حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سپریم کورٹ کے 29 ویں چیف جسٹس کی حیثیت سے حلف اٹھالیا۔ ایوان صدر میں منعقد ہوئی تقریب حلف برداری میں صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے ان سے حلف لیا۔ تقریب میں اعلیٰ عدلیہ کے ججز سمیت ممتاز شخصیات نے شرکت کی۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بلوچستان کے معروف سیاسی خانوادے سے تعلق رکھتے ہیں ان کے خاندان کو بانی پاکستان قائداعظم محمدعلی جناح کی میزبانی اوربابائے قوم کی قیادت میں تحریک پاکستان میں جدوجہد کا اعزاز حاصل ہے۔
قاضی فائز عیسیٰ ماضی میں براہ راست بلوچستان ہائیکورٹ کے جج بنائے گئے تھے ان کی تقرری اس کے وقت چیف جسٹس افتخار چودھری کی سفارش پر عمل میں لائی گئی بعدازاں وہ سپریم کورٹ کے جج بنے۔ اپنے چند فیصلوں، اختلافی نوٹ اور ریمارکس کی بدولت انہوں نے شہرت کمائی۔
اسی عرصہ میں یہ تاثر بھی پیدا ہوا کہ وہ عدالتی نظام کو ہر قسم کے دبائو سے آزاد رکھنے کے خواہش مند ہیں۔
کوئٹہ میں ہوئے خودکش حملے میں درجنوں وکلاء کی شہادت کےبعد بننے والے کمیشن اور مشہور زمانہ فیض آباد دھرنے کے حوالے سے بنائے گئے کمیشن کی رپورٹ سے جہاں ان کے اسٹیبلشمنٹ مخالف جج کی حیثیت سے شہرت کو دوام حاصل ہوا وہیں یہ تاثر بھی ابھرا کہ وہ متعدد بار اقتدار میں رہنے والی مسلم لیگ (ن) کے لئے ہمدردی رکھتے ہیں
اس تاثر کی بڑی وجہ حدیبیہ پیپر کیس میں نیب کی اپیل کی ابتدائی سماعتی درخواست کے دوران دیئے گئے ان کے ریمارکس ہیں۔
نئے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے تین پیش رو چیف جسٹس صاحبان (ان میں ثاقب نثار، گلزار احمد اور عمر عطا بندیال شامل ہیں) کی مدت ملازمت کے عرصوں میں چیف جسٹس صاحبان کا ہم خیال چیف جسٹس کے طور پر شہرہ عام ہوا۔
تینوں ادوار میں دیئے گئے بعض فیصلوں پر دی گئی آراء میں سے زیادہ آراء یہ تھیں کہ ان چیف جسٹس صاحبان نے سپریم کورٹ آف پاکستان کو پاکستان تحریک انصاف کے مددگار ادارے میں تبدیل کردیا ہے۔
سوشل میڈیا پر جاری بحثوں اور چند دیگر وجوہات کی بنا پر بعض حلقے اس رائے کا اظہار کررہے ہیں کہ عمر عطا بندیال کی رخصتی اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے چیف جسٹس بن جانے سے پاکستان کے عدالتی نظام میں کوئی بڑی انقلابی تبدیلی ممکن نہیں صرف "ذوق مددگاری” کا محور تبدیل ہوگا۔
امر واقعہ یہ ہے کہ سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے دور میں پاکستان میں انصاف فراہم کرنے کے سب سے بڑے ادارے سپریم کورٹ کے جج صاحبان میں ذاتی اختلافات کے قصے عام ہونے کے ساتھ ساتھ ان کی سیاسی ہمدردیوں کا تاثر بھی پختہ ہوا۔
بعض آڈیو لیکس اور سبکدوش ہونے والے چیف جسٹس کی صاحبزادی کو پی ٹی آئی دور میں اہلیت سے بڑھ کر دی گئی ملازمت اور متعدد فیصلوں نے جس جگ ہنسائی کا سامان کیا اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔
اسی طرح ہم خیال بنچ کی پھبتی اور خاص مقدمات میں سینئر ججز کو نظرانداز کرکے جونیئر ججز کا بنچ تشکیل دینے کے عمل نے بھی عدالتی وقار کو ٹھیس پہنچائی۔
سبکدوش ہونے والے چیف جسٹس پر ایک الزام یہ بھی ہے کہ انوہں نے سپریم کورٹ میں 2 جج صاحبان کی تقرری کے موقع پر اس وقت کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے ذریعے پی ڈی ایم حکومت پر دبائو ڈلواکر وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کا ووٹ اپنی تجویز کے حق میں ڈلوایا۔
سابق وزیر قانون نے اس صورتحال کا اعتراف وزیر قانون ہوتے ہوئے کیا تھا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے چیف جسٹس آف پاکستان کی حیثیت سے اس وقت حلف اٹھایا ہے جب پاکستان کا عدالتی نظام اپنی کارکردگی اور انصاف کی فراہمی کے حوالے سے لائق ذکر ہی نہیں۔
بدقسمتی سے عالمی درجہ بندی میں بھی اسے قابل ستائش کیا قابل ذکر پوزیشن حاصل نہیں ہے ۔ اس نظام انصاف اور ذمہ دارانہ کے حوالے سے عمومی عوامی تاثر یہ ہے کہ نظام انصاف کو بھی طبقاتی سرطان کی بیماری لاحق ہے۔
اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے طبقات کے غیرضروری مقدمات ایک ہی دن میں دائر و سماعت کے مراحل طے کرلیتے ہیں عام آدمی کا جائیداد کے تنازع کا مقدمہ 60سال بعد اور سزائے موت کے خلاف اپیل کا فیصلہ پھانسی دیئے جانے کے 2 سال بعد سنایا جاتا ہے۔
یہ اور اس طرح کی درجنوں شکایات زبان زد عام ہیں اس پر ستم یہ ہے کہ خود نئے چیف جسٹس کے لئے یہ تاثر موجود ہے کہ وہ بھی ایک خاص سیاسی فہم کے ہمدرد ہیں۔
تباہ حال عدالتی ڈھانچوں اور انصاف کی فراہمی پر اٹھتے سوالات ہر دو کا سامنا اب نئے چیف جسٹس کو کرناہے۔
اتوار کو اپنی تقریب حلف برداری کے موقع پر انہوں نے حلف اٹھاتے ہوئے اپنی اہلیہ کو روایت کے برعکس ساتھ کھڑا کیا ان کے اس عمل پر سامنے آنے والی آراء پر بحث اٹھائے بغیر یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ اگر یہ عمل روایت شکنی کے جذبہ کا مرہون منت تھا تو اگلے دنوں میں وہ اس تاثر کو بھی زائل کرنے کے لئے روایت شکنیاں کرتے رہیں گے کہ نظام ہائے انصاف ناقابل اصلاح ہے اور اعلیٰ عدالتیں سیاسی پسندوناپسند کا شکار ہیں۔
حالیہ عرصے سے ہوئے بعض فیصلے اور گزشتہ ایک برس کے دوران دیئے جانے والے حکم امتناعی ہر دو سے پیدا ہوئے سوالات بھی جواب طلب ہیں۔
پاکستان کے کچلے ہوئے طبقات ان سے یہ امید کرتے ہیں کہ وہ ججز کی تقرری کے طریقہ کار کو عالمی معیار کے مطابق بنانے میں اپنا کردار ادا کریں گے۔
اعلیٰ عدلیہ میں بیٹوں، بھانجوں، بھتیجوں اور دامادوں کی تعیناتی کی روش کی نہ صرف حوصلہ شکنی کی جائے گی بلکہ اس امر کا بھی مستقل علاج کیاجائے گا کہ فلاں فلاں لاء چیمبرز ججز ساز فرنچائزیں ہیں۔
دیوانی و فوجداری مقدمات کے فیصلے کی مدت اور اپیلوں کی شنوائی کی مدت بارے ازسرنو جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ اس حوالے سے موجود طبقاتی امتیاز کا خاتمہ بہت ضروری ہے۔
امید واثق ہے کہ وہ ابتدائی طور پر اعلیٰ عدلیہ سے نچلی سطح تک کی عدالتوں کے لئے ادائیگی فرض کے حوالے سے ایسی انقلابی سفارشات محض تجویز ہی نہیں کریں گے بلکہ انہیں قابل عمل بھی بنائیں گے جس سے فوری اور سستے انصاف کی باتیں حقیقت میں تبدیل ہوں
یہ بھی کہ ان کے دور میں جج صاحبان نہیں ان کے فیصلے بولیں گے۔ سپریم جوڈیشل کونسل میں زیرالتواء معاملات کا فیصلہ بھی کم سے کم وقت میں کیا جائے گا۔
جونیئر ججز کی سپریم کورٹ میں تقرری کے خلاف دائر درخواست کی بھی کسی تاخیر کے بغیر سماعت ہوگی تاکہ رخصت ہونے والے چیف جسٹس اور سابق آرمی چیف کی ساجھے داری کی بدولت عدالتی نظام پر جو حرف گیری ہوئی اس کا مداوا ہوسکے۔
اندریں حالات ہم امید ہی کرسکتے ہیں کہ وہ اس تاثر کو تقویت فراہم نہیں کریں گے جو ان کی سیاسی ہمدردی کے حوالے سے موجود ہے بلکہ وہ سپریم کورٹ آف پاکستان کو حقیقی معنوں میں ایک ایسا ادارہ بنانے کے لئے اقدامات کریں گے جس سے اس ادارہ کا وقار بحال ہو۔
یہ امر بجا ہے کہ ماضی کے بعض مقدمات اور ہمدردیوں کے جنون سے لگے دھبے برساتوں سے دھلنے کے نہیں البتہ یہ ممکن ہے کہ آئین کی بالادستی اور پارلیمان کے حق قانون سازی کی راہ میں روڑے نہ اٹکائے جائیں تو مثالی نظام انصاف کی منزل کچھ زیادہ دور نہیں رہ جائے گی۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر