رؤف کلاسرا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بینظیر بھٹو کے دوسرے دور میں پہلی دفعہ یہ سنا کہ بجلی اب پاور پلانٹس کے ذریعے پیدا کی جائے گی۔ مطلب‘ پہلے بجلی ڈیمز یا نیوکلیئر سے بنتی تھی تو اب فوسل فیول سے بنائی جائے گی۔ پرائیویٹ پاور پلانٹس بجلی بنا کر حکومتِ پاکستان کو بیچا کریں گے اور ان کا فی یونٹ ریٹ دیگر بجلی پیدا کرنے کے والے ذرائع سے زیادہ ہوگا۔ پرائیویٹ سیکٹر کے ساتھ جو معاہدے کیے گئے وہ ڈالروں میں تھے۔ وجہ یہ بتائی گئی کہ ایک تو پاور پروڈیوسر یا سرمایہ کار غیرملکی ہیں جو اپنے سرمائے سے پاور پلانٹس لگا رہے ہیں‘ لہٰذا انہیں ڈالر میں ہی ادائیگی کرنا ہوگی۔ دوسرے فیول‘ جس پر بجلی بنائی جانی ہے وہ بھی صاف ظاہر ہے ڈالروں کے بدلے پاکستان لایا جانا ہے۔ یوں پہلی دفعہ پاکستان میں بجلی کے ریٹس کو ڈالرز کے ساتھ نتھی کیا گیا۔
لوگوں کو علم نہ تھا کہ اب وہ ڈالر مارکیٹ سے جڑ رہے ہیں۔ اب ڈالر کے اُتار چڑھائو نے ہی ان کے پٹرول‘ ڈیزل اور گیس کی قیمتوں کے فیصلے کرنے تھے۔ قیمتوں کو کنٹرول کرنے کا اب ایک ہی حل تھا کہ پاکستان ایکسپورٹ کے ذریعے زیادہ ڈالرز کمائے تاکہ ملک میں ڈالروں کی کمی نہ ہو اور ایل سی کھلنے میں دقت نہ ہو‘ جس سے پاکستانی روپیہ ڈالر کے مقابلے مضبوط رہے گا اور یوں جو تیل اور گیس ہم امپورٹ کریں گے اس کا اثر لوگوں کی روز مرہ زندگیوں پر نہیں ہوگا۔ اس کام کے لیے ایکسپورٹرز کو بہت سہولتیں دی گئیں‘ جن میں مفت بجلی گیس تک شامل تھی۔ ڈیوٹی ٹیکس معاف کیا گیا تاکہ یہ ڈالرز کما کر لائیں۔ برسوں بعد جب پانامہ سکینڈل سامنے آیا اور ایف بی آر نے ان بزنس مینوں کو نوٹس کیے جن کی خفیہ جائیدادیں سامنے آئی تھیں جو انہوں نے بیرون ملک خریدی تھیں اور انہیں ایف بی آر سے چھپایا گیا تھا تو اکثر بزنس مین ان میں ایکسپورٹرز تھے جنہوں نے ڈالرز واپس لانے کے بجائے وہیں پارک کیے۔ کئی نے وہاں جائیدادیں خرید لیں۔ انوائس میں گڑ بڑ کی گئی۔ اب بینظیر بھٹو حکومت نے اپنے تئیں بجلی بحران حل کرنے کے لیے سرمایہ کاروں کو ایسی آفرز کیں اور انہیں فی یونٹ وہ ریٹ دیا گیا جس کا انہوں نے سوچا بھی نہیں تھا۔ ایک رپورٹ کے مطابق 19کے قریب پاور پلانٹس لگائے گئے۔ ان معاہدوں کی گارنٹی جہاں عالمی ادارے دے رہے تھے وہیں حکومت نے بھی گارنٹی دی کہ اگر واپڈا نے انہیں بجلی کے بل کلیئر نہ کیے تو ریاستِ پاکستان ادائیگیاں کرے گی۔ ان معاہدوں میں یہ بھی لکھا گیا کہ حکومتِ پاکستان یا واپڈا کو ان پاور پلانٹس سے پیدا کی گئی ساری بجلی خریدنا ہوگی‘ اگر نہ خریدی تو بھی انہیں پیدا شدہ بجلی کی ادائیگی کرنا ہو گی۔ ایک رپورٹ کے مطابق اب واپڈا نے ملک بھر کی کل ضروریات کی ساٹھ فیصد بجلی ان پاور پلانٹس سے خریدنی تھی۔ یوں اب بجلی پیدا کرنے کا بڑا ذریعہ فیول بن گیا۔ ڈیم اور دیگر ذرائع سے پیدا ہونے والی سستی بجلی اب کسی حکومت کی ترجیح نہیں تھی۔ آئل مارکیٹنگ کمپنیوں اور پاور پلانٹس مالکان جن میں کچھ حکمرانوں کا بھی شیئر تھا‘ کا اپنا مفاد اس میں تھا کہ پاور پلانٹس سے ہی بجلی خریدی جائے جو مہنگی تھی۔ یوں آپ دیکھیں تو نوے کی دہائی میں ڈیمز یا متبادل انرجی کے منصوبوں پر کام نہیں کیا گیا۔ اگر فائلوں میں کچھ کام ہوا تو بھی ان کی فیزیبلٹی رپورٹس پر اربوں روپے خرچ کرکے فائلیں بند کر دی گئیں۔ یوں ایک طرف مہنگی بجلی پیدا ہونا شروع ہوگئی‘ جس کا اثر دھیرے دھیرے لوگوں کو محسوس ہونا تھا‘ دوسری طرف واپڈا نے اپنے لائن لاسز کم کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ آفیشل اعدادوشمار بیس سے تیس فیصد تک دکھائے جاتے رہے لیکن حقیقت میں لائن لاسز چالیس فیصد تک پہنچ چکے تھے۔ لائن لاسز زیادہ ہونے کی وجہ ٹرانسمیشن لائنز کا بوسیدہ اور پرانا ہونا تھا۔ واپڈا ملازمیں کو کروڑوں یونٹس مفت مل رہے تھے۔ وہ بل بھی عوام سے لینا تھا۔ اس ٹرانسمیشن سسٹم کو جدید بنانے کی کبھی کوشش نہ کی گئی۔ یوں سسٹم میں ہی بیس‘ تیس فیصد تک بجلی ضائع ہورہی تھی۔ دوسری طرف واپڈا ملازمین نے بڑے بڑے فیکٹری مالکان اور عام لوگوں کو بجلی چوری کرنے کے طریقے سکھا دیے۔ کنڈا سسٹم ایجاد ہوا۔ بلوچستان اور خبیرپختونخوا کے قبائلی اور کچھ اور علاقوں کے لوگوں نے بجلی کے بلز دینے سے انکار کر دیا اور وہاں اگر زبردستی کی جاتی تو لا اینڈ آرڈر کا مسئلہ پیدا ہو جاتا۔ ایک ارب یونٹس پاور پلانٹس روزانہ اپنے سسٹم سے واپڈا کو بیچ رہے تھے تو ان میں سے صرف ساٹھ فیصد یونٹس کا بل واپڈا وصول کرپارہا تھا‘ چالیس فیصد ٹرانسمیشن لائنز‘ فری بجلی‘ بجلی چوری اور بلز ادا نہ کرنے والے علاقوں میں ضائع ہورہا تھا۔ اب یہ ان پاور پلانٹس کی ذمہ داری نہ تھی کہ وہ ان چالیس فیصد ضائع شدہ بجلی کا بل نہ لیں۔ اب واپڈا نے دو کام کرنے تھے‘ ایک تو مہنگی بجلی کا بل لوگوں کو بھیجنا تھا اور دوسری طرف تیس‘ چالیس فیصد کے قریب چوری یا ضائع ہونے والی بجلی یا جو لوگ بلز نہیں دے رہے تھے‘ کا نقصان بھی پورا کرنا تھا۔ اب یا تو حکومت بجلی کے ان تیس‘ چالیس فیصد تک لائن لاسز‘ چوری یا بلوں کی عدم ادائیگی اپنے خزانے سے ادا کرتی رہتی (سبسڈی) تاکہ وہ کنزیومرز جو ایمانداری سے اپنے بل دے رہے تھے‘ ان پر ان تیس چالیس فیصد کا بوجھ نہ پڑتا یا وہ چالیس فیصد لاسز کا بلز بھی انہی لوگوں سے مختلف ٹیکسز کے نام پر ہر ماہ وصول کرتے رہیں اور ہر ماہ تھوڑی تھوڑی فی یونٹس بجلی کی قیمت بڑھاتے رہیں تاکہ وہ چالیس فیصد تک کا خسارہ پورا ہوتا رہے۔
اب حکومتیں پھنس گئی کہ بجلی کی قیمت بڑھاتے ہیں تو احتجاج کا سامنا ہے‘ نہیں بڑھاتے تو بل اکٹھا ہوتا رہے گا جو سرکلر ڈیٹ بنے گا جس پر الٹا اربوں روپے سود بھی ادا کرنا ہوگا اور اس سود کی ادائیگی کے لیے بھی بجلی کی قیمت بڑھانا ہوگی۔ جب نواز شریف کی دوسری حکومت 1997ء میں آئی تو پہلی دفعہ انکشاف ہوا کہ وہ معاہدے کن خطرناک شرائط پر کیے گئے تھے۔ پاکستان کو جتنی بجلی کی ضرورت تھی اس سے زیادہ خریدی جارہی تھی۔ نواز شریف حکومت نے الزام لگایا کہ ان یکطرفہ کنٹریکٹس میں پیسہ کھایا گیا اور ریاستِ پاکستان کے ہاتھ پائوں باندھ کر کنڑیکٹ سائن ہوئے۔ اب حکومت وہ معاہدے کینسل کرتی تو پاور پلانٹس نے دھمکی دی کہ وہ عالمی عدالت میں جا کر پاکستان پر مقدمے کر کے اربوں ڈالرز ہرجانہ وصول کریں گے۔ 1998ء کی ایک رپورٹ میں انکشاف ہوا تھا کہ واپڈا نے ان پاور پلانٹس کو ڈیڑھ ارب ڈالرز کا بل ادا کرنا تھا اور تین سال بعد 2001ء میں یہ بل 3.4ارب ڈالرز تک پہنچ جانا تھا۔
بینظیر حکومت نے ان پاور پلانٹس سے آٹھ ہزار میگا واٹ بجلی خریدنے کے معاہدے کیے تھے جبکہ Installed Capacityاُس سے زائد تھی۔ یوں زیادہ بجلی پیدا ہو رہی تھی جس کی پاکستان کو ضرورت نہ تھی‘ لیکن معاہدوں کے تحت حکومت نے وہ ساری بجلی خریدنی تھی۔ اب پاکستان کا حشر وہی ہو چکا تھا کہ اگر معاہدے ختم کرتا ہے تو عالمی عدالتوں میں اربوں ڈالرز کے جرمانے کا سامنا کرتا اور اگر معاہدے چلتے رہتے ہیں تو پھر بجلی نے مہنگا ہونا تھا۔ حالت وہی ہو چکی تھی کہ آگے کنواں اور پیچھے کھائی۔ اگرچہ نواز شریف حکومت پیپلز پارٹی پر ان معاہدوں پر کرپشن کے الزامات لگا رہی تھی لیکن جب تیسری دفعہ حکومت ملی تو نواز شریف حکومت کے بڑے لوگوں نے بھی ان پاور پلانٹس کو سرکلر ڈیٹ کی ادائیگیوں کے نام پر بڑا لمبا ہاتھ مارا۔ اسحاق ڈار نے 2014ء میں سب رولز کی خلاف ورزی کرکے جس طرح ایک دن میں بغیر آڈٹ کرائے ان کمپنیوں کو 480 ارب روپے کی ادائیگی کرائی اس نے سب کو ششدر کر دیا۔ آڈیٹر جنرل بلند اختر رانا نے اس میگا سکینڈل کی انکوائری شروع کر دی۔ بلند اختر رانا کو علم نہ تھا کہ وہ مگرمچھوں کے ساتھ دشمنی لے رہے ہیں جس کا انجام اچھا نہیں ہوگا۔ (جاری)
لوگوں کو علم نہ تھا کہ اب وہ ڈالر مارکیٹ سے جڑ رہے ہیں۔ اب ڈالر کے اُتار چڑھائو نے ہی ان کے پٹرول‘ ڈیزل اور گیس کی قیمتوں کے فیصلے کرنے تھے۔ قیمتوں کو کنٹرول کرنے کا اب ایک ہی حل تھا کہ پاکستان ایکسپورٹ کے ذریعے زیادہ ڈالرز کمائے تاکہ ملک میں ڈالروں کی کمی نہ ہو اور ایل سی کھلنے میں دقت نہ ہو‘ جس سے پاکستانی روپیہ ڈالر کے مقابلے مضبوط رہے گا اور یوں جو تیل اور گیس ہم امپورٹ کریں گے اس کا اثر لوگوں کی روز مرہ زندگیوں پر نہیں ہوگا۔ اس کام کے لیے ایکسپورٹرز کو بہت سہولتیں دی گئیں‘ جن میں مفت بجلی گیس تک شامل تھی۔ ڈیوٹی ٹیکس معاف کیا گیا تاکہ یہ ڈالرز کما کر لائیں۔ برسوں بعد جب پانامہ سکینڈل سامنے آیا اور ایف بی آر نے ان بزنس مینوں کو نوٹس کیے جن کی خفیہ جائیدادیں سامنے آئی تھیں جو انہوں نے بیرون ملک خریدی تھیں اور انہیں ایف بی آر سے چھپایا گیا تھا تو اکثر بزنس مین ان میں ایکسپورٹرز تھے جنہوں نے ڈالرز واپس لانے کے بجائے وہیں پارک کیے۔ کئی نے وہاں جائیدادیں خرید لیں۔ انوائس میں گڑ بڑ کی گئی۔ اب بینظیر بھٹو حکومت نے اپنے تئیں بجلی بحران حل کرنے کے لیے سرمایہ کاروں کو ایسی آفرز کیں اور انہیں فی یونٹ وہ ریٹ دیا گیا جس کا انہوں نے سوچا بھی نہیں تھا۔ ایک رپورٹ کے مطابق 19کے قریب پاور پلانٹس لگائے گئے۔ ان معاہدوں کی گارنٹی جہاں عالمی ادارے دے رہے تھے وہیں حکومت نے بھی گارنٹی دی کہ اگر واپڈا نے انہیں بجلی کے بل کلیئر نہ کیے تو ریاستِ پاکستان ادائیگیاں کرے گی۔ ان معاہدوں میں یہ بھی لکھا گیا کہ حکومتِ پاکستان یا واپڈا کو ان پاور پلانٹس سے پیدا کی گئی ساری بجلی خریدنا ہوگی‘ اگر نہ خریدی تو بھی انہیں پیدا شدہ بجلی کی ادائیگی کرنا ہو گی۔ ایک رپورٹ کے مطابق اب واپڈا نے ملک بھر کی کل ضروریات کی ساٹھ فیصد بجلی ان پاور پلانٹس سے خریدنی تھی۔ یوں اب بجلی پیدا کرنے کا بڑا ذریعہ فیول بن گیا۔ ڈیم اور دیگر ذرائع سے پیدا ہونے والی سستی بجلی اب کسی حکومت کی ترجیح نہیں تھی۔ آئل مارکیٹنگ کمپنیوں اور پاور پلانٹس مالکان جن میں کچھ حکمرانوں کا بھی شیئر تھا‘ کا اپنا مفاد اس میں تھا کہ پاور پلانٹس سے ہی بجلی خریدی جائے جو مہنگی تھی۔ یوں آپ دیکھیں تو نوے کی دہائی میں ڈیمز یا متبادل انرجی کے منصوبوں پر کام نہیں کیا گیا۔ اگر فائلوں میں کچھ کام ہوا تو بھی ان کی فیزیبلٹی رپورٹس پر اربوں روپے خرچ کرکے فائلیں بند کر دی گئیں۔ یوں ایک طرف مہنگی بجلی پیدا ہونا شروع ہوگئی‘ جس کا اثر دھیرے دھیرے لوگوں کو محسوس ہونا تھا‘ دوسری طرف واپڈا نے اپنے لائن لاسز کم کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ آفیشل اعدادوشمار بیس سے تیس فیصد تک دکھائے جاتے رہے لیکن حقیقت میں لائن لاسز چالیس فیصد تک پہنچ چکے تھے۔ لائن لاسز زیادہ ہونے کی وجہ ٹرانسمیشن لائنز کا بوسیدہ اور پرانا ہونا تھا۔ واپڈا ملازمیں کو کروڑوں یونٹس مفت مل رہے تھے۔ وہ بل بھی عوام سے لینا تھا۔ اس ٹرانسمیشن سسٹم کو جدید بنانے کی کبھی کوشش نہ کی گئی۔ یوں سسٹم میں ہی بیس‘ تیس فیصد تک بجلی ضائع ہورہی تھی۔ دوسری طرف واپڈا ملازمین نے بڑے بڑے فیکٹری مالکان اور عام لوگوں کو بجلی چوری کرنے کے طریقے سکھا دیے۔ کنڈا سسٹم ایجاد ہوا۔ بلوچستان اور خبیرپختونخوا کے قبائلی اور کچھ اور علاقوں کے لوگوں نے بجلی کے بلز دینے سے انکار کر دیا اور وہاں اگر زبردستی کی جاتی تو لا اینڈ آرڈر کا مسئلہ پیدا ہو جاتا۔ ایک ارب یونٹس پاور پلانٹس روزانہ اپنے سسٹم سے واپڈا کو بیچ رہے تھے تو ان میں سے صرف ساٹھ فیصد یونٹس کا بل واپڈا وصول کرپارہا تھا‘ چالیس فیصد ٹرانسمیشن لائنز‘ فری بجلی‘ بجلی چوری اور بلز ادا نہ کرنے والے علاقوں میں ضائع ہورہا تھا۔ اب یہ ان پاور پلانٹس کی ذمہ داری نہ تھی کہ وہ ان چالیس فیصد ضائع شدہ بجلی کا بل نہ لیں۔ اب واپڈا نے دو کام کرنے تھے‘ ایک تو مہنگی بجلی کا بل لوگوں کو بھیجنا تھا اور دوسری طرف تیس‘ چالیس فیصد کے قریب چوری یا ضائع ہونے والی بجلی یا جو لوگ بلز نہیں دے رہے تھے‘ کا نقصان بھی پورا کرنا تھا۔ اب یا تو حکومت بجلی کے ان تیس‘ چالیس فیصد تک لائن لاسز‘ چوری یا بلوں کی عدم ادائیگی اپنے خزانے سے ادا کرتی رہتی (سبسڈی) تاکہ وہ کنزیومرز جو ایمانداری سے اپنے بل دے رہے تھے‘ ان پر ان تیس چالیس فیصد کا بوجھ نہ پڑتا یا وہ چالیس فیصد لاسز کا بلز بھی انہی لوگوں سے مختلف ٹیکسز کے نام پر ہر ماہ وصول کرتے رہیں اور ہر ماہ تھوڑی تھوڑی فی یونٹس بجلی کی قیمت بڑھاتے رہیں تاکہ وہ چالیس فیصد تک کا خسارہ پورا ہوتا رہے۔
اب حکومتیں پھنس گئی کہ بجلی کی قیمت بڑھاتے ہیں تو احتجاج کا سامنا ہے‘ نہیں بڑھاتے تو بل اکٹھا ہوتا رہے گا جو سرکلر ڈیٹ بنے گا جس پر الٹا اربوں روپے سود بھی ادا کرنا ہوگا اور اس سود کی ادائیگی کے لیے بھی بجلی کی قیمت بڑھانا ہوگی۔ جب نواز شریف کی دوسری حکومت 1997ء میں آئی تو پہلی دفعہ انکشاف ہوا کہ وہ معاہدے کن خطرناک شرائط پر کیے گئے تھے۔ پاکستان کو جتنی بجلی کی ضرورت تھی اس سے زیادہ خریدی جارہی تھی۔ نواز شریف حکومت نے الزام لگایا کہ ان یکطرفہ کنٹریکٹس میں پیسہ کھایا گیا اور ریاستِ پاکستان کے ہاتھ پائوں باندھ کر کنڑیکٹ سائن ہوئے۔ اب حکومت وہ معاہدے کینسل کرتی تو پاور پلانٹس نے دھمکی دی کہ وہ عالمی عدالت میں جا کر پاکستان پر مقدمے کر کے اربوں ڈالرز ہرجانہ وصول کریں گے۔ 1998ء کی ایک رپورٹ میں انکشاف ہوا تھا کہ واپڈا نے ان پاور پلانٹس کو ڈیڑھ ارب ڈالرز کا بل ادا کرنا تھا اور تین سال بعد 2001ء میں یہ بل 3.4ارب ڈالرز تک پہنچ جانا تھا۔
بینظیر حکومت نے ان پاور پلانٹس سے آٹھ ہزار میگا واٹ بجلی خریدنے کے معاہدے کیے تھے جبکہ Installed Capacityاُس سے زائد تھی۔ یوں زیادہ بجلی پیدا ہو رہی تھی جس کی پاکستان کو ضرورت نہ تھی‘ لیکن معاہدوں کے تحت حکومت نے وہ ساری بجلی خریدنی تھی۔ اب پاکستان کا حشر وہی ہو چکا تھا کہ اگر معاہدے ختم کرتا ہے تو عالمی عدالتوں میں اربوں ڈالرز کے جرمانے کا سامنا کرتا اور اگر معاہدے چلتے رہتے ہیں تو پھر بجلی نے مہنگا ہونا تھا۔ حالت وہی ہو چکی تھی کہ آگے کنواں اور پیچھے کھائی۔ اگرچہ نواز شریف حکومت پیپلز پارٹی پر ان معاہدوں پر کرپشن کے الزامات لگا رہی تھی لیکن جب تیسری دفعہ حکومت ملی تو نواز شریف حکومت کے بڑے لوگوں نے بھی ان پاور پلانٹس کو سرکلر ڈیٹ کی ادائیگیوں کے نام پر بڑا لمبا ہاتھ مارا۔ اسحاق ڈار نے 2014ء میں سب رولز کی خلاف ورزی کرکے جس طرح ایک دن میں بغیر آڈٹ کرائے ان کمپنیوں کو 480 ارب روپے کی ادائیگی کرائی اس نے سب کو ششدر کر دیا۔ آڈیٹر جنرل بلند اختر رانا نے اس میگا سکینڈل کی انکوائری شروع کر دی۔ بلند اختر رانا کو علم نہ تھا کہ وہ مگرمچھوں کے ساتھ دشمنی لے رہے ہیں جس کا انجام اچھا نہیں ہوگا۔ (جاری)
یہ بھی پڑھیے:
ملتان میں قتلِ آم||رؤف کلاسرا
آخر سیکھ ہی گئے!۔۔۔رؤف کلاسرا
پُرانے جال ، پُرانے شکاری۔۔۔ رؤف کلاسرا
ایک بڑا ڈاکا اور بڑی واردات تیار… ۔۔۔ رؤف کلاسرا
پانچ ارب کی واردات کی داستان …(1)۔۔۔ رؤف کلاسرا
پانچ ارب کی واردات کی داستان …(2)۔۔۔ رؤف کلاسرا
پانچ ارب کی واردات کی داستان …(3)۔۔۔ رؤف کلاسرا
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر