دسمبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

بیٹی، امڑی سینڑ اور ملتان ۔۔۔||حیدر جاوید سید

حیدر جاوید سید سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے نامور صحافی اور تجزیہ کار ہیں، وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان کےمختلف قومی اخبارات میں مختلف موضوعات پر تواتر سے کالم لکھ رہے ہیں، انکی تحریریں انہی کی اجازت سے ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر کی جارہی ہیں،

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پچھلے کئی گھنٹوں سے بہانے بہانے سے نور علم کے حصول کے لئے دور سات سمندر پار مقیم بیٹی کو یاد کررہا ہوں۔ گزشتہ ماہ بیٹی نے آن لائن آرڈر کرکے ’’فادرز ڈے‘‘ پر گلدستہ بھجوایا تھا اس گلدستے کے ساتھ ایک مگ بھی تھا اس مگ میں اب میں قہوہ پیتا ہوں۔

بیٹی ہم سے دور اپنے روشن مستقبل کے لئے مقیم ہے لیکن ہمارا گھر اس کی یادوں باتوں اور خوشبوئوں سے ہمیشہ مہکتا رہتا ہے۔ بیٹی نعمت ہی ہے کہ اس نعمت کا کوئی متبادل نہیں۔ ماں بہن بیٹی تینوں رشتے عجیب ہیں ان نعمت بھرے رشتوں پر کوئی کتنا ہی کیوں نہ لکھ ڈالے حق ادا نہیں ہوتا۔

سچ یہ ہے کہ اصل میں مجھے آج صبح سے اپنی والدہ (امڑی سینڑ) حضور یاد آرہی ہیں ان کی یاد آتی ہے تو ہچکیاں بندھ جاتی ہیں۔ لوگ کہتے ہیں مرد کو رونا نہیں چاہیے۔ اس رونے سے بچنے کے لئے بیٹی کی یادوں کا سہارا لے رہا ہوں۔

کم از کم میں نے ہمیشہ یہ اعتراف کیا ہے کہ میری بیٹی میری زینت، طاقت، فخر اور تعارف ہے جیسے میں اور میرے بہن بھائی اپنے والدین کا تعارف ہیں۔ اولاد ماں باپ کا چہرہ اور تعارف ہی تو ہوتی ہے۔

میں جب بھی ملتان جاتا ہوں ہر بار کسی بازار یا گلی کی نکڑ پر اپنی والدہ حضور کے تعارف کے حوالے سے پہچان لیا جاتا ہوں۔ پچھلی بار چوک بازار میں ایک خاندان نے مجھے روک کر پوچھا، آپ بی بی جی کے بیٹے ہیں؟ جی میں نے عرض کیا۔ پانچ سات افراد تھے بھرے بازار میں ان کے ہاتھ دعا کے لئے بلند ہوئے "اللہ تعالیٰ ہماری بی بی جی کو اعلیٰ ترین مقام عطا فرمائے وہ ہمارے لئے نعمت تھیں جو مالک نے واپس لے لی۔ آنسوئوں سے بھری آنکھوں کو چھپاتے ہوئے میں نے آمین کہا” ۔

حالیہ عرصے میں دو بار ملتان جانا ہوا چھوٹا بھائی سفر حیات طے کرکے قبرستان میں امڑی کے پہلو میں جا سویا تھا۔ اس ملتان یاترا میں ایک دن تپتی دوپہر میں ہوٹل سے نکلا رکشہ میں حسین آگاہی پہنچ گیا۔ ریڑھ چڑھ کر چوک بازار کی طرف مڑنے کی بجائے گلی کمنگراں میں داخل ہوگیا۔

یہ طویل گلی حسین آگاہی اور دہلی دروازے کو ملاتی ہے۔ ہمیشہ تیز چلنے کا عادی رہا لیکن جب سے علالت کے باعث اسٹک پکڑ کر چلتا ہوں اب دو منٹ کا فاصلہ پانچ سات منٹ میں طے ہوتا ہے۔ زیادہ چل نہیں پاتا سانس پھولنے لگتا ہے مگر اس دن بڑے لمبے عرصے بعد گلی کمنگراں کا سفر طے کرکے دہلی دروازے پہنچا۔

اس گلی میں حسین آگاہی سے آتے ہوئے نصف سے کچھ اور فاصلے پر بائیں سمت ایک مزار بھی ہے۔ یہ سطور لکھتے ہوئے صاحب مزار کا تعارف یاد نہیں آرہا ورنہ ضرور عرض کرتا۔ کمنگراں والی گلی سے اگر حسین آگاہی کی طرف باہر آئیں تو ملتان کے قدیم سوہن حلوہ والے حافظ حبیب الرحمن کی دکان ہے۔ چند قدم آگے دائیں طرف کی ایک مارکیٹ میں کسی زمانے میں ہمارے دوست الطاف حسین چغتائی کی دکان ہوا کری تھی۔

عام معنوں میں جنرل سٹور تھا پھر پتہ نہیں اس نے اس چلتے کاروبار کو چھوڑ چھاڑ کر اندرون پاک گیٹ میں کپڑے کا کاروبار کیوں شروع کردیا اللہ بخشے الطاف حسین چغتائی اب اس جہان میں نہیں رہے کافی سال ہوگئے اس دلنواز دوست کوقبر کی مٹی اوڑھے سوتے ہوئے۔

بھری جوانی سے دو تین قدم ہی آگے چل پایا تھا ایک دن خبر ملی الطاف چغتائی دل کا دورہ پڑنے سے وفات پاگیا۔ جن برسوں میں میں بیرون پاک دروازے کمتر کے آستانے والی گلی میں مکان کرائے پر لے کر مقیم تھا ان برسوں میں ہر روز ایک آدھ بار مھے اس کے گھر والی گلی سے گزر کر گل محمد روڈ تک آنا پڑتا تھا۔ جب بھی اس کے گھر پر نگاہ پڑتی دوست یاد آتا، آنکھیں بھیگ جاتیں۔

ہم واپس گلی کمنگراں میں چلتے ہیں میں حسین آگاہی کی سمت سے اس میں داخل ہوا تھا۔ گرمی خاصی تھی حالانکہ اس سے ایک دن قبل بارش ہوچکی تھی لیکن ملتان کی گرمی مشہور ہے۔ ہم ملتانی اکثر ایک لطیفہ سناتے رہتے ہیں

’’ایک ملتانی حساب کتاب کے مرحلہ میں اللہ سائیں کے پاس پیش ہوا، سارے بہی کھاتے کھلے نیکیاں کم اور ’’اولے‘‘ گناہ زیادہ تھے۔ حکم ہوا دوزخ میں ڈال دو۔ فرشتے جیل کے نمبرداروں کی طرح دونوں بازو پکڑ کر دوزخ کی سمت لے جارہے تھے، ملتانی بار بار سر گھماکر اس مقام کی طرف دیکھتا جہاں جنت دوزخ کے فیصلے سنائے جارے تھے۔ ایکاایکی آواز آئی اسے واپس لائو۔ ملتانی پیشی والی جگہ واپس لایا گیا اسے سنائی دیا کہ اللہ سائیں پوچھ رہے ہیں تم مڑ مڑ کر کیوں دیکھ رہے تھے۔ ملتانی نے حسرت بھری آواز میں کہا اللہ سائیاں میں ملتان توں آیاں اُتھاں وڈی گرمی پوندی اے، تساں میکوں دوزخ بھیجنڑ دا حکم سنائے یک سوڑ (رضائی) عطا کرو ہاں متاں اُتھا سی (سردی) ہووے۔ کہتے ہیں رب دو جہاں کو اس کی یہ معصومیت پسند آئی حکم ہوا اسے جنت بھیج دو”

مجھے یاد آیا ایک دن اسی قسم کی باتوں اور لطائف کے دوران ایک دوست نے کہا تھا یار شاہ تم آخر ان ساری گفتگوئوں کا حساب کیا دو گے اللہ تعالیٰ کو؟

قبل اس کے کہ میں کچھ کہتا، فقیر راحموں نے کہا حساب کیا دینا ہے ہم صاف کہہ دیں گے اللہ سائیں یاروں سے حساب کیسا۔ فقیر راحموں کی بات غلط بھی نہیں۔ دوستوں میں حساب کیسا۔ ہاں دوست ہونا ضروری ہے۔

بیٹی ، امڑی سینڑ ، ملتان اور ملتان کی یادیں۔ اس کے سوا اپنے پاس اور ہے ہی کیا۔

ملتانی کو ملتان کی یادگیری کے لئے بہانہ چاہیے۔ ملتان کو یاد کرنے کے لئے ضروری نہیں کہ کوئی یاد دلائے یا سوال کرے۔ ملتانی کہیں بھی کسی وقت بھی کسی گلے محلے، میدان، بازار ملتانی سوغات کسی رشتے کو یاد کرے گا اورملتان پہنچ جائے گا دوسروں کا پتہ نہیں لیکن ملتانیوں کایہ وصف کمال کا ہے۔ مجھے بھی ملتان یاد آرہا ہے

پہلے بیٹی یاد آئی پھر امڑی اور ملتان۔ یادوں کے دفتر کھلتے چلے گئے۔ مجھے اپنے جنم شہر سے اپنے والدین کی خوشبو آتی ہے یقیناً یہ احساس ہر ملتانی کو ہوتا ہوگا۔ مجھے بھی ہے میرے والدین اسی شہر کے قبرستانوں میں سورہے ہیں۔

آپ یہ سطور گیارہ جولائی کو پڑھ رہے ہوں گے۔ گیارہ جولائی کو میری امڑی سینڑ (والدہ حضور) کی برسی ہے۔ سچ پوچھئے پچھلے ہفتہ بھر سے اس امر کی خواہش بڑی شدید رہی کہ امڑی سینڑ کی برسی کے موقع پر ان کی تربت کو بوسہ دے آئوں

صحت کے پرانے اور نئے مسلط ہونے والے مسائل نے یہ حقیقت دو چند کردی ہے کہ سانس مٹھی سے تیزی کے ساتھ پھسل رہے ہیں پتہ نہیں اگلا برس دیکھنا نصیب ہو یا نہ ہو۔ افسوس کہ صحت اور حالات دونوں نے سفر کی اجازت نہیں دی۔

آج صبح سے جب بھی امڑی حضوریاد آتی ہیں کبھی بیٹی کو یاد کرنے لگتا ہوں کبھی ملتان کو لیکن پھر کچھ دیر بعد امڑی یاد آنے لگتی ہیں۔

سفر حیات کی نقدی تیزی سے ختم ہوتی جارہی ہے۔ چند دن ہوتے صحت اور بیماری کے حوالے سے ایک کالم لکھا تھا تب کسی نے پھبتی کسی ’’یہ کیا ہر چند دن بعد روتا بسورتا ایک کالم لکھ کر ہمددیاں بٹورنے لگتے ہو‘‘۔

پتہ نہیں انہیں ایسا کیوں لگا کہ میں ہمدردیاں بٹورتا ہوں۔ میں تو ہمیشہ سے ایسا ہی ہوں اور ایسا ہی لکھتا ہوں۔ نوٹس تیار کرکے موضوع منتخب کرکے کبھی نہیں لکھا۔ کالم لکھنے بیٹھا ذہن اور قلم جس طرف چل دیئے ہم ساتھ ہولئے۔ خیرلوگوں کا کیا ہے آنکھوں سامنے کچھ او پیٹھ پیچھے کچھ۔

دو تین تازہ بہ تازہ مثالیں ہیں خواہش کے باوجود نہیں لکھ رہا۔ ہم سبھی ایسے ہی ہیں چار اور نگاہ دوڑاکر دیکھ لیجئے۔ بزرگ کہتے تھے لوگ کسی کو خوش دیکھ کر برداشت نہیں کرپاتے۔ وہ بزرگ کہیں مل جائیں تو ان سے عرض کروں لوگ کسی حال میں بھی خوش نہیں ہوتے

جیسے شادی بیاہ پر کچھ رشتہ دار اپنا لُچ تلنا ضروری سمجھتے ہیں ایسے ہی کچھ رشتہ دار وفات والے گھر کے کھانے میں سے مین میخ نکال رہے ہوتے ہیں مرچیں زیادہ ہیں، پلائو میں گوشت تو ہے نہیں مرچوں والے چاولوں کو پلائو کا نام دے دیا ہے

زردہ تو ضرور پکواناچاہئے تھا بھلا سوئم کے کھانے میں زردہ نہ ہو تو فائدہ۔

کالم کے دامن میں گنجائش تمام ہوئی آپ ہماری والدہ محترمہ (امڑی سینڑ) کے ایصال ثواب کے لئے سورۃ فاتحہ کی تلاوت کردیجئے۔

یہ بھی پڑھیں:

About The Author