حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک ایسے ملک میں جہاں مختلف قومیتوں کے ساتھ دیگر مذاہب اور خود اسلام کے پانچوں مسلمہ مکاتب فکر اپنے ذیلی فرقوں سمیت مقیم ہوں، مذہبی ٹائپ قانون سازی میں جس قدر احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے اس کا بالغ فکری سے محروم ہمارے منتخب ارکان پارلیمنٹ کو ادراک ہی نہیں۔
ہم ایسے طالب علم تو نصف صدی سے یہ عرض کرتے آرہے ہیں کہ ’’قرارداد مقاصد اس سوشل ڈیموکریٹ ریاست کے خواب کے تابوت میں ایسی کیل تھی جس نے اس ریاست کا مذہب اور عقیدہ طے کردیا۔ رہی سہی کسر 1956ء اور پھر 1973ء کے دستور نے پوری کردی۔ دونوں دساطیر مذہبی تعصب کے اونٹ کو ریاست کے خیمے میں لابیٹھانے میں معاون بنے۔
جنرل ضیاء الحق سے قبل مذہبی تعصبات کا جادو اس طور سر چڑھ کر نہیں بولتا تھا جیسے ان کے عہدِ ستم میں بولنے لگا۔ ان تعصبات کو مبینہ افغان جہاد نے نہ صرف بڑھاوا دیا بلکہ مکاتب کے اختلاف رائے کی جگہ اس ننگی عسکرتیت پسندی نے لے لی جو ہزاروں لوگوں کو نگل گئی۔
ان سطور میں ہمیشہ یہ عرض کیا کہ قانون سازی بری چیز نہیں مگر قانون سازی کے پیچھے موجود نیت اور عزائم کو اگر مدنظر نہ رکھا جائے تو اصلاح احوال کی بجائے بگاڑ بڑھتا ہے۔
مثلاً ہمارے ملک میں توہین مذہب اور مقدسات کے حوالے سے موجود قوانین کا جس طور غلط اور انتقامی جذبوں سے استعمال ہوا اس کی مثال نہیں ملتی۔
مردان یونیورسٹی کے طالب علم مشال خان کا واقعہ تو آپ کو یاد ہی ہوگا کیسے یونیورسٹی انتظامیہ کی سیاہ کاریوں کے خلاف آواز اٹھانے والے طالب علم کو توہین مذہب کے الزام میں سفاکانہ طور پر قتل کردیا گیا تھا ۔
اس سانحہ کا ایک افسوسناک پہلو یہ بھی تھا کہ اے این پی جیسی سیکولر قوم پرست جماعت کے بعض لوگ ان میں ضلع ناظم بھی شامل تھا، اس میں ملوث ہوئے۔
ابھی چند دن قبل بلوچستان کے شہر تربت میں ٹیوشن پڑھانے والے ایک استاد (یہ نوجوان خود بھی طالب علم تھا) پر اس کے شاگردوں نے توہین مذہب کا الزام لگایا۔ تحقیق و تفتیش کے بغیر اسے اس وقت قتل کردیا گیا جب وہ اپنے گھر سے ایک جرگے میں طلب کئے جانے پر روانہ ہوا تھا۔ اصولی طورپر تو جرگہ کا انعقاد ہی غیرقانونی تھا، درست مطالبہ یہ ہے کہ اس جرگے کے ارکان کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کیا جائے۔
مقتول کا تعلق ذکری مذہب سے تھا۔ ذکری مذہب کے پیروکاران کی بڑی تعداد بلوچستان کے ضلع تربت اور اس سے ملحقہ علاقوں میں مقیم ہے۔
بالائی سطور میں دو مثالیں عرض کرنے کا مقصد یہی ہے کہ جس ملک میں محض ذاتی رنج اور گروہی مفادات کے لئے کسی بھی شخص پر توہین مذہب و مقدسات کا الزام لگاکر سٹریٹ جسٹس کے ذریعے اس کی جان لے لی جاتی ہو اس ملک میں محض اکثریتی فرقوں کی خوشنودی کے لئے قانون سازی نہ صرف یہ کہ درست نہیں بلکہ نرم سے نرم الفاظ میں یہ بندر کے ہاتھ میں استرا پکڑادینے کے مترادف ہے ۔
پاکستان میں موجود پانچوں مسلم مکاتب فکر اپنے اپنے عقیدوں کو دستیاب مسلم تاریخ سے غذا فراہم کرتے ہیں دستیاب مسلم تاریخ کب اور کیسے لکھی و لکھوائی گئی اس بارے سادہ ترین الفاظ میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ
’’تاریخ اسلام کے نام پر ہمارے پاس جو مسلم تاریخ ہے یہ چند خاندانوں کے قبائلی و فکری اختلافات ان کے ادوار حکومت وغیرہ کی تاریخ ہے اس تاریخ پر اجتماع امت کبھی تھا نہ ہوگا۔
بنیادی وجہ یہی ہے کہ تاریخ میں ایک طبقے کے ہیرو کے طور پر موجود شخص کے لئے دوسرے طبقات کے الزامات بھی موجود ہوتے ہیں۔ یہی وہ نکتہ ہے جس کی بنیاد پر ہر دور میں آوازیں اٹھتی رہیں کہ تاریخ کے اوراق کو عقیدے کے طور پر مسلط کرنے کا مطلب اختلاف رائے رکھنے والوں پر زندگی کے دروازے بند کرنا ہے۔
اسی لئے قرارداد مقاصد اور 1956ء اور 1973ء کے دساطیر کی بعض شقوں پر اعتراض کرنے والوں نے ہمیشہ اس امر کی جانب متوجہ کیا کہ مذہبی ریاست ایک خاص فہم کا مسلک نہ رکھتی ہو یہ ممکن ہی نہیں۔ ایک خاص عقیدے کی حامل مذہبی ریاست میں اکثریت اقلیتی فرقوں پر جبروستم ڈھانے کے ساتھ اکثریت کے بل بوتے پر کی گئی متنازعہ قانون سازی کا بوجھ بھی ڈالے گی۔
اس صورتحال سے بچنے کا واحد راستہ سیکولر جمہوری نظام ہے۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ عقیدوں کی تجارت اور ان کے نام پر گردن زدنی کے پروگراموں کو جہاد بناکر پیش کرنے والوں نے اپنے کاروبار کو خطرے میں دیکھ کر سیکولر جمہوریت کو مادرپدر آزادی کے طور پر پیش کرکے گمراہی پھیلائی۔
ہم پچھلے چوہتر برسوں سے قرارداد مقاصد کی لگائی آگ کو نہیں بجھاپائے۔ دساطیر اور خصوصاً 1973ء کے دستور کی مذہبی شقوں اور پھر تیسرے فوجی آمر جنرل ضیاء الحق کے دور کے چند متنازعہ آرڈیننسوں سے پیدا ہوئی تنگ نظری کے نتائج ہمارے سامنے ہیں۔
غالباً انہی وجوہات کو مدنظر رکھتے ہوئے 2016ء کے سال میں سینیٹ آف پاکستان کی انسانی حقوق کی قائمہ کمیٹی اور نیشنل کمیشن فار ہیومن رائٹس نے توہین مذہب کے قوانین کے انتقامی استعمال کی روک تھام کے لئے چند سفارشات مرتب کی تھیں۔
ان میں یہ سفارش بھی شامل تھی کہ توہین مذہب کے تمام جرائم کو قابل ضمانت بنایا جائے اور جب تک جرم ثابت نہ ہو الزام کی زد میں آنے والے شخص اور اس کے خاندان کو ریاست تحفظ دے۔ اسی برس 2016ء اور اس سے قبل بھی مختلف الخیال لوگ تحریری طور پر یہ مطالبہ کرتے اور تجویز دیتے رہے کہ توہین مذہب کے مقدمہ کے اندراج کے لئے ضلعی سطح پر قائم بااختیار کمیٹی کی ابتدائی تفتیش کو لازمی قرار دیا جائے۔
یہ بھی کہ مختلف عقائد رکھنے والے سماج میں ایسی قانون سازی سے گریز کیا جائے جس سے فرقہ وارانہ بالادستی اور جبروستم کے دروازے کھلیں۔
یہ تجاویز پیش کرنے والے تقریباً وہی بات کہہ لکھ رہے تھے جس پر صدیوں سے مناظرے جاری ہیں۔ ہمارا المیہ ہمیشہ سے یہی چلا آرہاہے کہ مسلم تاریخ میں موجود دو آراء میں سے اکثریت جس رائے کو اپنے مفاد میں سمجھ کر درست سمجھے وہ ایمان کا حصہ قرار پاتی ہے اور دوسری رائے کفر،
تاریخ کے مختلف ادوار میں موجود شخصی و فکری اختلافات کا جو ورثہ ہمارے سامنے موجودہے اس کی بنیاد پر قانون سازی کسی بھی طرح درست نہیں۔
عین ممکن ہے کہ گزشتہ روز سینیٹ سے منظور ہونے والے توہین مذہب و مقدسات کے بل جیسے توہین صحابہؓ، اہلبیتؑ اور ازواج رسول مکرمؐ کا نام دیا گیا ہے نیک نیتی سے عبارت ہو لیکن جس طرح یہ بل قبل ازیں عجلت میں تقریباً 24 ارکان قومی اسمبلی نے منظور کیا تھا اسی طرح کی عجلت کا مظاہرہ سینیٹ میں بھی کیا گیا۔
سینیٹر شیریں رحمن سمیت چند دیگر ارکان نے بل کو متعلقہ قائمہ کمیٹی کے سپرد کرنے کی تجویز دی۔ یہ تجویز پیش کرنے والی کو جو باتیں ایوان میں بل پیش کرنے والوں سے سننا پڑیں وہ سینیٹ کے ریکارڈ کا حصہ ہیں۔
مکرر اس امر کی وضاحت کئے دیتا ہوں کہ جو لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ اس بل سے فرقہ واریت ختم ہوگئی وہ سفید جھوٹ بول رہے ہیں۔
ایک ایسا بل جو تاریخ میں موجود اختلافی آراء کو ہی توہین قرار دے دے اس سے فرقہ واریت بڑھے گی کم نہیں ہوگی۔
درست تجویز یہی تھی کہ بل منظور کرنے کی بجائے اسے متعلقہ کمیٹی کے سپرد کیاجانا چاہئے تھا مگر جماعت اسلامی کے مشتاق خان اور (ن) لیگ کے سینیٹر حافظ عبدالکریم کو نجانے کیا جلدی تھی کہ دونوں صاحبان نے بل کمیٹی کے سپرد کرنے کی تجویز پیش کرنے والی خاتون سینیٹر کے لئے بازاری زبان استعمال کرڈالی۔
جماعت اسلامی آجکل کراچی میں مہاجر کارڈ کھیل کر ایم کیو ایم کی جگہ لینے کی کوشش کررہی ہے اس متنازعہ بل کے ذریعے وہ کالعدم انجمن سپاہ صحابہ کے ووٹروں اور ہمدردوں کو متوجہ کررہی ہے لیکن مسلم لیگ (ن) جو سول سپر میسی کی دعویدار رہی اس کی قیادت نے اس امر کو کیوں مدنظر نہیں رکھا کہ 2016ء کی سفارشات کے بغیر بل منظوری کے لئے لانے کا مقصد کیا ہے؟
حرف آخر یہ ہے کہ اس فوجداری قوانین کے ترمیمی ایکٹ مجریہ 2021 کی بل کی صورت میں منظوری کے بعد گلی گلی عدالتیں لگیں گی توہین کے الزامات اچھالے جائیں گے اور مخالفین کی زندگیاں خطرے میں ڈالی جائیں گی۔
افسوس کہ کسی کو مستقبل کے خطرات کا احساس تک نہیں ہے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر