محمد عامر خاکوانی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحریک انصاف کے لئے مشکل، بہت مشکل اور کٹھن دن شروع ہوچکے، ہر گزرتے دن کے ساتھ نت نئے طریقوں سے دبائو بڑھ رہا ہے۔
نومئی کو جو پارٹی کارکنوں اور رہنمائوں سے ہوا، اس نے ان کے خلاف چلنے والے معاملات کی رفتار تیز کر دی ہے۔آٹھ مئی کو تحریک انصاف کے ہزاروں کارکن یکایک گرفتار کرنے ممکن نہیں تھے، اگر ایسا کرتے تو ہنگامہ مچ جاتا، عدالتیں ان سب کو رہا کر دیتیں۔
نو مئی کے واقعات کے بعد یہ سب ممکن ہوگیا، عدالتیں اگرچہ ریلیف دے رہی ہیں، مگر ہر ایک کو ریلیف نہیں مل سکتا ۔ پھر اگر آرمی ایکٹ کے تحت ان پر مقدمات چلا کر کئی برسوں کی قید سنائی گئی تو ان پراعلیٰ عدالتوں میں شاید اپیل تو ہوسکے ، مگر کتنوں کو ریلیف مل پائے گا؟ بمشکل پانچ دس یا پندرہ فیصد ۔
عمران خان کی گرفتاری کیا رنگ لائے گی ؟
عمران خان کے اندر ہوجانے سے تحریک انصاف اچانک ختم نہیں ہوسکتی، اسے عوام میں سیاسی عصبیت حاصل ہوچکی ہے۔ یہ اپنی جگہ درست کہ تحریک انصاف عمران خان ہی کا دوسرانام ہے، مگر وہ جیل چلے جائیں پھر بھی ان کی پارٹی پر گرفت کمزور نہیں ہوگی، ووٹ بینک بھی اپنی جگہ ہی رہے گا۔ اس لئے عمران خان کی سیاست ختم نہیں ہوجائے گی۔ البتہ اب ردعمل میں انہیں احتیاط برتنا ہوگی۔
چار آپشنز
بدلتے سیاسی حالات میں تحریک انصاف کے رہنمائوں، کارکنوں کے لئے اس وقت تین چار آپشنز بنتی جا رہی ہیں۔
پارٹی چھوڑ کر عمران خان کے خلاف نعرہ بغاوت لگا دیں
پارٹی تو چھوڑ دیں مگر فیصل واڈا کی طرح مصلحتا عمران خان کے خلاف بیان نہ دیں
پارٹی میں رہ کر تمام مشکلات کو فیس کریں۔ اس میں گرفتاری، قید وبند کی صعوبتیں اور کاروبار وغیرہ کا نقصان ہونے کا امکان ہے۔ کل کو پارٹی حکومت میں آئی تو اس میں سے بہت کچھ کی تلافی ہوسکتی ہے
چوتھی اور آخری آپشن یہ ہے کہ پارٹی تو نہ چھوڑیں مگر غیر فعال ہوجائیں، احتجاج وغیرہ میں حصہ نہ لیں، کچھ عرصے کے لئے کسی بہانے سے ملک سے باہر چلے جائیں، دوسرے شہر ، گائوں وغیرہ یا ویسے ہی بیماری وغیرہ کا بہانہ کر کے گھر میں رہ جائیں۔
ایک آپشن یہ بھی ہے کہ اپوزیشن کی سیاست کرتے ہوئے کسی طرح وقت گزارا جائے ، پارٹی کو تباہ یا ٹکڑے ٹکڑے نہ کرایا جائے اور دو قدم پیچھے ہٹ کر حالات کے بہتر ہونے کا انتظار کیا جائے۔ مسئلہ مگر یہ ہے کہ حکمت پر مبنی یہ مشورہ پی ٹی آئی میں بزدل اور ڈرپوک ہونا سمجھا جاتا ہے۔
پی ٹی آئی کے بیشتر پرجوش کارکن اور اہم رہنمائوں کو ان میں سے کسی ایک پر جلد یا بدیر عمل کرنا پڑے گا۔
عمران خان کے لئے چیلنجز
جب کارکن گرفتار ہوں، اندر چلے جائیں تو کہیں نہ کہیں پارٹی قیادت پر بھی دبائو آتا ہے۔ پارٹیاں کارکنوں کے زور پر ہی چلتی ہیں۔ خاص کر اپوزیشن تو ہوتی ہے ساری کارکنوں کے ساتھ ہے۔ حکومت پارٹی اور کارکنوں کے بغیر بھی چلائی جا سکتی ہے، اپوزیشن نہیں۔ یہ سب چیزیں عمران خان کے سوچنے والی ہیں۔
خان صاحب کے لئے اصل چیلنج تو خود کو باہر رکھنا ہے۔ ان کے گرد گھیرا بہت تنگ ہوچکا ہے۔ نیب یا کسی بھی دوسرے مقدمے میں ان کی گرفتاری یقنی ہے ۔ اس بار قانونی تقاضے پورے کئے جائیں گے تاکہ عدالت فوری ریلیف نہ دے سکے۔
سوال یہ ہے کہ عمران خان گرفتار ہوگئے تب کیا ہوگا؟
خان صاحب نے کچھ عرصہ پہلے ایک اعلیٰ اختیاراتی کمیٹی بنائی تھی جو ان کی عدم موجودگی میں پارٹی معاملات چلائے گی، اس میں فواد چودھری، اسد عمر،حماد اظہر، حسام نیازی، پرویز خٹک وغیرہ شامل ہیں۔ مسئلہ تب بنے گا جب اس کمیٹی کے بھی اکثر یا سب لوگ اندر ہوجائیں ۔
لیول پلیئنگ فیلڈ
خان صاحب کے لئے اصل مسئلہ ان کی زیادہ عوامی مقبولیت یا پزیرائی اور اپنے مخالفین سے کہیں زیادہ طاقتور پوزیشن میں ہونا ہے۔ اگر اگلے چند ماہ میں الیکشن ہوں تو تحریک انصاف کے واضح اکثریت سے جیتنے کے قوی امکانات ہیں۔
یہ وہ بات ہے جسے پی ڈی ایم کسی بھی صورت گوارا نہیں کرے گا۔
اس لئے ایک پلان شروع ہی سے یہ تھا کہ خان صاحب کو گرفتار کر کے نااہل کر دیا جائے، پارٹی کے اکثر اہم لیڈر اور بڑی تعداد میں کارکنوں کے ساتھ بھی یہی سلوک ہو۔ ممکن ہو تو پارٹی کے دو تین ٹکڑے کر دئیے جائیں اور جب یہ اس درجہ کمزور ہوجائیں پھر الیکشن کا سوچا جائے، مگر اس سے پہلے میاں نواز شریف کی نااہلی اور تاحیات سزا ختم ہوجائے اوروہ واپس آ کر نئے جوش وعزم کے ساتھ ن لیگ کی قیادت کریں۔
مسلم لیگ ن اور پی ڈی ایم اسے ہی لیول فیلڈ قرار دیتی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ جس طرح دو ہزار اٹھارہ کے الیکشن میں ن لیگ پر دبائو ڈالا گیا تھا، میاں نواز شریف جیل میں تھے اور اسٹیبلشمنٹ کھل کر عمران خان کو سپورٹ کر رہی تھی۔ اس صورتحال کو ریورس کر کے وہ تمام فیور پی ڈی ایم کو دی جائے اور تمام مشکلات اس بار پی ٹی آی کے لئے ہوں۔
مریم نواز شریف کئی بار اپنے اس ارادے ، سوچ اور فینٹسی کو بیان کر چکی ہیں۔ ان کے خیال میں دوہزار اٹھارہ والی صورتحال کو الٹ کرکے ہی لیول پلئنگ فیلڈ بن سکتی ہے۔ بظاہر تو یہ لگ رہا ہے کہ عمران خان کے تمام مخالفوں کی یہی رائے ہے۔
غلطی جو دہرانی نہیں چاہیے
ایک بات یاد رکھنی چاہیے کہ فوج اور اسٹیبلشمنٹ میں بڑا فرق ہے۔
اسٹیبلشمنٹ کے سیاسی حوالے سے انوالمنٹ پر تنقید ہوتی رہتی ہے۔
فوج سے ہم سب فوجی جوان، افسر اور پورا ادارہ مراد لیتے ہیں جو ملک کا دفاع کرتے ، سرحد کی حفاظت کرتے اور دہشت گردوں کے خلاف لڑتے ہیں۔
اسٹیبلشمنٹ مخالفین کے دِلوں میں بھی فوج کے لئے نرم گوشہ ہوتا ہے کیونکہ یہ ہماری فوج ہے اور ہمارا ہی ادارہ ہے، اسی نے ملکی دفاع کرنا ہے۔
یہ بات ہماری سیاسی جماعتوں کو بھی سمجھنا چاہیے ۔ تحریک انصاف کے بہت سے کارکن نو مئی کو یہ اہم ترین نکتہ اور ریڈ لائن بھول گئے تھے۔
ان سے جو بلنڈر ہوا ، اس کے بعد عمران خان کو باہر آ کر ڈیمیج کنٹرول کرنا چاہیے تھا، افسوس خان صاحب ایسا نہ کر پائے، تھوڑی بہت کوشش کی، مگر وہ کافی نہیں تھی۔
آگے کیا ہوسکتا ہے؟
یہ بات یاد رکھنا چاہیے کہ پاکستانی فورسز پاکستانیوں کی زندگی میں ایک خاص مقام رکھتی ہیں ۔ خاص کر پنجاب، کے پی اور کراچی وغیرہ میں ۔
اس لئےیہ ضروری نہیں کہ جو لوگ پی ٹی آئی سے الگ ہو رہے ہیں یا خاموش ہیں یا نسبتاً غیر فعال ہیں، وہ سب کسی دبائو کا شکار ہوئے ہیں۔
میں دبائو سے انکار نہیں کررہا، یہ اپنی جگہ ہو گا۔
یہ مگر حقیقت ہے کہ نو مئی کو جو کچھ کیا گیا، اس کا کوئی دفاع نہیں بنتا، اس کا ساتھ دینا بہت مشکل ہے اور بہت سے لوگوں کے لئے طبعاً، مزاجاً اتنے جارحانہ اور اینٹی آرمی رویے کے ساتھ چلنا ممکن نہیں۔
یہ بات تحریک انصاف ، ان کے کارکنوں اور حامیوں کو سمجھنا چاہیے ۔
یہ بات پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کی قیادت نے سمجھی اور پھر طریقے سے مشکل وقت گزارے، اپنے کارکنوں کو مصیبت اور تکلیف میں نہیں ڈالا۔ سیاست کی، الیکشن ہارے، اپوزیشن میں بھی بیٹھے، مگر مین سٹریم میں ہی رہے۔ مین سٹریم پالیٹکس سے آئوٹ نہیں ہوئے، اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پانچ سات دس برس بعد انہیں حکومتیں پھر سے مل گئیں۔
تحریک انصاف کی اپنی پالیسی، اپنی سوچ اور کارکنوں کا اپنا مزاج ہے۔ وہ ٹیسٹ میچ کرکٹ پر تو یقین رکھتے ہی نہیں، ٹی ٹوئنٹی بھی انہیں پسند نہیں، وہ دس اوورز کی ٹی ٹین کرکٹ کھیلنا چاہتے ہیں یا پھر وہی گلی محلے میں کھییلی جانے والی چھ چھ اوورز کی کرکٹ ۔
ان کی پارٹی، ان کی مرضی، ان کی سیاست۔ البتہ خان صاحب کا کوئی ہمدرد ہے تو انہیں مشکل ، کٹھن وقت طریقے سے، حکمت سے نکال لینے کا مشورہ دے۔
گرفتاری، جیل جانے سے بھی ان کے لئے امید ختم نہیں ہوجائے گی۔ سیاست میں راستے پھر سے نکل آتے ہیں۔
حرف آخر
کہا جاتا ہے کہ بڑے میاں صاحب اپنے ساتھیوں کو سمجھا رہے ہیں کہ عمران خان اب پنڈی والوں کا مسئلہ ہے ہمارا نہیں۔ یہی وہ اور پی ڈی ایم قیادت چاہتی تھی کہ عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ آمنے سامنے آ جائے۔ بدقسمتی سے ایسا ہوگیا ہے۔ اس میں دونوں طرف کی غلطیاں ہوں گی، مگر نقصان بہرحال عمران خان اور تحریک انصاف کا ہو گا تو اس کی زمہ داری ان پر زیادہ عائد ہوتی ہے۔
عمران خان کوشش کریں کہ کسی طرح یہ مساوات تبدیل ہو اور تحریک انصاف بمقابلہ پنڈی کے بجائے تحریک انصاف بمقابلہ پی ڈی ایم والا معاملہ بنے، اس میں پھر ان کے لئے موقعہ ہے کہ سیاسی بساط کسی بھی وقت الٹ دیں۔
۔
یہ بھی پڑھیے:
عمر سعید شیخ ۔ پراسرار کردار کی ڈرامائی کہانی۔۔۔محمد عامر خاکوانی
سیاسی اجتماعات کا اب کوئی جواز نہیں ۔۔۔محمد عامر خاکوانی
چندر اوراق ان لکھی ڈائری کے ۔۔۔محمد عامر خاکوانی
آسٹریلیا بمقابلہ چین ۔۔۔محمد عامر خاکوانی
بیانئے کی غلطی۔۔۔محمد عامر خاکوانی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر