نومبر 21, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

کیا پاکستان، امریکہ چین سرد جنگ کا میدان ہے؟۔۔۔||حیدر جاوید سید

حیدر جاوید سید سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے نامور صحافی اور تجزیہ کار ہیں، وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان کےمختلف قومی اخبارات میں مختلف موضوعات پر تواتر سے کالم لکھ رہے ہیں، انکی تحریریں انہی کی اجازت سے ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر کی جارہی ہیں،

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پچھلے سولہ سترہ ماہ سے جن عزیزوں دوستوں اور انصافیوں کو اسٹیبلشمنٹ سے اختلاف اور جمہوریت و آئین کی محبت کا وارے کا بخار چڑھا ہوا ہے یہ سبھی پچھلے سال مارچ تک ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو خدا کے بعد اس ملک کے لئے آخری امید سمجھتے تھے۔

ان کے خیال میں ملٹری اسیبلشمنٹ پر تنقید کرنے والے بیرونی قوتوں کے گماشتے ہیں۔ یہ آئین کو منہ بھر کے گالیاں دیتے ہوئے کہا کرتے تھے کہ جمہوری پارلیمانی نظام اس ملک پر بوجھ ہے ہم اگلے انتخابات میں اس طاقت کے ساتھ آئیں گے کہ آئین میں اسلامی صدارتی نظام کی ترامیم کرکے پاکستان کو ترقی کی شاہراہ پر ڈالیں گے۔

یہاں ساعت بھر کے لئے رکئے ہم اس سے چند برس پیچھے چلتے ہیں جب پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے امریکہ نواز ٹولے کے اشارے پر 126دن کا ڈی چوک دھرنا ہوا تھا۔ یہ دھرنا اصل میں پاک چین تجارتی تعاون اور سی پیک کے خلاف امریکی منصوبے کا حصہ تھا اس منصوبے کے اسٹیبلشمنٹی کرداروں کو سامراجی قوتوں نے آگے چل کر کیسے اکاموڈیٹ کیا اسے یوں دیکھئے کہ راحیل شریف کو چالیس ملکی جعلی اسلامی فوج کا سربراہ بنوایا۔ شجاع پاشا کو دبئی کے امریکن ہسپتال میں (یہ اصل میں خطے میں سی آئی اے کا اڈا ہے) ملازمت دلوائی۔

سوویت یونین کے خاتمے کے بعد امریکیوں کا خیال یہ تھا کہ اب وہ دنیا کے واحد مالک و حاکم ہیں لیکن اگلی ڈیڑھ دو دہائیوں میں روس اور چین اسے عالمی سیاست میں چیلنج کرنے لگے۔

اس عرصہ میں چین نے اپنی معاشی ساکھ بہتر بنانے کے ساتھ دنیا میں تجارتی روابط کو بہتر تر بنانے پر توجہ دی اور روس نے عالمی برادری میں سوویت یونین کے حقیقی جانشین کے طور پر اپنا مقام بنانے پر توجہ مرکوز رکھی ۔

رواں صدی کے دوسرے عشرے کے آغاز پر چین نے مختلف خطوں کے ممالک سے گہرے معاشی روابط کو اپنی پالیسی کا حصہ بنالیا سی پیک اسی پالیسی کا حصہ تھا۔

پاکستان اور چین کے درمیان اس منصوبے کے ابتدائی خدوخال پیپلزپارٹی کے دور میں وضع کرلئے گئے تھے اس کے ساتھ ساتھ دونوں ملکوں میں بنیادی امور پر تحریری کام بھی ہوگیا۔ توقع یہ کی جارہی تھی کہ اگلے مرحلہ پر اس میں ایران اور ترکی بھی شامل ہوں گے۔

پاکستان اور چین کی بڑھتی ہوئی معاشی قربتوں کو امریکی اس لئے بھی خطرہ سمجھتے تھے کہ وہ نہ صرف عملی طور پر افغانستان میں موجود تھے بلکہ اس امر کے لئے بھی کوشاں تھے کہ چین پاکستان کے راستے وسطی ایشیائی ریاستوں سے تجارتی مراسم قائم نہ کرنے پائے۔

126دن کا ڈی چوک والا دھرنا اسی منصوبے کا حصہ تھا بظاہر اس میں امریکی کیمپ کو کامیابیاں ملیں لیکن پاکستان کی داخلی سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کے امریکہ نواز دھڑے کے ساتھ صرف تحریک انصاف کھڑی ہوئی جو پارلیمان میں تیسری بڑی جماعت تھی اس کے علاوہ حزب اختلاف کی تمام جماعتیں مسلم لیگ کی حکومت کے ساتھ کھڑی رہیں۔

ایک مرحلہ پر (یہ اکتوبر 2014ء کی بات ہے) اس وقت کے آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے آئی ایس آئی کے سابق سربراہ شجاع پاشا اور دو دیگر افراد ہے ہمراہ سابق صدر مملکت آصف علی زرداری سے ملاقات کی (تینوں شخصیات حیات ہیں چاہیں تو تردید کرکے دیکھ لیں) یہ ملاقات ملک کے ایک بڑے بلکہ بڑوں میں سے ایک بڑے پیر خانوادے کی قیام گاہ پر ہوئی تھی۔

اس ملاقات کی دو باتیں اہم تھیں اولاً یہ کہ آرمی چیف اس امر کے خواہش مند تھے کہ پیپلزپارٹی اپنے بااعتماد حمایتیوں کے ساتھ تحریک انصاف کے دھرنے کی حمایت کرے اس حمایت کی صورت میں مستقبل کے نظام میں اسے بطور خاص مدنظر رکھا جائے گا۔

یہ تجویز بھی دی گئی کہ اگر نوازشریف حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائی جائے تو مسلم لیگ (ن) 35ارکان رائے شماری کے وقت غیرحاضر رہ کر تعاون کریں گے۔

آصف علی زرداری نے نہ صرف دونوں کاموں میں تعاون سے انکار کردیا بلکہ اس وقت دوٹوک انداز میں یہ بھی کہا کہ اسٹیبلشمنٹ اس امریکی کھیل سے دور رہے جس کا مقصد پاکستان اور چین کے درمیان دوریاں پیدا کرناہے۔

اس ناکام ملاقات کےبعد کی کہانی کا ایک حصہ یہ ہے کہ پی پی پی اور اس کے اتحادی مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے ساتھ ڈٹ کر کھڑے رہے۔ اسٹیبلشمنٹ اپنے مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہی۔

کہانی کا دوسرا حصہ اگلے برسوں میں پی پی پی اور (ن) لیگ میں در آئی دوریوں کے احوال پر مشتمل ہے۔ صورتحال یہ بھی بن گئی تھی کہ میاں نوازشریف نے آصف علی زرداری سے ایک طے شدہ تعزیتی ملاقات منسوخ کرکے ماسکو کے دورہ پر موجود جنرل راحیل شریف کو بذریعہ ٹیلیفون آگاہ کیا کہ پیپلز پارٹی کے وفد سے ملاقات منسوخ کردی گئی ہے۔

کہانی کے اس دوسرے حصے میں ہی آصف علی زرداری کے خلاف وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان کے حکم پر 2015ء میں دو مقدمات قائم ہوئے ان مقدمات کے حوالے سے چودھری نثار علی خان کا یہ اعتراف ریکارڈ پر موجود ہے کہ یہ مقدمات آرمی چیف کے کہنے پر درج کئے گئے ہیں ۔

سی پیک منصوبے کی ابتدائی جزئیات اور معاہدوں کے وقت سے پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے اندر شروع ہوئی لڑائی کسی نہ کسی طرح اب بھی جاری ہے اس لڑائی میں عدلیہ نے جو کردار ازخود سنبھالا اس پر وہ لوگ حیران ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستانی عدلیہ نے ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ کے پرجوش معاون کے طور پر کردارادا کرنے میں کبھی بخل کا مظاہرہ نہیں کیا تو اب کیا ہوا؟

کچھ بھی نہیں ہوا ویسے بھی یہ عدلیہ کا اجتماعی کردار نہیں ہے بلکہ چند قاضیوں کی جانب سے خاندان "پروری” کا عملی مظاہرہ ہے۔

ابتدائی سطور میں عرض کیا تھا کہ جن طبقات کو سولہ سترہ مہینوں سے آئین جموہریت 90دن میں انتخابات وغیرہ کا وارے کا بخار چڑھا ہوا ہے عین ممکن ہے وہ آئین و جمہوریت سے مخلص ہوں البتہ جہاں تک اس دعوے کا تعلق ہے کہ عمران خان خدا کے بعد کروڑوں لوگوں کی آخری امید ہیں اس سے اتفاق ممکن نہیں کیونکہ یہی لوگ دو تین نسلوں سے ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو خدا کے بعد آخری امید بلکہ پاکستان کے وجود کی ضمانت قرار دیا کرتے تھے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کی آخری امید کی ماضی کی سیاسی قلابازیاں وغیرہ وغیرہ ان کے نزدیک اس کی ذات کے اوصاف ہیں ۔ میں اب بھی یہ سمجھتا ہوں کہ افغانستان سے امریکہ اور نیٹو کے انخلا کے وقت ہماری اسٹیبلشمنٹ نے جو کردار اپنایا اور جو وارداتیں ڈالیں اس کا نتیجہ پاکستان بھگت ہی نہیں رہا بلکہ مزید بھگتے گا۔

میں ان دوستوں سے متفق نہیں ہوں جو یہ سمجھتے ہیں کہ اپریل 2022ء کی رجیم چینج امریکی دبائو، کوششوں یا واردات کا نتیجہ ہے۔ میری رائے میں اس فہم کو سوفیصد درست سمجھنے سے قبل ہمیں افغانستان سے امریکہ و نیٹو کے انخلاء کے وقت طالبان کو دوحا معاہدہ کے برعکس افغانستان کا قبضہ دلوانے والی اسٹیبلشمنٹ کے کردار اور نتائج کا تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے۔

اسٹیبلشممنٹ کا خیال تھا کہ امریکی ہمارے بغیر خطے میں زیرو ہیں۔ سادہ سی بات ہے کہ ان دو باتوں کا تجزیہ بہت ضروری ہے پہلی یہ کہ عمران خان نے بطور وزیراعظم اپنی ہی حکومت کے آئی ایم ایف سے معاہدہ کی خلاف ورزی کیوں کی۔

کیا یہ ان کا فیصلہ تھا یا ان پر اثرانداز اسٹیبلشمنٹ کی یہ چال کہ ایسا کرکے ہم امریکہ کو دبائو میں لاسکتے ہیں اسی میں ضمنی بات عمران خان کی میلسی میں ایک تقریر ہے جس میں انہوں نے یورپی یونین کو رگید ڈالا تھا۔

ان دونوں باتوں سے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ہماری اسٹیبلشمنٹ نے افغانستان کے داخلی امور میں دوحا معاہدہ کے مطابق تبدیلی کی بجائے طالبان کے قبضے میں عملی تعاون کیوں کیا۔

ان تین باتوں کا تجزیہ حقائق کو دوچند کرسکتا ہے

اسی طرح میری رائے میں عمران خان کو چند ریٹائر بابے جرنیلوں کی ان بڑھکوں کو حقیقت نہیں سمجھ لینا چاہیے تھا کہ ہمارے ماتحتوں اور شاگردوں نے تبدیلی کے عمل میں حصہ ڈالنا ہے۔ پننشن بند کئے جانے کے ایک نوٹس کی مار یہ بابے ٹکے کی اہمیت نہیں رکھتے تھے

اس لئے دوسروں پر پھبتیاں کسنے سے پہلے انصافی خواتین و حضرات کو اپنی غلطیوں اور دوسرے معاملات کا تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

About The Author