نومبر 21, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

آپ یہ کالم نہ پڑھیں ۔۔۔||حیدر جاوید سید

حیدر جاوید سید سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے نامور صحافی اور تجزیہ کار ہیں، وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان کےمختلف قومی اخبارات میں مختلف موضوعات پر تواتر سے کالم لکھ رہے ہیں، انکی تحریریں انہی کی اجازت سے ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر کی جارہی ہیں،

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پنجاب کی نگران حکومت نے ایک عظیم کام کیا ہے وہ یہ کہ شوگر مل مالکان سے ’’مذاکرات‘‘ کرکے انہیں 90روپے کلو والی چینی قومی مفاد میں 140روپے کلو فروخت کرنے پر آمادہ کرلیا ہے ۔ یہ اتنی بڑی تاریخ ساز کامیابی ہے کہ اس پر نگران وزیراعلیٰ کو تمغہ امتیاز دینا بنتا ہے۔ اگر حکومت پاکستان اجازت دے تو ہمارے ہمزاد فقیر راحموں جین مندر کی مارکیٹ سے تمغہ امتیاز بنواکر وزیراعلیٰ کی خدمت میں پیش کرسکتے ہیں۔

اسی وزیراعلیٰ نے چند روز قبل شوگر مافیا اور ’’قاضیوں‘‘ کے گٹھ جوڑ کا پردہ فاش کرنے والے صوبائی سیکرٹری کو اس کے عہدہ سے ہٹادیا تھا۔ تازہ ترین اطلاع یہ ے کہ اس سابق سیکرٹری زمان وٹو کو توہین عدالت کا نوٹس بھجوادیا گیا ہے۔

نوٹس بنتا تھا اس کی جرات کیسے ہوئے کہ وہ انصاف کے چہرے پر پڑا نقاب کھینچ کر مہنگائی کے بوجھ تلے دبے شہریوں کو یہ بتائے کہ ان کی گردن پر کس کس کا پائوں ہے۔

ویسے پنجاب کی نگران حکومت بڑی دیالو ہے اس نے حال ہی میں لاہور ہائیکورٹ کے گیارہ جج صاحبان کو بلاسود قرضے فراہم کرنے کی منظوری دی ہے۔ غالباً کسی نے بتادیا ہوگا کہ سودی کاروبار درست نہیں یا پھر یہ کہ اگر قرضہ سود پر دیا گیا تو فیصلے حرام ہوجائیں گے۔

اسی پنجاب حکومت کے مختلف محکموں کے ہزاروں ریٹائر ملازمین کو دو سے تین ماہ سے پنشن نہیں ملی خیر یہ بھی کوئی مسئلہ نہیں یہ بوڑھے پنشنرز اور کتنا جی لیں گے۔ ہر کوئی اپنی آئی پر ہی مرتا ہے زیادہ سے زیادہ یہ ہوگا کہ بوڑھے پنشنرز بھوک و بدحالی سے مرجائیں گے۔ نگران حکومت کی ذمہ داری نہیں یہ پنشنرز۔

چھوڑیں ہم پنجاب حکومت کی تاریخ ساز کامیابی پر بات کررہے تھے۔ عدالتی حکم امتناعی کی آڑ میں چینی 90روپے کی بجائے 200روپے کلو بیچ کر صارفین سے 57ارب روپے لوٹنے والے شوگر مافیا کے لئے پنجاب حکومت کی یہ ’’نرم دلی‘‘ ہے بھاو ہے یا بھائو پر’ فقیر راحموں ہلکی پھلکی ڈھولک بجاکر ایک راگ سنانے کی کوشش کررہا ہے۔

پہلے تو ہم اس کی خبر اور راگ کو درست سمجھتے تھے جب سے اس کی شاعر کرہ ارض تگڑم دستوری سے یاری ہوئی ہے ہم اس کی باتوں اور راگ دونوں پر توجہ اس لئے نہیں دیتے کہ آجکل یہ دونوں اینٹی اسٹیبلشمنٹ بنے پھرتے ہیں۔

اینٹی اسٹیبلشمنٹ سے یاد آیا کہ بین الاقوامی و مقامی سازش کے تحت شجاع پاشا وغیرہ کی گھڑولی میں گھڑے گئے ایماندار نجات دہندہ کے ’’زائرین‘‘ کو بھی آجکل اینٹی اسٹیبلشمنٹ اور آئین پسند ہونے کا دورہ پڑا ہوا ہے۔

ابھی سال بھر پہلے یہ ’’زائرین بنی گالہ‘‘ بتایا کرتے تھے سارے فساد کی جڑ1973ء کا پارلیمانی آئین ہے اس آئین کے تابوت میں 18 ویں ترمیم کی میخیں گاڑنے والوں کو ملک اور عوام کے مستقبل سے کوئی دلچسپی نہیں اس لئے ملک میں اسلامی صدارتی نظام ہونا چاہیے لیکن آجکل انہیں دستور، جمہوریت اور 90دن میں الیکشن کے وارے کے دورے پڑرے ہیں۔

ان نومولود اینٹی اسٹیبلشمنٹ جموروں میں زیادہ تر وہ ہیں جن کی پچھلی تین نسلیں اسٹیبلشمنٹ کے سادہ پوش لشکریوں میں شامل تھیں۔ کچھ سابق جیالے ہیں یا سابق جیالوں کی اولادیں، ان کا کہنا ہے کہ ملک میں جو مذہبی شدت پسندی ہے یہ بھٹو (ذوالفقار علی بھٹو) کے بنائے دستور کی اسلامی شقوں کی وجہ سے ہے۔ یعنی ذوالفقار علی بھٹو اسلامی شدت پسندی کے بانی ہیں مگر کالعدم تحریک طالبان کی مذاکراتی کمیٹی کے رکن اور ریاست مدینہ ثانی بنانے کا عزم رکھنے اور خود کو پیغمبروں کی طرح تیار کردہ بتانے والے عمران خان جمہوریت پسند ہیں حالانکہ مذہبی نظام میں جمہوریت نہیں ہوتی اطاعت ہوتی ہے۔

بات ہورہی تھی دستور، جمہوریت اور 90دن میں الیکشن کی خیر اب ان تینوں کاموں کے حوالے سے قبلہ حافظ جی کا موڈ دیکھنا پڑے گا۔ یہاں حافظ جی سے مراد حافظ صفوان ہرگز نہیں ان کی دنیا ترجیحات اور محبتیں اس کے سوا ہیں۔

پنجاب کی نگران حکومت اور شوگر مل مالکان کے درمیان چینی 140روپے کلو فروخت کرنے کے لئے کامیاب مذاکرات تاریخ میں سنہری حروف سے لکھے جائیں گے۔ یہ ہوتی ہے قیادت اور یہ ہوتاہے ویژن۔ کچھ لوگ پتہ نہیں محسن نقوی سے جلتے کڑھتے کیوں رہتے ہیں کتنی محنت سے اس نے 60روپے کلو قیمت کم کروائی۔ چلیں اس موضوع کو جانے دیجئے۔

آجکل سوشل اور پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا پر مجاہدین جاتی امراء شریف اور پپلوں میں خوب ٹھنی ہوئی ہے۔ دونوں ابھی ہلکی ہلکی ڈھولک بجارہے ہیں۔ لَے اور سُرتال میں اٹھان آہستہ آہستہ بڑھے گا انشاء اللہ یہ ایک دوسرے کے کپڑے پھاڑیں گے۔ خیر ہمیں کیا ہم آپ کو ایک خوشخبری سناتے ہیں اگر آپ کسی سمگلر کو جانتے ہیں تو اس کی اطلاع وفاقی وزارت داخلہ کو دےکر انعام حاصل کرسکتے ہیں۔ آپ کا کام اطلاع دینا ہے اس کے بعد سمگلروں اور انعام میں سے پہلے آپ کے پاس کون پہنچتا ہے یہ آپ کی قسمت ہے۔

ادھر وزیراعظم نے معاف کیجئے گا نگران وزیراعظم نے پنشن فنڈ میں کمی کے لئے تجاویز مانگی ہیں۔ فقیر راحموں کے دوست تگڑم دستوری کہتے ہیں سب سے اچھا کام یہ ہوگا کہ سارے پنشنرز ایک جگہ جمع کرکے ان پر ایٹم بم ماردیا جائے۔ کہتے ہیں اس کے دو فائدے ہوں گے ایک تو یہ کہ پنشنرز سے جان چھوٹ جائے گی دوسرا دنیا کو یقین آجائے گا کہ ان کے پاس جو ایٹم بم ہے وہ شرلی پٹاخے نہیں سچی مچی چلنے پھٹنے والا ایٹم بم ہے۔

ہمارا جی چاہا کہ ان سے پوچھ لیں کہ ایٹم بم مارنے کے لئے صرف سول پنشنرز جمع کرنے ہیں یا ’’دوسرے‘‘ بھی۔ قسم لے لیجئے پھر قبلہ حافظ صاحب کے ڈر سے دوسرے پنشنرز والی بات ہم گول کرگئے ورنہ سول اور ڈیفنس پنشن میں جو کھربوں کا فرق ہے وہ تو بجٹ میں بھی لکھا ہے۔

بہرحال اس حوالے سے ہماری تجویز یہ ہے کہ وفاقی حکومت پنشن دینا بند کردے اب دیکھیں نہ پنجاب میں 2 سے 3 ماہ سے ہزارہا پنشنرز کو پنشن نہیں مل رہی تو کون سا قیامت ٹوٹ پڑی ہے۔

ایک رپورٹ کے حوالے سے گردش کرتی خبر کے مطابق ایرانی پٹرولیم مصنوعات کی سمگلنگ میں 90سرکاری افسر، 29 سیاستدان 76 ڈیلر اور سینکڑوں پٹرول پمپ مالکان شامل ہیں۔ کچھ ’’ناہنجار‘‘ قسم کے لوگ مطالبہ کررہے ہیں کہ 90 سرکاری افسران کے نام محکموں سمیت سامنے لائے جائیں۔

یہ "بیہودہ مطالبہ” اصل میں ’’مورال‘‘ ڈائون کرنے کی عالمی سازش کا حصہ ہے البتہ سیاستدانوں، ڈیلروں اور پٹرول پمپ مالکان کے نہ صرف نام سامنے لائے جانے چاہئیں بلکہ انہیں نشان عبرت بنادینا چاہیے۔

’’ذات کی کوڑھ کرلی تے شتیراں نوں جپھے‘‘۔

معاف کیجئے گا یہ جو سمگلروں، ڈالر فروشوں وغیرہ وغیرہ کے خلاف ان دنوں اقدامات کا ’’ہڑ‘‘ آیا ہوا ہے یہ وقتی اور نمائشی ہے لگانے والوں نے پچھلے ڈیڑھ برسوں میں عموماً اور حالیہ افغان طالبان انقلاب کے بعد خصوصاً جو کمانا تھا کمالیا اصل بات یہ ہے کہ جو کارروائیاں اب ڈالی جارہی ہیں یہ پہلے کیوں نہ کی گئیں؟ کیسے ہوتیں اور کس لئے ہوتیں؟

آپ اگر صرف اس سوال پر غور کرنے کی زحمت کریں تو اٹھارہ طبق روشن اور تین کے چراغ گُل ہوجائیں گے۔

اب چلتے چلتے بھارت میں منعقد ہونے والی جی 20 کانفرنس پر دو تین باتیں کرلیتے ہیں۔ سادہ لفظوں میں یہ کامیاب کانفرنس بھارت کی خارجہ پالیسی کی کامیابی کا زندہ ثبوت ہے۔ اب ہم دہلی کی بارش کا پانی کانفرنس ہال میں گھس آنے کا مذاق بنائیں یا کانفرنس کے منظور کردہ منصوبوں کا، سچ یہ ہے کہ سفارتی و تجارتی میدانوں میں بھارت ہم سے بہت آگے ہیں اس پر جلنے کڑھنے کی بجائے ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ ہم بطور مملکت کہاں کھڑے ہیں۔

اب تو ہمالیہ سے بلند دوستی والے چین نے بھی ہمارے دوغلے پن پر مہر لگادی ہے۔

حیران ہوں کہ ہمارے اخبارات نے بھارت میں استاد کے کولر سے پانی پینے والے نچلی ذات کے طالب علم پر تشدد کی خبر صفحہ اول پر شائع کی مگر سندھ میں ہندو برادری کی صاحبزادی کرشنا کماری کے اغوا کی خبر، چلیں دفع کریں مجھے وہ چیف جسٹس یاد آگیا جس نے نخوت و تکبر کے ساتھ کہا تھا میں ہندوئوں کا ذکر ہی نہیں کرنا چاہتا۔

یہ بھی پڑھیں:

About The Author