رؤف کلاسرا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ بات بھارتی تاجر کے لیے حیران کن تھی کہ پاکستان نے ان پاور پلانٹس سے نہ صرف ساری بجلی خریدنے کے معاہدے کررکھے ہیں‘ چاہے وہ بجلی استعمال ہو یا نہ ہو بلکہ فی یونٹ ریٹ بھی ڈالروں میں طے کر رکھا ہے‘ لیکن آپ داد دیں پیپلز پارٹی کی 2008ء میں بننے والی حکومت کو جس نے 1994ء کی پالیسی سے نیا سبق سیکھا۔ اب زرداری صاحب کا وژن یہ تھا کہ کون انتظار کرے پاور پلانٹس لگانے کا لہٰذا ایک نیا کام کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ فوری طور پر رینٹل بجلی گھر منگوا کر بجلی پیدا کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ یہ ملکی تاریخ کا ایک انوکھا فیصلہ تھا۔ اس وقت کے وزیر خزانہ شوکت ترین نے اعتراض بھی کیا کہ ہم باہر سے کرائے کے بجلی گھر منگوا کر بجلی ڈالروں میں خریدیں گے‘ بہتر نہیں ہے کہ جو واپڈا کے چند بڑے پاور پلانٹس بند پڑے ہیں انہیں دوبارہ چالو کرا لیں؟ ہمارا پیسہ ہمارے کام آئے گا۔ ڈالرز بھی بچ جائیں گے اور بجلی بھی اپنی پیدا ہوتی رہے گی۔ لیکن شوکت ترین کی اس تجویز کو ان سب وزیروں نے مسترد کر دیا جو رینٹل پاور پلانٹس سے اُسی طرح پیسہ کمانے کے منصوبے بنائے بیٹھے تھے جیسے انہوں نے 1994ء میں پاور پلانٹس لگا کر کمایا تھا جس کی قیمت آج بھی پاکستانی عوام سود سمیت ادا کر رہے ہیں۔
اگر یہ لوگ ملک و قوم کے ہمدرد ہوتے تو شوکت ترین کی یہ تجویز مان لیتے کہ باہر سے رینٹل پاور پلانٹ منگوانے کے بجائے ہم وہی پیسہ اپنے بند پاور پلانٹس کو چالو کرنے پر لگاتے ہیں‘ لیکن یہاں شوکت ترین نے بھی کمزوری دکھائی۔ انہیں اس ایشو پر ڈٹ جانا چاہیے تھا کہ وہ اس ملک کا پیسہ ضائع نہیں ہونے دیں گے لیکن انہوں نے اصول پر ڈٹنے کے بجائے اپنی وزارتِ فنانس کی نوکری بچانے کو بہتر سمجھا اور انہوں نے نہ صرف اپنی تجویز واپس لے لی بلکہ بجلی گھروں کو سات فیصد کے بجائے چودہ فیصد ایڈوانس دینا شروع کر دیا جس پر بعد میں شوکت ترین پر نیب کا مقدمہ بھی بنا کہ آپ نے ان بجلی گھروں کی لوٹ مار کرنے میں مدد کی اور انہیں ڈبل ایڈوانس دیے جو غیرقانونی عمل تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ جب شوکت ترین پی ٹی آئی کے وزیرخزانہ بنے تو وزیراعظم عمران خان نے اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید کو کہہ کر نیب میں ان کا مقدمہ بند کرایا۔ یہ راز سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے حال میں ہی ایک انٹرویو میں شیئر کیا کہ نیب کو جنرل فیض حمید کنٹرول کر رہے تھے اور انہوں نے ہی عمران خان کے کہنے پر شوکت ترین کا سکینڈل نیب میں بند کرایا تھا۔
سب سے مزے کا کام ترکی سے آنے والے بجلی گھر کا تھا جو کراچی میں ایک شپ پر موجود تھا۔ اس ترک کمپنی نے بڑا لمبا ہاتھ مارا اور پورا کھیل بڑی سمجھداری سے کھیلا۔ترک کمپنی نے آزاد کشمیر کے ایک سابق صدر کے بیٹے کو پاکستان میں اپنا کنٹری چیف بنا دیا۔ اس نوجوان کی واحد قابلیت اس وقت وزیراعظم ہاؤس کے مکینوں سے رشتہ داری تھی۔ اس کمپنی کے ساتھ تقریباً پانچ سو ملین ڈالرز کی ڈیل ہوئی تھی اور خاصی بڑی رقم ڈالروں میں اس پارٹی کو ایڈوانس میں دی گئی جسے Mobilization Advance کا نام دیا گیا۔ وہ شپ پاکستان پہنچ تو گیا لیکن چند واٹ سے زیادہ بجلی پیدا نہیں کرپا رہا تھا۔ اس کے ٹیکنیکل ٹیسٹ کرائے گئے تو وہ ناکام ہوئے کیونکہ اس بجلی گھر سے جتنی بجلی پیدا کرنے کا معاہدہ ہوا تھا وہ اتنے میگا واٹ پیدا نہیں کر پایا لیکن اس کمپنی کو ملینز آف ڈالرز ایڈوانس مل چکا تھا۔ یوں پہلے ان افسران کو خریدا گیا جو یہ ٹیسٹ کرا رہے تھے تاکہ ان سے سب اوکے کی رپورٹ لی جائے۔ اور وہی ہوا۔ ان افسران نے جان بوجھ کر ان ٹیسٹوں کی جعلی تصدیق کرائی جس کی بنا پر تک کمپنی کو باقی ماندہ ادائیگیاں کی گئیں۔ اب اس ترکش بجلی گھر کے نام پر لمبا مال بنانے کے خوفناک کھیل میں وزیراعظم ہاؤس‘ وزارتِ فنانس اور وزارتِ پاور تک سب لوگ شامل تھے۔
اس ترک کمپنی نے ورجن آئی لینڈ میں آف شور کمپنی کھول کر ایک بینک اکاؤنٹ کھلوایا۔ اس بینک اکاؤنٹ میں پہلے وزارتِ خزانہ ڈالروں میں ادائیگی کرتی تھی جس میں پاکستانی حکمرانوں اور بیوروکریٹس کا حصہ بھی تھا۔ اس کمپنی کے پاکستانی کنٹری چیف نے‘ جو وزیراعظم ہاؤس کے ایک بڑے مکین کا رشتہ دار تھا‘ ان ڈالروں کی تقسیم سب لوگوں میں کرنی تھی۔ اس نے دبئی میں اپنی ایک اور رشتہ دار خاتون اور اس کے خاوند کو ساتھ ملایا۔ ان کے دبئی میں بینک اکاؤنٹس کی تفصیلات اس ترک کمپنی کو دیں۔ اس ترکی کمپنی کو جب بھی وزارتِ فنانس ڈالروں میں ادائیگی کرتی تو وہ اس میں سے کمیشن کا حصہ دبئی میں اس خاتون اور اس کے خاوند کے اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کر دیتی اور آزاد کشمیر کے سابق صدر کا بیٹا وہ پیسے نکلوا کر آگے پاکستانی سیاستدانوں اور بیوروکریٹس میں بانٹ دیتا۔ اس کی خاتون رشتہ دار اور اس کے خاوند کو بھی اپنا بینک اکاؤنٹ استعمال کرنے کی اجازت دینے پر کچھ حصہ دیا جا رہا تھا۔ اس دوران یہ سکینڈل سامنے آیا کہ جس ترکش بجلی گھر کو کروڑوں ڈالرز کی ادائیگی ایڈوانس میں کر دی گئی تھی وہ تو چند واٹ بجلی بھی پیدا نہیں کر سکا۔ اس پر سپریم کورٹ نے از خود نوٹس لیا اور کارروائی شروع کر دی۔ یوں عدالت نے کچھ عرصے بعد اس کمپنی کا کنٹریکٹ ختم کر دیا اور حکم دیا کہ ان کا بجلی گھر والا شپ کراچی سے روانہ نہ ہونے دیں۔
سپریم کورٹ کے اس فیصلے پر سیاستدانوں اور بیوروکریٹس نے حکومتِ پاکستان اور عوام کو سزا دلوانے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے کمپنی کو اشارہ کیا کہ جا کر عالمی عدالت میں پاکستان پر کیس کر دو۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اس کمپنی کو نیب سے یہ کلیئرنس بھی لے کر دی گئی کہ اس کمپنی نے اپنا کام پورا کیا تھا۔ اس کمپنی نے جا کر عالمی عدالت میں کیس کر دیا کہ اس کا کنٹریکٹ ختم کر کے اس کے ساتھ زیادتی کی گئی لہٰذا ہرجانہ دلوایا جائے۔ وہ سب لوگ جنہیں اس ڈیل میں حصہ مل رہا تھا‘ وہ سب اس کمپنی کے ساتھ تھے۔ کمپنی کے ترک مالک نے بیانِ حلفی لکھ کر دیا کہ اس کنٹریکٹ کو لینے کے لیے کسی کو رشوت نہیں دی گئی تھی۔ کچھ عرصے بعد عالمی عدالت نے پاکستان پر سوا ارب ڈالرز کا جرمانہ کر دیا کیونکہ پاکستانی حکام کیس لڑنے میں دلچسپی ہی نہیں رکھتے تھے۔ فوری طور پر اس جرمانے کو ریکور کرنے کے لیے ترک کمپنی نے مختلف ملکوں میں پاکستانی اثاثوں کا کنٹرول سنبھالنے کے لیے وہاں لوکل عدالتوں میں عالمی عدالت کے فیصلے کو بنیاد بنا کر پٹیشن فائل کر دی۔ اب ترک کمپنی پاکستان کے بیرونی اثاثے بیچ کراپنا جرمانہ پورا کرنے کی کوشش کررہی تھی۔
پاکستان جو ایک ایک ڈالر کے لیے دنیا بھر سے مہنگے قرضے لے رہا تھا‘ اسے اب اپنے اثاثوں کو بچانے کے لیے کوئی غیبی مدد درکار تھی۔ ترک صدر رجب طیب اردگان سے مدد مانگی گئی تو انہوں نے اسے ایک پرائیویٹ پارٹی کی بزنس ڈیل قرار دے کر کوئی مدد نہیں کی۔ نواز شریف کی تیسری حکومت آئی تو انہوں نے کمیٹی بنائی کہ پتا تو کریں کہ پاکستان پر اتنا بڑا جرمانہ کیسے ہو گیا۔ اس کمیٹی میں آئی ایس ائی‘ آئی بی‘ نیب‘ وزارتِ فنانس اور قانون کے افسران شامل تھے۔ جب اس کمیٹی نے انکوائری شروع کی تو خوفناک انکشافات ہوئے کہ ہمارے ترک دوستوں کے ساتھ مل کر ہمارے اپنے حکمرانوں نے کیا خطرناک کھیل کھیلا تھا۔ ترک کمپنی کے رشوت دے کر یہ کنٹریکٹ حاصل کرنے کے ثبوت بھی ہاتھ لگے جنہیں عالمی عدالت میں دکھا کر نہ صرف جرمانہ معاف کرایا جا سکتا تھا بلکہ وہ کمپنی بلیک لسٹ بھی ہو جاتی کہ اس نے رشوت سے کنٹریکٹ لیا تھا۔
نیب نے سابق سیکرٹری پاور شاہد رفیع کو اٹھا یا تو انہوں نے یہ خوفناک انکشاف کیا کہ انہوں نے اس ڈیل میں کروڑوں کی رشوت لی تھی اور اب وہ بجلی گھروں کی ڈالروں میں لوٹ مار کی ساری کہانی سنانے اور اپنی رہائی کے بدلے اپنے حصے کے چار کروڑ واپس کرنے کو تیار تھے۔ (جاری)
اگر یہ لوگ ملک و قوم کے ہمدرد ہوتے تو شوکت ترین کی یہ تجویز مان لیتے کہ باہر سے رینٹل پاور پلانٹ منگوانے کے بجائے ہم وہی پیسہ اپنے بند پاور پلانٹس کو چالو کرنے پر لگاتے ہیں‘ لیکن یہاں شوکت ترین نے بھی کمزوری دکھائی۔ انہیں اس ایشو پر ڈٹ جانا چاہیے تھا کہ وہ اس ملک کا پیسہ ضائع نہیں ہونے دیں گے لیکن انہوں نے اصول پر ڈٹنے کے بجائے اپنی وزارتِ فنانس کی نوکری بچانے کو بہتر سمجھا اور انہوں نے نہ صرف اپنی تجویز واپس لے لی بلکہ بجلی گھروں کو سات فیصد کے بجائے چودہ فیصد ایڈوانس دینا شروع کر دیا جس پر بعد میں شوکت ترین پر نیب کا مقدمہ بھی بنا کہ آپ نے ان بجلی گھروں کی لوٹ مار کرنے میں مدد کی اور انہیں ڈبل ایڈوانس دیے جو غیرقانونی عمل تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ جب شوکت ترین پی ٹی آئی کے وزیرخزانہ بنے تو وزیراعظم عمران خان نے اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید کو کہہ کر نیب میں ان کا مقدمہ بند کرایا۔ یہ راز سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے حال میں ہی ایک انٹرویو میں شیئر کیا کہ نیب کو جنرل فیض حمید کنٹرول کر رہے تھے اور انہوں نے ہی عمران خان کے کہنے پر شوکت ترین کا سکینڈل نیب میں بند کرایا تھا۔
سب سے مزے کا کام ترکی سے آنے والے بجلی گھر کا تھا جو کراچی میں ایک شپ پر موجود تھا۔ اس ترک کمپنی نے بڑا لمبا ہاتھ مارا اور پورا کھیل بڑی سمجھداری سے کھیلا۔ترک کمپنی نے آزاد کشمیر کے ایک سابق صدر کے بیٹے کو پاکستان میں اپنا کنٹری چیف بنا دیا۔ اس نوجوان کی واحد قابلیت اس وقت وزیراعظم ہاؤس کے مکینوں سے رشتہ داری تھی۔ اس کمپنی کے ساتھ تقریباً پانچ سو ملین ڈالرز کی ڈیل ہوئی تھی اور خاصی بڑی رقم ڈالروں میں اس پارٹی کو ایڈوانس میں دی گئی جسے Mobilization Advance کا نام دیا گیا۔ وہ شپ پاکستان پہنچ تو گیا لیکن چند واٹ سے زیادہ بجلی پیدا نہیں کرپا رہا تھا۔ اس کے ٹیکنیکل ٹیسٹ کرائے گئے تو وہ ناکام ہوئے کیونکہ اس بجلی گھر سے جتنی بجلی پیدا کرنے کا معاہدہ ہوا تھا وہ اتنے میگا واٹ پیدا نہیں کر پایا لیکن اس کمپنی کو ملینز آف ڈالرز ایڈوانس مل چکا تھا۔ یوں پہلے ان افسران کو خریدا گیا جو یہ ٹیسٹ کرا رہے تھے تاکہ ان سے سب اوکے کی رپورٹ لی جائے۔ اور وہی ہوا۔ ان افسران نے جان بوجھ کر ان ٹیسٹوں کی جعلی تصدیق کرائی جس کی بنا پر تک کمپنی کو باقی ماندہ ادائیگیاں کی گئیں۔ اب اس ترکش بجلی گھر کے نام پر لمبا مال بنانے کے خوفناک کھیل میں وزیراعظم ہاؤس‘ وزارتِ فنانس اور وزارتِ پاور تک سب لوگ شامل تھے۔
اس ترک کمپنی نے ورجن آئی لینڈ میں آف شور کمپنی کھول کر ایک بینک اکاؤنٹ کھلوایا۔ اس بینک اکاؤنٹ میں پہلے وزارتِ خزانہ ڈالروں میں ادائیگی کرتی تھی جس میں پاکستانی حکمرانوں اور بیوروکریٹس کا حصہ بھی تھا۔ اس کمپنی کے پاکستانی کنٹری چیف نے‘ جو وزیراعظم ہاؤس کے ایک بڑے مکین کا رشتہ دار تھا‘ ان ڈالروں کی تقسیم سب لوگوں میں کرنی تھی۔ اس نے دبئی میں اپنی ایک اور رشتہ دار خاتون اور اس کے خاوند کو ساتھ ملایا۔ ان کے دبئی میں بینک اکاؤنٹس کی تفصیلات اس ترک کمپنی کو دیں۔ اس ترکی کمپنی کو جب بھی وزارتِ فنانس ڈالروں میں ادائیگی کرتی تو وہ اس میں سے کمیشن کا حصہ دبئی میں اس خاتون اور اس کے خاوند کے اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کر دیتی اور آزاد کشمیر کے سابق صدر کا بیٹا وہ پیسے نکلوا کر آگے پاکستانی سیاستدانوں اور بیوروکریٹس میں بانٹ دیتا۔ اس کی خاتون رشتہ دار اور اس کے خاوند کو بھی اپنا بینک اکاؤنٹ استعمال کرنے کی اجازت دینے پر کچھ حصہ دیا جا رہا تھا۔ اس دوران یہ سکینڈل سامنے آیا کہ جس ترکش بجلی گھر کو کروڑوں ڈالرز کی ادائیگی ایڈوانس میں کر دی گئی تھی وہ تو چند واٹ بجلی بھی پیدا نہیں کر سکا۔ اس پر سپریم کورٹ نے از خود نوٹس لیا اور کارروائی شروع کر دی۔ یوں عدالت نے کچھ عرصے بعد اس کمپنی کا کنٹریکٹ ختم کر دیا اور حکم دیا کہ ان کا بجلی گھر والا شپ کراچی سے روانہ نہ ہونے دیں۔
سپریم کورٹ کے اس فیصلے پر سیاستدانوں اور بیوروکریٹس نے حکومتِ پاکستان اور عوام کو سزا دلوانے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے کمپنی کو اشارہ کیا کہ جا کر عالمی عدالت میں پاکستان پر کیس کر دو۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اس کمپنی کو نیب سے یہ کلیئرنس بھی لے کر دی گئی کہ اس کمپنی نے اپنا کام پورا کیا تھا۔ اس کمپنی نے جا کر عالمی عدالت میں کیس کر دیا کہ اس کا کنٹریکٹ ختم کر کے اس کے ساتھ زیادتی کی گئی لہٰذا ہرجانہ دلوایا جائے۔ وہ سب لوگ جنہیں اس ڈیل میں حصہ مل رہا تھا‘ وہ سب اس کمپنی کے ساتھ تھے۔ کمپنی کے ترک مالک نے بیانِ حلفی لکھ کر دیا کہ اس کنٹریکٹ کو لینے کے لیے کسی کو رشوت نہیں دی گئی تھی۔ کچھ عرصے بعد عالمی عدالت نے پاکستان پر سوا ارب ڈالرز کا جرمانہ کر دیا کیونکہ پاکستانی حکام کیس لڑنے میں دلچسپی ہی نہیں رکھتے تھے۔ فوری طور پر اس جرمانے کو ریکور کرنے کے لیے ترک کمپنی نے مختلف ملکوں میں پاکستانی اثاثوں کا کنٹرول سنبھالنے کے لیے وہاں لوکل عدالتوں میں عالمی عدالت کے فیصلے کو بنیاد بنا کر پٹیشن فائل کر دی۔ اب ترک کمپنی پاکستان کے بیرونی اثاثے بیچ کراپنا جرمانہ پورا کرنے کی کوشش کررہی تھی۔
پاکستان جو ایک ایک ڈالر کے لیے دنیا بھر سے مہنگے قرضے لے رہا تھا‘ اسے اب اپنے اثاثوں کو بچانے کے لیے کوئی غیبی مدد درکار تھی۔ ترک صدر رجب طیب اردگان سے مدد مانگی گئی تو انہوں نے اسے ایک پرائیویٹ پارٹی کی بزنس ڈیل قرار دے کر کوئی مدد نہیں کی۔ نواز شریف کی تیسری حکومت آئی تو انہوں نے کمیٹی بنائی کہ پتا تو کریں کہ پاکستان پر اتنا بڑا جرمانہ کیسے ہو گیا۔ اس کمیٹی میں آئی ایس ائی‘ آئی بی‘ نیب‘ وزارتِ فنانس اور قانون کے افسران شامل تھے۔ جب اس کمیٹی نے انکوائری شروع کی تو خوفناک انکشافات ہوئے کہ ہمارے ترک دوستوں کے ساتھ مل کر ہمارے اپنے حکمرانوں نے کیا خطرناک کھیل کھیلا تھا۔ ترک کمپنی کے رشوت دے کر یہ کنٹریکٹ حاصل کرنے کے ثبوت بھی ہاتھ لگے جنہیں عالمی عدالت میں دکھا کر نہ صرف جرمانہ معاف کرایا جا سکتا تھا بلکہ وہ کمپنی بلیک لسٹ بھی ہو جاتی کہ اس نے رشوت سے کنٹریکٹ لیا تھا۔
نیب نے سابق سیکرٹری پاور شاہد رفیع کو اٹھا یا تو انہوں نے یہ خوفناک انکشاف کیا کہ انہوں نے اس ڈیل میں کروڑوں کی رشوت لی تھی اور اب وہ بجلی گھروں کی ڈالروں میں لوٹ مار کی ساری کہانی سنانے اور اپنی رہائی کے بدلے اپنے حصے کے چار کروڑ واپس کرنے کو تیار تھے۔ (جاری)
یہ بھی پڑھیے:
ملتان میں قتلِ آم||رؤف کلاسرا
آخر سیکھ ہی گئے!۔۔۔رؤف کلاسرا
پُرانے جال ، پُرانے شکاری۔۔۔ رؤف کلاسرا
ایک بڑا ڈاکا اور بڑی واردات تیار… ۔۔۔ رؤف کلاسرا
پانچ ارب کی واردات کی داستان …(1)۔۔۔ رؤف کلاسرا
پانچ ارب کی واردات کی داستان …(2)۔۔۔ رؤف کلاسرا
پانچ ارب کی واردات کی داستان …(3)۔۔۔ رؤف کلاسرا
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر