نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

حافظ نعیم نفرت کی سیاست کا پیامبر۔۔۔۔۔۔۔||عثمان غازی

حافظ نعیم لسانیت پرستی پر مبنی اس ووٹ بینک کو اپنے ساتھ جوڑے رکھنے کے لئے شہر میں تعصب کی آگ بھڑکانے کی کوشش کررہے ہیں جس میں انہیں ناکامی ہوگی، کراچی منی پاکستان ہے، یہ تمام قومیتوں کا شہر ہے، کراچی ہم سب کا ہے، دنیا میں اس طرز کے کسی بھی بڑے شہر میں اجارہ داری کی کوشش اگر کامیاب بھی ہوئی ہے تو یہ برقرار نہیں رہ پائی۔

عثمان غازی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پاکستان پیپلزپارٹی بلدیاتی انتخابات میں کراچی کی اکثریتی جماعت ہے، سب سے زیادہ نشستیں پاکستان پیپلزپارٹی کے پاس ہیں اور اخلاقی اعتبار سے پاکستان پیپلزپارٹی کو میئر کا منصب ملنا چاہئیے اور چھوٹی جماعتوں کو جوڑ توڑ کرکے اخلاقی اعتبار سے ایک اکثریتی جماعت کے مینڈیٹ پر ڈاکا مارنے کی کوشش نہیں کرنا چاہئیے بلکہ کھلے دل سے کراچی کے عوام کی اکثریت کے فیصلے کو تسلیم کرنا چاہئیے۔

2018 میں جب قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف کے انتخاب کا معاملہ تھا تو حکومت نے پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کو پیش کش کی کہ وہ یہ منصب سنبھالیں مگر چونکہ اپوزیشن کی اکثریتی جماعت مسلم لیگ ن تھی تو بلاول بھٹو نے اپنے لئے ایسی کوئی کوشش نہیں کی اور کھلے دل سے اکثریتی جماعت کے شہباز شریف کو اپوزیشن لیڈر بننے کا موقع دیا۔

یہ سب اعلی اخلاقی اور جمہوری رویوں کی مثالیں ہیں، جماعت اسلامی بدقسمتی سے ایک فاشسٹ روئیے کی حامل جماعت ہے، کراچی میں جماعت اسلامی کی صوبائی اور قومی اسمبلی کی ایک بھی نشست نہیں ہے اور اگر ایسے میں ان لوگوں کو کراچی کے سات میں سے ڈھائی اضلاع میں سے کچھ نشستیں مل گئی ہیں تو گو یہ ایک سوالیہ نشان ہے تاہم کچھ تو حیاء اور شرم ہونا چاہئیے کہ کم از کم اکثریتی جماعت کی جانب سے میئر بنانے کی کوششوں کو تو کراچی پر قبضہ قرار نہ دیں کہ کراچی والوں کے ووٹوں سے ہی پی پی پی اپنا میئر بنانے جارہی ہے۔

جماعت اسلامی کا پورا حق ہے کہ وہ جوڑ توڑ کرے مگر یہ جوڑ توڑ سیاسی انداز میں ہونا چاہئیے، اگر پاکستان پیپلزپارٹی جوڑ توڑ کرے تو یہ وڈیروں کی کراچی پر قبضے کی سازش قرار دیا جاتا ہے اور اگر یہی کام جماعت اسلامی پی ٹی آئی سے اتحاد کرکے کرے تو یہ کراچی کی جیت قرار دی جاتی ہے، اس طرز کا بیانیہ لسانی تعصب کی آگ بھڑکانے کے مترادف ہے، کراچی والوں نے پی پی پی کے نمائندوں کو ووٹ دیا ہے اور ان میں کوئی وڈیرہ نہیں ہے، سب کراچی والے ہیں، اردو بولنے والے ہیں اور مڈل کلاس لوگ ہیں، مرتضی وہاب کراچی کا بیٹا ہے، اس پر وڈیرہ ہونے کی پھبتی کسنا کہاں کا انصاف ہے۔

یہ کوئی پہلی بار نہیں ہے کہ پاکستان پیپلزپارٹی کراچی میں میئر بنانے کی پوزیشن میں ہے، 1979 میں پاکستان پیپلزپارٹی کے عبدالخالق اللہ والا صرف ایک ووٹ سے ہرائے گئے اور جماعت اسلامی کا میئر عبدالستار افغانی ہم اردو بولنے والوں پر مسلط کیا گیا، یہی تاریخ 1983 میں دہرائی گئی تاہم اس وقت پی پی پی کے عمر یوسف ڈیڈھا ڈپٹی میئر بنے تھے، 2002 کے بلدیاتی انتخاب میں بھی پی پی پی اکثریت میں تھی تاہم تاج حیدر کو ہرانے کے لئے دھونس، دھمکی اور دھاندلی کے ساتھ ساتھ جماعت اسلامی نے شیعہ کارڈ بھی کھیلا اور آخری دن جمعیت علمائے پاکستان نے اپنے ووٹ جماعت اسلامی کو دینے کا فیصلہ کیا اور نعمت اللہ خان کراچی والوں پر مسلط ہوئے جنہوں نے کمرشلائزیشن کی بنیاد رکھ کر شہر کو تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کیا۔

دلچسپی کی بات یہ ہے کہ کراچی میں جماعت اسلامی نے جب جب اپنا میئر بنایا، اس وقت مرکز میں ایک ڈکٹیٹر کا قبضہ تھا، کراچی میں جماعت اسلامی کی کوئی انتخابی حیثیت نہیں ہے، اس بار بھی ان کو اردو بولنے والے مایوس نسل پرستوں کے بچے کچھے ووٹ پڑے ہیں اور حافظ نعیم لسانیت پرستی پر مبنی اس ووٹ بینک کو اپنے ساتھ جوڑے رکھنے کے لئے شہر میں تعصب کی آگ بھڑکانے کی کوشش کررہے ہیں جس میں انہیں ناکامی ہوگی، کراچی منی پاکستان ہے، یہ تمام قومیتوں کا شہر ہے، کراچی ہم سب کا ہے، دنیا میں اس طرز کے کسی بھی بڑے شہر میں اجارہ داری کی کوشش اگر کامیاب بھی ہوئی ہے تو یہ برقرار نہیں رہ پائی۔

یہ بھی پڑھیے:

عورت مارچ کی منزل||عثمان غازی

پاکستان میں راجہ داہر اور محمد بن قاسم پر بحث خوش آئندہے۔۔۔ عثمان غازی

 

About The Author