورد سابق وزیراعظم شہباز شریف چند دن قبل لندن میں ایک ماہ کے قیام کے بعد لاہور پہنچے اور اگلے اڑتالیس گھنٹوں میں واپس لندن چلے گئے۔ ان سطور کی اشاعت تک امید ہے وہ دوبارہ لاہور پہنچ کر مسلم لیگ (ن) کی قیادت سنبھال چکے ہوں گے۔

لندن سے لاہور آنے اور پھر ہنگامی طور پر واپس جانے میں لاہور سے 70کلومیٹر کے فاصلے پر واقع گوجرانوالہ چھائونی میں ہوئی ڈیڑھ گھنٹے کی ایک ملاقات کا عمل دخل تھا۔

’’دروغ برگردن راوی اس ملاقات میں میاں شہباز شریف کے سیاسی وارث حمزہ شہباز بھی تھے لیکن انہیں ڈرائنگ روم کی بجائے لابی میں بیٹھادیا گیا۔ ملاقات ون ٹو ون نہیں تھی کمرہ ملاقات میں کل چار افراد تھے۔

راوی دو باتیں کہتاہے ایک یہ کہ ملاقات کرنے والے تینوں افراد کا تعلق اسٹیبلشمنٹ سے تھا‘‘دوسرا یہ ایک سوال تھا۔ سوال یہ کہ ’’کیا واقعی عام انتخابات کی صورت میں سیاسی عدم استحکام اور معاشی ابتری ختم ہوجائے گی؟ ایسا ہے تو سولہ ماہ کے اقتدار میں یہ دونوں مسئلے حل کیوں نہیں ہوئے یا موثر حل کی طرف پیشرفت کیوں نہ ہوپائی؟

یہ بھی دعویٰ کیا جارہا ہے کہ میاں نوازشریف کے چند حالیہ بیانات پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا گیا۔ شہباز شریف گوجرانوالہ چھائونی میں ہوئی اس ڈیڑھ دو گھنٹے کی ملاقات کی تردید کرتے ہیں لیکن جس طرح وہ اچانک لندن کی طرف پلٹے اس سے ملاقات اور گل بات کے حوالے سے راوی کی روایت قابل قبول لگتی ہے ( ویسے بھی ہمارا ” سب کچھ ” راویوں کی روایات کا ہی مرہون منت ہی تو ہے )

اب سوال یہ ہے کہ کیا واقعی اسٹیبلشمنٹ اس پوزیشن میں ہے کہ انتخابی مینجمنٹ کا پرانا کھیل کھیلا جاسکے؟ (فی الوقت سیاسی عدم استحکام اور معاشی ابتری جیسے مسائل کو ایک طرف اٹھارکھیئے) بنیادی سوال یہی ہے۔

ہمارا نہیں خیال کہ انتخابی مینجمنٹ ہوپائے اس کے باوجود کہ تحریک انصاف کے بطن سے استحکام پاکستان پارٹی اور تحریک انصاف پارلیمنٹیرین برآمد کی جاچکیں۔ پیپلزپارٹی اور (ن) لیگ کے چند موسمی اصلاح پسند انقلابیوں پر مشتمل ایک پارٹی بھی بننے جارہی ہے۔

مسلم لیگ (ن) کے ووٹ بینک کا محفوظ مرکز پنجاب ہے اور خیبر پختونخوا میں ہزارہ ڈویژن ہے مسلم لیگ (ن) کیا اس سیاسی پوزیشن میں اب ہے کہ اسے پنجاب اور کے پی کے، کے ہزارہ ڈویژن میں چیلنج کا سامنا نہ ہو؟

2018ء کے انتخابی نتائج کی بنیاد پر اگر مقبولیت کاتجزیہ نہیں ہوسکتا تو 2013ء کے انتخابی نتائج کی بنیاد پر مقبولیت کا تجزیہ کیسے درست ہوگا؟ وہ بھی تو انتخابی مینجمنٹ کا شاہکار تھے۔

عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کے مجاہدین کو صبر سے کام لینا چاہیے۔ یہ سکیورٹی اسٹیٹ ہے یہاں کچھ بھی ہوسکتا ہے اور کبھی بھی ہوسکتاہے۔

اچھا ویسے ملک اور عوام کو جن گھمبیر مسائل کا سامنا ہے انہیں گولی ماریئے سیاسی جماعتوں میں سے کون سی جماعت ایسی ہے جو اقتدار ملنے کی صورت میں اسٹیبلشمنٹ کے "خرچوں” کو پورا کرپائے؟

یہ بھی پڑھیں:

About The Author