نومبر 2, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

آموں کی توہین کی سزا۔۔۔||رسول بخش رئیس

رسول بخش رئیس سرائیکی وسیب کے ضلع راجن پور کی تحصیل روجھان کے رہنے والے ہیں وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے درس وتدریس کے ساتھ ساتھ ملکی ،علاقائی اور عالمی معاملات پر مختلف اخباروں ،رسائل و جرائد میں لکھ بھی رہے ہیں، انکی تحریریں ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر

رسول بخش رئیس

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مبادا آپ محسوس کریں کہ میں یہ کہانی آم کے گھنے درخت کے نیچے سخت گرمی اور لُو چلنے کی کیفیت میں گھڑ رہا ہوں۔ ایسا ہر گز نہیں ہے۔ بنجمن رم جرمنی کے سکالر اور محقق ہیں۔ یہ ان کی تصنیف ”مائوزے تنگ کے سنہری آم‘‘ سے ماخوذ ہے۔ چند سال پہلے ان آموں کے بارے میں ایک پاکستانی سکالر کا مضمون ایک انگریزی اخبار میں پڑھا تو جامعہ کی لائبریری سے درخواست کی کہ یہ کتاب فوری طور پر خریدی جائے۔ چند ایک ایسی جگہیں ابھی باقی ہیں جہاں درویش کی بات مان لی جاتی ہے۔ آموں کے اس گرم سیزن میں اس کتاب کا مرکزی خیال ذہن میں گردش کرنا شروع کر دیتا ہے۔ یہ دراصل آموں کے بارے میں نہیں بلکہ لیڈر شپ کلٹ اور سیاست میں علامتوں کے موثر استعمال کے بارے میں ہے۔ وہ آم تو عام قسم کے کسی پاکستانی باغ کے تھے جو 1968ء میں ہمارے وزیر خارجہ ارشد حسین صاحب نے چیئرمین ماؤزے تنگ کو بھیجے تھے مگر اس وقت چین کی سیاسی کشمکش میں زبردست اہمیت اختیار کر گئے۔ ہمارے ہاں بھی آج کل کچھ علامتوں کا استعمال ہورہا ہے اور ان کی بنیاد پر شرپسندوں کی شناخت کرنے کے بعد انہیں کیفر کردار تک پہنچانے کے بیانات روزانہ کی بنیاد پر حکومتی وزرا و مشیر داغتے رہتے ہیں۔ چلو‘ یہاں کی باتوں سے گریز کرتے ہیں۔ پردے میں ہی رہنے دیتے ہیں۔ ہم بھی تمام شرپسندوں کے خلاف ہیں۔ مائو کے آموں کی کہانی سے شاید ساری بات سمجھ آجائے۔1966ء میں مائوزے تنگ کے اکثر انقلابی اقدامات ناکام ہو چکے تھے۔ زرعی اصلاحات کے نتیجے میں قحط اتنا شدید تھا کہ لاکھوں کسان بھوک سے مر گئے۔ انہوں نے اپنی ساکھ اور مقبولیت قائم رکھنے کے لیے ثقافتی انقلاب کا نعرہ ایجاد کیا اور ساتھ ہی چین کے طول و عرض میں رجعت پسند شرپسندوں کے خلاف تحریک کا آغاز کر دیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ہم کالج میں داخل ہو رہے تھے۔ پاکستان کی بائیں بازو کی سیاست میں ”ماسکو نواز‘‘ اور ”چین نواز‘‘ کی تقسیم میں ہم چین نواز گروپ کے قریب تھے۔ ماؤزے تنگ کی سرخ کتاب جیب میں رکھتے۔ اس کے فلسفے پر چائے کے کپ پر کسی خان صاحب کے ہوٹل میں گفتگو کرتے اور کبھی کبھار مائو کیپ پہن کر کسی جلسے میں بھی چلے جاتے۔ اس وقت ہم مائو کی پالیسی کو آسمانی صحیفہ سمجھ کر اس کا دفاع کرتے۔ ثقافتی انقلاب کے فلسفے کا بھی خوب دفاع کیا کہ جب تک ماضی کے فرسودہ جاگیرداری نظام کی تمام نشانیوں کو مٹا نہیں دیا جاتا رجعت پسندی معاشرے سے نہیں جائے گی ۔ میں نے اپنی پہلی کتاب میں‘ جو 1977ء میں پاکستان اور چین کے تعلقات کے تناظر میں لکھی تھی‘ ثقافتی انقلاب کا خوب پرچار کیا۔ اب اس کتاب کو دور سے دیکھتا ہوں تو ہاتھ لگانے کو جی نہیں چاہتا۔ ہم بھی چینی کمیونسٹ پارٹی کے کارکنوں کی طرح چیئرمین مائو کے سحر کے اسیر تھے۔
جب وسیع دنیا کو دیکھنے اور باہر پڑھنے کا موقع ملا تو انقلاب کا نشہ ٹوٹا اور اس سے قبل جب طالب علمی سے نکل کر معلمی کا پیشہ اختیار کیا تو ریڈ بک اور مائو کیپ کو اپنی پہلی کتاب کے ساتھ چھپا کر رکھ دیا۔ اب صرف کچھ پرانے انقلابی دوستوں کو چڑانے کے لیے اگر کبھی دل چاہے تو پہن کر ان زمانوں کی بات کرتے ہیں۔ ہم فکری طور پر خود1968ء کی سیاسی کشمکش کی پیداوارہیں۔ بہت تمہید ہو چکی‘ اب مائو کے آموں کی طرف آتے ہیں۔ سنگھوا یونیورسٹی میں طالب علموں کو دبائو میں لانے کے لیے مائوزے تنگ نے تین ہزار ریڈ گارڈز کا دستہ بھیجا۔ وہاں لڑائی میں سات گارڈز مارے اور سینکڑوں زخمی ہوگئے۔ یہ بات بتانا ضروری ہے کہ گارڈز مسلح نہیں تھے‘ ان کے ہاتھ میں صرف ریڈ بک تھی۔ مائوکو خیال آیا کہ پاکستانی آموں کا تحفہ ثقافتی انقلاب میں مصروف نظریاتی کارکنوں کو بھیجا جائے۔ جس واقعہ کا میں ذکر کررہا ہوں‘ وہ چین کے شمال میں کسی صوبے میں پیش آیا تھا۔ وہاں کے لوگوں نے یہ سنہری آم پہلے کبھی نہیں دیکھے تھے‘ نہ انہیں معلوم تھا کہ انہیں کیسے کھایا جائے۔ چونکہ چیئرمین مائو کی طرف سے یہ تبرک تھا‘ اس لیے چند آم جو اس ٹیم کے حصے میں آئے انہیں میز پر سجا دیا گیا اور کارکن قطاروں میں ان کی زیارت کرنے کے لیے آنا شروع ہو گئے۔ آموں کے سامنے سے جب گزرتے تو چینی روایات کے مطابق تھوڑا سا جھکتے اور آگے بڑھ جاتے۔ کچھ دن بعد جب آم گلنا شروع ہو گئے تو ٹیم نے اُن کے چھلکے کو ایک بڑے سے برتن میں ابالا اور اس کا پانی چھوٹے کپوں میں خوش قسمت کارکنوں کو پلایا۔ چین کی جغرافیائی وسعت کے لحاظ سے آم کم پڑ گئے تو چین کی کمیونسٹ پارٹی نے ایک فیکٹری کو موم کے ہزاروں آم بنانے کا آرڈر دیا۔ اب یہ موم کے آم خوبصورت خوانچوں میں سجائے جاتے اور سیاسی جلوس نکالے جاتے۔ آم مائوزے تنگ کی سخاوت‘ کارکنوں سے شفقت‘ مہربانی اور ملک میں امن کی علامت بن گئے۔ بنجمن رم نے بہت محنت سے تمام پوسٹر اکٹھے کیے جو آموں پر بنائے گئے تھے اور ان کارکنوں سے انٹرویو بھی کیے جو آموں کے جلسوں میں شامل تھے۔ پوسٹروں کے علاوہ برتنوں‘ بیڈ شیٹوں اور آرائشی سامان پر بھی آموں کی تصویریں نمایاں تھیں۔ اسی سال جب بیجنگ میں قومی پریڈ منعقد ہوئی تو ایک فلوٹ پر آم کا خوبصورت ماڈل بھی رکھا گیا۔
آموں کے جلوس صرف شہروں تک ہی محدود نہ تھے بلکہ دیہات میں کمیونسٹ پارٹی کے رہنما بھی مائوزے تنگ سے وفاداری میں کسی سے پیچھے رہنے کے لیے تیار نہ تھے۔ ایک گاؤں میں آموں کا جلوس لے کر کچھ قائدین آئے اور آخر میں آم کا ابلا ہوا پانی پلایا گیا تو وہاں ایک مقامی ڈینٹسٹ نے آم پر پھبتی کسی کہ ذائقے میں یہ شکر قندی کی طرح ہے۔ پارٹی کے رہنمائوں نے اسے مائو کے آموں کی بے عزتی سمجھا اور بیچارے ڈینٹسٹ پر تشدد کرنا شروع کردیا۔ وہیں انہوں نے یہ فیصلہ بھی کیا کہ اس شرپسند پر اسی شام خصوصی عدالت لگا کر مقدمہ چلایا جائے۔ چند ہی گھنٹوں میں مقدمہ چلا اور عدالت نے ”آم کی توہین‘‘ کے جرم میں اسے سزائے موت سنا دی۔ کسی شک میں نہ رہیے گا‘ جو کچھ لکھا ہے‘ تاریخی واقعات پر مبنی ہے۔ ان کی تفصیل ”مائو کے سنہری آم‘‘ میں موجود ہے۔ ثقافتی انقلاب اور اس کے دوران ہونے والے ظلم و ستم کی کئی داستانیں ہیں۔ مرکزی نکتہ یہ ہے کہ جمہوریت اور آزادی نہ ہو تو لیڈر شپ کلٹ پیدا کیا جاتا ہے‘ مقدس علامات اختراع ہوتی ہیں اور منحرفین کا تعین کرکے انہیں عبرت ناک سزائیں دی جاتی ہیں۔
چین تو بہت تبدیل ہو چکا۔ ماؤزے تنگ کیساتھ ہی ان کے نظریات کو بھی دفن کرکے چینی حقیقت پسندی‘ عملیت اور ترقی کی راہ پر گامزن ہو گئے۔ ہمارے ہاں بھی بڑے بت تراشے گئے اور پرستش کا عمل بھی جاری ہے۔ ہم ابھی تک وہیں پھنسے ہوئے ہیں۔ ہمارے آموں کو تو وہ مقدس درجہ اپنے ملک میں حاصل نہیں مگر یہاں درباروں کو وہ حیثیت حاصل ہے کہ مائو آتے جاتے رہتے ہیں‘ انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ غریب ہوں یا امیر‘ ہم سب نے مقدس درباروں کی حاضری لازم کر رکھی ہے۔ درباروں پر ہمارے مقدر کے فیصلے ہوتے ہیں۔ ہر نوع کی موسمی اور غیر موسمی تبدیلیوں اور ابتلا کے ہر دور میں ہم درباروں کی راہ لیتے ہیں۔ سب کو باریابی بھی حاصل نہیں۔ جن درباریوں کو حاصل ہے‘ ان کا وسیلہ عوام تلاش کرتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے:

رسول بخش رئیس کے مزید کالم پڑھیں

About The Author