نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

شاعر کرہ ارض تگڑم دستوری ۔۔۔||حیدر جاوید سید

حیدر جاوید سید سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے نامور صحافی اور تجزیہ کار ہیں، وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان کےمختلف قومی اخبارات میں مختلف موضوعات پر تواتر سے کالم لکھ رہے ہیں، انکی تحریریں انہی کی اجازت سے ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر کی جارہی ہیں،

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہمارے شاعرِ کرہ ارض دوست تگڑم دستوری آجکل نیم انقلابی شاعری میں اُن شعراء کی روحوں کو تڑپارہے ہیں جن کے مشہور زمانہ اشعار کو وہ اپنا انقلابی تڑکا لگاکر داد لیتے ہیں۔

تگڑم دستوری بضد ہیں کہ ان کی شعری اٹھان اور انقلابی خیالات پر کسی اخبار جریدے اور چینل پر انٹرویو کرایا جائے تاکہ قوم ان کے عصری شعور سے روشنی حاصل کرسکے اور جان لے کہ ’’لوگ آسان سمجھتے ہیں شاعر ہونا‘‘

اب مسئلہ یہ ہے کہ اگر ہم اخبارات و جرائد اور چینلز میں ہلکی پھلکی رسائی رکھتے ہوتے تو نصف صدی میں اپنے دس بارہ انٹرویوز کے ذریعے مشہوری حاصل نہ کرلیتے۔ تگڑم دستوری کو پانچ سات ماہ قبل فقیر راحموں کہیں سے ڈھونڈ ڈھانڈ کر لائے تب سے دونوں اکٹھے دیکھے پائے جاتے ہیں۔

جس رفتار سے تگڑم دستوری قدیم و جدید شعراء کے مصرعوں پر ’’ہاتھ صاف‘‘ کررہے ہیں ڈر لگتا ہے کہ ان شعراء کے وارثان ان پر کوئی مقدمہ نہ ’’ٹھونک‘‘ دیں۔

ابھی کل ہی انہوں نے ایک دوتازہ شعر کہے ہیں معاف کیجئے گا ارشاد فرمائے ہیں۔ پہلا شعر تو کچھ یوں ہے

’’مٹی کی محبت میں اُن آشفتہ سروں نے تگڑم،

وہ کھیت بھی ہتھیائے جو واجب ہی نہیں تھے‘‘۔

اب بتایئے اس میں شعریت کیا ہے کچھ بھی نہیں اچھے بھلے شعر کا بیڑا غرق بلکہ بیڑا غرق ہی کردیا ہے لیکن بضد ہیں کہ اس طرح کا مزاحمتی انقلابی شعر اردو کی پیدائش سے اب تک لکھا ہی نہیں جاسکا۔

مزید باتیں واتیں کرنے سے قبل ان کے ایک دو اشعار آپ کی خدمت میں اور پیش کئے دیتا ہوں۔ فقیر راحموں کہہ رہا ہے شاہ جی پیش کئے دیتا ہوں نہیں کہتے بلکہ کہتے ہیں ہدیہ کررہا ہوں۔ لیجئے یک نہ شد دو شد۔ ہم ساٹھ پینسٹھ برسوں سے فقیر راحموں کو بھگت بھگت کر ہلکان ہوئے جارہے ہیں سفر حیات کے اس مرحلہ پر یہ تگڑم دستوری بھی گلے پڑتے دیکھائی دے رہے ہیں۔

پچھلی شب ہم نے فقیر راحموں سے پوچھا یار یہ نمونہ کہاں سے پکڑ لائے ہو؟ جواب ملا شاہ جی کن لُچوں میں زندگی بسر کی ہے آپ نے جو اتنا بھی نہیں جانتے دریافت اور عطائے الٰہی کو پکڑلایا نہیں کہتے۔

سن لیا آپ نے فقیر راحموں کیا کہہ رہے ہیں مجھے کل اس تگڑم دستوری کا ایک شعر ٹیوٹر پر پوسٹ کرنے کے بعد ایک دوست نے کہا شاہ جی آجکل حالات خراب ہیں خصوصاً 9مئی کے بعد تمہاری تو طبیعت بھی اچھی نہیں رہتی ابھی مہینہ بھی نہیں ہوا عارضہ قلب کا تازہ جھٹکا سہے ہوئے اس لئے ہنسی خوشی رہا کرو اور ان نووارد انقلابی شعراء سے فاصلہ رکھو۔

مشورہ اچھا ہے لیکن کمپنی کی مشہوری تو ہر کس و ناکس کو اچھی لگتی ہے۔ ارے ہاں وہ تگڑم دستوری کا شعر تو درمیان میں ہی رہ گیا تازہ شعر میں ارشاد فرماتے ہیں

’’آ تجھ کو بتائوں ترتیب ریاست کیا ہے،

زراعت و ڈی ایچ اے اول تو پخانہ آخر‘‘۔

اس کے علاوہ بھی چند انقلابی اشعار انہوں نے پچھلے چھ سات ماہ کے دوران ارشاد فرمائے ہیں۔ چھ سات ماہ اس لئے لکھا ہے کہ ہمیں اسی عرصے میں ملے اس سے پہلے کہاں ہوتے تھے کیا کرتے تھے کہاں مقیم تھے، تعلیم و علم کے مراحل کہاں طے کئے اس بارے ہم لاعلم ہیں۔

فقیر راحموں سے پوچھتے ہیں تو جواب ملتا ہے شاہ جی اتنی تفصیل جو پوچھ رہے ہوں کسی ایجنسی سے پیسے پکڑ رکھے ہیں۔ حالانکہ فقیر راحموں بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہم نے زندگی میں ایک نیوز ایجنسی کی ایڈیٹری فرمائی تھی پانچ سات تنخواہیں اس کی طرف بقایا ہیں۔

خیر چھوڑیئے اس ذاتی دکھ کو ایسا نہ ہو کہ ہم اپنے مقروضوں بارے آپ کو بتارہے ہوں اور ہم سے قرضہ لینے والے اپنا حساب کتاب کرنے کے لئے آن دھمکیں۔ ظاہر ہے ہم بھی تو چار اور کے لوگوں کی طرح ہی ہیں لین دین زندگی کے ساتھ ہے پر خدا لگتی بات ہم نے جس جس کا بھی روکڑا دینا ہے پائی پائی ادا کرکے دنیا سے جائیں گے

البتہ جس جس نے ہمارا حق خدمت، قرضہ دینا اور دھوکہ دہی سے نقصان پہنچاکر پیسہ ڈبویا ہے وہ ہمارے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں بظاہر تو اس سے بہتر سلوک کیا کریں جو ہم بھگت رہے ہیں۔ ہمارے ایک دوست ہوتے تھے انہوں نے کسی کا کچھ قرضہ دینا تھا ایک دن اس شخص نے تنگ آکر کہا، ٹھیک ہے اس جہان میں تم میرے پیسے نہیں دے رہے تو میں اگلے جہان میں تم سے وصول کرلوں گا‘‘۔

دوست نے سنجیدگی سے کہا ٹھیک ہے اگر دوزخ کے دروغہ سے گیٹ پاس مل جائے تو جنت آکر مجھ سے پیسے لے جانا‘‘۔

معاف کیجئے گا یہ ذہن اور قلم دونوں کس طرف بھٹک کر نکل گئے ہم تو شاعر کرہ ارض تگڑم دستوری کی باتیں کررہے تھے۔ ان سے جب ہمارا ابتدائی تعارف ہوا تھا تو انہوں نے ہمیں یہ شعر سنایا تھا

’’آپ کے بنچ کی قسم تگڑم کو پرواہ بھی نہیں،

آپ کا فیصلہ ہوگا تو ارمانِ الیکشن پورا ہوگا‘‘۔

یہ بھی انہی حضرت کا شعر ہے

’’آگیا اگر عین لڑائی میں وقت مذاکرات،

ایک ہی صف میں دِکھے غلام و آزاد‘‘۔

ان کے ایک شعر کو سوشل میڈیا پر پورے تین سو ستر لوگوں نے پسند کیا وہ شعر تھا

’’زال کی محبت میں تگڑم آشفتہ سرچیفوں نے،

وہ پرس بھی اٹھائے جو واجب بھی نہیں تھے‘‘۔

تگڑم دستوری کا مشہورفیس بکی شعر یہ رہا

’’اے حضرت واعظ بڑا مزا ہوا گر یوں عذاب ہو،

نومین لینڈ میں جھمر اور ہاتھ میں جام شراب ہو‘‘۔

چلیں ان کے بارے میں مزید باتیں تو ہوتی ہی رہیں گی کیونکہ لگ یہی رہا ہے کہ فقیر راحموں کی یہ دریافت اب مستقل طور پر ہماری ’’گچی‘‘ ہے۔

فقیر راحموں ظاہر دوستی اور دشمنی میں پکے پیٹھے ملتانی ہیں ہم ملتانیوں کی اچھی صفت یہ ہے کہ ہم دوستی او دشمنی آخری سانس تک ساتھ لے کر چلتے ہیں۔ ملتان اور ملتانیوں کے ذکر خیر کو یہیں چھوڑے دیتے ہیں یہ ہماری دکھتی رگ ہے ایسا نہ ہو کہ اصل بات رہ جائے اور کالم میں ملتان اور ملتانیوں کی باتیں ہونے لگیں۔

ہم عرض یہ کررہے تھے کہ تگڑم دستوری ابھی اپنی انقلابی شاعری کی بدولت فیس بک اور ٹیوٹر پر مشہوری کا سفر طے کررہے ہیں وہ خود کو شاعر کرہ ارض کہہ کر تعارف کرواتے ہیں ایک دن ہم نے غلطی سے پوچھ لیا حضرت شاعری کے پھٹے آپ اردو میں توڑتے ہیں پھر یہ شاعر کرہ ارض کا لقب کیوں؟

انہوں نے ادھ بھری غصیلی نگاہوں سے فقیر راحموں کی طرف دیکھا بس پھر کیا تھا فقیر راحموں نے پورے گیارہ منٹ تک شاعر کرہ ارض تگڑم دستوری کے فضائل اور علمیت کے قصے سنائے

اس موقع پر ہمیں اپنا یار جگرم عدیل بخاری بہت یاد آیا اسے ہم محبت سے ذاکر بحرالمصائب گڑھی خدا بخش، مفسر پپلیات اور ترجمان فضائل بھٹوز کہتے ہیں۔

آج کل ہمارے چند دیرینہ دوست ذاکر مصائب زمان پارک بنے ہوئے ہیں۔ ان پر پھر کبھی بات کریں گے۔ ابھی آپ کو شاعر کرہ ارض تگڑم دستوری کی پنجابی میں لکھی ایک ازٓاد نظم سناتے ہیں کہتے ہیں

’’ایٹم بم بنابیٹھے ہیں آں، روٹی ٹکر گنوابیٹھے ہیں، ہر پاسے مسلے شسلے نے، مڑن جوگے اساں نئیں، مرن قل چالیواں مہنگا، آبادی وی انے وا ودھا بیٹھے آں، دسو ہن کی کرنا ہے؟‘‘

پنجابی زبان میں ہی ان کا ایک مشہوت فیس بکی شعر ہے ’’سانوں انڈیا دی نفرت کھوا پیاکے،

آپ ماہی ارباں کھرباں پتی ہوگیا‘‘۔

ایک شعر اور سن لیجئے پھر مزید باتیں کرتے ہیں

’’عمر دراز مانگ کر لائے تھے چار دن،

دو پیکےمیں بسر ہوئے دو سسرال میں‘‘۔

اس کے علاوہ بھی تگڑم دوستوری کا بے پناہ اور بے بہا انقلابی کلام ہے بس ہمارا کالم چونکہ انقلاب کا وزن نہیں اٹھاسکتا اس لئے مزید انقلابی شاعری سے اس طرح پرہیز سمجھ لیجئے جیسے آج کل ڈاکٹر ہم سے کہتے ہیں شاہ جی سگریٹ چھوڑدو، چکنائی اور بڑا گوشت بھی چند چیزیں اور بھی چھوڑدینے کو کہہ رہے ہیں۔ ڈاکٹر صاحبان اب مسئلہ یہ ہے کہ ان میں سے بہت ساری چیزیں چھوڑدی ہیں سگریٹ کم کردیئے ہیں بالکل ہی چھوڑنے ہیں تو پھر جینے کا ’’فیدہ‘‘ کیا۔

تگڑم دستوری اور ان کی شاعری کا مستقبل ہمیں تو روشن روشن لگتا ہے ہم بہت سارے فیس بکی اور مشاعروں کے ایسے شعراء کو جانتے ہیں جو سمندر پار تک مشہور ہیں لیکن اگر کسی دن انہیں اپنے اشعار کی کشتی بناکر دریائے ادب پار کرنا پڑے تو کنارے سے چند فٹ آگے کشتی سمیت ڈوب جائیں گے۔

کاش ہماری بھی محترمہ شازیہ قدوائی صاحبہ سے دور کی ہی سہی سلام دعا ہوتی تو ہم ان سے کہہ کر تگڑم دستوری کو ایک آدھ عالمی مشاعرہ دلوادیتے۔ خیر کوئی بات نہیں

’’مشاعروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں‘‘

پسِ نوشت// یہ کالم خاص و خاص، آستانہ عالیہ ڈن ہل والی سرکار کے گدی نشین پر سید فقیر راحموں بخاری ملتانی حال مقیم لہور کی فرمائش نما حکم پر لکھا گیا ہے۔ کالم میں درج کئے گئے تگڑم دستوری کے اشعار اوراپنے تبصروں سے ہم خود بھی متفق نہیں رسید لکھ کر دی ہے تاکہ بوقت ضرورت کام آوے۔

یہ بھی پڑھیں:

About The Author