رؤف کلاسرا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پچھلے کچھ دنوں میں اوپر نیچے سمندر میں جو ٹریجڈیز ہوئی ہیں انہوں نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ ان بے چارے خاندانوں کا سوچ کر ہی دل ڈوبنے لگتا ہے کہ ان پر اپنے پیاروں کو یوں دیارِ غیر میں مرتے دیکھ کر کیا گزری ہوگی۔ ساری عمر کا دُکھ۔
پہلے ایشین نوجوان لڑکے جن میں پاکستانیوں کی بھی بڑی تعداد تھی وہ یورپ میں غیرقانونی راستوں سے داخل ہونے کی کوشش میں سمندر میں ڈوب گئے۔ اس کے بعد سو سال پہلے ڈوبنے والے ٹائی ٹینک جہاز کے ملبے کو زیر سمندر دیکھنے کے لیے دنیا کے پانچ امیر لوگوں کو سمندر میں جو حادثہ پیش آیا اس نے دلوں کو مزید افسردہ کر دیا خصوصا ًپاکستانی باپ اور اس کے سترہ سالہ بیٹے کی تصویروں نے سب کو رُلا دیا۔
ان پانچ لوگوں کی زیر سمندر گمشدگی کی خبر پہلے آئی اور ساتھ ہی چار پانچ دنوں تک ان کی تلاش کا بڑے پیمانے پر کام شروع ہوگیا۔ پوری دنیا امید اور ناامیدی میں گرفتار رہی۔ خدشہ تھا کہ انہیں حادثہ پیش آگیا تھا۔ جیمز کیمرون جس نے 1997ء میں ٹائی ٹینک فلم بنائی تھی ‘کا کہنا تھا کہ انہوں نے پہلے ہی اس کمپنی کو خبردار کیا تھا کہ وہ کسی دن بڑے حادثے کا سبب بنیں گے۔ 2018 ء میں بھی اس بارے میں شدید اعتراضات سامنے آئے تھے لیکن اوشن گیٹ کمپنی کا کہنا تھا کہ سب ٹیسٹ کرنے بعد ہی یہ غیرمعمولی سفر شروع کیے گئے تھے اور اب تک کئی لوگ یہ سفر کر چکے ہیں۔ جیمز کا کہنا تھا کہ جونہی انہیں پتا چلا کہ اس سب میرین کا رابطہ کٹ گیا تھا تو انہیں لگ رہا تھا کہ ٹریجڈی ہو چکی ہے۔اب دنیا بھر میں بحث ہورہی ہے کہ ان لوگوں کو اتنے خطرناک سفر پر جانا چاہیے تھا؟ اس طرح ان ہزاروں نوجوان پر بھی سوال اٹھائے گئے ہیں جو اپنی جوانیاں سمندر اور پہاڑوں میں ضائع کرنے یورپ کو نکلتے ہیں اور اکثر راستے میں مارے جاتے ہیں اور چند ایک پہنچ بھی جاتے ہیں۔ انسانی مزاج ہے کہ وہ ان سینکڑوں لوگوں کی موت سے کوئی سبق نہیں سیکھتا جو یورپ جانے کے چکر میں مارے گئے اور ان کی لاشیں تک ان کے گھر والوں کو نہیں ملیں۔ انسان ہمیشہ اس خوش فہمی کا شکار رہتا ہے کہ جو کچھ دوسروں کے ساتھ ہوا وہ اس کے ساتھ نہیں ہوگا۔ کوئی انسان نہیں سوچتا کہ اس کے ساتھ بھی ٹریجڈی ہوسکتی ہے۔ انسان کی یہ جبلت کہہ لیں یا خوش فہمی‘ جو اِسے ایڈونچر پراکساتی رہتی ہے۔ چاہے ایک ہزار بندہ کسی حادثے میں مارا گیا اور صرف ایک بندہ بچ گیا تو انسان یہ سوچ لے گا کہ اگر کبھی اس کے ساتھ ایسا ہوا تو وہ بھی اکیلا بچ جائے گا۔ وہ کبھی خود کو ان ایک ہزار میں شمار نہیں کرے گا۔ انسان اگر اس خوش فہمی کا شکار نہ ہوتا تو شاید وہ کبھی غاروں اور جنگلوں سے باہر نہ نکلتا۔ خود کو کسی قدیم غار میں محفوظ سمجھتا۔ جس انسان نے غار سے نکل کر باہر میدان میں جھونپڑی یا پتھروں سے گھر بنا کر رہنے کا فیصلہ کیا ہوگا تو یقینا اُس دور کا بہت بڑا رسک ہوگا۔ شاید دوسروں نے منع کیا ہوگا لیکن کسی سرپھرے نے تو وہ پہلا قدم غار سے باہر نکالا ہوگا کہ وہ اب ایک معاشرے کی بنیاد رکھے گا۔ اگر وہ غار سے قدم باہر نہ نکالتا تو شاید آج ہم یہاں نہ بیٹھے ہوتے۔ اس دنیا کو بدلنے میں سر پھروں کا بڑا ہاتھ ہے۔
دنیا کو دیکھنے کا شوق ہمیشہ سے انسان کے اندر رہا ہے۔ لوگ ہزاروں میل پیدل چل کر دنیا بھر میں پھرتے تھے جب خطرات زیادہ تھے۔ مارکو پولو ہو یا ابن بطوطہ۔ سب نے رِسک لیے۔ کون سوچ سکتا تھا کہ وہ دونوں یورپ سے چل کر چین یا ہندوستان تک زندہ پہنچ پائیں گے۔پچھلے دنوں صفدر عباس بھائی کی لندن سے لائی گئی ہندوستان کے پہلے گورنر جنرل پر انگریز افسر پینڈرل مون کی لکھی گئی کتاب پڑھ رہا تھا تو مجھے حیرانی ہوئی کہ صرف دو سو سال پہلے تک برطانیہ سے کلکتہ تک کے بحری سفر میں چھ ماہ لگتے تھے۔ آپ اگر ہندوستان آرہے ہیں یا واپس جا رہے ہیں آپ کو ایک طویل عرصہ سمندر میں گزارنا پڑتا تھا۔ راستے میں کئی جہاز ڈوب جاتے یا حادثوں کا شکار ہوجاتے۔جو لوگ چھ ماہ تک کلکتہ یا برطانیہ نہ پہنچتے ان کے بارے تصور کر لیا جاتا تھا کہ وہ سمندر میں کسی حادثے کا شکار ہوگئے ہیں۔ انہیں ڈھونڈنے کے لیے کوئی ٹیمیں نہیں بھیجی جاتی تھیں جیسے اب حادثے کا شکار ہونے والے ان پانچ افراد کے لیے دنیا بھر نے کوششیں کیں۔
اس طرح اگر آپ ہندوستان میں انگریزوں کی آمد اور انہیں درپیش مشکلات بارے پڑھیں تو حیرانی ہوتی ہے کہ آخر ان فرنگیوں کو کیا پڑی تھی کہ اپنا گھر وطن بچے چھوڑ کر مشکلات اٹھانے ہندوستان چلے آئے جہاں کا موسم ان کے یورپین موسموں سے بہت مختلف تھا اور جو حالات ان گوروں نے اپنی کتابوں میں درج کیے ہیں وہ پڑھ کر یقین نہیں آتا کہ کوئی اتنی دور سے کسی اجنبی ملک کا سفر کیسے کرسکتا ہے جس بارے آپ کو علم ہی نہ ہو کہ اس کا انجام کیا ہوگا۔ ہزاروں گورے مارے بھی گئے ‘ لیکن کیا کریں انسانی تجسس ایک ایسی خوبی ہے جس نے اس کائنات کے ارتقائی عمل میں بڑا حصہ ڈالا ہے۔ تصور کریں اگر دنیا بھر میں سفر اور لوگوں کی ایک ملک سے دوسرے ملک ہجرت نہ ہوتی‘ ایک خطے کے لوگ دوسرے خطے کے لوگوں سے نہ ملتے‘ ایک دوسرے کے ہنر اور فن سے نہ سیکھتے تو آج دنیا کی شکل کیا یہی ہوتی جو اَب ہے؟ یا تصور کریں جو امریکن پہلی دفعہ 60 ء کی دہائی میں چاند کے سفر پر نکلے اُن کی ذہنی کیفیت کیا ہوگی؟ وہ ایک ایسا سفر اختیار کر رہے تھے جس کا انہیں اندازہ نہ تھا کہ جہاں وہ جارہے ہیں وہاں سے واپسی ہوگی یا نہیں یا پھر پتا نہیں کون سی بلائیں ان کا انتظار کررہی ہوں۔لیکن انہوں نے اس کے باوجود رسک لیا اور چاند پر جا پہنچے۔ اور پھر ہم نے دیکھا کہ 80ء کی دہائی میں ڈسکوری شٹل امریکہ میں فضا میں بلند ہوتے ہی اپنے گھر والوں کی آنکھوں کے سامنے پھٹ گئی اور ایک بندہ بھی زندہ نہ بچا لیکن اس کے بعد بھی شٹل فضا میں بھیجی جاتی رہیں۔ لوگ رسک لیتے رہے۔
میرے خیال میں خدا اس دنیا میں ایسے چند جینئس بھیجتا رہتا ہے جو اپنے دماغ کی تخلیق سے نسلِ انسانی کے ارتقائی عمل کو تیز کرنے میں مدد کر کے واپس لوٹ جاتے ہیں۔ جن لوگوں نے پرنٹنگ پریس ایجاد کیا‘ سٹیم انجن کا آئیڈیا دیا‘ جہاز بنائے‘ بجلی ایجاد کی‘ کمپیوٹر بنائے اور اب مصنوعی ذہانت تک جا پہنچے ہیں ان کے اندر کا تجسس باقی نسلِ انسانیت کے کام آیا۔ تجسس کو پورا کرتے کرتے کئی کوہ پیما اپنے گھروں سے دور پہاڑوں پر جانیں گنوا بیٹھے لیکن آج بھی لوگ پہاڑوں پر کمندیں ڈالتے ہیں۔ اپنے اندر کا تجسس انہیں موت کے منہ میں لے جاتا ہے۔
موت کے بارے قدیم عرب کی ایک مشہور کہانی ہے کہ عراق میں ایک امیر تاجر رہتا تھا۔ ایک دن اس نے اپنے ملازم کو بازار بھیجا۔ وہ واپس آیا تو بہت خوفزدہ تھا۔ اس نے کہا‘ مالک میں نے بازار میں ایک خوفناک چیز دیکھی ہے‘ مجھے لگتا ہے وہ مجھے مارنا چاہتی ہے۔ مجھے اپنا گھوڑا اور کچھ پیسے دے دیں‘ میں بغداد سے بھاگ جاتا ہوں تاکہ وہ مجھے تلاش نہ کرسکے۔ تاجر کو رحم آگیا اس نے اپنا گھوڑا اسے دے دیا۔ وہ ملازم گھوڑے پر بیٹھ کر بغداد سے ایک اور شہر سماوار کی طرف بھاگ گیا۔ تاجر کو تجسس ہوا کہ آخر وہ کیا بلا تھی جس نے اسے ڈرا دیا تھا۔ وہ بازار گیا تو اسے دور سے وہ بلا نظر آگئی۔ وہ قریب گیا اور پوچھا میرے غریب ملازم نے تیرا کیا بگاڑا تھا کہ تم نے اسے ڈرا دیا۔ وہ بولا‘ میں نے تو اسے نہیں ڈرایا‘ دراصل میں موت کا فرشتہ ہوں‘ میں نے اسے یہاں بغداد کے بازار میں بڑے آرام سے پھرتے دیکھا تو شدید حیران ہوا کہ یہ یہاں کیا کررہا ہے۔ میں نے تو کل رات اس کی جان سماوار میں لینی ہے۔
پہلے ایشین نوجوان لڑکے جن میں پاکستانیوں کی بھی بڑی تعداد تھی وہ یورپ میں غیرقانونی راستوں سے داخل ہونے کی کوشش میں سمندر میں ڈوب گئے۔ اس کے بعد سو سال پہلے ڈوبنے والے ٹائی ٹینک جہاز کے ملبے کو زیر سمندر دیکھنے کے لیے دنیا کے پانچ امیر لوگوں کو سمندر میں جو حادثہ پیش آیا اس نے دلوں کو مزید افسردہ کر دیا خصوصا ًپاکستانی باپ اور اس کے سترہ سالہ بیٹے کی تصویروں نے سب کو رُلا دیا۔
ان پانچ لوگوں کی زیر سمندر گمشدگی کی خبر پہلے آئی اور ساتھ ہی چار پانچ دنوں تک ان کی تلاش کا بڑے پیمانے پر کام شروع ہوگیا۔ پوری دنیا امید اور ناامیدی میں گرفتار رہی۔ خدشہ تھا کہ انہیں حادثہ پیش آگیا تھا۔ جیمز کیمرون جس نے 1997ء میں ٹائی ٹینک فلم بنائی تھی ‘کا کہنا تھا کہ انہوں نے پہلے ہی اس کمپنی کو خبردار کیا تھا کہ وہ کسی دن بڑے حادثے کا سبب بنیں گے۔ 2018 ء میں بھی اس بارے میں شدید اعتراضات سامنے آئے تھے لیکن اوشن گیٹ کمپنی کا کہنا تھا کہ سب ٹیسٹ کرنے بعد ہی یہ غیرمعمولی سفر شروع کیے گئے تھے اور اب تک کئی لوگ یہ سفر کر چکے ہیں۔ جیمز کا کہنا تھا کہ جونہی انہیں پتا چلا کہ اس سب میرین کا رابطہ کٹ گیا تھا تو انہیں لگ رہا تھا کہ ٹریجڈی ہو چکی ہے۔اب دنیا بھر میں بحث ہورہی ہے کہ ان لوگوں کو اتنے خطرناک سفر پر جانا چاہیے تھا؟ اس طرح ان ہزاروں نوجوان پر بھی سوال اٹھائے گئے ہیں جو اپنی جوانیاں سمندر اور پہاڑوں میں ضائع کرنے یورپ کو نکلتے ہیں اور اکثر راستے میں مارے جاتے ہیں اور چند ایک پہنچ بھی جاتے ہیں۔ انسانی مزاج ہے کہ وہ ان سینکڑوں لوگوں کی موت سے کوئی سبق نہیں سیکھتا جو یورپ جانے کے چکر میں مارے گئے اور ان کی لاشیں تک ان کے گھر والوں کو نہیں ملیں۔ انسان ہمیشہ اس خوش فہمی کا شکار رہتا ہے کہ جو کچھ دوسروں کے ساتھ ہوا وہ اس کے ساتھ نہیں ہوگا۔ کوئی انسان نہیں سوچتا کہ اس کے ساتھ بھی ٹریجڈی ہوسکتی ہے۔ انسان کی یہ جبلت کہہ لیں یا خوش فہمی‘ جو اِسے ایڈونچر پراکساتی رہتی ہے۔ چاہے ایک ہزار بندہ کسی حادثے میں مارا گیا اور صرف ایک بندہ بچ گیا تو انسان یہ سوچ لے گا کہ اگر کبھی اس کے ساتھ ایسا ہوا تو وہ بھی اکیلا بچ جائے گا۔ وہ کبھی خود کو ان ایک ہزار میں شمار نہیں کرے گا۔ انسان اگر اس خوش فہمی کا شکار نہ ہوتا تو شاید وہ کبھی غاروں اور جنگلوں سے باہر نہ نکلتا۔ خود کو کسی قدیم غار میں محفوظ سمجھتا۔ جس انسان نے غار سے نکل کر باہر میدان میں جھونپڑی یا پتھروں سے گھر بنا کر رہنے کا فیصلہ کیا ہوگا تو یقینا اُس دور کا بہت بڑا رسک ہوگا۔ شاید دوسروں نے منع کیا ہوگا لیکن کسی سرپھرے نے تو وہ پہلا قدم غار سے باہر نکالا ہوگا کہ وہ اب ایک معاشرے کی بنیاد رکھے گا۔ اگر وہ غار سے قدم باہر نہ نکالتا تو شاید آج ہم یہاں نہ بیٹھے ہوتے۔ اس دنیا کو بدلنے میں سر پھروں کا بڑا ہاتھ ہے۔
دنیا کو دیکھنے کا شوق ہمیشہ سے انسان کے اندر رہا ہے۔ لوگ ہزاروں میل پیدل چل کر دنیا بھر میں پھرتے تھے جب خطرات زیادہ تھے۔ مارکو پولو ہو یا ابن بطوطہ۔ سب نے رِسک لیے۔ کون سوچ سکتا تھا کہ وہ دونوں یورپ سے چل کر چین یا ہندوستان تک زندہ پہنچ پائیں گے۔پچھلے دنوں صفدر عباس بھائی کی لندن سے لائی گئی ہندوستان کے پہلے گورنر جنرل پر انگریز افسر پینڈرل مون کی لکھی گئی کتاب پڑھ رہا تھا تو مجھے حیرانی ہوئی کہ صرف دو سو سال پہلے تک برطانیہ سے کلکتہ تک کے بحری سفر میں چھ ماہ لگتے تھے۔ آپ اگر ہندوستان آرہے ہیں یا واپس جا رہے ہیں آپ کو ایک طویل عرصہ سمندر میں گزارنا پڑتا تھا۔ راستے میں کئی جہاز ڈوب جاتے یا حادثوں کا شکار ہوجاتے۔جو لوگ چھ ماہ تک کلکتہ یا برطانیہ نہ پہنچتے ان کے بارے تصور کر لیا جاتا تھا کہ وہ سمندر میں کسی حادثے کا شکار ہوگئے ہیں۔ انہیں ڈھونڈنے کے لیے کوئی ٹیمیں نہیں بھیجی جاتی تھیں جیسے اب حادثے کا شکار ہونے والے ان پانچ افراد کے لیے دنیا بھر نے کوششیں کیں۔
اس طرح اگر آپ ہندوستان میں انگریزوں کی آمد اور انہیں درپیش مشکلات بارے پڑھیں تو حیرانی ہوتی ہے کہ آخر ان فرنگیوں کو کیا پڑی تھی کہ اپنا گھر وطن بچے چھوڑ کر مشکلات اٹھانے ہندوستان چلے آئے جہاں کا موسم ان کے یورپین موسموں سے بہت مختلف تھا اور جو حالات ان گوروں نے اپنی کتابوں میں درج کیے ہیں وہ پڑھ کر یقین نہیں آتا کہ کوئی اتنی دور سے کسی اجنبی ملک کا سفر کیسے کرسکتا ہے جس بارے آپ کو علم ہی نہ ہو کہ اس کا انجام کیا ہوگا۔ ہزاروں گورے مارے بھی گئے ‘ لیکن کیا کریں انسانی تجسس ایک ایسی خوبی ہے جس نے اس کائنات کے ارتقائی عمل میں بڑا حصہ ڈالا ہے۔ تصور کریں اگر دنیا بھر میں سفر اور لوگوں کی ایک ملک سے دوسرے ملک ہجرت نہ ہوتی‘ ایک خطے کے لوگ دوسرے خطے کے لوگوں سے نہ ملتے‘ ایک دوسرے کے ہنر اور فن سے نہ سیکھتے تو آج دنیا کی شکل کیا یہی ہوتی جو اَب ہے؟ یا تصور کریں جو امریکن پہلی دفعہ 60 ء کی دہائی میں چاند کے سفر پر نکلے اُن کی ذہنی کیفیت کیا ہوگی؟ وہ ایک ایسا سفر اختیار کر رہے تھے جس کا انہیں اندازہ نہ تھا کہ جہاں وہ جارہے ہیں وہاں سے واپسی ہوگی یا نہیں یا پھر پتا نہیں کون سی بلائیں ان کا انتظار کررہی ہوں۔لیکن انہوں نے اس کے باوجود رسک لیا اور چاند پر جا پہنچے۔ اور پھر ہم نے دیکھا کہ 80ء کی دہائی میں ڈسکوری شٹل امریکہ میں فضا میں بلند ہوتے ہی اپنے گھر والوں کی آنکھوں کے سامنے پھٹ گئی اور ایک بندہ بھی زندہ نہ بچا لیکن اس کے بعد بھی شٹل فضا میں بھیجی جاتی رہیں۔ لوگ رسک لیتے رہے۔
میرے خیال میں خدا اس دنیا میں ایسے چند جینئس بھیجتا رہتا ہے جو اپنے دماغ کی تخلیق سے نسلِ انسانی کے ارتقائی عمل کو تیز کرنے میں مدد کر کے واپس لوٹ جاتے ہیں۔ جن لوگوں نے پرنٹنگ پریس ایجاد کیا‘ سٹیم انجن کا آئیڈیا دیا‘ جہاز بنائے‘ بجلی ایجاد کی‘ کمپیوٹر بنائے اور اب مصنوعی ذہانت تک جا پہنچے ہیں ان کے اندر کا تجسس باقی نسلِ انسانیت کے کام آیا۔ تجسس کو پورا کرتے کرتے کئی کوہ پیما اپنے گھروں سے دور پہاڑوں پر جانیں گنوا بیٹھے لیکن آج بھی لوگ پہاڑوں پر کمندیں ڈالتے ہیں۔ اپنے اندر کا تجسس انہیں موت کے منہ میں لے جاتا ہے۔
موت کے بارے قدیم عرب کی ایک مشہور کہانی ہے کہ عراق میں ایک امیر تاجر رہتا تھا۔ ایک دن اس نے اپنے ملازم کو بازار بھیجا۔ وہ واپس آیا تو بہت خوفزدہ تھا۔ اس نے کہا‘ مالک میں نے بازار میں ایک خوفناک چیز دیکھی ہے‘ مجھے لگتا ہے وہ مجھے مارنا چاہتی ہے۔ مجھے اپنا گھوڑا اور کچھ پیسے دے دیں‘ میں بغداد سے بھاگ جاتا ہوں تاکہ وہ مجھے تلاش نہ کرسکے۔ تاجر کو رحم آگیا اس نے اپنا گھوڑا اسے دے دیا۔ وہ ملازم گھوڑے پر بیٹھ کر بغداد سے ایک اور شہر سماوار کی طرف بھاگ گیا۔ تاجر کو تجسس ہوا کہ آخر وہ کیا بلا تھی جس نے اسے ڈرا دیا تھا۔ وہ بازار گیا تو اسے دور سے وہ بلا نظر آگئی۔ وہ قریب گیا اور پوچھا میرے غریب ملازم نے تیرا کیا بگاڑا تھا کہ تم نے اسے ڈرا دیا۔ وہ بولا‘ میں نے تو اسے نہیں ڈرایا‘ دراصل میں موت کا فرشتہ ہوں‘ میں نے اسے یہاں بغداد کے بازار میں بڑے آرام سے پھرتے دیکھا تو شدید حیران ہوا کہ یہ یہاں کیا کررہا ہے۔ میں نے تو کل رات اس کی جان سماوار میں لینی ہے۔
یہ بھی پڑھیے:
ملتان میں قتلِ آم||رؤف کلاسرا
آخر سیکھ ہی گئے!۔۔۔رؤف کلاسرا
پُرانے جال ، پُرانے شکاری۔۔۔ رؤف کلاسرا
ایک بڑا ڈاکا اور بڑی واردات تیار… ۔۔۔ رؤف کلاسرا
پانچ ارب کی واردات کی داستان …(1)۔۔۔ رؤف کلاسرا
پانچ ارب کی واردات کی داستان …(2)۔۔۔ رؤف کلاسرا
پانچ ارب کی واردات کی داستان …(3)۔۔۔ رؤف کلاسرا
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر