رؤف کلاسرا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اختر بلند رانا حیران تھے کہ بھلا وزارتِ خزانہ یا وزیر خزانہ ایک فون پر کیسے سٹیٹ بینک کو حکم دے سکتا ہے کہ وہ ان پاور پلانٹس کو ایک دن میں 480 ارب روپے لاہور کے ایک بینک میں ریلیز کرے‘ ساتھ میں ان پلانٹس کو سود بھی ادا کرے۔ اکثر بِلز فوٹو کاپی پر ادا کیے گئے۔ اوریجنل بِلز تک پیش نہیں کیے گئے۔ قانون کے تحت اتنی بڑی ادائیگی سے پہلے آڈیٹر جنرل نے ان پاور پلانٹس کی طرف سے بھیجے گئے بِلز کا پری آڈٹ کرنا تھا۔ اگر وہ مطمئن ہوتے کہ بِل درست تھے تو پھر وہ سٹیٹ بینک کو لیٹر لکھتا کہ اتنی رقم اکاؤنٹنٹ جنرل آف پاکستان کے اکاؤنٹ میں جاری کی جائے اور وہاں سے پاور پلانٹس کے اکاؤنٹس میں ٹرانسفر کی جاتی یا چیک ایشوز کیے جاتے۔ لیکن اسحاق ڈار نے اس پراسیس کو بلڈوز کیا۔ بلکہ اُن بینکوں سے بھی کمرشل قرضہ لیا گیا جن کے مالکان کے اپنے پاور پلانٹس تھے اور وہی روپیہ ان کے پاس واپس جا رہا تھا۔ اس پر بس نہیں کی گئی بلکہ ایک اور کام کیا گیا کہ ان بجلی گھروں پر حکومت کی طرف سے بائیس ارب روپے کا جرمانہ تھا کہ انہوں نے معاہدوں کی خلاف ورزیاں کی تھیں۔ جبکہ ان پاور پلانٹس کو حکومت کی طرف سے ادائیگیوں میں دیر ہونے کی وجہ سے 32ارب روپے مارک اَپ اکٹھا ہو چکا تھا۔ اب جب ایک ہی دن میں فنانس منسٹری نے پاور منسٹری کی سمری منظور کی اور سب پیسے ایک دن ریلیز کرائے تو ان پاور پلانٹس سے مذاکرات کر کے وہ 32 ارب سود معاف نہ کرایا گیا جو وہ پہلے پی پی پی دور میں آفر کر رہے تھے۔ چلیں سود معاف نہیں کرایا لیکن حکومت پاکستان ان پاور پلانٹس پر عائد 22ارب روپے کا جرمانہ تو کاٹ سکتی تھی۔ یہ بھی نہیں کیا گیا اور پلانٹس کو 32ارب روپے مارک اَپ بھی دیا جو بچایا جا سکتا تھا۔ یوں دیکھا جائے تو اس کھیل میں 50 ارب روپے کی بچت ہو سکتی تھی۔ اس سے اندازہ لگا لیں کہ جو لوگ ان پاور پلانٹس کو جعلی بِلز یا فوٹوکاپیوں پر ادائیگی کرا رہے تھے ان کے اس میں کتنے بڑے مالی مفادات تھے اور کس پیمانے پر مال بنایا گیا۔
اس سکینڈل پر پی پی پی حکومت کے کچھ سابق وزیر تک حیران تھے کہ 2013ء میں ان کی حکومت ختم ہونے سے پہلے تک کچھ پاور پلانٹس بلز کلیئر کرنے کے بدلے20فیصد کمیشن دینے کو تیار تھے‘ لیکن ان کا دعویٰ تھا کہ وہ نہیں مانے اور یہاں اسحاق ڈار نے وزیر خزانہ بنتے ہی پہلے پندرہ بیس دنوں میں 480 ارب روپے کی مشکوک ادائیگیاں ایک دن میں کرائیں‘ جس پر بعد میں نیب کا مقدمہ بھی بنا۔ آڈیٹر جنرل اختر بلند رانا نے اس پوری ڈیل کا آڈٹ کرایا تو سو ارب روپے سے زیادہ کی بے ضابطگیاں سامنے آئیں۔ یہ رپورٹ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کو بھی بھیجی گئی۔ یہ پیسہ بینکوں سے قرضہ لے کر اور کچھ سرکاری اداروں کی گریجوٹی‘ پنشن فنڈ اور یونیورسل فنڈز وغیرہ سے شفٹ کر کے ان پلانٹس کو دیا گیا‘ جس میں چند وزیروں کے شیئرز کی بازگشت بھی سنائی دے رہی تھی۔
پی اے سی میں اسحاق ڈار اور دیگر وزرا اور ممبران نے اختر بلند رانا کو سبق سکھانے کا فیصلہ کر لیا کہ اسے کیسے جرأت ہوئی کہ اس دن دہاڑے ڈاکے کی انکوائری کرکے سو ارب سے زائد کی بے ضابطگیاں ریکارڈ پر لا کر اسے ایک رپورٹ کی شکل میں کمیٹی کے سامنے پیش بھی کر دیا۔ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین اُس وقت پی پی پی کے خورشید شاہ تھے جو چند ماہ پہلے پیپلز پارٹی کی حکومت میں وفاقی وزیر تھے۔ اب اپوزیشن لیڈر ہونے کے ناتے وہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین بنا دیے گئے تھے۔ چیئرمین کے علاوہ پی پی پی کے ایم این ایز اس کمیٹی کے ممبر بھی تھے‘ جس نے پیپلز پارٹی دور کی کرپشن اور بے ضابطگیوں کی رپورٹس پر کارروائی کرنی تھی۔ اختر بلند رانا کے اندر کا راجپوت جاگ گیا۔ انہوں نے ایک دن کمیٹی کو خط لکھ دیا کہ جو آڈٹ رپورٹس انہوں نے کمیٹی کو بھیجی ہیں‘ وہ سب پیپلز پارٹی دور کی کرپشن کے بارے میں ہیں۔ اس وزارت کی کرپشن رپورٹ بھی اس میں شامل ہے جس کے وزیر خورشید شاہ تھے۔ اختر بلند رانا کا کہنا تھا کہ مجھے سمجھایا جائے کہ وہ وزیر جس کی وزارت کے خلاف آڈٹ پیرے ہیں‘ وہ ان پیروں کا کیا اپنی ہی وزارت کے افسران سے حساب لے گا‘ جو اس کے ماتحت رہے ہیں اور اب وہ کٹہرے میں لائے جانے ہیں؟ اُن کا کہنا تھا کہ یہ انصاف کے تقاضوں کے خلاف ہے کہ پیپلز پارٹی کے سابق وزیر پبلک اکاونٹس کمیٹی کی حیثیت سے اپنے دور کی کرپشن پر خود ہی جج‘ جیوری اور جلاد کا رول ادا کریں۔ اس خط کو سیریس لینے کی بجائے کمیٹی میں ہنگامہ کھڑا ہو گیا کہ آڈیٹر جنرل اختر بلند رانا کی جرأت کیسے ہوئی کہ پارلیمنٹ کی کمیٹی کے چیئرمین اور ممبران کو چیلنج کرے۔
اختر بلند رانا کو کہا گیا کہ وہ یہ خط واپس لے اور کمیٹی چیئرمین اور ممبران سے معافی مانگیں‘ لیکن راجپوت نے کہا: وہ کٹ جائے گا معافی مانگنا تو دور کی بات وہ اپنا خط تک واپس نہیں لے گا۔ بلکہ الٹا کمیٹی کو کہا کہ جب تک خورشید شاہ اس کمیٹی کے چیئرمین ہیں‘ وہ اس کمیٹی کے اجلاسوں میں شریک نہیں ہوں گے۔ وہ اس ڈرامے میں شریک نہیں ہوئے جس کے تحت اسحاق ڈار کو 480ارب روپے کی مشکوک ادائیگی میں کلین چٹ ملنے والی تھی بلکہ پیپلز پارٹی دور کی کرپشن بھی سیٹل ہونے والی تھی۔ یوں اب پہلے نواز لیگ اختر بلند رانا سے اسحاق ڈار کے خلاف انکوائری پر ناراض تھی تو پیپلز پارٹی کے ممبران بھی ان کے دشمن بن گئے کہ وہ ان کے دور کی کرپشن سیٹل کرنے میں مدد دینے کے بجائے الٹا ان کے گلے پڑ گیا۔ خورشید شاہ اور پیپلز پارٹی کے ممبران کا اختر بلند رانا سے یہ بھی گلہ تھا کہ اسے آڈیٹر جنرل سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے لگایا تھا جو پیپلز پارٹی کے تھے۔ پیپلز پارٹی حکومت نے آپ کو اتنا بڑا عہدہ دیا مگر شکر گزار ہونے کے بجائے آپ الٹا اس کی آڈٹ رپورٹس تیار کرکے کمیٹی میں لے آئے۔ چلیں یہاں تک ٹھیک تھا کہ آپ کی آئینی ذمہ داری تھی لیکن آپ ایک قدم آگے چلے گئے اور چیئرمین کمیٹی خورشید شاہ پر بھی اعتراض جڑ دیا کہ وہ اپنے دور کی کرپشن رپورٹس پر کمیٹی اجلاسوں کی صدارت نہ کریں۔ ان کا کام تھا کہ وہ رپورٹس تیار کرکے لائیں‘ آگے کمیٹی چیئرمین جانے اور اس کے ممبران جانیں۔ آڈیٹر جنرل پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کو ڈکٹیٹ کرنے کی پاورز نہیں رکھتا۔
اس پر اختر بلند رانا کا کہنا تھا کہ انہیں میرٹ پر تعینات کیا گیا‘ اور وہ ایک بڑے آئینی عہدے پر فائز تھے جس کے اپنے تقاضے تھے جنہیں پورا کرنے کے وہ ذمہ دار تھے۔ اس سے بڑھ کر اگر آڈیٹروں کی تیار کی گئی رپورٹس کو ردی سمجھ کر‘ سیٹل کرکے کرپٹ افسران یا وزیروں کو کلین چٹ دے دی گئی تو اس سے آڈٹ کا پورا نظام خراب ہوگا۔ آڈیٹر بری طرح demoralize ہوں گے اور آئندہ محنت چھوڑ دیں گے کہ اگر سب کچھ کمیٹی میں جا کر سیٹل ہونا ہے تو وہ کیوں فائلوں میں سر کھپائیں‘ بدعنوانیوں کو پکڑیں اور دشمنیاں مول لیں۔
جب نواز لیگ اور پیپلز پارٹی کے کمیٹی ارکان کو لگا کہ وہ راجپوت کو کنٹرول نہیں کر سکتے تو انہیں ایک خیال سوجھا کہ رانا کو کیسے فکس کیا جائے۔ ان سب کو علم تھا کہ اس پورے کھیل میں اگر کوئی ان کا کھیل کھیل سکتا ہے تو وہ پی ٹی آئی کا ایم این اے عارف علوی ہے۔ یوں عارف علوی کو آگے کر دیا گیا جنہوں نے بغیر اس معاملے کی سنگینی کو سمجھے نواز لیگ اور پیپلز پارٹی کے مفادات کے تحفظ کا بیڑا اٹھا لیا اور وہ نقصان کیا جس کا اعتراف انہوں نے کچھ عرصہ بعد جہانگیر ترین کے گھر ایک ملاقات میں مجھ سے کیا کہ اُن سے غلطی ہو گئی تھی۔ لیکن تب تک اسحاق ڈار اور خورشید شاہ ایم این اے علوی کو استعمال کرکے اختر بلند رانا کو ٹھکانے لگا چکے تھے۔ (جاری)
اس سکینڈل پر پی پی پی حکومت کے کچھ سابق وزیر تک حیران تھے کہ 2013ء میں ان کی حکومت ختم ہونے سے پہلے تک کچھ پاور پلانٹس بلز کلیئر کرنے کے بدلے20فیصد کمیشن دینے کو تیار تھے‘ لیکن ان کا دعویٰ تھا کہ وہ نہیں مانے اور یہاں اسحاق ڈار نے وزیر خزانہ بنتے ہی پہلے پندرہ بیس دنوں میں 480 ارب روپے کی مشکوک ادائیگیاں ایک دن میں کرائیں‘ جس پر بعد میں نیب کا مقدمہ بھی بنا۔ آڈیٹر جنرل اختر بلند رانا نے اس پوری ڈیل کا آڈٹ کرایا تو سو ارب روپے سے زیادہ کی بے ضابطگیاں سامنے آئیں۔ یہ رپورٹ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کو بھی بھیجی گئی۔ یہ پیسہ بینکوں سے قرضہ لے کر اور کچھ سرکاری اداروں کی گریجوٹی‘ پنشن فنڈ اور یونیورسل فنڈز وغیرہ سے شفٹ کر کے ان پلانٹس کو دیا گیا‘ جس میں چند وزیروں کے شیئرز کی بازگشت بھی سنائی دے رہی تھی۔
پی اے سی میں اسحاق ڈار اور دیگر وزرا اور ممبران نے اختر بلند رانا کو سبق سکھانے کا فیصلہ کر لیا کہ اسے کیسے جرأت ہوئی کہ اس دن دہاڑے ڈاکے کی انکوائری کرکے سو ارب سے زائد کی بے ضابطگیاں ریکارڈ پر لا کر اسے ایک رپورٹ کی شکل میں کمیٹی کے سامنے پیش بھی کر دیا۔ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین اُس وقت پی پی پی کے خورشید شاہ تھے جو چند ماہ پہلے پیپلز پارٹی کی حکومت میں وفاقی وزیر تھے۔ اب اپوزیشن لیڈر ہونے کے ناتے وہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین بنا دیے گئے تھے۔ چیئرمین کے علاوہ پی پی پی کے ایم این ایز اس کمیٹی کے ممبر بھی تھے‘ جس نے پیپلز پارٹی دور کی کرپشن اور بے ضابطگیوں کی رپورٹس پر کارروائی کرنی تھی۔ اختر بلند رانا کے اندر کا راجپوت جاگ گیا۔ انہوں نے ایک دن کمیٹی کو خط لکھ دیا کہ جو آڈٹ رپورٹس انہوں نے کمیٹی کو بھیجی ہیں‘ وہ سب پیپلز پارٹی دور کی کرپشن کے بارے میں ہیں۔ اس وزارت کی کرپشن رپورٹ بھی اس میں شامل ہے جس کے وزیر خورشید شاہ تھے۔ اختر بلند رانا کا کہنا تھا کہ مجھے سمجھایا جائے کہ وہ وزیر جس کی وزارت کے خلاف آڈٹ پیرے ہیں‘ وہ ان پیروں کا کیا اپنی ہی وزارت کے افسران سے حساب لے گا‘ جو اس کے ماتحت رہے ہیں اور اب وہ کٹہرے میں لائے جانے ہیں؟ اُن کا کہنا تھا کہ یہ انصاف کے تقاضوں کے خلاف ہے کہ پیپلز پارٹی کے سابق وزیر پبلک اکاونٹس کمیٹی کی حیثیت سے اپنے دور کی کرپشن پر خود ہی جج‘ جیوری اور جلاد کا رول ادا کریں۔ اس خط کو سیریس لینے کی بجائے کمیٹی میں ہنگامہ کھڑا ہو گیا کہ آڈیٹر جنرل اختر بلند رانا کی جرأت کیسے ہوئی کہ پارلیمنٹ کی کمیٹی کے چیئرمین اور ممبران کو چیلنج کرے۔
اختر بلند رانا کو کہا گیا کہ وہ یہ خط واپس لے اور کمیٹی چیئرمین اور ممبران سے معافی مانگیں‘ لیکن راجپوت نے کہا: وہ کٹ جائے گا معافی مانگنا تو دور کی بات وہ اپنا خط تک واپس نہیں لے گا۔ بلکہ الٹا کمیٹی کو کہا کہ جب تک خورشید شاہ اس کمیٹی کے چیئرمین ہیں‘ وہ اس کمیٹی کے اجلاسوں میں شریک نہیں ہوں گے۔ وہ اس ڈرامے میں شریک نہیں ہوئے جس کے تحت اسحاق ڈار کو 480ارب روپے کی مشکوک ادائیگی میں کلین چٹ ملنے والی تھی بلکہ پیپلز پارٹی دور کی کرپشن بھی سیٹل ہونے والی تھی۔ یوں اب پہلے نواز لیگ اختر بلند رانا سے اسحاق ڈار کے خلاف انکوائری پر ناراض تھی تو پیپلز پارٹی کے ممبران بھی ان کے دشمن بن گئے کہ وہ ان کے دور کی کرپشن سیٹل کرنے میں مدد دینے کے بجائے الٹا ان کے گلے پڑ گیا۔ خورشید شاہ اور پیپلز پارٹی کے ممبران کا اختر بلند رانا سے یہ بھی گلہ تھا کہ اسے آڈیٹر جنرل سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے لگایا تھا جو پیپلز پارٹی کے تھے۔ پیپلز پارٹی حکومت نے آپ کو اتنا بڑا عہدہ دیا مگر شکر گزار ہونے کے بجائے آپ الٹا اس کی آڈٹ رپورٹس تیار کرکے کمیٹی میں لے آئے۔ چلیں یہاں تک ٹھیک تھا کہ آپ کی آئینی ذمہ داری تھی لیکن آپ ایک قدم آگے چلے گئے اور چیئرمین کمیٹی خورشید شاہ پر بھی اعتراض جڑ دیا کہ وہ اپنے دور کی کرپشن رپورٹس پر کمیٹی اجلاسوں کی صدارت نہ کریں۔ ان کا کام تھا کہ وہ رپورٹس تیار کرکے لائیں‘ آگے کمیٹی چیئرمین جانے اور اس کے ممبران جانیں۔ آڈیٹر جنرل پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کو ڈکٹیٹ کرنے کی پاورز نہیں رکھتا۔
اس پر اختر بلند رانا کا کہنا تھا کہ انہیں میرٹ پر تعینات کیا گیا‘ اور وہ ایک بڑے آئینی عہدے پر فائز تھے جس کے اپنے تقاضے تھے جنہیں پورا کرنے کے وہ ذمہ دار تھے۔ اس سے بڑھ کر اگر آڈیٹروں کی تیار کی گئی رپورٹس کو ردی سمجھ کر‘ سیٹل کرکے کرپٹ افسران یا وزیروں کو کلین چٹ دے دی گئی تو اس سے آڈٹ کا پورا نظام خراب ہوگا۔ آڈیٹر بری طرح demoralize ہوں گے اور آئندہ محنت چھوڑ دیں گے کہ اگر سب کچھ کمیٹی میں جا کر سیٹل ہونا ہے تو وہ کیوں فائلوں میں سر کھپائیں‘ بدعنوانیوں کو پکڑیں اور دشمنیاں مول لیں۔
جب نواز لیگ اور پیپلز پارٹی کے کمیٹی ارکان کو لگا کہ وہ راجپوت کو کنٹرول نہیں کر سکتے تو انہیں ایک خیال سوجھا کہ رانا کو کیسے فکس کیا جائے۔ ان سب کو علم تھا کہ اس پورے کھیل میں اگر کوئی ان کا کھیل کھیل سکتا ہے تو وہ پی ٹی آئی کا ایم این اے عارف علوی ہے۔ یوں عارف علوی کو آگے کر دیا گیا جنہوں نے بغیر اس معاملے کی سنگینی کو سمجھے نواز لیگ اور پیپلز پارٹی کے مفادات کے تحفظ کا بیڑا اٹھا لیا اور وہ نقصان کیا جس کا اعتراف انہوں نے کچھ عرصہ بعد جہانگیر ترین کے گھر ایک ملاقات میں مجھ سے کیا کہ اُن سے غلطی ہو گئی تھی۔ لیکن تب تک اسحاق ڈار اور خورشید شاہ ایم این اے علوی کو استعمال کرکے اختر بلند رانا کو ٹھکانے لگا چکے تھے۔ (جاری)
یہ بھی پڑھیے:
ملتان میں قتلِ آم||رؤف کلاسرا
آخر سیکھ ہی گئے!۔۔۔رؤف کلاسرا
پُرانے جال ، پُرانے شکاری۔۔۔ رؤف کلاسرا
ایک بڑا ڈاکا اور بڑی واردات تیار… ۔۔۔ رؤف کلاسرا
پانچ ارب کی واردات کی داستان …(1)۔۔۔ رؤف کلاسرا
پانچ ارب کی واردات کی داستان …(2)۔۔۔ رؤف کلاسرا
پانچ ارب کی واردات کی داستان …(3)۔۔۔ رؤف کلاسرا
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر