دسمبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ذلتوں کے اسیر؛ اردو ناول میں نسائی شعور کا استعارہ! گیارہویں قسط!||ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

دیکھیے ثانیہ کی سچائی:“ کیا کہوں؟ مجھے تمہاری باتیں عجیب لگ رہی ہیں۔ میں خود کو یقین کرنے سے روکنا چاہتی ہوں ”یہ سنتے ہی امثال صاحب ٹھٹھک جاتے ہیں اور سوچتے ہیں کہیں اسے میرے ذہن اور زبان میں ہونے والی کشمکش کا پتا تو نہیں چل گیا کہ میرے کہنے اور سوچنے میں کتنا فرق ہے۔

ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ثانیہ شادی کو کچھ اس نظر سے دیکھتی ہے : ”جب تک نکاح نامہ ایجاد نہیں ہوا ہو گا، عورتوں کو آگ سے داغا جاتا ہو گا اور جب تک آگ ایجاد نہیں ہوئی ہو گی، عورتوں کو نشان زدہ کرنے کے لیے خنجر اور تلواریں استعمال ہوتی ہوں گی۔ اور جب تک خنجر اور تلواریں ایجاد نہیں ہوئی ہوں گی عورتوں کے جسم پتھر سے کچلے جاتے ہوں گے۔ اور جب مرد نے پتھر کا استعمال ایجاد نہیں کیا ہو گا، وہ عورتوں کے جسموں پر اپنے دانتوں سے نشان بناتا ہو گا۔

اور آج کا مرد یہ سارے طریقے استعمال کرتا ہے وہ نکاح نامے پر دستخط بھی کراتا ہے اور دانتوں سے نشان بھی بناتا ہے“ کیا یوں نہیں لگتا کہ یہ ایک ایسی عورت کی آہ و بکا ہے جو زندگی کے آخری زینے پر کھڑی اسے خداحافظ کہنے سے پہلے ان تمام زخموں سے گلی سڑی پٹیاں اتار رہی ہے جن کے نیچے موجود زخموں میں کیڑے پڑ چکے ہیں اور پیپ بہہ رہی ہے۔ وہ عورت جس نے زندگی کو اوائل عمری سے بہت قریب سے دیکھا ہے اور اس کا زہر اپنے اندر اتارا ہے۔

وہ چیخ چیخ کر دنیا کو بتانا چاہتی ہے کہ اس دنیا میں عورت کو مرد کے زیر سایہ کس طرح کی زندگی گزارنی پڑتی ہے۔ مرد اسے اپنی طرح کا جیتا جاگتا انسان نہیں مانتا بلکہ اسے اپنی ملکیت کا ٹھپا لگا کر رکھتا ہے اور عورت کا اس ٹھپے کو اتار کر اپنے لیے جینا معاشرے کی ان اقدار کو قبول نہیں جو انہی مردوں نے ترتیب دی ہیں۔ ثانیہ اور امثال کی ملاقاتیں بڑھتی چلی جاتی ہیں اور ایسا کرنے میں امثال کی خواہش زیادہ ہے۔ امثال ثانیہ کو اپنے لئے ایک چیلنج سمجھتا ہے۔

یہاں آپ دونوں کرداروں کا تقابل کیجئیے۔ ’ثانیہ شادی شدہ عورت، ذاتی زندگی میں بے شمار دکھ اٹھا چکی ہے اور ان سب پر کھلم کھلا بات کرتی ہے، اپنے احساسات کو زبان دیتی ہے، امثال سے کچھ بھی نہیں چھپاتی بلکہ ایک دوست کی حیثیت سے ملنا چاہتی ہے۔ ”تم اچھے آدمی ہو لیکن میں اچھی عورت نہیں ہوں“ دوسری طرف امثال اس عورت سے متاثر ہے لیکن ساتھ میں وہ اس کے چیلنج بن کر آ کھڑی ہوئی ہے۔ ایک خود سر و بے باک عورت جسے فتح کرنا اس کا عزم ہے۔

”اس میں کوئی ایسی بات تھی جو مجھے اس کی طرف کھینچ رہی تھی۔ کیا اس کی شاعری؟ لیکن مجھے واضح جواب نہیں ملا۔ پھر مجھے خیال آیا کہ میں نے اس پر زیادہ توجہ اس رات سے کی تھی جب اعزاز نے مجھے عشق کی مشترکہ مہم جوئی کی دعوت دی تھی اور میرے اندر رقابت کا جذبہ بھڑک اٹھا تھا۔ مجھے اس کے جسم کے جنسی پہلو سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ میں تو اسے اپنا غلام بنانا چاہتا تھا۔ دوسری عورتوں کے ساتھ میرا رویہ یہی ہوتا تھا میری پوری کوشش ہوتی تھی کہ میں دوسروں کی مجبوری بن جاؤں۔

ان کا ہر کام میرے بغیر نامکمل رہے، وہ ہر قدم پر مجھ سے مدد طلب کریں“ دیکھئے اپنے عزائم کے لیے امثال کے الفاظ کا جال : ”میں سوچ رہا تھا کہ اب میں ہر وقت، تمہارے ہی بارے میں کیوں سوچتا رہتا ہوں؟ حالانکہ پہلے میں نے کبھی کسی کے بارے میں اس طرح نہیں سوچا۔ میرا ذہن ہر وقت ایک ویرانی سے بھرا رہتا ہے اور خالی پن سے گونجتا رہتا ہے لیکن اب یہ ہے تھا میں بدل گیا ہے اب اس خالی پن اور ویرانی کی جگہ تم آ گئی ہو۔

دیکھیے ثانیہ کی سچائی:“ کیا کہوں؟ مجھے تمہاری باتیں عجیب لگ رہی ہیں۔ میں خود کو یقین کرنے سے روکنا چاہتی ہوں ”یہ سنتے ہی امثال صاحب ٹھٹھک جاتے ہیں اور سوچتے ہیں کہیں اسے میرے ذہن اور زبان میں ہونے والی کشمکش کا پتا تو نہیں چل گیا کہ میرے کہنے اور سوچنے میں کتنا فرق ہے۔ لیکن پھر بھی دھوکا دینے کا عمل جاری رہتا ہے۔ “ کیا تم اس بات پر یقین نہیں کرنا چاہتیں کہ میں تمہارے بارے میں سوچتا ہوں اور رات کو بے قابو ہو کر تمہاری گلی میں پہنچ گیا اور ہر وقت یہ چاہتا ہوں کہ تم میرے ساتھ رہو ”“ امثال تم میرے بارے میں جو کچھ جانتے ہو وہ بہت کم ہے، اتنا کم کہ تم اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔

اس لیے میں نہیں چاہتی کہ تم میرے بارے میں سوچو۔ ہم یوں بھی مل سکتے ہیں۔ میں نبیل سے بھی شادی نہیں کرنا چاہتی تھی اور اس کی وجہ بھی یہی تھی کہ وہ میرے بارے میں کچھ نہیں جانتا تھا۔ اس لیے میں تم سے بھی کہتی ہوں کہ تم میرے بارے میں مت سوچو۔ تم ایک اچھے شاعر ہو اور تمہیں زندگی میں بہت کچھ دیکھنا ہے میں تو محض اتفاق سے تم لوگوں کی درمیان آ گئی ہوں۔ اگر نبیل نے مجھ سے شادی کی ضد نہ کی ہوتی اگر ہم انور کے فلیٹ میں جا کر نہ رہے ہوتے تو شاید میں بھی شاعری نہ کرتی اور اس طرح میں نبیل کی بیوی ہوتے ہوئے بھی تم لوگوں سے دور رہتی۔

مجھے تو یہ بھی علم نہیں کہ میں شاعری کیوں کرتی ہوں۔ شاید اس لیے کہ تم لوگ تعریف کرتے ہو اور مجھے اپنی تعریف سننا اچھا لگتا ہے۔ کیونکہ اس سے پہلے میں نے کبھی اپنی تعریف نہیں سنی۔ اب تو میں خود اپنی نظروں میں اہم ہو گئی ہوں ”دیکھیے ثانیہ کی صاف گوئی کہ وہ امثال کو صاف صاف بتا رہی ہے کہ اسے جنسی چیز نہ سمجھے، اسے تاریک راہوں کی طرف مت لے کر چلے۔ وہ شاعر ہے اور شاعر بن کر ہی دوسرے شاعروں سے ملنا چاہتی ہے۔ ثانیہ کی سچائی امثال پہ قطعی اثر نہیں کرتی وہ اپنا کھیل جاری رکھنا چاہتا ہے۔ اس لیے ثانیہ کے سمجھانے کے باوجود اس نے اس کے گھر جانا کم نہیں کیا۔ اور جب بھی موقع ملتا یہ کہنے سے نہ چوکتا:“ میں اب تمہارے بغیر نہیں رہ سکتا، مجھے لگتا ہے تمہیں صرف میرے ساتھ رہنے کے لیے

پیدا کیا گیا تھا لیکن ہمیں ایک دوسرے سے ملنے میں دیر ہو گئی اب ہمیں ایک دوسرے کو اپنانے میں دیر نہیں کرنی چاہیے

یہ بھی پڑھیے

ایک مثالی عورت کیسی ہونی چاہیے

About The Author