حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہت سارے شوق اور زعم ہم نسل در نسل پالتے چلے آرہے ہیں۔ سر چڑھا شوق یہ ہے کہ ہر شخص اپنی فہم کو عین اسلام قرار دیتا ہے۔ زعم یہ ہے کہ ہم کوئی پسندیدہ قسم کی امت ہیں اور سارے جہاں کو تسخیر کرکے رہنا ہمارا دینی فریضہ ہے ۔
شوق یہ ہے کہ دنیا ہمیں پارسا و پاکیزہ، دین دار اور اعلیٰ اخلاقی و سماجی روایات کا وارث سمجھے۔ زعم یہ ہے کہ انسانیت کی صحیح سمت جتنی رہنمائی ہمارے اسلاف نے کی ’’ان کا سا ہو تو سامنے آئے‘‘۔
یہ دو چار مثالیں ہیں ایسی درجنوں کیا سینکڑوں ہیں مثلاً ہم چاہتے ہیں (ویسے اس ہم میں میں اور فقیر راحموں شامل نہیں ) پاکستان میں فرقہ پرست مولویوں کی فہم کے مطابق بٹا ہوا نظام اسلام نافذ ہو لیکن بھارت کو ایک خالص سیکولر ریاست دیکھنا چاہتے ہیں اور یہ بھی کہ اگر اس نے ہماری بات نہ مانی تو پھر ہم دہلی کے لال قلعہ پر جھنڈا لہراکر اس کے چودہ طبق روشن فرمادیں گے۔
بہت سارے لوگ تو ہر رات سونے سے پہلے یہ د عا کرتے ہیں ’’یا اللہ بھارت کے ایٹمی پروگرام کو دیمک لگ جائے، امریکی توپوں میں کیڑے پڑیں، برطانیہ کے سارے انگریز مرجائیں، جرمنی پاکستان میں صوبہ کے طور پر شامل ہوجائے،
اے اللہ ہم صبح اٹھیں تو نظارہ یہ ہو کہ دنیا پر ہمارا سکہ چل رہا ہو، باورچی امریکی، صفائی والا روسی، چوکیدار برطانوی، جمعدار جاپانی اور ہندو یہ تو جوتے پالش کرنے کے سوا کچھ بھی نہ کرتے دکھائی دیں۔
یہودیوں کو اللہ ہم بالکل نہیں چھوڑیں گے بس آپ مدد کرنا اور مدد کیا یہ کام بھی آپ ہی کردیں تو مہربانی ہوگی۔ اللہ جی آپ کو کیا فرق پڑتا ہے۔
جناب موسیٰؑ کی قوم کے اتنے نخرے۔ ٹخرے اٹھائے ہم تو تیرے محبوبؐ کے ماننے والے ہیں۔ اچھے اللہ جی، ایک کام اور بھی کردو، غریبی مکادو۔ سائنسدان قسم کے فرشتوں کی ڈیوٹی لگائو کہ وہ ساری ایٹمی طاقتوں کے چھوٹے بڑے ہتھیاروں کی چھوٹی چھوٹی گولیاں بناکر ہم مسلمانوں کو دے دیں اور پھر وہ آسمان پر بیٹھ کر تماشے دیکھیں کیسے ہم یہودوہنود کے کھنے سیکتے ہیں اور کیسے ان کے پرخچے اڑاتے ہیں‘‘۔
اے رب، صرف ہمارے رب، باقی تو ہمارے سوا دنیا میں کافر، زندیق، یہودوہنود، دہریے اور نجانے کیا کیا بستے ہیں، ان سے تو تیرا کوئی لینا دینا نہیں، ہم جو ہیں تیرا دبدبہ منوانے اور اپنی دھاک بٹھانے کے لئے۔
بھولووں یا خوش فہموں کو اتنی سی بات سمجھ میں نہیں اتی کے اللہ رب العزت تو رب العالمین ہے، رب المسلمین وہ تھا، ہے نہ ہوگا۔ اس کے باوجود ہماری خوش فہمی نسل در نسل چل رہی ہے۔ پسندیدہ امت ہونے کا زعم چین سے نہیں بیٹھتے دیتا۔
خود کو برتر ثابت کرنے کے لئے ہم بھائیوں کےلاشوں سے میناربنانے سے دریغ نہیں کرتے۔ ایک تلوار بدست گھوڑے سوار کی قیادت میں پہاڑوں سے اترتا اور صحرائوں سے نمودار ہوتا لشکر ہمیشہ ہماری کھلی آنکھوں کا سراب رہا ہے۔
تہذیب نفس اور سماجی تطہیر کے بنیادی تقاضوں پر توجہ دینے کے بجائے جس قسم کی شخصیت پرستی اور اندھی تقلید کو بڑھوا دیا گیا اس نے غورفکر کو کفر اور جدوجہد کووقت کے ضیاع کے طور پر پیش کیا۔ یوں ہر کام پیارے اللہ جی پر چھوڑنے کی عادت پروان چڑھی اور اب حالت یہ ہے کہ ہم خود سے کچھ نہیں کرتے۔
اچھائی ہوجائے تو اللہ کا کرم اور منفی کام یہ تو کرواتا ہی شیطان ہے۔ یعنی ہم فقط زندگی کے میدان میں لڑھکنے کے لئے ہیں۔ یہ دھوکہ دہی کا پروگرام صدیوں سے جاری ہے۔
کیا مجال کہ کبھی کسی نے یہ زحمت فرمائی ہو کہ ’’اللہ کرے گا‘‘ پروگرام میں تھوڑی دیر کے لئے وقفہ کرکے خود بھی کچھ کرلیں۔ میرے ہمزاد فقیر راحموں کا کہنا ہے کہ یہ اچھا ہی ہے ہم (اس میں ہم دونوں شامل نہیں) سارے کام اللہ پر چھوڑے رکھتے ہیں۔
وجہ دریافت کرنے پر وہ کہتا ہے کہ جب بھی خود سے کچھ کرنے کو سوچا اور کیا اس سے انسانیت کو نقصان ہی ہوا۔
فقیر راحموں اس پر ایک لمبی چوڑی گفتگو کرتا ہے۔ ضبط کے ساتھ سننے کے سوا کوئی یارا نہیں۔ پچھلی سے اگلی شب ایک لال ٹوپی والا ٹی وی سکرین پر بھاشن دے رہا تھا ’’اللہ نے نصرت ہمارے نصیب میں لکھ دی ہے۔ انڈیا کی تو ہم اینٹ سے اینٹ بجادیں گے، یہ ایٹم بم قلفیاں جمانے کے کام نہیں آئیں گے‘‘۔
ہم دونوں (فقیر اور میں) دیر تک ہنستے رہے۔ چند ہزار جنگجوئوں کے سامنے تگنی کے ناچ ناچنے پر مجبور ایٹمی طاقت کے اداروں نے کیسے ایسے نمونے پال رکھے ہیں۔ ویسے کوئی پتہ جب وقت پڑے تو لال ٹوپی والا کہیں ملے ہی ناں۔
طالب علم کبھی کبھی سوچتا ہے، تخیل پرست مولویوں، نسیم حجازی، الیاس سیتا پوری، رضیہ بٹ اور حمیرہ احمد ٹائپ لکھاریوں نے ہماری تین نسلوں کی مت ماردی ہے۔ اسلاف کے قصے سنانے والے اپنے گریبانوں میں جھانکنے کی زحمت نہیں کرتے۔ قطار اندر قطار فرشتے عمل سے کورے لوگوں کے لئے تو ہر گز نہیں اترتے۔
خالی خولی اللہ کریسی کے یقین کا حلوہ کھاتے رہنے سے کچھ نہیں ہوگا۔ بھلا جس قوم کو اپنی عصری ذلت کا احساس نہ ہو اور وہ اس سے نجات کے لئے ہاتھ پائوں بھی نہ مارے اللہ اس پر رحم و کرم کیوں کرے۔
جو خالق کُل کی رحمت کے طلب گار ہوتے ہیں وہ اس کے لئے محنت بھی کرتے ہیں خود کو رحمت کا اہل بھی ثابت کرتے ہیں۔ یہاں تو سارے کام الٹ ہورہے ہیں۔
رب العالمین کی مخلوق کو مذہب، علاقے، ذات برادری، فرقے اور دوسری شناختوں میں تقسیم کر کے اپنااپنا سودا بیچنے والے نجانے یہ کیوں نہیں سمجھتے کہ محبت، اخوت اور تعاون ہی حسن زندگی ہے۔
ظاہری دین داری تو احساس برتری جیسا مرض ہے، یہ آدمی کو کہیں کا نہیں رکھتی۔ ویسے یہ ہمارا مسئلہ ہی نہیں بلکہ ان سارے سماجوں میں جہاں پنڈت، گرو، ربی ، مربی اور پادری اپنا اپنا مال فروخت کرنے میں کامیاب و کامران ہیں وہاں بھی صورتحال مختلف نہیں۔
پُرکھوں کے ذکر پر اترانا اور خود الٹی سمت میں زقندیں بھرنا ہر جگہ محبوب مشغلہ ہے۔ پاپائیت جہاں بھی پنجے گاڑلے ایک سبق مشترکہ ہے وہ یہ کہ چودھری اور کمی دونوں اللہ کے بنائے ہوئے ہیں اس لئے راضی بہ رضا رہنا نیکیوں میں اضافے کا موجب بنتا ہے۔
نیکیوں کے حصول کی دوڑ میں جُتے لوگوں سے اگر یہ دریافت کیا جائے کہ ہمسایوں کے بچوں کو دو دن سے روٹی میسر نہیں ان کے لئے کچھ کیا؟ تُرنت جواب ملتا ہے وہ جی یہ تو اللہ کے کام ہیں، مجھے دیا اور ان کے پاس کچھ نہیں، آپ حسد نہ کریں۔
صاحب!حسد کیا ہے۔ سچ سے منہ موڑنے کے جرم کو چھپانے کا طعنہ۔ ورنہ حقیقت تو یہ ہے کہ بندگی کے تقاضے بھی پورے ہوتے ہیں جب اس کے بندوں کے دکھ، درد اور محرومیوں کو محسوس کیا جائے۔
اللہ کریسی کی سوچ کی بُکل مارے معاشرے میں ڈھنگ کی بات کون سنتا ہے۔ ویسے فقیر راحموں کا مفت مشوہ یہ ہے کہ ایٹمی طاقت کو ایک یوم دعا برائے اصلاح طالبان و ہمہ قسم دہشت گردان و انتہا پسندان مناناچاہیے۔ سب کو مل کر دعا کرنی چاہیے اور درخواست بھی یہ کہ اللہ کریم ان امن اور خون کے پیاسوں کو راہ ہدایت دے۔ ان کی بندوقوں کو زنگ لگ جائے، خودکش جیکٹوں میں پانی بھر جائے۔ سفر اسلام آباد کا شروع کریں اور پہنچ دہلی، تل ابیب اور واشنگٹن جائیں۔
لیکن کیا کیجے ہاتھ اٹھتے ہیں مگر حرفِ دعا یاد نہیں والا معاملہ ہے ۔ ایک مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے سوا وہ کس کا رب ہے۔ سو فکر تو اسے فقط ہماری ہے۔ ہم نہ ہوئے تو دہر میں اجالا کون کرے گا۔ کاش کبھی دو چار ساعتیں نکال کر اس نکتہ پر غور کرلیا ہوتا کہ دہر میں آج جن اندھیروں، مظالم اور منہ زوری کا راج ہے اس میں ہمارا بھی دوسری اقوام کے مساوی حصہ ہے۔
ہم اپنے وسائل اپنی بربادیوں پر صرف کرنے کی عادت بد میں مبتلا ہیں۔ غلامی ہمارے ذہنوں میں رچ بس گئی ہے۔ یہ ہمیں تندور کی تازہ گرم روٹی کی طرح مرغوب ہے۔ آزادی کا نام سنتے ہی ابکائیاں آنے لگتی ہیں۔ فکری آزادی تو کفر کے سودے ہیں۔ گردنیں مارنے اور فتوے بیچنے کے دھندے ہر دور میں عروج پر رہے۔
ڈھنگ کی بات کرنے والے بے دین ٹھہرتے ہیں۔
چند برس اُدھر ایک ’’عظیم مجاہد‘‘ سے عرض کیا حضور حلیہ انسانوں والا بنانے میں امر مانع کیا ہے۔ جھٹ بولے ’’دشمن پر دہشت طاری کرنے والا حلیہ لازم ہے‘‘۔ بہت دنوں تک سوچتا رہا وہ جو سرکار دو عالمؐ نے صفائی کو نصف ایمان قرار دیا اس کا مطلب کیا ہے۔
خیر چھوڑیئے آیئے دعا کرتے ہیں اے اللہ جی!
اپنی پسندیدہ امت پر کرم فرما۔ بھارت،اسرائیل اور امریکہ کا وجود کرہ ارض سے مٹادے۔ پھر سے وہ موسم لا کہ ہم لونڈیوں اور غلاموں کی دولت سے مالا مال ہوجائیں اور اللہ جی! ہمارے عقیدوں کے (اپنے اپنے عقیدے) مخالف رات کو سوئیں اور صبح نہ اٹھیں تاکہ ہماری حقانیت کے ڈنکے بجیں۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر