جون 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ذلتوں کے اسیر ؛ اردو ناول میں نسائی شعور کا استعارہ!(8)||ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

پھر وہ استہزائیہ انداز میں کہتی ہے کہ یہ پڑھے لکھے لوگ زندگی کی حقیقت سے کس قدر دور ہیں۔ یہ ایک ہی بات جانتے ہیں، لفظ لفظ اور صرف لفظوں کا زبانی جمع خرچ۔

ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

”میں نے آئینے میں کھڑی ہوئی عورت کے پیٹ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے پوچھا، تیرا پیٹ اتنا پھولا ہوا کیوں ہے؟ وہ ہنس دی، زہر میں بجھی ہوئی ہنسی۔ کمرے میں میرے سوا کوئی نہیں تھا، میں تھی اور بلب میں سے نکلتی زرد ویران روشنی۔ میں جاننا چاہتی تھی وہ کسے دیکھ کر ہنسی تھی؟ یہاں تو کوئی نہیں تھا کیا وہ ویرانی دیکھ کر ہنسی تھی؟ نہیں ویرانی دیکھ کر کون ہنس سکتا ہے؟ تو پھر وہ کسے دیکھ کر ہنسی تھی؟ وہ یقیناً ًمجھے دیکھ کر ہنسی۔ کیوں؟ ایسی کیا بات ہو گئی ہے مجھ میں کہ مجھے دیکھ کر ہنسی آنے لگی؟

میں نے پھر اس کی پیٹ پر ہاتھ پھیرا۔ ابھرا ہوا زرد پیٹ جس پر سبز اور سرخ دھاریاں ایک دوسرے میں الجھی ہوئی تھیں اس کی زردی مائل جلد ہر سانس کے ساتھ اس طرح پھیل اور سمٹ رہی تھی جیسے پیٹھ کے بل پڑا ہوا کچھوا، سیدھا ہونے کی ساری تگ و دو کرنے کے بعد آخری سانس لے رہا ہو ”

یہ لائنیں پڑھتے ہوئے قاری کا سانس رک رک جاتا ہے۔ ثانیہ موت کی سرحد پہ تنہا کھڑی اپنے آپ سے جنگ کر رہی ہے۔ وہ جانتی ہے کہ ہر پل اسے زندگی سے دور کر رہا ہے اور وہ اپنے ہونے نہ ہونے کے متعلق بھی پر یقین نہیں۔ وہ جسے آئینے میں دیکھ رہی ہے اسے ثانیہ سمجھنے کے لئے تیار نہیں۔

آئینے میں کھڑی عورت سے وہ اس کے پیٹ کے پھولنے کا سبب پوچھتی ہے، جواب میں وہ اس کی طرف دیکھتے ہوئے ہنس دیتی ہے۔

”میرے پیٹ میں ایک کیکڑا ہے۔ ایک کیکڑا ہزار پیروں اور ہاتھوں والا جو اندر ہی اندر حرکت کر رہا ہے اور جو میری کوکھ کھرچ رہا ہے“

جواباً وہ ثانیہ سے پوچھتی ہے کہ اس کے پیٹ میں کیا ہے؟
ثانیہ جواب دیتی ہے۔

”مجھے نہیں پتہ، لیکن کوئی چیز ہے کوئی چیز شاید کوئی زندہ جسم مرنے سے پہلے آخری سانس لے رہا ہے جو زندہ رہنے کے لئے اپنے آپ سے لڑ رہا ہے۔ زندہ رہنے کے لئے یا مرنے کے لئے“

ثانیہ کا اپنے عکس سے مکالمہ قاری کے رونگٹے کھڑے کر دیتا ہے جس میں دونوں عورتیں حمل کو مختلف نظر سے دیکھتی ہیں۔ عکس کے نزدیک پیٹ میں ایک عفریت ہے جو اس کے جسم کو کھرچ کھرچ کر توانائی حاصل کر رہا ہے۔ اسے پروا نہیں کہ یہ جسم نقاہت زدہ عورت کا جسم ہے اور اس عفریت کو اس کے پیٹ میں ڈالنے والا مرد اس سے یکسر غافل ہے اور کتابی دنیا میں گم رہتا ہے۔

ثانیہ اسے بتاتی ہے کہ پیٹ میں موجود چیز اپنے آپ سے لڑ رہی ہے، نہ جانے زندہ رہنے کی جدوجہد میں یا مرنے کی جستجو میں۔

یہ جملہ خاصا چونکا دینے والا ہے۔ آج تک کوکھ میں موجود جسم کو تو کسی نے احساسات و جذبات والا انسان سمجھا ہی نہیں۔ نہ ہی یہ کوئی سوچتا ہے کہ جس بچے کو جنم دیا جا رہا ہے وہ اس دنیا میں آنا بھی چاہتا ہے کہ نہیں، اپنے کندھوں پر ان سب باتوں کا بوجھ اٹھانا بھی چاہتا ہے کہ نہیں جو اس نے کی ہی نہیں۔

زچگی کی سائنس یہ بتا چکی ہے کہ کوکھ میں موجود بچہ سب کچھ سنتا ہے، سمجھتا ہے اور محسوس کرتا ہے۔ اس وقت ثانیہ کا بچہ اس کی بے بسی تنہائی اور بھوک کا نہ صرف گواہ ہے بلکہ بھوک اسے بھی اسی طرح بے حال کر رہی ہے جس طرح اس کی ماں کو۔

ثانیہ کا عکس اسے بتاتا ہے کہ وہ پیٹ میں موجود کیکڑے سے لڑ رہی ہے۔ اس جنگ میں کسی ایک کو جیتنا ہے۔ اور یہ فیصلہ ابھی ہونا ہے کہ کون جیتے گا؟

یہ سن کر ثانیہ کو بھی خیال آتا ہے زندگی اور موت کی جنگ میں جیتنے کے لئے اسے کوکھ خالی کرنی ہو گی ورنہ موت اسے بھی فتح کر لے گی کہ آخری فیصلہ موت ہی کرتی ہے۔

ثانیہ نہ صرف زندگی چیلنج کرتی ہوئی نظر آتی ہے بلکہ کتابوں میں موجود ان تمام تھیوریز کو بھی جنہیں اس نے پڑھا تو نہیں لیکن برتا ضرور ہے۔ وہ ہر چیز کو عورت پہ گزرنے والے کٹھن لمحات کی عینک سے دیکھتی ہے اور انہیں کے مطابق نتیجہ اخذ کرتی ہے۔

مشہور عالم فلسفی کانٹ کی کتاب کریٹک آف پیور ریزن کا اردو ترجمہ تنقید عقل محض ’دیکھ کر وہ سوچتی ہے، اس کے کیا معنی ہوئے بھلا؟ عقل کی کوئی کتاب، یا محض محض کی کتاب یا محض کتاب؟

پھر وہ استہزائیہ انداز میں کہتی ہے کہ یہ پڑھے لکھے لوگ زندگی کی حقیقت سے کس قدر دور ہیں۔ یہ ایک ہی بات جانتے ہیں، لفظ لفظ اور صرف لفظوں کا زبانی جمع خرچ۔

ثانیہ معمولی پڑھی لکھی عورت ہے لیکن اوائل عمری سے زندگی کے دشوار گزار رستوں سے گزر کر اسے بہت سی حقیقتوں کو سمجھ چکی ہے۔ وہ اسی لئے بات بات پہ حیرت زدہ ہوتی ہے کہ کتابی دنیا میں رہنے والے جانتے ہی نہیں کہ زندگی انسانوں کا کیا حشر کرتی ہے اور کیسے ان سے ان کے ہونے کا خراج لیتی ہے۔

وہ پدرسری نظام کو ہر زاویے سے دیکھ چکی ہے اور اب وہ اس طبقے میں موجود ہے جو پدرسری نظام پہ تنقید کرتے ہوئے اسے رد کرتا ہے۔ لیکن در پردہ اس طبقے کے لوگ بھی پدرسری اصول پر ہی چل رہے ہیں جس کے مطابق عورت کو انسان سمجھنے کی بجائے صنفی بنیاد پر کمتر سمجھ کر فائدہ اٹھانے کی کوشش کی جاتی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

ایک مثالی عورت کیسی ہونی چاہیے

%d bloggers like this: