مبشرعلی زیدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دو دونی پانچ ہوجائیں تو دو چوکے آٹھ نہیں ہوسکتے۔
آپ پہاڑے کو سیدھا نہیں کرسکتے۔
آپ ریاضی کے کتنے ہی بڑے استاد ہوں، ایک فارمولا غلط لگ جائے تو حساب کتاب درست نہیں کرسکتے۔
خان اور باجوہ کے دور میں کھیل شروع ہوا۔ دو دونی پانچ ہوتے سب نے دیکھا۔ اب کھیل ختم ہونے تک معاملات کو ایسے ہی چلنا ہے۔
اصول وصول تیل لینے گئے ہیں اور تیل کتنا مہنگا ہوچکا ہے، سب جانتے ہیں۔
آئین کی سربلندی کی بات تب کریں جب احمدی، ہندو، مسیحی، سکھ سب دیوبندیوں جتنے برابر کے شہری ہوجائیں۔
قانون کا نعرہ اس وقت بلند کریں جب نیب قوانین ختم ہوجائیں۔ پولیس انسان کی بچی بن جائے۔
انصاف اس وقت مانگیں جب اعلی ترین عدالت کے جج ساس اور بیوی کی خواہش کے بجائے عدل کے سنہری اصولوں کا پاس کریں۔
کسی لاپتا فرد کا نام اس وقت لیں جب تمام لاپتا بلوچ، پشتون، مہاجر واپس آجائیں۔
میرے دوست آئین اور اصولوں کی بات کرتے ہیں، مجھے ان پر فخر ہے کہ ان کی سوچ درست ہے، وہ دل کے شفاف اور انسانی حقوق کے علم بردار ہیں۔
لیکن میں ان سے مختلف ہوں اور اپنے اس مختلف ہونے کو منافقت سے نہیں چھپاتا۔
عامر لیاقت مرا تو میں نے کہا، مر گیا مردود۔
ارشد شریف کو قتل کیا گیا تو افسوس کیا لیکن یہی کہا کہ وہ جس کھیل میں پڑگیا تھا، اس کا انجام ایسا ہی ہوتا ہے۔
عمران ریاض کو ایجنسیوں نے اٹھایا ہے تو یہ بھی مافیا کے کھیل کا حصہ ہے۔ منحرفین سے ایسا ہی سلوک کیا جاتا ہے۔
ہزاروں اصول پرستوں، بنیادی حقوق کے علم برداروں، آئین کے محافظوں کے درمیان مجھ جیسے ایک تلخ بولنے والے کو برداشت کرلیں۔
بہرحال میری تلخی اور آپ کی شیرینی سے کچھ نہیں بدلنے والا۔
کیونکہ کھیل کٹھ پتلیاں نچانے والوں کی مرضی سے چلتا ہے۔ داد دینے یا ہوٹنگ کرنے یا پہاڑے یاد کرنے والوں کی خواہش سے نہیں۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ