رؤف کلاسرا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اعتزاز احسن اور لطیف کھوسہ کو پیپلز پارٹی کی طرف سے شو کازنوٹس بھیجے گئے ہیں۔ اطلاعات ہیں کہ انہیں پارٹی سے نکال دیا گیا ہے۔ کبھی کبھار تو اپنی آنکھوں پر یقین ہی نہیں آتا کہ ہم انسان خود یا ہمارے حالات کتنی تیزی سے بدلتے ہیں۔انہی آنکھوں نے اعتزاز احسن کو پرانے راولپنڈی ایئرپورٹ پر مریم نواز کیساتھ بھی دیکھا ہوا ہے جب وہ اٹک قلعے میں قید نواز شریف کا مقدمہ لڑ رہے تھے۔ یہ وہ دور تھا جب پرویز مشرف کے خوف سے کوئی نواز شریف کا کیس لینے کو تیار نہ تھا۔ اعتزاز احسن نے بینظیر بھٹو کی اجازت سے شریفوں کو مظلوم ثابت کرنے کا بیڑا اٹھایا۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ اعتزاز احسن شریفوں کے اتنے قریب ہوگئے تھے کہ اگست 2007ء میں جب وہ لندن گئے تو اعتزاز احسن کا ڈیوک سٹریٹ میں نواز شریف کے دفتر میں ہیرو جیسا استقبال ہوا تھا جبکہ بینظیر بھٹو کئی دن تک ان سے ملی تک نہیں تھیں۔ میں نے خود مرحوم رحمن ملک کے ایجوائے روڈ پر واقع فلیٹ کے باہر اعتزاز احسن سمیت بڑے بڑے لیڈروں کوانتظار کرتے دیکھا تھا کہ رحمن ملک کے فلیٹ کا دروازہ کھلے تو وہ اندر داخل ہوں۔ اور پھر وہ منظر بھی دیکھا جب نواز شریف کی 2013ء میں حکومت آتے ہی وفاقی وزیر سعد رفیق نے سینیٹ میں اعتزاز احسن کو رگڑ ا کہ وہ تو مافیا اور بلڈرز کے وکیل رہے ہیں۔ جس پر اعتزاز احسن نے کہا تھا کہ سعد رفیق ٹھیک کہہ رہا ہے‘ میں مافیا کی وکالت کرتا رہا ہوں۔ میں نواز شریف کا بھی وکیل رہا ہوں۔آج اسی نواز شریف اور شریف خاندان کے بڑے سیاسی حریف عمران خان کے گھر پر اعتزاز احسن اور لطیف کھوسہ کے ڈیرے ہیں۔ چیئرمین پی ٹی آئی اپنی تنہائی دور کرنے کیلئے لطیف کھوسہ کے گھر بھی گئے کیونکہ ان کے اپنے وکیل زمان پارک کا راستہ بھول چکے ہیں۔ اب ان کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہا کہ وہ اعتزاز احسن اور لطیف کھوسہ کے کندھوں پر سوار ہو جائیں۔ یہی اعتزاز احسن‘ جنہیں اب شاید پارٹی سے بھی نکال دیا جائے‘ وہ اُس وقت صدر زرداری کی آنکھ کا تارا بن گئے تھے جب آصف زرداری کو سپریم کورٹ میں ان کی ضرورت تھی۔ تب اعلیٰ عدلیہ کی طرف سے گیلانی حکومت پر دبائو تھا کہ وہ آصف زرداری کی ساٹھ ملین ڈالرز منی لانڈرنگ پر سوئس حکومت کو خط لکھ کر وہ مقدمہ دوبارہ کھولے جو صدر مشرف کے این آر او کی وجہ سے بند ہو گیا تھا۔ آصف زرداری خوفزدہ تھے کہ اگر وہ مقدمہ دوبارہ کھل گیا تو وہ ساٹھ ملین ڈالرز سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔ یوں عدلیہ سے ٹکر لینے کا فیصلہ ہوا۔ پہلے بابر اعوان کو آگے کیا گیا جنہوں نے وزارتِ قانون سے استعفیٰ دے کر بھٹو کیس کے ریفرنس کا وکیل بننا پسند کیا تھا۔ وہ ریفرنس جسے دس برس سے زائد گزرنے کے بعد آج تک نہیں سنا گیا۔ اس دوران اعتزاز احسن نے افتخار چودھری کو گاڑی پر بٹھا کر پورے پاکستان کی سیر کرائی تھی لہٰذا جب آصف زرداری کو احساس ہوا کہ بات نہیں بن رہی تو فوراً اعتزاز احسن کو آگے کر دیا اور بابر اعوان‘ جنہوں نے وزارت قربان کی تھی‘ انہیں ڈمپ کر دیا گیا۔ آصف زرداری کا خیال تھا کہ اعتزاز احسن کیلئے یہی وقت ہے کہ وہ افتخار چودھری سے ان کی بحالی کا صلہ مانگیں۔ اعتزاز احسن کو لگا کہ لوہا گرم ہے۔ آصف زرداری پھنس چکے تھے۔ افتخار چودھری پر وہ احسان کر چکے تھے لہٰذا ایک تیر سے دو‘ تین شکار کر لیے جائیں۔ پہلے توحریف بابر اعوان کو سبق سکھایا جائے جو آصف زرداری کے بڑے قریب تھے۔ یوں اعتزاز احسن نے آصف زرداری سے کہا کہ مجھے بابر اعوان سے بیان حلفی لے کر دیں کہ سپریم کورٹ کا حکم نہ ماننے کی وجہ وہ یعنی وزیر قانون تھا‘ وزیراعظم گیلانی نہیں۔ بابر اعوان نے پورا کھیل بھانپ لیا۔ انہوں نے فوراً فیصلہ کیا اور پارٹی چھوڑ کر تحریک انصاف کا رخ کیا جہاں بابر اعوان جیسے سیاسی طور پر سمجھدار اور ذہین شخص کی ضرورت تھی اور انہیں ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔ آصف زرداری کو علم تھا کہ جب تک افتخار چودھری چیف جسٹس ہیں‘ انہیں اعتزاز احسن کی ضرورت رہے گی کیونکہ ججز بحالی تحریک میں سب ججز ان کے شکر گزار تھے۔ آصف زرداری نے اعتزاز احسن کو سینیٹر بنا دیا لیکن اعتزاز احسن ایک کام بھی نہ کرا سکے۔ افتخار چودھری نے گیلانی کو نااہل قرار دے کر برطرف کر دیا۔ اعتزاز احسن یوسف رضا گیلانی کے وکیل تھے۔ یوں اعتزاز احسن‘ جو چیف جسٹس کی گاڑی ڈرائیو کرنے کا اعزاز رکھتے تھے‘ وہ یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ انہوں نے افتخار چودھری کو بحال کرا کے غلطی کی تھی۔ جنہوں نے انہیں آصف زرداری کی آنکھ میں ہیرو نہیں بننے دیا‘ ان کا کوئی لحاظ یا خیال نہ کیا گیا۔
اب شاید اعتزاز احسن اور لطیف کھوسہ کو یہ احساس ہوا ہے کہ ان کا پیپلز پارٹی میں فیوچر ختم ہو چکا ہے۔ پارٹی پنجاب سے فارغ ہو چکی ہے۔ پنجاب میں تحریک انصاف کا ووٹ ہے پیپلز پارٹی کا نہیں۔ اس لیے پیپلز پارٹی میں رہ کر اب وہ پنجاب سے سینیٹر‘ ایم این اے یا وزیر نہیں بن سکتے۔ اگر انہوں نے پنجاب یا مرکز میں عہدے لینے ہیں تو انہیں اب پی ٹی آئی کی طرف رخ کرنا ہوگا جہاں بابر اعوان عرصہ دراز سے براجمان ہیں اور پارٹی چیئرمین کے بڑے قریبی ہیں۔ اعتزاز احسن اور لطیف کھوسہ بڑے عرصہ سے تلاش میں تھے کہ کب موقع ملے اور وہ پی ٹی آئی کے بڑے ہمدرد بن کر ابھریں اور باقی سب کو پچھاڑ دیں۔ یہ موقع ان دونوں کو نو مئی کے واقعات نے فراہم کیا جب پی ٹی آئی کے اہم لوگ بھاگ گئے اور خود چیئرمین تحریک انصاف بھی غلط وقت پر غلط سٹینڈ لے بیٹھے۔ یوں وہ زمان پارک‘ جہاں پہلے رونقیں لگی رہتی تھیں‘ وہاں اب الو بولتے ہیں اور چیئرمین پی ٹی آئی خود کہتے ہیں کہ وہ اکیلے ہوگئے ہیں۔ اب بوڑھے کرنل کو کوئی خط نہیں لکھتا (گارشیا کے ناول کا عنوان)۔ ان حالات کا فائدہ اعتزاز احسن اور لطیف کھوسہ نے اٹھانے کا فیصلہ کیا۔ اعتزاز احسن کو لگا وہی صورت حال پھر پیدا ہو رہی ہے جو 2007ء میں ہوئی تھی۔ انہیں لگا کہ ایک نئے افتخار چودھری کا جنم ہوگااور وہ لاکھوں عوام کو سڑکوں پر لے آئیں گے۔ پھر لائیو ٹی وی کیمرے ہوں گے اور ان کی دھواں دھار تقریریں۔ اس دفعہ لطیف کھوسہ بھی گاڑی میں بیٹھنے کو پر تول رہے تھے۔ لطیف کھوسہ کو لگا کہ بابراعوان اور اعتزاز احسن اچھے وقت پر اچھی ڈیل کرگئے تھے اور وہ پیچھے رہ گئے تھے۔ لہٰذا اس دفعہ لطیف کھوسہ نے سارے پتے کھیلنے کا فیصلہ کیا اور چیئرمین پی ٹی آئی کیلئے تن من کی بازی لگا دی۔ آپ پوچھیں گے دھن کی کیوں نہیں تو وہ اتنے بھولے بھی نہیں ہیں کہ چیئرمین تحریک انصاف پر دھن کی بارش پر کر دیں۔
کھوسہ صاحب کی قابلیت سے یاد آیا کہ سینیٹ میں ایک دن چیئرمین کی کرسی پر خالد رانجھا براجمان تھے تو کھوسہ صاحب بار بار ان سے بولنے کا موقع مانگ رہے تھے۔ دو‘ تین دفعہ رانجھا صاحب نے کہا کہ کھوسہ صاحب صبر کریں‘ آپ کو وقت دیتا ہوں۔ کھوسہ صاحب پھر اٹھے تو خالد رانجھا نے واقعہ سنایا کہ ایک دفعہ کھوسہ صاحب کسی کیس میں ملزم کے وکیل بن کر پیش ہوئے‘ جج نے کھوسہ صاحب کو دیکھ کر فوراً ضمانت دے دی۔ کھوسہ صاحب نے کہا: سر میں آرگومنٹس دینا چاہتا ہوں۔ جج نے کہا: آپ کو ضمانت درکار تھی‘ دے دی ہے۔ کھوسہ کو لگا کہ کلائنٹ سمجھے گا کہ شاید کیس معمولی تھا جبکہ وہ تگڑی فیس لے چکے تھے۔ انہوں نے کہا: مائی لارڈ میں آرگومنٹ دوں گا۔ جج صاحب نے کہا: چلیں دیں آرگومنٹس۔ کھوسہ صاحب کافی دیر آرگومنٹس دیتے رہے۔ جب رکے تو جج نے کہا دلائل مکمل ہو گئے؟ کھوسہ صاحب نے کہا جی۔ جج نے کہا ضمانت کینسل کی جاتی ہے۔
عقل مند کیلئے اشارہ کافی ہے‘ اگے خان دی قسمت۔
اعتزاز احسن اگر وزیراعظم گیلانی کو برطرف کرا آئے تھے تو لطیف کھوسہ اپنے دلائل سے کلائنٹ کی اچھی خاصی ہوئی ضمانت منسوخ کرا کے اسے جیل بھجوا آئے تھے۔
اب شاید اعتزاز احسن اور لطیف کھوسہ کو یہ احساس ہوا ہے کہ ان کا پیپلز پارٹی میں فیوچر ختم ہو چکا ہے۔ پارٹی پنجاب سے فارغ ہو چکی ہے۔ پنجاب میں تحریک انصاف کا ووٹ ہے پیپلز پارٹی کا نہیں۔ اس لیے پیپلز پارٹی میں رہ کر اب وہ پنجاب سے سینیٹر‘ ایم این اے یا وزیر نہیں بن سکتے۔ اگر انہوں نے پنجاب یا مرکز میں عہدے لینے ہیں تو انہیں اب پی ٹی آئی کی طرف رخ کرنا ہوگا جہاں بابر اعوان عرصہ دراز سے براجمان ہیں اور پارٹی چیئرمین کے بڑے قریبی ہیں۔ اعتزاز احسن اور لطیف کھوسہ بڑے عرصہ سے تلاش میں تھے کہ کب موقع ملے اور وہ پی ٹی آئی کے بڑے ہمدرد بن کر ابھریں اور باقی سب کو پچھاڑ دیں۔ یہ موقع ان دونوں کو نو مئی کے واقعات نے فراہم کیا جب پی ٹی آئی کے اہم لوگ بھاگ گئے اور خود چیئرمین تحریک انصاف بھی غلط وقت پر غلط سٹینڈ لے بیٹھے۔ یوں وہ زمان پارک‘ جہاں پہلے رونقیں لگی رہتی تھیں‘ وہاں اب الو بولتے ہیں اور چیئرمین پی ٹی آئی خود کہتے ہیں کہ وہ اکیلے ہوگئے ہیں۔ اب بوڑھے کرنل کو کوئی خط نہیں لکھتا (گارشیا کے ناول کا عنوان)۔ ان حالات کا فائدہ اعتزاز احسن اور لطیف کھوسہ نے اٹھانے کا فیصلہ کیا۔ اعتزاز احسن کو لگا وہی صورت حال پھر پیدا ہو رہی ہے جو 2007ء میں ہوئی تھی۔ انہیں لگا کہ ایک نئے افتخار چودھری کا جنم ہوگااور وہ لاکھوں عوام کو سڑکوں پر لے آئیں گے۔ پھر لائیو ٹی وی کیمرے ہوں گے اور ان کی دھواں دھار تقریریں۔ اس دفعہ لطیف کھوسہ بھی گاڑی میں بیٹھنے کو پر تول رہے تھے۔ لطیف کھوسہ کو لگا کہ بابراعوان اور اعتزاز احسن اچھے وقت پر اچھی ڈیل کرگئے تھے اور وہ پیچھے رہ گئے تھے۔ لہٰذا اس دفعہ لطیف کھوسہ نے سارے پتے کھیلنے کا فیصلہ کیا اور چیئرمین پی ٹی آئی کیلئے تن من کی بازی لگا دی۔ آپ پوچھیں گے دھن کی کیوں نہیں تو وہ اتنے بھولے بھی نہیں ہیں کہ چیئرمین تحریک انصاف پر دھن کی بارش پر کر دیں۔
کھوسہ صاحب کی قابلیت سے یاد آیا کہ سینیٹ میں ایک دن چیئرمین کی کرسی پر خالد رانجھا براجمان تھے تو کھوسہ صاحب بار بار ان سے بولنے کا موقع مانگ رہے تھے۔ دو‘ تین دفعہ رانجھا صاحب نے کہا کہ کھوسہ صاحب صبر کریں‘ آپ کو وقت دیتا ہوں۔ کھوسہ صاحب پھر اٹھے تو خالد رانجھا نے واقعہ سنایا کہ ایک دفعہ کھوسہ صاحب کسی کیس میں ملزم کے وکیل بن کر پیش ہوئے‘ جج نے کھوسہ صاحب کو دیکھ کر فوراً ضمانت دے دی۔ کھوسہ صاحب نے کہا: سر میں آرگومنٹس دینا چاہتا ہوں۔ جج نے کہا: آپ کو ضمانت درکار تھی‘ دے دی ہے۔ کھوسہ کو لگا کہ کلائنٹ سمجھے گا کہ شاید کیس معمولی تھا جبکہ وہ تگڑی فیس لے چکے تھے۔ انہوں نے کہا: مائی لارڈ میں آرگومنٹ دوں گا۔ جج صاحب نے کہا: چلیں دیں آرگومنٹس۔ کھوسہ صاحب کافی دیر آرگومنٹس دیتے رہے۔ جب رکے تو جج نے کہا دلائل مکمل ہو گئے؟ کھوسہ صاحب نے کہا جی۔ جج نے کہا ضمانت کینسل کی جاتی ہے۔
عقل مند کیلئے اشارہ کافی ہے‘ اگے خان دی قسمت۔
اعتزاز احسن اگر وزیراعظم گیلانی کو برطرف کرا آئے تھے تو لطیف کھوسہ اپنے دلائل سے کلائنٹ کی اچھی خاصی ہوئی ضمانت منسوخ کرا کے اسے جیل بھجوا آئے تھے۔
یہ بھی پڑھیے:
ملتان میں قتلِ آم||رؤف کلاسرا
آخر سیکھ ہی گئے!۔۔۔رؤف کلاسرا
پُرانے جال ، پُرانے شکاری۔۔۔ رؤف کلاسرا
ایک بڑا ڈاکا اور بڑی واردات تیار… ۔۔۔ رؤف کلاسرا
پانچ ارب کی واردات کی داستان …(1)۔۔۔ رؤف کلاسرا
پانچ ارب کی واردات کی داستان …(2)۔۔۔ رؤف کلاسرا
پانچ ارب کی واردات کی داستان …(3)۔۔۔ رؤف کلاسرا
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر