رسول بخش رئیس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تاریخ دیکھنے اور سمجھنے والوں کے لیے ایک آئینہ ‘ سبق اور کچھ اپنے دامن میں سمیٹ لینے کے لیے علم کا بہتا ہوا سمندرہے۔ اپنی دنیا میں گم حکمرانوں کی دنیا کے طور طریقے اس سے بہت مختلف ہوتے ہیں۔زیادہ تر حکمرانوں نے صرف وہی چند ایک اوراق پڑھ رکھے ہوتے ہیں اور وہ اتنا ہی جانتے ہیں کہ خوف و ہراس پھیلا کر اپنا غلبہ کیسے جاری رکھا جا سکتا ہے۔ گزشتہ صدی میں تو سینکڑوں کی تعداد میں ایسے حکمران پیدا ہوئے اور مخالفین کے علاوہ اپنے لوگوں پر اُن کے مظالم کی داستان بھی بہت دراز ہے۔ کس کس کی بات کریں۔ جدید ٹیکنالوجی‘ اسلحہ سازی اور فوجی طاقت کے علاوہ نظریات کے طلسم اور پروپیگنڈا کے نئے اور زیادہ مؤثر طریقوں نے مزید ظلم ڈھانے کے وسائل فراہم کئے۔ فسطائیت ہو یا اشتراکیت ‘ انقلاب عظیم رہنما ‘ اعلیٰ قومی مقصد‘ عوام کی خوشحالی کی نوید اور یکجہتی سب میں قدر مشترک نظر آتی ہے۔ میں صرف روس اور جرمنی کی بات نہیں کررہا اور نہ ہی سٹالن اور ہٹلر کی۔ دنیا کے ہر حصے میں ایسی انقلابی تحریکیں اپنے اپنے قومی رنگ میں زور پکڑنے لگیں۔ گزشتہ صدی نظریات کے غلبے کی صدی تھی ‘ اور اب بھی اس کے کچھ رنگ اور دم خم باقی ہے۔ اکثر ایسی تحریکیں مغرب کی آزاد روی ‘ سرمایہ دارانہ نظام اور شخصی آزادیوں کے ردعمل کے طور پر اُٹھیں۔ آج بھی ہمارے دانشور طبقے کم از کم مغربیت اور سرمایہ دارانہ نظام کی مخالفت رکھنے والے ترقی پسندانہ سوچ کی علامت خیال کیے جاتے ہیں۔ ہمارے ارد گرد مشرق وسطیٰ کے ممالک ‘ افغانستان اور ہمارے ہاں بھی ایسے حکمران آئے جو سیاسی اور نظریاتی اختلافِ رائے کو ترقی اور قومی ہم آہنگی کے لیے زہر قاتل خیال کرتے تھے۔ وہ بھی جو اپنی اپنی پسند کے انقلاب عوام کی طاقت کی بجائے کسی اور حوالے سے لے آئے‘جذباتی نعرے لگائے اور ملک پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ مقصد عوام کو دبا کر مرضی کی حکمرانی قائم کرنا تھا۔ دور جانے کی ضرورت نہیں‘ عراق‘ مصر‘ شام اور لیبیا میں بادشاہت تو ختم ہو گئی مگر جو بعد کا دور شروع ہوا اس کے نتائج آپ کے سامنے ہیں۔ مغرب‘مغربیت‘ استعمار اور نہ جانے کس کس طاقت کا نام لے کر اپنے آپ کو وہ مضبوط کرتے رہے۔یہ سب کچھ اس لیے ضروری تھا کہ مخالفین کا رشتہ ان سے جوڑ کر انہیں عوام کے سامنے انقلاب‘ نظریہ اور ملک اور عوام کا دشمن قرار دیا جائے تاکہ جابر روایت کا تسلسل یقینی بنایا جاسکے۔ نہ جانے کتنے سولیوں پہ لٹکائے گئے اور وہ جو تاریک تہہ خانوں میں سسکتے دم توڑ گئے۔ مائو زے تنگ ہو یا سٹالن‘ صدام حسین ہو یا کرنل قذا فی۔ وقفے وقفے سے ایسے دشمن پیدا کیے جاتے‘ انہیں نشانِ عبرت بنایا جاتا‘ اور خوف و ہراس کی فضالوگوں کو کچھ دیر کے لیے خاموش کر دیتی۔بہت جابر حکمرانوں کو دیکھا ہے کہ ہر جنگل اور ہر دیوار کے پیچھے انہیں کوئی دشمن گھات میں بیٹھا نظر آتا تھا۔خوف کے سائے حقیقی پیکر بن کر آنکھوں کے سامنے رقص کناں رہتے تھے۔ یہ تبدیلی کا خوف تھا جو روایت پسندی کا حربہ اختیار کرتا تھا۔
مغرب کی بادشاہتیں آہستہ آہستہ عوامی آوازوں کے سامنے نرم ہوئیں اور اکژ تحلیل ہوکرآئینی نظام کا حصہ بن گئیں۔ عوام کی مرضی غالب آتی گئی۔صرف یہ کہنا مقصود ہے کہ مشرق وسطیٰ میں جو ان کی جگہ پر آئے وہ ہر لحاظ سے ان سے بدتر تھے۔پرانی بادشاہتوں کا دفاع روایتی طریقوں سے جائزتھااور استحکام کا باعث تھا۔ اگر تسلسل کے ساتھ عوام کی آزادیوں اور نمائندگی کے اصولوں کو تسلیم کیا جارہا تھا تو کہیں کم تو کہیں زیادہ۔ یہ عمل جاری تھا۔ افغانستان کی مثال تو ہمارے سامنے ہے۔ مخالفین کو دشمن قرار دے کر قتل و غارت اور قید و بند کو جائز اور روا رکھنے سے پورا چمن ہی اُجڑ گیا۔ عراق‘ لیبیا اور شام کے حالات بھی آپ سے ڈھکے چھپے نہیں۔ لوگ تقسیم ہوگئے۔ کمزور دھڑوں نے بیرونی مداخلت کا سہارا لیا ‘ یہاں تک کہ حکومتیں بھی بیرونی طاقتوں کی طفیلی بن گئیں۔ سوائے تباہی کے کیا حاصل ہوا ؟ یہ تو ہم کئی مرتبہ لکھ چکے ہیں کہ افغانستان اور لبنان کسی زمانے میں سیاحت کے لیے بہترین تصور ہوتے تھے۔ دنیا بھر کے سیاح وہاں جانا پسند کرتے تھے۔ اُدھر آج ذرا نظر تو اُٹھا کر دیکھیں ‘ آپ کو اندازہ ہوجائے گا کہ وہاں حالات کیا ہیں۔ کوئی اُدھر کا اب رخ نہیں کرتا۔
جو گزارش کرنے کی جسارت کررہا ہوں‘ یہ ہے کہ ملک اور معاشرے مخالفین کو دبا کر برباد ہوجاتے ہیں۔ نہ کبھی استحکام پیدا ہوتا ہے نہ ترقی ہوسکتی ہے۔ عوام کی آواز دبانے کا مطلب آئین اور قانون کی جگہ من مرضی کا نظام نافذ کرنا ہے۔ اس کے ہوتے ہوئے ترقی کی بجائے خرابی ہی پیدا ہوگی۔ اگرچہ سعودی عرب اور خلیجی ریاستوں میں خیرہ کن ترقی نظر آتی ہے لیکن ذاتی طور پر اسے کچھ اور زاویوں سے دیکھتا ہوں۔وہاں وسائل کی فراوانی اتنی ہے کہ چمک دمک اور عالمی رونق میلوں کے بغیر بھی اپنے تہذیبی رنگ میں سب کے لیے آسودگی ممکن ہے۔ جو بھی قانون ہے اور جس کا بھی ہے اس کی حکمرانی کی کرامات ہیں کہ بات ابھی تک بنی ہوئی ہے۔ کچھ اور بھی عوامل ہیں جن کا ذکر کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ قانون اور انصاف کی حکمرانی کسی بھی نظام میں قائم ہوجائے تو قومیں کوئی منزل اور راستہ تلاش کرلیتی ہیں۔ جب ہم اپنے موجودہ حالات کی طرف طائرانہ نگاہ ڈالتے ہیں تو خوف آتا ہے۔ انصاف اور قانون کے مروجہ پیمانوں کو کوئی دیکھے تو ہم اس کرۂ ارض کی مخلوق نہیں‘ مریخ کے بیابانوں کی خاک چھاننے والے ہیں۔جن کے پا س طاقت ہے وہ ہمیں بار بار بتاتے رہتے ہیں کہ وہ کچھ بھی کسی کے ساتھ کرسکتے ہیں۔ دیکھا نہیں چند درجن اراکین کی موجودگی میں چند گھنٹوں میں دنیا کی تاریخ کی تیز ترین قانون سازی کی گئی۔ تباہی اور کیا ہوتی ہے ؟ کون سا ادارہ ڈھنگ سے کام کررہا ہے یا اس میں کوئی استعداد اور صلاحیت رہ گئی ہے ؟ جو مثالیں کچھ ممالک کی اوپر دی ہیں‘ ہم کبھی بھی ان کرشمہ سازیوں میں ان سے بہت پیچھے نہیں تھے۔ گردنیں یہاں بھی تنی ہوتی تھیں‘ مخالفین سب کیڑے مکوڑے تھے اور اُنہیں کچلنا کوئی مشکل کام نہیں تھا۔ دور رس نتائج کی کس کو پروا تھی۔ کسی بھی ہم پلہ ملک سے کوئی موازنہ اب نہیں بنتا۔ ماضی کے دور کی اکثر حکومتوں اور گزرے ہوئے ضائع شدہ عشروں کا سیاسی تعصبات سے آزاد ہو کر سوچیں تو آنے والے برسوں کا نقشہ واضح نظر آتا ہے۔ ظلم اور ناانصافی معاشرے میں اوپر سے لے کر نیچے کے طبقات تک عام اور کھلم کھلا ہے۔ یہ بگاڑہماری شناخت اور اجتماعی شخصیت کا حصہ بن چکا ہے۔ آپ سرکاری اداروں میں بدعنوانی ‘ بازاروں میں ملاوٹ‘ منافع خوری‘ سود خوروں کا راج اور ہر نوع کی بدعنوانیاں جو دیکھ رہے ہیں‘ یہی تو وہ بگاڑ ہے جو قانون ‘ انصاف اور آئین کی مسخ شدہ روایت سے پیدا ہوا ہے۔ اور پھر دہشت گردی‘ انتہا پسندی اورریاست کے خلاف مسلح گروہوں کی لشکر کشی کے اسباب کہاں تلاش کریں گے ؟یہ نتائج ہیں ان اعمال کے جو ہمارے طاقتور حکمرانوں اپنے ہی مفاد میں کرتے آئے ہیں۔ آج کل جو ہورہا ہے اور جو منصوبہ بندی کرتے آئے ہیں اس سے خیر کی توقع عبث ہے۔ یہ صورتحال جاری رہی تومثال کے لیے کہیں دور تک دیکھنے کی ضرورت نہیں۔ ہماری نظر بے اختیارافغانستان کی طرف اُٹھ جاتی ہے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر