حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’جیون ایک کہانی‘‘ پڑھنے والی کتاب ہے۔ 1947ء بٹوارے کے دو رنگ اپنے اندر لئے ہوئے۔ ایک رنگ وہ ہے جو بٹوارے کے حوالے سے ہمارے ہاں پون صدی سے زبان زد عام ہے خون میں ڈوبا بٹوارہ۔ اتنا خون بہا کہ ہجرت کرنے والے خون کا دریا عبور کرکے تقسیم شدہ پنجاب کی حدود عبور کرپائے۔
دوسرا رنگ ’’جیون ایک کہانی‘‘ میں موجود ہے۔ یہ وہ رنگ ہے جو عموماً ہمارے یہاں کی نسلوں کی آنکھوں سے اوجھل رہا۔ اس میں بندے کٹے نہ لہو بہا ہجرت سہل انداز میں مکمل ہوئی۔ لوگ ہوائی جہازوں، بحری جہاز یا دوسرے ان ذرائع سے جو سرکار کی ’’امان‘‘ میں تھے۔ ہجرت کا لمبا سفر طے کرکے پاکستان پہنچے اور فوری طورپر روزگار مل گیا۔
سینکڑوں خاندان جن کا تعلق نچلے درمیانے یا اعلیٰ درجہ کی سول و فوجی افسر شاہی سے تھا ان کے سربراہوں نے اپنی خدمات حکومت پاکستان کے سپرد کردیں۔
اس لئے حکومت کو اپنے اہلکاروں اور چھوٹے بڑے افسروں کے خاندانوں کو بحفاظت ان کے آبائی علاقوں سے پاکستان لانے کی ذمہ داری نبھانا پڑی۔
’’جیون ایک کہانی‘‘ کے مصنف علی احمد خان نے پہلی ہجرت چند برس کی عمر میں پاک فضائیہ کے طیارے میں کی تھی ابتدائی تعلیم انہوں نے کراچی، پشاور اور رسالپور میں حاصل کی پھر اپنے والد کے پاس مشرقی پاکستان کے شہر دیناج پور منتقل ہوگئے۔
علی احمد خان نے دوسری ہجرت کے لئے "فصل کاشت” ہوتے اپنی آنکھوں سے دیکھی۔ جمہوریت اور شرف انسانی پر یقین کامل رکھنے والے علی احمد خان نے خود کو مشرقی بنگال یا مشرقی پاکستان کے سماج کا کارآمد حصہ بنانے کے لئے انھتک شعوری جدوجہد کی۔
انہوں نے کبھی مہاجر شاونزم کی حوصلہ افزائی کی نہ اس میں حصہ ڈالا۔ ان کے خیال میں تقسیم بھلے جیسی بھی تھی اس نے اختیاری و بے اختیاری انتقال آبادی کے بعد اپنی جنم بھومیوں سے ہزاروں لاکھوں خاندانوں کو جہاں لابسایا اب یہی ان کا وطن اور سب کچھ تھا۔
انہوں نے ہمیشہ اس بات کی حمایت کی کہ مشرقی بنگال آبسنے والے بہاری و دوسرے مسلم مہاجرین کو چاہیے مقامی آبادیوں سے الگ تھلگ اپنی الگ دنیا بسانے اور کامل تہذیب کی مالا جپنے کی بجائے انہیں درمیانی راستہ نکالنا چاہیے۔
غالباً وہ یہ سمجھتے تھے کہ دو تہذیبیں مل کر نئی گنگا جمنائی تہذیب کی بنیاد رکھ سکتی ہیں بالفرض ایسا نہ بھی ہوپائے تو قربتوں سے پیدا ہونے والا تعلق اجنبیت اور تعصبات کے بتوں کو توڑنے میں معاون بنے گا۔
ہم ’’جیون ایک کہانی‘‘ پڑھتے ہوئے ان کے اس دکھ کو محسوس کرسکتے ہیں جو اپنے خوابوں کی تعبیر نہ ملنے پر انہیں ہوا بلکہ یہ ہمدم زندگی بن گیا۔ پہلی ہجرت تقسیم برصغیر جتنی آسانی سے مکمل ہوئی دوسری ہجرت نے اتنے ہی گہرے گھائو لگائے انہیں کڑیل جوان بھائیوں اور بزرگ والد کے سفاکانہ قتل کی اطلاع تو ملی لیکن وائے حسرتا کہ نعشیں ملیں نہ تدفین کرپائے۔
ان کی داستان حیات کا یہ لہو رنگ حصہ سطر سطر خون رونے پر مجبور کردیتا ہے ۔ کیا ستم ہے کہ ایک طبقہ کے نزدیک بنگالی خاتون کا غیربنگالی شوہر ملعون تھا تو دوسرے کے نزدیک غیربنگالی شخص کی بنگالی اہلیہ ملعونہ، بنگالیوں کے شدت پسندوں نے غیربنگالیوں کو ملعون دھرتی کا بوجھ ناجائز قابض، مغربی پاکستانی اشرافیہ کا ٹوڈی اور جاسوس سمجھا اور وہی سلوک کیا جس سلوک کے یہ کردار حق دار ہوئے۔
غیر بنگالیوں نے بنگالیوں کو اسلام اور پاکستان کا غدار و ملعون سمجھ کر کاٹا۔
مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بننے کا عمل راتوں رات طے نہیں ہوا ایک لمبی کہانی ہے۔ ہمارے ہاں کچھ لوگ اس کہانی کا ابتدائیہ بنگالی کی جگہ اردو کو قومی زبان قرار دینے کو سمجھتے ہیں۔ میرے خیال میں یہ پانچ دس فیصد تو درست ہے مکمل سچ ہرگز نہیں۔
وجہ یہی ہے کہ گوناں گوں مسائل غربت و استحصال کے باوجود بنگالی سماج سیکولر جمہوریت کی دولت سے مالامال تھا ان کے نزدیک پاکستان ایک ایسی سیکولر جمہوری ریاست کے تشخص کے ساتھ تعمیر ہوگا جہاں ذات پات دھرم و عقیدہ اور نسل و مقامیت و غیرمقامیت کی جگہ انصاف، مساوت و تعلیم، علم اور بنیادی حقوق کا دوردورہ ہوگا
لیکن قیام پاکستان کے کچھ عرصہ بعد ہی ان بنگالیوں پر یہ حقیقت دوچند ہوگئی کہ برطانوی سامراج کی جگہ دیسی سامراج نے لے لی ہے اور اس دیسی سامراج کو یہ خبط بھی ہے کہ اس نے بنگالیوں کو ہندوئوں اور برطانیہ سے آزادی دلائی ہے اور اب اس کی اسلامی تعلیم و تربیت ان کا فرض ہے۔
ظاہر ہے تربیت کے لئے اختیار اور وسائل درکار ہوتے ہیں اس لئے کاروباری زندگی کے ساتھ دفتری امور میں غیرمقامی چھاتے چلے گئے رہی سہی کسر جداگانہ انتخابات کے قانون نے پوری کردی۔ مزید ستم اس سوچ نے ڈھایا کہ نذرالاسلام کی بنگالی دانش تو قبول ہے وہ ہمارے مسلمان بھائی ہیں لیکن اس "موئے نگوڑے ہندو ٹیگور کی دانش سے ہمیں کیا لینا دینا” ۔
علی احمد خان نے مشرقی بنگال میں مقامیت و غیرمقامیت کے تضادات ان کے اسباب اور دیگر وجوہات پر کھلے ڈھلے انداز میں رائے دی ہے انہوں نے جسے غلط سمجھا سینہ ٹھوک کر اسے غلط کہا جسے درست سمجھا پورے احترام کے ساتھ اس کی ہمنوائی کی۔
دو ہجرتوں کے عدم توازن کو بھگتنے والے شخص نے کسی پل بھی انصاف کا دامن ہاتھ سے نہیں جانے دیا انہوں نے جہاں بنگال رائفلز کے باغیوں کے ہاتھوں اپنے والد بھائیوں اور دوسرے عزیزوں کے سفاکانہ قتل کا تذکرہ کیا وہیں غیرمقامیوں کےبنائے مسلح جتھوں کے ہاتھوں بنگالی خاندانوں کی بربادی کا نوحہ بھی لکھا۔ اپنے اس وصف کی بدولت وہ اپنے پڑھنے والوں کے لئے قابل احترام تو ہوئے ہی لیکن یہ وصف انہیں تاریخ میں ایک صائب الرائے شخص کے طور پر زندہ رکھنے کے لئے کافی ہے۔
پاکستان کی ابتدائی 25 سالہ تاریخ کے عینی شاہد کے طورپر انہوں نے جو لکھا وہ آنکھ دیکھا کانوں سنا ہے۔ سیاسی فہم کے حوالے سے ان کی رائے عین ممکن ہے کہ وجہ اختلاف ہو لیکن میرے خیال میں محض اس لئے ان کی رائے کو نظرانداز نہیں کیا جانا بنتا کہ انہیں اپنے پڑھنے والوں میں سے چند یا زیادہ تر کے لئے محبوب سیاسی شخصیات پسند نہیں آئیں۔
پسند و ناپسند انسان کا کامل حق ہے۔ علی احمد کی جس خوبی نے مجھ طالب علم کو متاثر کیا وہ ان کی صاف گوئی۔ دشمن کی خوبی اور اپنے کی کم ظرفی کا کھلا اعتراف ہے۔
انہوں نے چند دیگر لوگوں کی طرح مشرقی بنگال کے بنگلہ دیش بننے کا ملبہ بھارت اور بنگالیوں پر ڈال کر دامن نہیں جھاڑ لیا بلکہ ان کجوں، استحصالی رویوں، موقع پرستیوں، تعصبات اور کم ظرفیوں کی کھل کر نشاندہی کی جو بنگلہ دیش بننے میں معاون ثابت ہوئیں۔
اپنے سفر حیات میں روزگار کے حصول کے لئے انہیں بے پناہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑا مگر ہمت نہیں ہارے انہوں نے اپنوں (غیرمقامیوں) اور مقامیوں (بنگالیوں) کے درمیان بُعد کا باعث بننے والے امور کی صراحت کے ساتھ نشاندہی کی۔
سقوط مشرقی پاکستان کے بعد بھارتی فوج کے تاجرانہ رویوں اور پھر بنگالی فوج کے انسان دشمن طرزعمل کے بیچوں بیچ انہوں نے ان بنگالی دوستوں کو فراغ دلی سے یاد کیا جنہوں نے بدترین لمحات میں ان کی اور دیگر غیر مقامیوں کی مدد اور دلجوئی کی۔
سقوط مشرقی پاکستان کے حقیقی اسباب جاننے کے خواہش مند طلباء کو ’’جیون ایک کہانی‘‘ کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے۔ یہ مطالعہ ان پر عیاں کرے گا کہ دو قومی نظریہ اور مسلم قومیت کے تصورات ایسے کند خنجر تھے جن سے مقامیت کا گلہ ذبح کرنا مقصود تھا تاکہ مہاجرین کی حاکمیت کا حق تسلیم کیا جائے۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ