ستمبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

مہربان قدردان ایمان کا ’’حُقہ‘‘ تازہ کیجئے۔۔۔||حیدر جاوید سید

حیدر جاوید سید سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے نامور صحافی اور تجزیہ کار ہیں، وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان کےمختلف قومی اخبارات میں مختلف موضوعات پر تواتر سے کالم لکھ رہے ہیں، انکی تحریریں انہی کی اجازت سے ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر کی جارہی ہیں،

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آپ کویاد ہی ہوگا جب محترمہ بینظیر بھٹو کے منہ بولے بھائی صدر مملکت سردار فاروق لغاری نے 58ٹو بی کے تحت پیپلزپارٹی کی حکومت کو چلتا کیا تھا تو اس شب آصف علی زرداری لاہور میں پنجاب کے گورنر ہائوس میں مقیم تھے۔ تب ایک احتساب سیل ہوا کرتا تھا جس کے سربراہ حسن وسیم افضل تھے۔
اس احتساب سیل نے صدر مملکت لغاری اور نگران وزیراعظم ملک معراج خالد کے حکم پر آصف زرداری کو گورنر ہائوس کے ایک بیڈ روم سے اس حالت میں گرفتار کیا کہ ان کے بیڈ کے نیچے پڑے دو جستی ٹرنکوں میں 50کروڑ امریکی ڈالر، سوا 1 کروڑ برطانوی پاونڈ 20ارب روپے پاکستانی اور 27کلو سونا موجود تھا۔
ظاہر ہے یہ بھی زرداری کے ساتھ ہی گرفتار ہوا۔ اس مال مقدمہ کی خبریں ایمانی جوش و جذبہ کے ساتھ نشروشائع کروائی گئیں۔
پچھلے چند دنوں سے سوشل میڈیا پر دو خبریں پرواز کررہی ہیں۔ پہلی یہ کہ سندھ میں پی پی پی کے رہنما اور سابق صوبائی وزیر مکیش چاولہ کے گھر سے 60ارب روپے برآمد ہوئے جبکہ پی پی پی کی ہی ایک رہنما اور سابق وفاقی وزیر شازیہ مری کے گھر سے 97ارب روپے برآمد ہوئے۔
1997ء میں پنجاب کے گورنر ہائوس سے زرداری کے بیڈ کے نیچے سے برآمد ہوئی ملکی و غیرملکی کرنسی اور 27کلو سونے سے لے کر گزشتہ چند دنوں میں مکیش چاولہ اور شازیہ مری سے برآمد ہونے والے 157ارب روپے کی برآمدگی کے درمیانی 26 برسوں میں پیپلزپارٹی کے رہنمائوں سے جو برآمدگیاں ہوئیں ان کی موٹی موٹی تفصیل یہ ہے۔
ساعت بھر کے لئے رکئے میں یہ تفصیل عرض کرتا ہوں لیکن اس سے پہلے یہ عرض کردوں کہ ماضی کی یہ برآمدگیاں ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا پر ہوئیں اگر یہ اصل تھیں تو برآمد شدہ مال سرکار کے خزانہ میں کہیں نہ کہیں تو جمع ہونا چاہیے تھا۔
خیر جو موٹی موٹی برآمدگیاں ہمیں یاد ہیں وہ کچھ یوں ہیں کہ شرجیل انعام میمن کی کراچی سے دبئی جانے والی ایک لانچ پکڑی گئی تھی اس لانچ میں 2 ارب ڈالر، سات ارب روپے پاکستانی، پونے 2من سونا و دیگر جوہارات کے ساتھ 10لاکھ برطانوی پائونڈ کے علاوہ بھاری مقدار میں درہم و ریال بھی موجود تھے
سندھ اسمبلی کے سپیکر آغا سراج درانی کے آبائی گھر کے خفیہ تہہ خانے میں آگ لگنے سے 500 ارب روپے جل کر راکھ ہوگئے تھے لیکن ان کی کراچی والی قیام گاہ سے اربوں کی نقدی و زیورات کے علاوہ سونے کی جو ٹکیاں برآمد ہوئیں ان کا وزن 119 کلو تھا۔ یہ وہ مال ہے جس کی برآمدگی کا دعویٰ کیا گیا۔ کرپشن کے الزامات اس سے الگ ہیں۔
مثال کے طور پر آصف علی زرداری کے بے نامی اکائونٹس) یہ اکائونٹس وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان کی شروع کروائی تحقیق سے پکڑے گئے تھے) المعروف پاپڑوالے، فالودے والے، گول گپے والے اکائونٹس میں 154ارب روپے تھے۔
ڈاکٹر عاصم پر 400ارب روپے کی کرپشن اور اپنے ہسپتال میں دہشت گردوں کا علاج کرنے کا الزام تھا۔ خورشید شاہ پر 500ارب روپے کی کرپشن کا۔
زرداری والے بے نامی اکائونٹس کے 154ارب ڈاکٹر عاصم والے 400ارب اور خورشید شاہ والے 500ارب یہ کل ملاکر 1054روپے ہوئے۔
یاد رکھئے ہم صرف پیپلزپارٹی کے لوگوں پر کرپشن کے الزامات اور ان سے ہوئی برآمدگیوں پر بات کررہے ہیں۔ ہمارے سوال میں یہ بات ہرگز شامل نہیں کہ ماضی میں جو ایف سی بلوچستان کے سربراہ سے 14ارب روپے برآمد ہوئے تھے وہ کہاں ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ جو لوگ مندرجہ بالا کرپشن کہانیوں اور برآمدگیوں پر کامل ایمان لاچکے ہیں وہ یہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں کہ پچھلے 10ماہ کے دوران عمران خان کے زمان پارک والے گھر میں دو بار چوری ہوئی پہلی چوری میں 36کروڑ اور دوسری میں 48کروڑ روپے ’’چور لے اڑے‘‘۔
ان میں سے تین عدد شک میں آنے والے چوروں سے لاہور ساہیوال کے راستے میں واقع ایک فارم ہاوس پر اور دو چوروں سے بیدیاں روڈ کے ایک فارم ہاوس پر 15دن تفتیش بھی ہوئی اور تفتیشی عرصہ میں پی ٹی آئی کا سوشل میڈیا اپنے پانچ افراد کو اغوا کرنے کا الزام ایجنسیوں پر لگاتا رہا۔
چھوڑیئے یہ قصہ ہمارے موضوع کا حصہ نہیں۔ دیوتا کے گھر میں عقیدت مندوں کے چڑھائوں کا مال ہوتا ہے ضرورت مند لے گئے ہوں گے یا کسی ضرورت مند نے ضرورت مندی پر پردہ ڈالنے کے لئے چوری کی خبریں اڑوائی ہوں گی۔
یہ بھی ممکن ہے کہ یہ خبریں اس وصیت کی طرح ہوں کہ عمران خان نے اپنی وفات کےبعد زمان پارک اور بنی گالہ والا گھر شوکت خانم ہسپتال کے لئے وقف کردیا ہے جبکہ حقیقت میں زمان پارک والا گھر انہوں نے تیسری اہلیہ کو بہ وقت نکاح گفٹ کیا ساتھ میں بنی گالہ میں سات کنال اراضی بھی۔
اس بات پر جن لوگوں کے پیٹ میں مروڑ اٹھ رہا ہے وہ حکیم سے رجوع کریں۔
ہم پیپلزپارٹی والوں کی کرپشن اور ان سے لانچ سمیت برآمد ہونے والی رقوم و سونے کے ڈھیروں کی بات کررہے تھے۔
شاعر کرہ ارض تگڑم دستوری گزشتہ شب فقیر راحموں سے کہہ رہے تھے
’’یار فقیر یہ پیپلزپارٹی کے دشمن سڑیں مریں گے تو اس وقت جب بلاول ہائوس سے وہ ساڑھے 4ارب ڈالر برآمد ہوئے جو امریکہ نے بلاول کے بطور وزیرخارجہ امریکہ کے دورہ کے دوران پاکستان کو بارڈر مینجمنٹ کے لئے دیئے تھے‘‘۔
میری ذاتی رائے یہ ہے کہ اگست 1990ء سے ستمبر 2023ء کے درمیانی برسوں میں پیپلزپارٹی کی کرپشن کہانیوں کی مجموعی رقم اور برآمد ہوئی ملکی و غیرملکی کرنسی و سونے کے ڈھیروں کے حوالے سے عوام کو بتایاجانا چاہیے کہ یہ رقم اور سونا و دیگر جواہرات برآمدگی کے بعد سے اب تک کہاں ’’محفوظ پڑے‘‘ ہیں موٹا موٹا حساب بھی تقریباً 17ارب ڈالر کے لگ بھگ بنتا ہے اب اگر یہ 17ارب ڈالر ملکی خزانے میں ایمانداری سے جمع ہوں (ان میں ایف سی والے 14ارب شامل نہیں) تو سوچئے زرمبادلہ کے ذخائر فوری طور پر 22ارب ڈالر سے بڑھ جائیں گے۔
ایک تجویز یہ بھی ہے کہ پیپلزپارٹی خود رضاکارانہ طور پر مطالبہ کرے کہ پچھلے 34برسوں کے دوران اس کے رہنمائوں سے جو ملکی و غیرملکی کرنسی سونا، ہیرے جواہرات وغیرہ وغیرہ برآمد ہوئے انہیں فوری طور پر ملکی خزانے میں جمع کراکے رسیدیں انہیں بھجوائی جائیں۔
کالم کے ابتدائی حصہ میں حال ہی میں پیپلزپارٹی کے رہنمائوں کے گھروں سے جن 157ارب روپے کی برآمدگی کا ذکر کیا ان کی خبریں سوشل میڈیا پر گردش کررہی ہیں انہیں جمع کرکے میں نے اپنے سوشل میڈیا اکائونٹ پر کی گئی پوسٹ میں مطالبہ کیا کہ اس رقم سے بجلی کے بلوں میں سبسڈی دی جائے۔
یہ لطیف طنز بہت کم لوگوں کو سمجھ میں آیا۔ انصافی بہن بھائیوں اور ایران نواز وحدتی انقلابیوں نے ایمان کے حقے کے گہرے کش گڑگڑاتے ہوئے فوری طور پر توپوں کا رخ پیپلزپارٹی کی طرف کردیا۔
ایک مسلک کے شہداء کی نعشوں کی تجارت پر سیاست کرنے والے مذہبی جماعت کے کارکن تو اگر کھلا دماغ رکھتے ہوں تو مذہبی کارکن ہی نہ بنتے باقی جن لوگوں نے جذبہ ایمانی کے ساتھ اس خبر کو آگے بڑھایا ان سے شکوہ فضول ہے۔
وجہ اس کی یہ ہے کہ ان میں اکثریت ان لوگوں کی ہے جن کی 26 سالہ یا پھر اکتوبر 2011ءکے بعد سے اب تک کی جدوجہد ’’جھوٹو جھوٹ‘‘ سے عبارت ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ یہی طقبہ کورونا وبا کے دنوں میں اس وقت کے وزیراعظم کے حکم پر سرکاری آئل کمپنی کو سستا پٹرولیم بین الاقوامی منڈی سے خریدنے سے روکے جانے اور نجی کمپنیوں کی بھرپور خریداری اور پھر پٹرولیم کی قیمت میں اضافے سے نجی آئل کمپنیوں کو 27سو ارب روپے کا فائدہ پہنچانے جائے کو کرپشن نہیں بلکہ کاروبار قرار دیتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ اس طرح کے کاروبار کی ” پی ایس او ” کو اجازت کیوں نہ دی گئی؟
اس جملہ معترضہ پر معذرت اصل بات یہ ہے کہ پچھلے 34برسوں میں پیپلزپارٹی والوں سے برآمد ہوئی 17ارب ڈالر کی مجموعی رقم (اس میں سونا ہیرے وغیرہ شامل ہیں) ملکی خزانہ میں جمع کرانے کے حق میں مہم چلائی جانی چاہیے تاکہ یہ پیسہ قوم اور ملک کے کسی کام آسکے۔ آیئے یہ مطالبہ کر کے اپنے اپنے ایمان کا حقہ تازہ کریں۔

یہ بھی پڑھیں:

About The Author