رسول بخش رئیس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نظریاتی سیاست یہاں کبھی پنپ نہیں سکی۔ سماجی مٹی اور سیاسی فضا اس کے لیے کبھی ساز گار نہیں تھی۔ بے شک کوئی کتنا بڑا نعرہ لگائے اور کتنے بڑے جلسوں میں اعلان کرتا پھرے کہ وہ اب نظریاتی ہو گیا ہے‘ سب ڈھکوسلے ہیں۔ یہاں صرف دو تین جماعتیں ایسی رہی ہیں جن کی قیادت اور جماعتی سیاست کسی نظریے سے وابستہ تھی۔ صفِ اول میں تو ہمارے اشتراکی دانشور اور سیاست دان آتے ہیں کہ وہ صرف اپنے نظریات کے ساتھ زندہ رہے۔ اکثر کے آخری دم تک قدم نہ ڈگمگائے اور اپنے تصورات کے ساتھ جڑے رہے۔ جامعہ پنجاب میں طالب علمی کے زمانے میں مَیں طلبہ اور مزدوروں کی اشتراکی تنظیموں کے ساتھ وابستہ رہا۔ بہت کچھ علمی اور عملی میدان میں انہی سے سیکھا۔ نعرے لگائے‘ جلسوں میں جھنڈے اٹھا کر بھی پھرا۔ احتجاجی مظاہروں میں حصہ لیا مگر ہم خود نظریاتی کارکن نہ بن سکے۔ ہمارے مقاصد میں انقلاب لانے سے زیادہ کتابیں پڑھنا‘ علمِ سیاست کی باریکیوں کو سمجھنا اور عبور حاصل کرنا ہوتا کہ اس کے بغیر روزگار کا خواب کبھی پورا نہ ہو سکتا تھا۔ کچھ پکے انقلابی دوست ہمیں کبھی کبھار طعنہ بھی دیتے کہ ہم جیسے نظریاتی کارکن انقلاب سے پہلے کسی پیشے کو اپنانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ہم دیہاتی لوگ خیالی دنیائیں ضرور بساتے ہیں کہ یہ انسانی فطرت میں ہے مگر زرعی معاشروں کے لوگ عموماً عملیت پسند ہوتے ہیں۔ کہنے کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ صنعتی معاشرے انسانوں کی رگوں میں خود کرگزرنے کی روح پھونک دیتے ہیں۔ کچھ اشتراکی دوستوں کو دیکھا کہ وہ اپنے نظریاتی خوابوں میں کہیں سے کہیں نکل گئے اور کچھ بھی نہ کر سکے۔ ہم مارکس‘ لینن سے لے کر ماوزئے تنگ اور افریقہ اور لاطینی امریکہ کے انقلابوں کے فلسفے اور قصے اپنے ذرا خفیہ علمی حلقوں میں زیر بحث لاتے۔ ہمارے سیاسی فلسفے کی ابتدا وہیں سے ہوئی۔ دنیا بھر میں اشتراکی جماعتیں اور تحریکیں نظریات کا راسخ عقیدے کے طور پر پرچار کرتیں۔ ظلم‘ تشدد اور قید و بند کی صعوبتیں وہ برداشت کرتے مگر کسی طاقتور کے سامنے ہتھیار نہ ڈالتے۔
قومیت پرستی کی تحریکیں نو آبادیاتی ممالک میں چلیں تو آزادی پسند رہنما اور کارکن ایک نظریے کے ساتھ سامراجی بربریت اور دہشت پسندی کا مقابلہ کرتے رہے۔ ان کی داستانِ حریت پڑھتے ہیں تو خون جوش مارنے لگتا ہے۔ آج کل جو آزادی کا نعرہ لگانے والوں کے ساتھ ہو رہا ہے‘ وہ سامراجی غلبے کے دوران ہونے والی قتل وغارت کے سامنے کچھ بھی نہیں مگر ایک آزاد‘ خود مختار ملک میں جہاں آئین‘ جمہوریت اور آزاد عدلیہ کے راگ باجماعت الاپے جاتے ہیں‘ یہ سب کچھ افسوس ناک ہے۔ بات تو نظریاتی ثابت قدمی کی ہورہی ہے۔ نظریات کردار میں پختگی پیدا کرکے مزاحمت کی ہمت اور ہر رنگ اور ہر موسم میں اپنی جدوجہد جاری رکھنے کا جذبہ ابھارتے ہیں۔ ہماری اپنی آزادی کی جدوجہد میں ایک وقت تھا کہ نظریاتی لوگوں کی اکثریت تھی۔ رہنمائوں سے لے کر تمام کارکنوں تک۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اساتذہ اور طالب علموں کا جذبہ ہو یا ملک کے کونے کونے سے لاہور کے منٹو پارک میں جمع ہونے والوں کی ولولہ انگزیزی۔ آپ لاکھ اختلاف کریں‘ وہ سب مسلم قومیت کے برقی جذبے سے سرشار تھے۔ یہ بعد کی بات ہے کہ کھوٹے سکے بھی جمع ہونا شروع ہو گئے۔ جب پاکستان ناگزیر ہوگیا تو ہمارے پنجاب کا زمیندار طبقہ جو کل تک یونینسٹ پارٹی کا سرخیل تھا‘ اچانک ”مسلم ہے تو مسلم لیگ میں آ‘‘ کے نعرے پر لبیک کہتا ہوا نئے سیاسی لیبل‘ برانڈ اور بیانیے کے ساتھ مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کی طرح نئے سیاسی ماحول کو گرمانے لگا۔ تاہم اب لیگ نظریاتی جماعت نہیں رہی تھی۔ بس طاقت کے حصول کی سیڑھی سمجھ لیں۔ پھر دیکھا کہ کتنے دھڑے بنے اور کتنی حکومتیں تبدیل ہوئیں۔ سیاسی قلابازیوں کے ساتھ طاقت کا مرکز اور سرچشمہ کسی اور جگہ منتقل ہوگیا اور ابھی تک وہیں ہے۔ چند دن پہلے وائس آف امریکہ کے ٹی وی شو میں گھر بیٹھے شرکت کی تو اینکر نے زبردست سوال کیا کہ حالیہ دنوں کی اکھاڑ بچھاڑ سے جمہوریت کمزور ہوگی یا مضبوط؟ یاد نہیں کیا جواب دیا تھا‘ بھولنا ہی بہتر ہے۔ ہماری پچھتر سالہ تاریخ کو سامنے رکھیں تو نتیجہ آپ خود نکال لیں گے۔ تیرہ جماعتی اتحادی حکومت کے رہنمائوں کی مسکراہٹیں اور قہقہے وزرا‘ اراکینِ اسمبلی اور عہدے داروں کے روزانہ کے استعفوں اور پریس کانفرنسوں پر تاریخ کے تناظر میں وجود میں آتے ہیں لیکن تاریخ یا مستقبل کی کسی کو اس زمانے میں کوئی پروا نہیں۔ سب کے وارے نیارے ہیں لیکن میں تو گماشتوں اور غلام گردشوں کی خوشامد سے لیس باتوں پر حیران ہوتا ہوں کہ تحریک انصاف کی توڑ پھوڑ کے کیسے فلسفے جھاڑ رہے ہیں۔ بات سادہ ہے۔ وہی مضبوط ہوں گے جو ملک کے اندر وطن دشمن عناصر کی سیاست ختم کرنے کا تہیہ کیے ہوئے ہیں۔ موقع پرستی اور کیا ہوتی ہے کہ سب الزامات سے بری ہو جائیں‘ فائلیں اپنے مقدمات کی گم کروا دیں اور احتساب کے اداروں میں جی حضور تعینات کرکے پچھلا حساب بے باق کرکے آگے ہاتھ صاف کرنے کی تیاریوں میں ہوں تو آئین اور جمہوریت اور قانونی جائزیت جیسی بیکار باتوں میں وہ اپنا وقت ضائع کیوں کریں۔
اس سے پہلے کہ میں پاکستان کے تشکیلی عشرے میں بننے والے سیاسی کلچر اور اس کے دائمی اثرات کی طرف جائوں‘ نظریاتی سیاست کے حوالے سے جماعت اسلامی کا اعتراف کرنا ضروری خیال کرتا ہوں۔ اشتراکیوں سے کہیں زیادہ وہ اپنے کارکنوں کی تربیت کرتے رہے ہیں‘ آج بھی کررہے ہیں۔ اس بارے میں کسی اگلے مضمون میں تفصیل سے لکھوں گا۔ نظریاتی لوگوں کا فلسفۂ حیات جو بھی ہو‘ وہ اپنے جذبے‘ لگن اور وفاداری کی وجہ سے سب کی عزت اور احترام کے مستحق ہوتے ہیں اور وہ خود بھی اختلافِ رائے کی گنجائش رکھتے ہیں۔
ہماری سیاسی ثقافت کا رنگ ہمیشہ سے موقع پرستانہ رہا ہے۔ آپ ان خواتین و حضرات کا ماضی دیکھ لیں جو تحریک انصاف کو چھوڑ کر کسی اور پارٹی میں شمولیت کی راہیں تلاش کر رہے ہیں۔ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ ہمارے یہ محترم بہت ہی ڈھٹائی اور تواتر سے یہ اُڑانیں بوقتِ ضرورت بھرتے رہے ہیں۔ ایسا کرنے میں انہیں کبھی عار نہیں رہا۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ اگر نظریات سیاست کی بنیاد نہ ہوں تو انجمنِ امدادِ باہمی تو بن سکتی ہے‘ پارٹی کی سیاست مرتب نہیں ہو سکتی۔ اس لیے تو ہر چھوٹی بڑی سیاسی جماعت ہمارے حکمران طبقات کا گروہ ہیں اور قبائلی انداز میں ان کا ایک سردار ہے۔ مجھے تو قبائلی معاشروں میں بھی داخلی جمہوریت کا کچھ رنگ نظر آتا ہے۔ ان جماعتوں میں تو بلا چون و چرا تابع داری کی روایت ہے ہمارے ہاں سیاسی جماعتیں قبائلیت کی وجہ سے نہ جمہوری بن سکیں اور نہ ان میں حکمران طبقے کے علاوہ کوئی اپنا مقام بنا سکتا ہے۔ کام کے بندوں کو تعمیل کی عادت کچھ عہدے دلا دیتی ہے کیوں کہ پیادوں کی بھی ضرورت رہتی ہے۔ ان پارٹیوں کا اب کچھ نہ کچھ اپنا ووٹ بینک ضرور بنا ہوا ہے۔ جس کا سب سے زیادہ ہے‘ وہی آج کل زیر عتاب ہے کیونکہ عوام کے ساتھ جڑنا کسی کو طاقتور بنا کر سامنے کھڑا ہونے کا حوصلہ عطا کر سکتا ہے۔ اس کے علاوہ سب کہانیاں ہیں۔ اب تک سینکڑوں افراد تحریک انصاف چھوڑ چکے ہیں۔ ابھی مزید اسی راہ پر چلتے دکھائی دیں گے۔ یہ سب سیاسی ماحول کو بہانہ بنا کر نئی سرسبز چراہ گاہوں کی تلاش میں ہیں۔ اچھا ہے۔ ملک میں رونق میلہ لگا ہوا ہے۔ آگے کیا ہوگا‘ کسی کو کوئی فکر نہیں۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ