دسمبر 29, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

مناسب و نامناسب ۔۔۔||حیدر جاوید سید

حیدر جاوید سید سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے نامور صحافی اور تجزیہ کار ہیں، وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان کےمختلف قومی اخبارات میں مختلف موضوعات پر تواتر سے کالم لکھ رہے ہیں، انکی تحریریں انہی کی اجازت سے ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر کی جارہی ہیں،

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مناسب یہی تھا ہے اور رہے گا کہ کرکٹ بورڈ میں سیاسی تماشے لگانے کی بجائے اسے پروفیشنلز کے سپرد کیا جائے۔ نجم سیٹھی ہوں یا ذکاء اشرف، دونوں میں سے ایک جاتی امراء کے والیوں کے چوب بردار ہیں۔ دوسرے آصف علی زرداری کے ذاتی دوست انہیں ممدوح کا درجہ دینے والے ان کے جو اوصاف گنوارہے ہیں عین ممکن ہیں ان میں "وہ” ہوں لیکن کرکٹ کی دنیا یکسر الگ ہے۔ فقط یہی نہیں پاکستان کرکٹ بورڈ پر افسر شاہی کا جو بوجھ ہے اسے بھی کم کرنے کی ضرورت ہے۔

نجم سیٹھی اور ذکا اشرف اشرافیہ کے خانوادوں سے ہیں یقیناً اس طبقے سے تعلق اور دونوں کی ’’دور‘‘ تک رسائی انہونی ہے نہ جرم لیکن اصل معاملہ یہ ہے کہ پاکستانی کرکٹ کا سوا ستیاناس داخلی سیاست، نکھٹو افسر شاہی، کھیلاڑیوں کی دھڑے بندی اور بورڈ میں مختلف حکومتوں کےسیاسی شوقوں نے کیا رہی سہی کسر پڑوسی ملک بھارت نے پوری کردی جو آئی سی سی کے رکن بعض ممالک کی ہمدردیاں ’’خریدنے‘‘ میں لمحہ بھر کی دیر نہیں لگاتا جن کے لئے علاقائی سیاست میں بھارت کی تابعداری مجبوری ہے۔

ان حالات میں کرکٹ کی دنیا کی اونچ نیچ کھیل کی ضرورتوں اور آئی سی سی کی اندرونی سازشوں کا توڑ کرنے کے لئے پی سی بی کو معاونت ضرور فراہم کی جائے مگر اس کے معاملات اسی شعبہ کے باصلاحیت لوگوں پر چھوڑدیئے جائیں تو مزید مناسب ہوگا۔

امید تو نہیں کہ اس درخواست پر ارباب سیاست و اختیار توجہ فرمائیں گے پھر بھی عرض کرنے میں امر مانع کوئی نہیں۔

اسی طرح نادرا کے سربراہ والے معاملے میں حکمران اتحاد کی بڑی جماعت (ن) لیگ کا رویہ نامناسب رہا۔ فقط اب نہیں ماضی میں بھی جب (ن) لیگ اقتدار میں تھی اس نے یہی رویہ اپنایا تھا یہاں تک کہ معاملہ گھریلو خواتین کو دھمکیاں دینے اور مقدمہ بازی تک گیا۔

یہاں سوال یہ ہے کہ اگر نادرا کے سابق سربراہ نے بقول حکومت استعفیٰ اقوام متحدہ میں بہتر ملازمت ملنے پر دیا ہے تو پھر اس رضاکارانہ استعفے کے بعد ان کا نام بیرون ملک سفر نہ کرسکنے والے افراد کی لسٹ میں کیوں ڈالا گیا؟

ان دنوں دستور کی حاکمیت اور انسانی حقوق کے تحفظ کے لئے سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ اور پی پی پی کے دو بڑے رہنمائوں (یاد رہے کہ پی پی پی پنجاب نے دونوں کی بنیادی رکنیت معطل کردی ہے) چودھری اعتزاز احسن اور سردار لطیف کھوسہ ہاتھ پائوں مار رہے ہیں تین میں سے دو صاحبان ملٹری کورٹ کے خلاف سپریم کورٹ میں دائر درخواستوں کے مدعی ہیں اور ایک وکیل۔

انسانی حقوق کے تحفظ دستور کی حاکمیت اور عام شہریوں کے مقدمات ملٹری کورٹس میں چلانے کے عمل کو رکوانے کے لئے تینوں کا جذبہ "قابل تحسین ہے اور مناسب” ہے مگر ایک نامناسب سا سوال اگر ان تینوں ’’دستوری ڈشکروں‘‘ سے پوچھ لیا جائے تو اسے بے ادبی میں شمار نہیں کیا جانا چاہیے۔

سوال یہ ہے کہ یہ تینوں حضرات تحریک انصاف کے پونے چارسالہ دور میں 27عام شہریوں پر ملٹری کورٹس میں مقدمات چلانے اورانہیں سزائیں سنائے جانے کے وقت بیرون ملک رخصت پر گئے ہوئے تھے یا ’’چلہ کشی‘‘ میں مصروف تھے کہ چار اور کی خیر خبر ان تک نہیں پہنچ پائی؟

یہ وضاحت ضروری ہے کہ کل اگر کچھ غلط ہوا ہے تو آج کا غلط کام اس لئے درست نہیں ہوگا کہ کل بھی تو یہ کام ہوا تھا۔ منافقت یہ ہے کہ جب اپنے ممدوح کے دور حکومت میں ایک پیج بھاشن پر سر دھنتے ہوئے سماجی کارکن ادریس خٹک سمیت 27افراد پر ملٹری کورٹس میں مقدمات چلارہے تھے تو ان شخصیات کے جذبہ دستور پسندی، قانونی حاکمیت نے انگڑائیاں کیوں نہ لیں؟

مزید دلچسپ بات یہ ہے کہ جناب بندیال قبل ازیں ملٹری کورٹس کے قیام کے حق میں فیصلہ کرنے والے ایک بنچ کے رکن تھے۔ اصولی طور پر انہیں ایسی کسی درخواست کی سماعت والے بنچ میں شامل نہیں ہوناچاہی تھا۔

گزشتہ روز ملٹری کورٹس کے خلاف دائر درخواستوں کی ابتدائی سماعت کے مرحلہ میں جو کچھ ہوا وہ ہوناہی تھا۔ اس کی دو وجوہات ہیں ایک سپریم کورٹ پروسیجر قوانین اور دوسری بعض حالیہ عدالتی فیصلوں سے ہوئی تقسیم۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے اختلاف کرنے پر چیف جسٹس کا یہ کہنا کہ ’’ہوسکتا ہے سپریم کورٹ پروسیجر بل کے خلاف حکم امتناعی ختم ہوجائے‘‘ سے کیا مراد لی جائے؟

ظاہر ہے کہ اس سوال کا جواب خود جناب بندیال نے دیناہے جہاں تک جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے ریمارکس اور موقف پر طوفان برپا کرنے والے انصافیوں مجاوروں اور سوشل میڈیا مجاہدین کے رونے دھونے کا تعلق ہے تو یہ فقط یہی نہیں ہر سیاسی اور مذہبی گروہ کے کارندگان یہی رویہ اپناتے اور اس کا مظاہرہ کرتے ہیں مثلاً ماضی میں بندیال کی فوجی وردی والی فوٹو شاپ تصاویر کی مذمت کرتے ہوئے جو لوگ یہ کہتے تھے کہ یہ ملک کی سب سے بڑی عدالت پر حملہ ہے

کل سے قاضی عیسیٰ کی ویسی ہی ایک فوٹو شاپ تصویر ان کی والوں پر کھجل ہورہی ہے اور میسنے داد کے ساتھ کہہ بھی رہے ہیں کہ ہم تو پہلے ہی کہتے تھے۔

کیا کہتے تھے کالم میں لکھنا ممکن نہیں کسی کو اچھا لگے یا برا تلخ حقیقت یہی ہے کہ بعض حالیہ فیصلوں ہی نہیں ماضی کے درجنوں ایسے فیصلے ہیں جن سے ملکی نظام انصاف پر سوالات اٹھے۔

ہمارے معزز جج صاحبان اچھی طرح جانتے ہیں کہ کب اور کس فیصلے نے عدالتی ساکھ کو متاثر کیا ۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اعتماد سازی کے لئے کبھی ایک دو قدم نہیں اٹھائے گئے۔

نامناسب وہ بل تھا جس کے ذریعے سینیٹ کے چیئرمین (حاضر و سابق پر مراعات کی برسات کرادی گئی) کے لئے مراعات منظور ہوئیں اور پھراس مراعاتی بل کی خبریں نشر ہونے پر تماشا لگ گیا۔

گزشتہ روز پیپلزپارٹی کے ایک بزرگ سینیٹر بولے ہم نے پڑھے بغیر بل پر دستخط کردیئے۔ کیوں صاحب دستخط کرتے وقت چشمہ دستیاب نہیں تھا یا کچھ اور؟ چیئرمین سینیٹ کی مراعات والے بل میں پہلا غلط کام یہ ہوا کہ خود کو سیاسی جماعتیں کہلوانے والی پیپلزپارٹی اور (ن) لیگ و اتحادیوں کے ارکان نے سوچے سمجھے پڑھے بغیر اس بل پر دستخط کردیئے۔

دوسری غلطی یہ ہوئی کہ بل کو متعلقہ قائمہ کمیٹی میں بھجوائے بغیر ایوان میں پیش کرکے منظور کرالیا گیا۔ یہ درست ہے کہ اب پیپلزپارٹی اور (ن) لیگ کے بڑے کہہ رہے ہیں بل غلط منظور ہوا ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا لیکن سوال یہ ہے کہ دونوں جماعتوں کے سینیٹرز صاحبان نے اس نامناسب بل کی منظوری میں حصہ کیوں ڈالا؟

یہاں ایک سوال اور ہے وہ یہ کہ کیا بل کا مسودہ حکمران اتحادی سینیٹروں کو چیئرمین سینیٹ کے دفتر کی جانب سے فراہم کیا گیا تھا یا اطلاعات کے مطابق دونوں جماعتوں کے چند سینیٹرز نے چیئرمین آفس کی مشاورت سے بل کا مسودہ تیار کیا؟ بل واپس لینے اور منظوری کے عمل کو منسوخ کرانے سے قبل اس کی وضاحت ضرور ہونی چاہیے۔

یہ بھی نامناسب عمل ہے کہ تحریک انصاف کے جو رہنما مختلف مقدمات میں مطلوب ہیں پنجاب پولیس ان کے گھروں کی خواتین اور بچوں کو گرفتار کررہی ہے۔ تازہ مثال لاہور سے جموں و کشمیر قانون ساز اسمبلی کے ایک رکن دیوان صاحب کی اہلیہ اور صاحبزادی کی گرفتاری ہے۔ اسی طرح پی ٹی آئی چکوال کے صدر کی عدم گرفتاری پر ان کے طالب علم صاحبزادے کی گرفتاری، اس بچے کو جو ایبٹ آباد کے تعلیمی ادارے میں زیرتعلیم ہے،

گزشتہ روز پولیس نے ہتھکڑیاں لگاکر چکوال کی عدالت میں پیش کیا۔ معصوم طالب علم کی گرفتاری اور اسے ہتھکڑی لگاکر عدالت میں پیش کرنا دونوں عمل قابل مذمت سے بھی آگے کی چیز ہیں۔ مناسب ہوتا اگر پنجاب پولیس روایتی ہتھکنڈوں اور چلتر بازیوں کے مظاہرے سے گریز کرتی۔

کسی بھی سیاسی کارکن یا کسی مقدمہ میں مطلوب شخص کے اہل خانہ کی گرفتاری پنجاب پولیس کا پرانا طریقہ واردات ہے اس سے ممکن ہے پولیس کی دہشت تو قائم ہوجاتی ہو لیکن یہ نامناسب کام جس دور میں بھی ہوئے اس دور کی حکومت کے ذمہ داران کو بعد میں بھگتنا بھی پڑا۔

9مئی یا اس سے قبل و بعد میں درج مقدمات میں مطلوب افراد کی گرفتاریوں کے عمل میں قانون سے تجاوز نہیں ہونا چاہیے۔ خواتین اور بچوں کو گرفتاریوں کے لئے ہتھکنڈے کے طور پر گرفتار کرنا صریحاً غلط ہے۔

پنجاب حکومت کو نہ صرف اس کی معذرت کرنی چاہیے بلکہ بدلے میں گرفتار شدہ خواتین اور بچوں کو فوری طور پر رہا کرنا چاہیے۔

یہ بھی پڑھیں:

About The Author