نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

’’سقوطِ‘‘ کراچی ۔۔۔||حیدر جاوید سید

حیدر جاوید سید سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے نامور صحافی اور تجزیہ کار ہیں، وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان کےمختلف قومی اخبارات میں مختلف موضوعات پر تواتر سے کالم لکھ رہے ہیں، انکی تحریریں انہی کی اجازت سے ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر کی جارہی ہیں،

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سندھ کو موہنجو داڑو کے کھنڈرات سے بھی بدتر حالت میں پہنچانے والی سندھ کے چند اندرونی اضلاع کے وڈیروں کی پارٹی پیپلزپارٹی نے کراچی میں عالمگیر انقلاب اسلامی کی داعی جماعت اسلامی کے ’’مینڈیٹ‘‘ پر شب خون مارتے ہوئے میئر و ڈپٹی میئر کے عہدہ ہتھیالئے۔

اس ظلم عظیم کو نرم سے نرم الفاظ میں "سقوطِ کراچی” ہی کہا لکھا جاسکتا ہے۔

فقیر ر احموں تو کل سے سراپا احتجاج ہے۔ یہ احتجاج اتنا شدید ہے کہ چائے کا کپ اس کے سامنے رکھتے ہوئے کپ میز سے ٹکرانے سے پیدا ہوئی آواز پر کہنے لگا، ’’اب فائرنگ پر اتر آئے ہو‘‘

صالحین کل سے حافظ نعیم الرحمن کو شیخ مجیب الرحمن ثانی کے طور پر پیش کررہے ہیں ہر طرف پٹ سیاپہ ہے۔ نو انقلابی، انصافی وحدتی پرانے جماعتیے اور تو اور سوشلزم اور کمیونزم کے کچے پکے مہاتمائوں تک کا برا حال ہے۔

خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والے ایک دوست کا جماعت اسلامی سے خاندانی تعلق ہے ہمارے والد بزرگوار بھی جماعت اسلامی میں تھے اس لئے وہ محبت سے ہمیں چچازاد بھائی کہتے ہیں۔ کل انہوں نے محبت بھرا شکوہ کیا کہ

” آپ جماعت اسلامی کی فتح چرائے جانے پر خوش کیوں ہیں” ۔ مجھے عرض کرنا پڑا کہ

’’مجھے جماعت اسلامی کی شکست اور پیپلزپارٹی کی فتح سے زیادہ ایک بڑے میڈیا ہائوس کی منجی ٹھک جانے پر خوشی ہے اس میڈیا ہائوس کے مالکان کی پی پی پی اور بھٹو خاندان سے قدیم نفرت کا حق اس کے ملازمین تک ادا کرتے نہیں چوکتے‘‘۔

 

بہرحال جماعت اسلامی کے ساتھ کراچی میں جو ہوا اسے بڑے بڑے دانشور صحافی حاضر و سابق جماعتیے اور حملہ آوروں کے اولادیں پیپلزپارٹی کے شیخ مجیب الرحمن کے ساتھ سلوک سے جوڑ کر پیش کررہے ہیں اس کے بعد یہ پوچھنا فرض ہے کہ شیخ مجیب الرحمن ثانی حافظ نعیم الرحمن آزاد اسلامی جمہوریہ کراچی کے قیام کا کب اعلان کریں گے؟

حالیہ بلدیاتی انتخابات کے حتمی نتائج کے مطابق مخصوص نشستیں ملاکر پیپلزپارٹی کو کراچی میں 155، جماعت اسلامی کو 130، تحریک انصاف 63، مسلم لیگ 14، جے یو آئی 4، ٹی ایل پی کو ایک سیٹ ملی۔

گزشتہ روز میئر اور ڈپٹی میئر کے انتخابات میں پی پی پی کو 173 ووٹ ملے جبکہ جماعت اسلامی کو 160۔ پی پی پی کو (ن) لیگ کے 14اور جے یو آئی کے 4ووٹ ملے جبکہ جماعت اسلامی کو تحریک انصاف کے 63 ووٹوں میں سے 30ووٹ ملے ایک رکن فردوس شمیم نقوی کے پولنگ سٹیشن پر موجود ہوتے ہوئے ووٹ نہیں ڈالا۔

ٹی ایل پی کارکن ووٹ ڈالنے نہیں آیا۔ تحریک انصاف کے 30ارکان غیر حاضر تھے۔ جماعت اسلامی کا دعویٰ ہے کہ پی پی پی نے انہیں اغوا کرلیا ہے۔ عمران خان سے ملاقات کے بعد سے حافظ نعیم الرحمن اور جماعت اسلامی دعویدار تھے کہ ان کے پاس 194 ووٹ ہیں 130جماعت کے 63 پی ٹی آئی کے اور ایک ٹی ایل پی کا۔

دوسری طرف پی ٹی آئی کے ارکان کے ایک بڑے گروپ نے 3ٹائون میونسپل کارپوریشنز کے منصبوں کے لئے پیپلزپارٹی سے سمجھوتہ کیا تین میں سے دو میں پی ٹی آئی کے چیئرمین وائس چیئرمین بلامقابلہ منتخب ہوئے لیکن ایک کی چیئرمین شپ پی ٹی آئی کو ملی جبکہ وائس چیئرمین کا عہدہ جے یو آئی کو مل گیا۔

جماعت اسلامی کو 160 ووٹ ملے۔ اس کے اپنے اور 30تحریک انصاف کے۔ 30ارکان غیرحاضر تھے پی ٹی آئی کے حاضر 3 میں سے 2 نے ووٹ نہیں ڈالا۔

جماعت اسلامی اور تازہ ہمنوائوں کو گزشتہ روز سے مشرقی پاکستان یاد آرہا ہے۔ جس شیخ مجیب الرحمن کو جماعت اسلامی نصف صدی سے غدار بھارتی ایجنٹ اسلام دشمن کہہ لکھ پیش کررہی تھی کراچی میں میئر کے انتخابی نتائج کے بعد وہ صالحین کا ہیرو قرار پایا اور حافظ نعیم الرحمن کو ان سے نسبت دی گئی۔ پی پی پی اور ذوالفقار علی بھٹو کے حوالے سے اپنے ساٹھ برسوں کے پروپیگنڈے کے بوسیدہ اوراق و الزامات کو جھاڑ پونچھ کر جماعت اسلامی اور اس کے مختلف النسل تازہ ہمنوائوں کے ساتھ حملہ آوروں کی اولادیں جوش و خروش کے ساتھ پیش کرنے میں مصروف ہیں۔

چلیں مان لیا بھٹو اور پیپلز پارٹی نے شیخ مجیب الرحمن اور عوامی لیگ کا مینڈیٹ تسلیم نہ کرکے سقوط مشرقی پاکستان کی بنیاد رکھی۔ اب بتلادیجئے کہ جماعت اسلامی اس وقت ہاں کھڑی تھی؟

اس وقت میاں طفیل محمد فوجی آمر جنرل یحییٰ خان سے یہ توقع باندھے ہوئے تھے کہ ’’نظام اسلام کے نفاذ کا جو سلسلہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی شہادت سے رک گیا تھا جنرل آغا محمد یحییٰ خان اس کا آغاز کریں گے‘‘۔

1970ء کے انتخابات میں امریکہ نے جماعت اسلامی کو انتخابی فنڈز دیئے۔ میاں طفیل محمد نے امریکی سفیر کا شکریہ ادا کیا۔ جماعت بھٹو پر الزام لگاتی ہے کہ اس نے ’’اُدھر تم اِدھر ہم ‘‘ کا نعرہ لگایا یہ سفید جھوٹ کے سوا کچھ نہیں کیونکہ مرحوم عباس اطہر جو اس وقت روزنامہ ’’آزاد‘‘ لاہور کے چیف نیوز ایڈیٹر تھے اس اخباری سرخی کی وفات سے پہلے تک درجنوں بار وضاحت کرچکے

ان تین الزمات کو سہل انداز میں سمجھنے کے لئے معروف ترقی پسند دانشور سید علی جعفر زیدی کی کتاب ’’باہر جنگل اندر آگ‘‘ کا مطالعہ کرلیجئے۔

جماعت اسلامی مشرقی پاکستان میں اس وقت فوجی جنتا کے ساتھ کھڑی تھی اس کی تین ذیلی تنظیموں اسلامی جمعیت طلبہ، البدر اور الشمس کا ’’اسلامی کردار و عمل‘‘ سمجھنا ہو تو سقوط مشرقی پاکستان پر لکھی گئی کتابوں کا تقابلی مطالعہ کرلیجئے۔

جماعت کی تینوں ذیلی تنظیموں پر جنگی جرائم میں ملوث ہونے کے الزامات ہیں۔ یہ الزامات خود جماعت اسلامی پر بھی ہیں۔ اسلامی جمعیت طلبہ، البدر اور المشس پر عوامی لیگ نے الزام لگایا کہ یہ تینوں تنظیمیں فوجی رجیم کے ساتھ مل کر بنگالیوں کی نسل کشی اور خواتین و طالبات کے اغوا اور جنسی جرائم میں ملوث تھیں۔

جماعت والے ان الزامات کو جھوٹ قرار دیتے ہیں لیکن خود وہ دوسروں پر جو الزامات لگاتے ہیں ان کے بارے بضد ہیں کہ انہیں (الزامات کو) الہامی اعلان کے طور پر تسلیم کیا جائے۔

جماعت اسلامی، اسلامی جمعیت طلبہ، البدر و الشمس کے جنگی جرائم کی سزا آج بھی ڈھاکہ کے بہاری کیمپوں کے لاکھوں مکین بھگت رہے ہیں۔ 1947ء میں ہجرت کرکے مشرقی پاکستان آنے والے بہاریوں نے عوامی لیگ کے مقابلہ میں جماعت اسلامی اس کی ذیلی تنظیموں اور فوجی رجیم کا ساتھ دیا۔

مقامیت سے نفرت جماعت اسلامی والوں کی گھٹی میں پڑی ہوئی ہے۔ اخبارات کی پرانی فائلوں کی گرد جھاڑ کر دیکھ لیجئے کہ 1970ء، 1971ء میں جماعت اسلامی مشرقی پاکستان کے بنگالیوں بارے جو کہتی تھی

کراچی میں میئر کے حالیہ انتخابات کی مہم کے آغاز سے وہی ساری باتیں سندھیوں کے لئے کہی گئیں۔

جماعت کے امیدوار تو کہتے رہے کہ کراچی سندھیوں کی اوطاق نہیں ہے۔ لسانی تعصب کو ہتھیار بناکر پچھلے ایک ماہ کے دوران جماعت اسلامی کے امیدوار نے جو زبان درازیاں فرمائیں کسی مہذب ملک میں اس طرح کی لن ترائیوں پر وہ اب تک جیل جاچکے ہوتے۔

بھٹو نے مجیب کا مینڈنٹ نہیں مانا تھا لیکن فوجی آمر جنرل یحییٰ خان نے جو ضمنی انتخابات کروائے تھے مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ کو کالعدم قرار دے کر اس میں جماعت اسلامی نے ایمانی جذبہ کے تحت شرکت کی تھی۔

جماعت اسلامی کے محبوب دوراں اور اس کے مرد حق تیسرے فوجی آمر جنرل ضیاء الحق گیارہ برس اس ملک کے اقتدار پر قابض رہے۔ جماعت اس پورے عرصے میں فوجی حکومت کی بی ٹیم بنی رہی۔ بھٹو نے ملک توڑا تھا تو چلواتی اس پر مقدمہ اپنے آقا و مالک ضیاء الحق کو کہہ کر۔ جنرل ضیاء کے لئے آسان ہوتا بھٹو کو قتل کے جھوٹے مقدمے میں پھانسی چڑھانے سے ملک توڑنے کے جرم میں سزا دینا۔

پچھلے ساٹھ برسوں سے جماعت اسلامی اور اس کے متاثرین اور تازہ محبین سب مل کر پروپیگنڈے میں مصروف ہیں۔ حالت یہ ہے کہ 2018ء کے انتخابات میں جماعت کو کراچی سے صوبائی اسمبلی کی ایک سیٹ مل سکی۔

بلدیاتی الیکشن میں 86نشستیں مل گئیں کیسے ملیں یہ وہ سوال ہے۔ جس سے جماعتی اور تازہ محب آنکھیں چراتے ہیں۔ کراچی میئر کے انتخابات میں شکست کو سقوط ڈھاکہ کے طور پر پیش کرنے والی جماعت اسلامی خود گھنائونے جرائم میں ملوث رہی ریاست کی جہادی پالیسی کے ایک بڑے حصہ دار کے طور پر اس نے اس ملک کے ہزاروں نوجوان افغان اور کشمیر جہاد میں مروائے۔

القاعدہ کے مطلوب بڑے میں اکثر خالد شیخ سمیت جماعت اسلامی والوں کے گھروں سے برامدو گرفتار ہوئے۔ جماعتیوں سے عرض ہے

اتنی نہ بڑھا پاکئی داماں کی حکایت

دامن کو ذرا دیکھ ذرا بند قبا دیکھ۔

یہ بھی پڑھیں:

About The Author