نذیر ڈھوکی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں ان خوش قسمت جیالوں میں شامل ہوں جس نے زندگی کے 29 سال محترمہ بینظیر بھٹو شہید کے سائے میں گزارے ، میرے لیئے اعزاز کی بات ہے محترمہ بینظیر بھٹو شہید نے مجھے سیاسی پہچان دی ،معاشرے میں باوقار مقام دیا ، مجھے فخر ہے کہ میرے والد بھی جیالے قائد عوام شہید کے سچے پیروکار تھے یہ ہی وجہ تھی کہ محترمہ بینظیر بھٹو شہید کا میری وفاداری اور ثابت قدمی پر بھروسہ تھا ،طالب علمی کے زمانے میں سندھ پیپلز اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے عہدے دار کے ساتھ ساتھ محترمہ بینظیر بھٹو شہید کی سیکیورٹی کا ذمہ دار بھی رہا اور 1993 سے دسمبر 2007 تک ان کا میڈیا کوارڈینیٹر رہا۔
حقیقت یہ ہے کہ محترمہ بینظیر بھٹو شہید واحد سیاسی شخصیت ہیں جس نے پاکستان پیپلزپارٹی کو ایک خاندان بنایا ایسا خاندان جس کی خوشیاں اور دکھ سانجھے ہیں ۔
میں نے اس عرصے میں دیکھا جب محترمہ بینظیر بھٹو شہید عالمی راہنماؤں سے ملتی تھیں تو محترمہ شہید کی شخصیت بڑی نظر آتی تھی مگر غریب عوام کے پاس ہوتی تھی تو ایسا لگتا تھا جیسے وہ صرف ان کی ہیں اور تھا بھی ایسا ہی، شہید محترمہ بینظیر بھٹو جب غریب خواتین کے درمیان ہوتی تھی تو شدید گرمی سے بے نیاز ہوکر ان کے ساتھ دھوپ میں بھی کئی پہر بیٹھ کر ان کے دکھڑے سنا کرتی تھیں ان کا شمار عالمی لیڈروں میں ہوتا تھا مگر وہ حقیقت میں غریبوں کی بی بی تھی، دیکھا جائے تو محترمہ بینظیر بھٹو شہید کی سیاسی زندگی مشکلات اور المناک صدمات سے بھرپور ہے مگر ان کی بہادری سے ان مخالفین بھی انکار نہیں کرتے ان صبر اور درگزر کرنے کے اصول اس حقیقت کی نشاندہی کرتے ہیں شہید بی بی اللہ تعالٰی کی خاص مخلوق اور قوم کے لیئے ایک نایاب تحفہ تھی، حقیقت یہ ہے کہ محترمہ بینظیر بھٹو شہید نہ وقت کے سفاک آمروں سے ڈری نہ دہشت گردوں سے ان کی لڑائی ہی دہشت سے رہی ۔
جی ہاں محترمہ بے نظیر بھٹو شہید نے ملک کو میزائل ٹیکنالوجی دی تاکہ ملک ملک کا دفاع ناقابل شکست ہو مگر غریبوں کے بچوں کو پرکشش ملازمتیں دے کر اپنے عظیم والد کی فلاسفی کو سچ ثابت کیا کہ یہ کوئی قدرت کا قانون نہیں ہے کہ غریبوں کے بچے بھی غریب ہی رہیں۔ میں نے دیکھا محترمہ بینظیر بھٹو شہید جب کچرے سے رزق تلاش کرنے والے بچوں کو دیکھتی تھی تو دکھی ہو جاتی تھی اور کہتی تھیں کہ میں نہیں دیکھ سکتی کہ میرے وطن کے بچے کچرے سے رزق تلاش کرتے رہیں، تعلیم ان کا حق ہے اور انہیں باعزت روزگار دینا ریاست کی ذمہ داری ہے ۔
محترمہ بینظیر بھٹو شہید کی یہ بھی خاصیت تھی کہ جھوٹی قسم کھانے والے کو شرمندہ نہیں کرتی تھی اگر کسی نے بتایا کہ بی بی آپ نے اس شخص کی جھوٹی قسم پر اعتبار کیا ہے تو کہا کرتی تھیں کہ اس شخص نے قرآن مجید کی جھوٹی قسم کھائی ہے تو اسے قرآن مجید کی مار پڑے گی، 1988 کی بات ہے سانگھڑ سے تعلق رکھنے والے شاہنواز خان جونیجو جو وفاقی وزیر تھے نے شکوہ کیا کہ
وزیراعظم صاحبہ آپ نے میرے حلقے میں ایسے لڑکے کو بہت بڑی نوکری دی ہے جو ہماری پارٹی کا مخالف ہے ہے تو محترمہ شہید نے جواب دیا کہ میں اسے نہیں جانتی مگر میں اس وقت ان کی بھی وزیراعظم ہوں میرے ملک کا بچہ ہے اور ماں کو سب بچے پیارے ہوتے ہیں۔ مجھے جب کوئی درخواست دیتا ہے تو میں یہ نہیں دیکھتی کہ مجھے ووٹ دیا ہے یا نہیں مگر میں اسے ملک کا شہری سمجھ کر اسے ان کا حق دیتی ہوں مجھے اس بات سے کوئی سروکار نہیں کہ ان کا تعلق کس پارٹی ہے مگر تعلیمی قابلیت کے مطابق سرکاری ملازمت حاصل کرنا ان کا حق ہے۔ یہ تھی عوام کی بی بی بے شک وہ ماں کی طرح شفیق بہن تھیں.
یہ بھی پڑھیں:
لیڈر جنم لیتے ہیں ۔۔۔ نذیر ڈھوکی
شاعر اور انقلابی کا جنم۔۔۔ نذیر ڈھوکی
نیب یا اغوا برائے تاوان کا گینگ ۔۔۔ نذیر ڈھوکی
ڈر گئے، ہل گئے، رُل گئے، جعلی کپتان ۔۔۔نذیر ڈھوکی
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ