مئی 11, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

’ذلتوں کے اسیر؛ اردو ناول میں نسائی شعور کا استعارہ! نویں قسط!||ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

ثانیہ سے جب بھی کوئی رومانوی جملے بولنے کی کوشش کرتا ہے بظاہر وہ اسی طرح اس کا جواب دیتی ہے لیکن ہر لفظ میں وہ درد در آتا ہے جو اس کی رگ رگ میں دوڑ رہا ہے، موت سے محبت کا زہر، اپنے آپ کو مردہ سمجھنے کا احساس۔

ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

زیادہ بچے پیدا کرنے کے سوال پر بہت سے لوگ اچھل کر کہتے ہیں، کیوں نہ کریں زیادہ بچے پیدا؟ گھر میں زیادہ بچے اچھے لگتے ہیں، رونق رہتی ہے، ہمیں زیادہ بچے پیدا کرنا پسند تھا وغیرہ وغیرہ۔

ثانیہ ہسپتال میں مردہ بچے کو جنم دیتی ہے اور اکیلے ہی اس کی تدفین کر دیتی ہے۔

بچے کی موت پہ اس کا ظاہری اطمینان اس کے اندر موجود درد کے طوفان کی عکاسی کرتا ہے، جب وہ کہتی ہے اگر وہ بچ جاتا تو اس کا زندہ رہنا بڑا مشکل ہوتا۔ زندہ رہنے کے لئے اسے پتہ نہیں کتنی بار مرنا پڑتا۔ یہ جملے ثانیہ کے کرب کی تصویر ہیں اور ان کے مطابق وہ خود زندہ تو ہے لیکن اصل میں نہ جانے کتنی بار مر چکی ہے۔

یہ جملہ اس فلسفے کا ترجمان ہے جس میں لوگ سانس تو لے رہے ہوتے ہیں لیکن اصل میں مر چکے ہوتے ہیں اور زمین میں دفن ہونے سے پہلے نہ جانے کتنی بار مرتے ہیں۔

بچے کی موت کو ثانیہ اپنی موت تصور کر رہی ہے۔ ایک اور موت۔ ویسی ہی موت جس سے وہ بار بار گزرتی ہے اور گزر کر پھر زندہ ہو جاتی ہے۔

بچے کی موت پہ نبیل کا ایک اور رخ سامنے آتا ہے جب وہ اس کی ذمہ داری ثانیہ پہ ڈالنے کی کوشش کرتا ہے۔ مرد کا عورت کو مورد الزام ٹھہرانا اور اپنی کمزوریوں کو اس کے سر منڈنا پدرسری نظام کا ایک اہم حصہ ہے اور یہاں نبیل وہ کچھ کہتا نظر آتا ہے :

’تم تو میرے بچے کو پیدا ہی نہیں کرنا چاہتی تھیں، تم نے اسے قتل کیا ہے۔ ‘
’آپ کا نہیں، میرا بچہ! آپ کے بچے تو ان کتابوں میں ہیں اور ابھی پیدا نہیں ہوئے۔ ‘

’تم میرے بچے کو پیدا ہونے سے پہلے ہی قتل کرنے پر تلے ہوئے تھے۔ اسے تم نے مارا ہے۔ میں نے تو اس کی آخری سانس تک اپنے پیٹ میں زندہ رکھا، اپنے لہو پر پالا، اور اس لہو میں جس پر اس نے پرورش پائی آپ کا کوئی حصہ نہیں تھا۔ آپ نے تو اپنی پرورش کی ذمے داری بھی مجھ پہ ڈال دی ہے ذرا اپنے دل سے پوچھیں کہ آپ نے کیا سوچا تھا؟ بچے کے لئے کیا انتظام کیا تھا؟‘

نبیل کے پاس ان باتوں کا کوئی جواب نہیں تھا۔

ثانیہ کی شاعری بچے کی موت کے بعد مزید جارحانہ ہو گئی جسے بہت سے شاعروں نے محسوس کیا۔ شاعری کے ساتھ شہرت بھی پھیل رہی ہے۔

نبیل کے دوست امثال اور اعزاز ثانیہ کے قریب ہونے کی کوشش میں ہیں۔ انہیں اس بات کی قطعاً پروا نہیں کہ وہ ان کے دوست نبیل کی بیوی ہے۔ وہ دونوں اکیلے میں کئی بار اسے پھانسنے کے منصوبوں پر غور کر رہے ہیں۔

ثانیہ یہ بات محسوس کرتے ہوئے کبھی ان کی حوصلہ افزائی کرتی ہے اور کبھی سمجھانے کی کوشش کرتی ہے

یہاں ثانیہ ایک زخمی عورت کے روپ میں نظر آتی ہے جو اپنے جسم پر لگے ہر گھاؤ کا بدلہ بھی چکانا چاہتی ہے اور عورت کو ناسمجھ اور بے وقوف سمجھنے والوں پر ہنسنا بھی چاہتی ہے۔ سامنے والوں کو خبردار کرتے ہوئے یہ بتانا چاہتی ہے کہ ان کے سامنے جو عورت ہے اس نے کچی گولیاں نہیں کھیلیں۔ ایسا کہتے ہوئے اس کے اندر کی سچی عورت باہر آ جاتی ہے

”دیکھو میں ایک آدمی کی بیوی ہوں، اس سے پہلے بھی کسی کی بیوی رہ چکی ہوں۔ اور اس شادی سے میرے بچے بھی ہیں۔

ان سب باتوں کے علاوہ میں آپ لوگوں کی دنیا کی عورت نہیں ہوں آپ لوگ کانچ کے بنے ہوئے لوگ ہیں۔ مجھ جیسی عورت سے آپ کا تعلق نہیں رہ سکتا۔ آپ پڑھے لکھے آدمی ہیں آپ کے ساتھ آپ کے گھر والے بھی ہوں گے۔ نبیل نے جو شادی کی اب وہ اس پہ پچھتا رہا ہو گا۔ اب اپنی انا کی وجہ سے کچھ نہیں کہہ سکتا۔ آپ کو میری ضرورت نہیں ہے بالکل بھی۔ آپ کو بالکل میری ضرورت نہیں ہے اور اگر ہے بھی تو صرف اپنی غرض ہے۔ ہمارا ملنا دونوں کے لئے تباہ کن ہو گا کم از کم میرے لئے حالانکہ مجھے تو تباہ ہونا ہی ہے ”

کیا ایسا نہیں لگتا کہ یہ فقرے نہیں بلکہ قبر میں دفن ہوتی عورت کی سسکیاں ہیں، حقیقت اور سچ کے زہر میں بجھی ہوئی۔ دل کی بات کہتی ہوئی سسکیاں؟

ثانیہ سے جب بھی کوئی رومانوی جملے بولنے کی کوشش کرتا ہے بظاہر وہ اسی طرح اس کا جواب دیتی ہے لیکن ہر لفظ میں وہ درد در آتا ہے جو اس کی رگ رگ میں دوڑ رہا ہے، موت سے محبت کا زہر، اپنے آپ کو مردہ سمجھنے کا احساس۔

”میرے چہرے پر لگے ہوئے ہونٹ میرے نہیں ہیں۔ میرے ہونٹ تو بچپن میں ہی کسی کو دے دیے گئے تھے۔ اب جو ہونٹ تمہیں دکھائی دے رہے ہیں وہ میرے نہیں مردہ گوشت کے دو ایسے ٹکڑے ہیں جنہیں لپ اسٹک لگا کر زندہ کیا جاتا ہے۔ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ لپ اسٹک لگا کر مردہ گوشت کو زندہ نہیں کیا جا سکتا۔ اب یہ مردہ ہونٹ ایک مردہ آدمی کی ملکیت ہیں جو دیکھنے والوں کو ان ہونٹوں کی طرح زندہ دکھائی دیتا ہے“

آپ اپنے آپ سے سوال تو کیجیے کہ آپ کو میری ضرورت کیوں ہے؟ ثانیہ کے اس سوال پہ امثال شدید الجھن اور کھولاہٹ محسوس کرتا ہے۔

’میرا دل چاہ رہا کہ میں اس کی ٹھکائی کروں اسے اس قدر ماروں کہ وہ لہو لہان ہو جائے اسے ایک کیڑے کی طرح کچل ڈالوں۔ یہ عورت ہم دوستوں کے ساتھ کھیل رہی ہے ہمیں بے وقوف بنا رہی ہے۔ ‘

اور دیکھئے امثال کے ہی اندر سے اٹھنے والی آؤاز جو مصنف نے ان تمام مردوں کو آئینہ دکھانے کے لیے لکھی ہے جو عورت کو کسی بازی کا حصہ سمجھتے ہیں۔

”کیا تم اس کے ساتھ کھیل نہیں رہے ہو؟ اس نے تمہیں بتایا ہے کہ وہ ایک اور آدمی کی بیوی ہے ایک ایسے آدمی کی بیوی جس کی دوستی کے حوالے سے تم اس کے گھر جاتے ہو۔ اگر وہ تمہیں اپنے گھر نہ آنے دیتا تو تم کیسے اس عورت سے ملتے۔ یہ تو تم پر ایک دوست کی طرح اعتماد کرتی ہے۔ کھیل تو تم کر رہے ہو اس کے ساتھ۔ اس نے تو صرف اس آزادی کا تھوڑا سا حصہ استعمال کیا ہے جو تمہیں ہر وقت حاصل ہے۔ تم نے تو اپنے دوست اعزاز کو بھی دھوکا دیا ہے“

یہ بھی پڑھیے

ایک مثالی عورت کیسی ہونی چاہیے

%d bloggers like this: