نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

گلی محلے کی دکانیں ۔۔۔||سرفراز راجا

سرفراز راجا اسلام آباد کے سینئیر صحافی ہیں ، وہ گزشتہ دو دہائیوں سے فیلڈ رپورٹنگ خاص طور پر پارلیمان اور ایوان اقتدار کو کور کرتے آرہے ہیں ، وہ مختلف موضوعات پر لکھتے رہتے ہیں، انکی تحریریں ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر

سرفراز راجا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہمارے یہاں ہر سال کو الیکشن کا سال قرار دیا جاتا ہے اور جب الیکشن کا سال آجاتا ہے تو سب سے بڑا سوال یہی پوچھا جاتا ہے کہ اس سال الیکشن ہوں گے یا نہیں۔ ایسا کیوں نہ ہو ہمیں خبر کی تعریف یہی پڑھائی گئی ہے کہ انسان کو کتا کاٹ لے تو کوئی خبر نہیں اور اگر کتے کو کوئی انسان کاٹ لے تو یہ خبر ہے۔ پھر اگر ہم جس سال الیکشن ہونے ہی نہیں یہ کہہ دیں کہ بھائی اس سال الیکشن نہیں ہوں گے تو کسی کے لیے یہ کوئی خبر تو نہ ہوئی نا تو ہمارا سودا کیسے بکے گا۔ اصل بات سودا بیچنے کی ہی ہے۔ خبروں کا بھی کاروبار ہے۔ کبھی یہ دکان کھولنا ایک مشکل اور پیچیدہ عمل ہوا کرتا تھا، اخبار نکالو یا ٹی وی چینل کھول لو لیکن دونوں کے لیے باقی لوازمات کے ساتھ اچھا خاصا پیسہ چاہے۔ اب ایسا ہر گز نہیں بالکل ایسے ہی جیسے آپ کسی بڑی مارکیٹ میں مرکز کی جگہ پر بھاری پگڑی دے کر بڑا سٹور کھولنے کی بجائے گھر کے ایک کمرے کا دروازہ باہر کی جانب بنالیں اور اپنا سودا رکھ کر بیٹھ جائیں، نہ کرایہ، نہ کوئی اضافی بل، نہ کوئی اورخرچہ۔
اب اگلا مرحلہ گاہک کو اپنی دکان پر لانا ہے تو یہ بھائی آپ کا فن ہے۔ بڑی مارکیٹ کے بڑے سٹور پر تو گاہک جو خریداری کے لیے نکلے گا خود ہی جائے گا، بالکل ایسے ہی جیسے ٹی وی کے سامنے بیٹھا شخص ریموٹ گھماتے گھماتے کسی بھی چینل کا چکر لگا لے گا لیکن گلی محلے کی دکان والے کو محلے سے باہر والے گاہک کو دکان تک لانے کے لیے کچھ تو ایسا کرنا ہوگا جو کوئی نہیں کررہا۔ پھر بڑی مارکیٹوں میں کچھ تاجر تنظیمیں ،کوئی اصول و ضوابط ،کوئی ضابطہ اخلاق طے کرہی لیا جاتا ہے۔ گلی محلے کے دکاندار تو اس سب سے مبرا ہوتے ہیں، وہ کسی اصول کے تابع ہوتے ہیں نہ ضابطے کے۔ یہ گلی محلے کی دکانیں خبروں کے کاروبار میں سوشل میڈیا کی دکانیں ہیں۔
گلی محلے کی دکانوں پر آپ کو ایسی ایسی چیزیں بھی ملیں گی جو بڑے سٹورز پر نہیں دکھیں گی کیونکہ کچھ غیر معیاری چیزیں دراصل بنائی ہی ایسی دکانوں کے لیے جاتی ہیں کیونکہ بڑے سٹورز ایسی چیزیں رکھتے ہی نہیں کیونکہ وہاں جو لوگ جاتے ہیں وہ یہ خریدتے ہی نہیں۔ اسی طرح ان سوشل میڈیا پر کھلی خبروں کی دکانوں پر بھی آپ کو کچھ ایسا ہی سودا ملے گا جو ڈھونڈنے سے بھی کسی بڑے ٹی وی چینل یا اخبار میں نہیں نظر آئے گا۔ یہاں تک کے کسی بڑے میڈیا ادارے میں کام کرنے والے خبروں کے سیلز مین جب اپنی اسی سوشل میڈیا کی دکان پر بیٹھیں گے تو وہ بھی ایسی ایسی خبریں بیچنا شروع کردیں گے جو ان کے بڑے سٹور پر کوئی خریدنے کو تیار نہیں ہوتا بلکہ یوں کہیں کہ مالک ہی ان کو فور سیل پر نہیں رکھتا۔
جس طرح گلی محلے کی دکان کو بڑی مارکیٹ کے تاجر اپنی برادری میں شمار نہیں کرتے اسی طرح سوشل میڈیا پر خبروں کے اکثر دکاندار بھی صحافی برادری کا حصہ نہیں بن پاتے۔ لیکن کئی ایسی مثالیں بھی موجود ہیں جہاں گلی محلے کی دکان اتنی کامیاب ہوئی کہ وہ ایک بڑا سٹور بن گیا۔ اسی طرح سوشل میڈیا کی کئی چھوٹی دکانیں بھی ترقی کرکے کہیں سے کہیں پہنچ گئیں۔ لیکن اس کے لیے انھیں نام بنانا پڑا اور نام بنانے کے لیے ساکھ۔ دنیا بھر میں سوشل میڈیا کی دکانیں لوگوں کو متوجہ کرکے ہی کامیاب ہوتی ہیں لیکن لوگ کس چیز سے متوجہ ہوتے ہیں اس کا تعلق اس ملک کے لوگوں کے شعور ،دلچسپی اور سمجھ بوجھ سے ہے۔ جب لوگ ہی اچھی پیکنگ میں غیر معیاری چیزوں کے پیچھے بھاگیں گے تو دکاندار بھی تو وہی بیچیں گے ، لوگ یہ سودا خریدنا چھوڑ دیں تو ایسی دکانیں یا تو بند ہوجائیں گئی یا کم از کم سودا معیاری پیش کریں گی۔ تو یہ آپ پر ہے کہ اچھا مال خریدیں یا غیر معیاری چیزیں استعمال کرکے دماغ کو بدہضمی کا شکار کر ڈالیں ۔
بات شروع ہوئی تھی الیکشن سے، تو بھائی ادھر ادھر بھاگنے کی بجائے آج کے دور کے سب سے بڑی سیانے گوگل سے رجوع کرلیں۔ پاکستان کا آئین کیا کہتا ہے، اسمبلیوں کی مدت پانچ سال ہے۔ اسمبلیاں مدت پوری کرلیں تو ساٹھ روز میں الیکشن اور قبل از وقت تحلیل ہوجائیں تونوے روز میں۔ اگر اسمبلیوں کی مدت بڑھانی ہے تو صرف ایک صورت ہے، کوئی قومی ایمرجنسی، جنگ ہو یا کوئی قدرتی آفت۔ لیکن اس سب کے باوجود بھی یہ ایک پیچیدہ قانونی عمل ہوگا تو آئین کے مطابق پاکستان میں انتخابات اکتوبر یا زیادہ سے زیادہ نومبر کے وسط سے قبل ہوجانے ہیں باقی اگر مگر تو وہ ایک آدھ فیصد ہمیشہ رہتی ہے۔ اب آپ پہ ہے کہ ننانوے فیصد پر یقین کریں یا ایک آدھ فیصد کی اگر مگر پر۔

یہ بھی پڑھیے:

سرفراز راجا کے مزید کالم پڑھیں

About The Author